مفکر اسلام علامہ قمرالزماں اعظمی :حضور مفتی اعظم ہندعلیہ الرحمہ کی دعاﺅں کامحسوس پیکر

سرکار حضور مفتی اعظم ہندعلےہ الرحمة والرضوان کی نظرِ کرم جس پر پڑ گئی اگر وہ ذرہ تھا تو آفتاب وماہتاب بن کر چمکا۔ بر صغیر پاک وہند میں آج جولوگ عشقِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شمعیں جلا رہے ہیں ان میں غلامانِ مفتیِ اعظم ہند کا کلیدی رول ہے۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمدرضاخاں قدس سرہ کی نظرِ کرم مبلغِ اسلام حضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ پر پڑی تو انہوں نے افریقہ، یوروپ وامریکہ وغیرہ میں فریضہ دعوت وتبلیغ بحسن وخوبی انجام دیا اور لاکھوں گم گشتگانِ راہ ِ ہدایت کو نور حق سے منور فرمادیا بالکل اسی طرح آج کے دور میں یوروپ وافریقہ اور امریکہ جیسے ممالک میں حضور مفکرِ اسلام علامہ قمر الزماں خان اعظمی مدظلہ العالی دعائے مفتی اعظم ہند لے کر عوام وخواص کو اسلامی افکاروتعلیمات اور عشق رسول ہاشمی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی گراں مایہ دولت سے مالا مال کررہے ہیں۔

حضور مفکر اسلام سرکار حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے منظور نظر ہیں۔ وہ مفتی اعظم ہند جن کی موجودگی میں خواص علما بھی لب کشائی کے لیے ہزارمرتبہ سوچتے تھے، اس عظیم ذات کی موجودگی میں حضور مفکر اسلام گھنٹوں خطاب فرماتے اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ ان کاخطاب سن کر محظوظ ہوتے اور دعاؤں سے بھی نوازتے۔ آج دنیائے سنیت میں ان جیسا خطیب جو عصری تقاضوں سے صرف واقف ہی نہیں بلکہ موجودہ دور کے فتنوں سے بھی مکمل طورپر آگاہ ہو، بہت کم ہیں۔ آج کسی جلسے میں ان کی موجودگی جلسے کے حق میں کامیابی کی ضمانت ہی نہیں بلکہ بامقصد اور بامراد ہونے کی بھی ضمانت ہے۔ آج علم وعمل کے کوہ گراں بہت سارے حضرات موجود ہیں ان سب کی صلاحیتوں کا ہم اعتراف کرتے ہیں لیکن حضور مفکرِ اسلام کی شخصیت ان سب میں بہت حد تک جداگانہ ہے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ شہرت کی بلندی پر پہنچنے کے بعد ہم اپنا ماضی، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت جیسے اخلاق حسنہ کامظاہرہ کرنا بھول جاتے ہیں اور خود کو ریزرو کرلیتے ہیں لیکن علامہ قمر الزماں خاں اعظمی نے ہمیشہ خود کو عوام کے درمیان رکھا اور اپنے لیے کسی بھی طرح کا کوئی تا م جھام کبھی پسند نہیں فرمایا۔ بڑے اتنے کہ ہر کوئی ان کے سامنے چھوٹا نظر آئے لیکن سادگی اتنی کہ ہر چھوٹا ان کی د ل نشیں مسکراہٹوں اورشرفِ ہم کلامی سے مالا مال ہوجائے۔

تحریک سنی دعوت اسلامی کواس کے قیام سے آج تک حضور مفکر اسلام کی سرپرستی اور حمایت حاصل ہے اور 20 سالہ اس تاریخی دورمیں میں نے حضور مفکر اسلام کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے علوم وافکار سے استفادے کی سعادت بھی حاصل کی۔میں نے آپ کوبے شمار خوبیوں کا مالک پایا لیکن ایک خوبی جس نے علامہ قمر الزماں اعظمی کو خطیبِِ اعظم اور مرجعِ خاص وعام بنادیا وہ ان کا اخلاص اور صاف دلی ہے۔ میں نے ایسے واقعات وحالات بھی دیکھے جہاں ان کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں لیکن کبھی ان کی زبان سے شکوہ وشکایت یا نازیبا کلمات نہیں سنے بلکہ وہ ہمےشہ صبرو استقامت کا پیکر نظر آئے اور کیوں نہ ہو کہ آپ محض رسمی مریدنہیں بلکہ مفتیِ اعظم ہند کے سچے اور حقیقی مرید ہیں۔

علامہ اعظمی ہم لوگوں کی طرح نہیں ہیں کہ لوگوں میں اچھا لگنے کے لےے قیمتی لباس،قیمتی جوتے اور ظاہری وضع وقطع پرنظررکھتے ہیں بلکہ انہوں نے اسے بہت صاف ستھرا رکھا ہے جس پرمولیٰ کی نظرہے اور وہ دل ہے۔آپ ہر قسم کے حسد، کینہ، بغض وعداوت وغیرہ سے حددرجہ دوراور نفورہیں اورکیوں نہ ہو کہ آپ کو مفتیِ اعظم ہندکی دعا اور نگاہ فیض حاصل ہے ۔

علامہ کے اخلاص کی برکتیں:علامہ اعظمی صاحب قبلہ نے جن جن اداروں یا مسجدوں کی بنیادیں رکھی ہیں آج وہ صرف آباد ہی نہیں بلکہ وہ مرکزی حیثیت ر کھتی ہیں۔ امریکہ کے ایک شہر ہوسٹن کی سرزمین پر مسجد النور جس کی بنیاد علامہ نے اپنے ہاتھوں سے رکھی آج امریکہ کی بڑی مسجدوں میں اس کا شمار ہوتا ہے اور یہاں سے فروغ اسلام و سنیت کے لیے بھرپورصالح کوششیں آج بھی جاری وساری ہیںاور لوگ عقائدکی اصلاح کے ساتھ علم وعمل کے زیور سے بھی آراستہ ہورہے ہیں۔ اسی طرح مہاپولی بھیونڈی کی سرزمین پر سنی دعوت اسلامی کا English Medium ہائی اسکول جس کی بنیاد حضور مفکر اسلام نے اپنے ہاتھوں سے رکھی آج وہ بھی علم وعمل کا ایک بہتا سمندر ہے جس سے سیکڑوں طلبہ استفادہ کررہے ہیں،یہ دو مثالیں بطورنمونہ ہیں۔ اسی طرح تحریک سنی دعوت اسلامی کو بھی لے لیجےے آج عالمی سطح پر تحریک کوجو مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس میں بہت حدتک حضور مفکرِ اسلام کا درد وسوز، دعائیں اوراخلاص وایثار شامل ہے۔آپ کا ہر سال وادیِ نور آزاد میدان ممبئی مےں اپنے کرائے سے سنی دعوت اسلامی کے عالمی سالانہ سنی اجتماع مےں شریک ہونا آپ کے اخلاص وایثاراوردینی حمیت کاکھلاہواثبوت ہے ۔

علامہ کا حلم:ایک بڑے جلسے میں علامہ صاحب کی تقریر کا اعلان ہورہاتھا علامہ صاحب وہاں پہنچے تو وہاں تقریر کا موقع دینے کی بجائے چند دل آزار حرکتیں کی گئیں۔ علامہ صبر وتحمل کا پیکربنے وہاں سے لوٹے اورمیزبان کے یہاں پہنچے تو میزبان دل دُکھانے والوں کے خلاف غصے کا اظہار کرنے لگے تو علامہ نے برجستہ ارشاد فرمایا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آئندہ آپ کے گھر آؤں تو آئندہ اس قسم کے جملے آپ کی زبان سے نہ سنوں۔ اس حلم وصبر کو دیکھ کر سید محمد امین القادری نگراں سنی دعوت اسلامی مالیگاؤں جو حضرت کے ساتھ تھے انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضرت اگر داعی بننا ہوتو حضور مفکر اسلام کی صحبت ضروری ہے۔ میں نے ایسا پیکر ِصبر ورضا کسی کو نہیں دیکھا۔ یقینا اپنے غصے کو قابو میں رکھنا اور توہین وگستاخی پر حلم اوربردباری کا مظاہرہ کرنا یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیںیہ وصف خاص ہے جو خاص لوگوں کو ہی قدرت کی بارگاہ سے میسر ہوتا ہے۔

علامہ کی سادگی:آج شہرت کی بلندیاں چھولینے یا ماننے والوں کی تعداد میں اضافے کے بعد آدمی اپنے لیے از خود چند چیزوں کو خاص کرلیتا ہے جس کے میسر نہ ہونے پر وہ اپنی توہین سمجھتا ہے مثال کے طور پر اچھی سواری اور اچھی رہائش اور عقیدتمندوں کی ٹولی لیکن علامہ کی سادگی دیکھیں کہ وہ اپنے شیخِ طریقت سرکار حضور مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کے نقش قدم پر کس طرح چلتے ہیں۔آپ جب ہندوستان کے دورے پر آتے ہیں تو اکثرراقم السطورکو حضرت کے ساتھ مختلف شہروں کے دورے پر جانے کا موقع میسر آتا ہے۔ جب ہم کسی شہر سے ممبئی واپس آتے ہیں تو علامہ کو ایئرپورٹ سے جوگیشوری جانا ہوتا ہے اور مجھے محمد علی روڈ تو علامہ ائیرپورٹ سے باہر نکل کر Taxi پکڑنے کی بجائے Autoriksha سے جوگیشوری اپنے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔ پہلی بار جب حضرت سے میں نے گزارش کی کہ حضرت !میں آپ کو جوگیشوری Drop کرکے اپنے گھر کی طرف نکل جاؤں گا تو حضرت نے فرمایا: میرا گھر یہاں سے قریب ہے چند منٹوں میں رکشے کے ذریعے میں اپنے گھر پہنچ جاؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ رکشے میں بیٹھتے تو مجھے سرکار حضور مفتی اعظم ہند یاد آجاتے کہ حضرت بھی کبھی قیمتی سواری کی فرمائش نہیں کرتے تھے بلکہ لوگ جو سواری لے کر آتے اس میں بیٹھ کر مریدوں کی دستگیری فرماتے یہاں تک کہcycleriksha میں بھی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سفر فرماتے تھے۔

علامہ اعظمی کا حسنِ اخلاق:چند سالوں پہلے کی بات ہےLilongwe(Central Africa Malawi) کی سرزمین پر حضور مفکر اسلام ایک کانفرنس میں بحیثیت مہمان خصوصی شریک تھے۔ اسٹیج پر انڈوپاک کے علما اور مقامی رؤسا بھی تشریف فرماتھے آپس میں گفتگو چل رہی تھی۔اسی دوران ایک ذمہ دار نے علامہ کی توجہ سامنے موجود دیوار سے ٹیک لگائے ایک مقامی افریقی عالم دین کی طرف مبذول کرائی اور کہا کہ یہ ملاوی کے اچھے عالموں میں ہیں اور فروغ اسلام و سنیت کے لیے کافی جد وجہد کررہے ہیں۔ علامہ اپنی کرسی سے اٹھتے ہیں اور بوسیدہ لباس میں ملبوس اس عالم دین کی طرف بڑھتے ہیں ان کو سلام کرتے ہیں ،ان کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور پھر اسٹیج پر لے آتے ہیں ۔مجمع پر سکوت طاری تھا اور وہ عالم دین اپنی قسمت کی معراج پر نازاں وفرحاں تھے۔ بہر کیف !جلسہ جاری رہا اختتام پر وہ عالم دین علامہ سے عربی زبان میں عرض کرتے ہیں کہ اگر آپ اجازت دیں تو آپ نے جس گلاس میں پانی پیا ہے وہ میں لے لوں۔ آپ نے پوچھا یہ گلاس کیا کروگے؟ انہوں نے جواب میں عرض کیا :زندگی بھر اس میں پانی پی کر ان یادگار لمحوں کو زندہ وتابندہ رکھوں گا اور آپ کے کریمانہ اخلاق کو خراج پیش کرتارہوں گا۔ آج آپ نے جو عزت دی ہے یقینا اس نے میرے دل میں آپ کی محبت کا چراغ روشن کردیا ہے اور اس عزت افزائی کو میں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا۔

محافظِ ناموسِ اعلیٰ حضرت:کم وبیش تین سال پہلے کی بات ہے کہ راقم ،علامہ اعظمی صاحب اور مولانا محمد حسین قادری مبلغ سنی دعوت اسلامی برطانوی گوا میں منعقدہ سنی دعوت ا سلامی کے سنی اجتماع میں شرکت کے لیے ممبئی ائیرپورٹ پہنچے۔ اتفاقا فلائٹ ۲ گھنٹے Delay تھی ہم لوگ Loungeمیں بیٹھ گئے اور چائے نوشی کرنے لگے۔ اتنے میں دور سے ایک صاحب علامہ کو دیکھ کر ان کی طرف بڑھنے لگے، قریب آکر سلام کیا اور ان سے دریافت کیا: آپ مولانا قمر الزماں اعظمی ہیں؟ حضرت نے فرمایا:جی میں قمر الزماں اعظمی ہوں۔ پھر اس شخص نے اپنا تعارف کرایا کہ میں لکھنو کے ایک کالج کاڈین ہوں اور آپ کو QTV پر شوق سے سنتا رہتا ہوں۔ اس طرح گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا پھر اس نے علامہ سے چند سوالات کیے اور بعد میں گفتگو کرتے کرتے اعلیٰ حضرت پر تنقیدیں شروع کردیں کہ مولانا احمد رضا خان نے لوگوں کو قبر پرستی کی تعلیم دی اور بدعات ومنکرات کا عادی بنایا اور ایک شعر جو اعلیٰ حضرت کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس نے پڑھا ،وہ اعلیٰ حضرت کا نہ تھا۔ اس کی بکواس سن کر مجھے غصہ آرہاتھا لیکن علامہ پر سکون انداز میں اس کی باتوں کو سن رہے تھے ۔جب اس کی بکواس بند ہوئی توعلامہ نے اعلیٰ حضرت کے چند اشعار اس کو سنائے یہ بتائے بغیر کہ یہ اعلیٰ حضرت کے ہیں وہ سنتا گیا اور داد وتحسین دیتا گیا۔ جب علامہ نے دیکھا کہ وہ اشعار سے متاثر ہوچکا ہے تو فرمایا: میرے بھائی! یہ اشعار مولانا احمد رضا خاں کے ہیں پھر اعلیٰ حضرت کے بدعات ومنکرات کے رد میں مثنویات اور فتاویٰ رضویہ کے چند فتاوے اس کو سنائے تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اوروہ برجستہ کہہ اٹھا کہ اللہ مجھے معاف فرمائے اتنے بڑے عاشق رسول سے متعلق میں اتنا بدگمان تھا تو علامہ نے اپنا ایک تاریخی جملہ اس کو گوش گزارکرتے ہوئے فرمایا: میرے بھائی !کسی بھی شخص کو جاننا ہوتو اس کو پڑھو نہ کہ کسی کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اس کے متعلق اپنی رائے قائم کرلو تو اس نے کہامیں مولانا احمد رضا خان کو پڑھنا چاہتا ہوں ان کی تصنیفات کہاں ملیں گی۔ علامہ نے میری طرف دیکھا میں نے ان سے کہا آپ اپنا پتہ دے دیں میں آپ تک اعلیٰ حضرت کی کتابیں بھجوادوں گا اور پھر ان تک فتاویٰ رضویہ اور اعلیٰ حضرت کی دیگر کئی کتابیں بھیجی گئیں۔ اس شخص نے علامہ سے جدا ہوتے وقت یہ گزارش کی کہ مولانا! آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ مولانا احمد رضا خاں کی کتابوں کو پڑھ کر میرے سامنے حق آشکار ہوجائے۔

تحریک سنی دعوت اسلامی سے محبت :برطانیہ کی سرزمین پر تحریک کے تعارف اور خدمات کو چند ہی سال ہوئے تھے اسی دوران برطانیہ کے بولٹن شہر میں سنی اجتماع غالباً1998 میں منعقد ہوا چوں کہ اجتماع ہفتہ ا وراتوار دو دنوں کاتھا۔مفکر اسلام نے مجھے اپنی مسجد میں جمعہ پڑھانے کوکہا شومیِ قسمت کہ نماز کے بعد میرے ساتھ ایک سانحہ پیش آگیا جس نے حضور مفکر اسلام کو تڑپاکر رکھ دےااور پھر اس کااِظہار اور تحریک سے اپنے لگاؤاور درد کو دوسرے روز اجتماع میں اس طرح پیش کیا کہ خاص وعام آبدیدہ ہوگئے اورآج بھی اس تقریر کی گونج پوری دنیا میں تحریک کی محبت او راس کا کام کو آگے بڑھا نے کے لیے مہمیز کاکام دیتی ہے ۔اس تقریر کے چند جملے قارئین کے نذر ہیں :
آپ نے فرمایا”جب تک میرے جسم میں خون کاآخری قطرہ باقی ہے میں اس تحریک کاساتھ دوں گا اور اسے پورے عالم میں پھیلاؤں گا “۔

اس زمانے میں برطانیہ کی سرزمین پر تحریک کے لیے کوئی جائے پناہ موجود نہ تھی اور ہر طرف سے لفظوں کے تیر ونشتر چل رہے تھے ،ایسے ماحول میں ایک روحانی شخصیت حضرت سید نورانی بابارحمةاللہ علیہ اور ایک علمی شخصیت حضور مفکر اسلام کاتعاون خصوصی طورپر رہا اور عمومی طور پر مقامی چند علمااور عوام الناس کابھی تعاون رہا۔انہیں قربانیوں کے نتیجے میں برطانیہ کی سرزمین پر آج تحریک اپنے پورے شباب کے ساتھ تشنہ دلوں کو جام محبت رسول سے سیراب کررہی ہے ۔ فخر گجرات مولانا محمد یونس مصباحی اپنے علم وعمل کی بنیاد پر آج تحریک کے کارواں کو برطانیہ کے شہر وں میں پہنچانے کی جد وجہد کررہے ہیں اوراب تو الحمد للہ رحمت عالم صلی اللہ تعالی ٰ علیہ وسلم کے صدقہ وطفیل سنی دعوت اسلامی کااپناذاتی سینٹر بولٹن برطانیہ میں قائم ہوچکاہے ۔

تحریک سے محبت سے متعلق ایک اور واقعہ ملاحظہ کرتے چلیں ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضورمفکر اسلام سخت علالت کی وجہ سے صاحبِِ فراش تھے ۔رُوبصحت ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے تھے کہ اچانک ایک روز صبح چاربجے حضرت کے جانشین صاحبزادہ وقار اعظمی صاحب کے فون کی گھنٹی بجی اور حضرت کے مرض پر اطباکی تشویش کے بارے میں مجھے بتایا او رفرمایا کہ کل جمعہ ہے آپ ہرطرف دعائیں کروائیں تو بہتر ہوگا ۔اسی وقت ممکنہ مقامات پر اطلاعات دی گئیں اور ہندوستان بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں حضرت کے لیے دعاؤں کاسلسلہ شروع ہوگیا ۔اس وقت یہ محسوس ہو اکہ حضور مفکر اسلا م ہر خوش عقیدہ مسلمان کے دل کی دھڑکن ہیں اور ہر کوئی نذر ونیاز اور دعاؤں میں مصروف ہوکر ان کی طویل عمرکے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعائیں کرتارہا۔اسی علالت کے زمانے کا ایک واقعہ ان کے صاحبزادے وقار اعظمی نے مدینہ منورہ میں مجھے سنایا کہ مولانا !والدصاحب جب سخت علیل تھے ،صحت یاب ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی، اس موقع پر نیم بے ہوشی کے عالم میں حضرت کے ہونٹوں پرکپکپی طاری تھی۔وقاراعظمی کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ حضرت کچھ فرمارہے ہیں اس لیے میں نے اپنے کان ان کے ہونٹوں سے قریب کردیے اور جملوں کو سمجھنے کی کوشش کی تومیں نے سناکہ ایسے عالم میں حضرت فرمارہے تھے کہ سنی دعوت اسلامی کوزندہ رہناہے اور پورے عالم میں پھیلناہے ۔میں نے جب یہ سناتو میری آنکھیں نم ہوگئیں اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے علامہ اعظمی صاحب کے لیے دعائیں نکلیں۔،یقیناً حضور مفکرِ اسلام تحریک کے جزوِ لاینفک ہیں اور تحریک کے فروغ میں اپنا کلیدی رول رکھتے ہیں ۔کبھی کوئی ذاتی منفعت یاذاتی غرض وغایت حضرت کی تحریک سے نہ رہی بلکہ راقم الحروف اور علامہ اعظمی صاحب مدظلہ العالی کاتعلق اللہ رب العزت او راس کے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوخوش کرنے اورفروغ اسلام وسنیت ہی ہے ۔

علامہ اعظمی صاحب کی راقم الحروف سے قلبی محبت : علامہ اعظمی کو سال ِ رواں1432ھ میں حج وزیارت سے مشرف ہونے کے بعد ان کے پیر ومرشد حضور مفتی اعظم ہند کے یوم وصال 14محرم الحرام کے دن کعبہ شریف کے اند رداخل ہونے اور عبادت کرنے کاموقع ملا ۔اس سعادت عظمیٰ کے حصول یابی کے بعد جب خانہ کعبہ سے باہر نکلے تو سب سے پہلے مجھے فون کیا اور ارشاد فرمایا کہ مولانا!تحریک سنی دعوت اسلامی کے لیے ،آپ کے لیے اور آپ کے اہل خانہ کے لیے میں نے کعبہ کے اندر نام بنام دعائیں کی ہیں ۔اللہ اکبر!کتنابڑاحضرت کااحسان ہے کہ اس مقام مقدس میں تحریک اور اس ناچیز کو فراموش نہیں فرمایا۔اللہ اپنی شان کے مطابق انہیں اس کااجر عطافرمائے۔

بلاشبہ مفکر اسلام کی ذات گرامی حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی محسوس دعاؤں کاپیکر ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ ساری خوبیاں جوحضور مفکر اسلام میں پائی جاتی ہیں یہ آپ کے پیرومرشد حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمة والرضوان کی دعاؤں کاثمرہ ہے ۔آپ کی کامیابی میں اس کابھی بڑا رول رہاہے کہ آپ جملہ سلاسل کے بزرگان دین اور پیران طریقت کی بارگاہوں کے نہایت باادب رہے اور آج بھی ہیں اور اس کے ساتھ ہی بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں پر شفقت ومہر بانی کے عمل نے بھی آپ کو ہر دل عزیز بنانے میں نمایا ں رول اداکیا ہے ۔اللہ رب العزت حضور مفکر اسلام کوصحت وعافیت کے ساتھ طویل عمر عطافرمائے اور ہم اہل سنت پر ان کاسایہ تادیر قائم رکھے ۔آمین
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731814 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More