ہاکی فیڈریشن نے ستر کروڑ کہاں خرچ کئے؟

لندن اولمپکس اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ اب تمام نگاہیں چار سال بعد برازیل کے مشہور سیاحتی مرکز ریو ڈی جینرو میں ہونے والے گرمائی اولمپکس پر مرتکز ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ لندن اولمپکس میں پاکستان کے جن اکیس ایتھلیٹس نے شرکت کی ان میں سے کوئی دوسرے راؤنڈ میں بھی قدم نہ رکھ سکا۔ اس طرح پاکستان دنیا کے ان ایک سو بیس بد قسمت ملکوں میں سے ایک رہا جن کے دستے لندن سے خالی ہاتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔ پاکستان کو لندن کھیلوں میں سب سے زیادہ امیدیں حسب روایت ہاکی سے تھیں جن پر آسٹریلیا کے ہاتھوں گروپ میچ میں سات صفر کی شکست نے پانی پھیر دیا۔پاکستانی عوام نے اس سنگین ناکامی پر کھیلوں کے کرتا دھرتاؤں کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ ہاکی فیڈریشن سمیت کھیلوں کی تنظیموں کی باگ ڈور ان لوگوں کے سپرد کرنی چاہیے جنکی کوئی سیاسی وابستگی نہ ہوچونکہ ہاکی فیڈریشن کے صدر قاسم ضیاء اور کوچ اختر رسول وغیرہ سب سیاسی وابستگیوں کے سبب کھیل کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے ہاکی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور ہاکی کے معاملات چلانا ان کے بس میں نہیں لہذا انہیں چاہئے کہ وہ خود گھر بیٹھ جائیں یا پھر حکومت انہیں دھکے دے کر کھیلوں کے معاملات سے الگ کردے۔افسوس کہ ان لوگوں نے ہاکی ٹیم کی تیاری پر ستر کروڑ خرچ کیے مگر نتیجہ وہی رہا اور ٹیم گزشتہ اولمپکس کے مقابلے میں صرف ایک درجہ بہتری پا کر ساتویں نمبر پر آئی۔آج نیب کو چاہئے کہ اپنے ستر کروڑ کا احتساب کرے جو ہاکی فیڈریشن نے خرچ کئے۔پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اولمپکس سے چارماہ پہلے ولندیزی کوچ مشعل وین ڈین کو اچانک برطرف کر دیا تھا جبکہ آسٹریلیا اور برطانیہ جیسی ٹیموں کے خلاف دفاعی اور فاروڈ لائن کے جھاگ کی طرح بیٹھنے کا سبب پیشہ ور کوچ کی عدم موجودگی تھی۔ دراصل مشعل کے کام میں مداخلت ہو رہی تھی جس کے بعد وہ دلبرداشتہ ہو کرچلے گئے ۔ پاکستان نے اولمپکس میں ہر پینالٹی کارنر پر صرف ڈائریکٹ گول کرنے کی کوشش کی اور دوسری کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیم کی تیاری نہ ہونے کے برابر تھی۔پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے لندن اولمپکس میں ٹیم کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیے جانے کوپوری قوم نے شرمناک قرار دیا۔
Muhammad Akram Khan Faridi
About the Author: Muhammad Akram Khan Faridi Read More Articles by Muhammad Akram Khan Faridi: 19 Articles with 13601 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.