حضرت سیدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ (نعمان بن ثابت)رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمةاللہ علیہ کا نام مبارک نعمان بن ثابت اور کنیت ابو حنیفہ ہے۔ آپ رحمة اللہ علیہ عراق کے شہر کوفہ میں 70 ہجری میں پیدا ہوئے اور وفات 150 ہجری میں پائی ۔ عراق کے مشہور شہر بغداد میں آپ کا مزار پُر انوارباعث برکات ہے۔ جس کی برکات اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بغیر کسی تعطل کے پوری دنیا میں جاری و ساری ہیں اور تا قیامت رہیں گی۔ انشاءاللہ عزوجل الحمد للہ چاروں اِمام برحق ہیں ان سب کے مقلدین(حنفی،شافعی،مالکی،حمبلی) اہلسنت ہیں۔ آپ چاروں اماموں میں سب سے زیادہ مرتبہ و مقام رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ تابعی بزرگ ہیں اور تابعی اُس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ہو اور اُس کا خاتمہ بھی ایمان پر ہوا ہو۔ (الخیرات الحسان) پوری دنیا میں آپ رحمة اللہ علیہ کے مقلدین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

تذکرة الاولیاءمیں ہے کہ جب آپ رحمة اللہ علیہ نے سرکارِ دوعالم ﷺ کے روضہ مبارک پر کچھ اسطرح سلام عرض کیا ”السلام علیک یا سیدَالمرسلین“ تو روضہ مبارک سے جوابی آواز آئی ”وعلیک السلام یا امام المسلمین“ سبحان اللہ کیا شان پائی ہے امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ نے جس کو حضور پرنور سرکارِدوعالم ﷺ کے دربار سے امام المسلمین کا خطاب ملا ۔

تذکرة الاولیاءہی کے صفحہ 186 پر ہے کہ جب آپ رحمة اللہ علیہ تحصیل علم سے فارغ ہوئے تو گوشہ نشینی کی نیت فرمالی۔ ایک رات رحمت عالم ﷺ خواب میں تشریف لائے اور فرمایا ”اے ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) ! اللہ تعالی نے آپ کو میری سنت زندہ کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے، آپ گوشہ نشینی کا ہرگز ارادہ نہ کریں۔
ایک بارکسی نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ کے سامنے ، آپ رحمة اللہ علیہ پر اعتراض کیا تو آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ”کیا تم ایسے شخص پر اعتراض کرتے ہو جس نے پینتالیس سال تک پانچوں نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں اور وہ ایک رکعت میں پورا قرآن کریم ختم کرلیتے تھے ۔آج میرے پاس جو کچھ فقہ ہے وہ انہیں سے سیکھا ہے“۔اور ایک روایت میں ہے کہ جس جگہ آپ کی وفات ہوئی اُس مقام پرآپ نے سات ہزار مرتبہ قرآن مجید ختم کیا۔ عبادت کا یہ عالم تھا کہ ساری ساری رات قیام و سجود میں گزار دیتے اور خوف ِ خدا کی وجہ سے آنکھوں سے چھم چھم آنسو بہتے یہاں تک کہ چٹائی بھیگ جاتی۔

سیدنا مِسعر بن کدام علیہ رحمة اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم امامِ اعظم رحمة اللہ علیہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ بے خیالی میں امام اعظم رحمة اللہ کا پاﺅں مبارک ایک لڑکے کے پاﺅں پر پڑھ گیا کہ لڑکے کی چیخ نکل گئی اور اُس کے منہ سے نکلنے والے کلمات کچھ یوں تھے ”یا شیخ آلٓاتخاف القصاص یوم القیامة“ ترجمہ: جناب! کیا آپ قیامت کے روز لئے جانے والے انتقام خداوندی سے نہیں ڈرتے ؟بس یہ سننا ہی تھا کہ امام اعظم علیہ رحمة الرحمن خوف خداکی وجہ سے غش کھا کر زمین پر آئے۔ پھر جب آپ ہوش میں آئے تو میں نے عرض کیا کہ ایک لڑکے کی بات پر آپ اس قدر کیوں گبھراگئے؟ تو آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا، کیا معلوم اُس کی آواز غیبی ہدایت ہو۔ (اشکوں کی برسات)

آپ رحمةاللہ علیہ نے ہمیشہ لوگوں کی خیر چاہی کبھی کسی کا بُرا نہیں کیا یہاں تک کہ جو لوگ آپ رحمة اللہ علیہ کو برا بھلا کہتے، تو آپ ر حمة اللہ علیہ اُن کے لیے ہمیشہ دعا ہی کرتے کبھی بددعا نہیں دیتے۔ الخیرات الحسان میں ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے آپ رحمة اللہ علیہ کو گالیاںدیں بلکہ گمراہ اور زندیق تک کہہ دیا، تب بھی آپ رحمة اللہ علیہ نے اُس کیلیے دعاہی کی جس سے متاثر ہو کراُس نے معافی مانگ لی۔

سیدنا بکر بن جیش رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ، اگر امام اعظم رحمة اللہ علیہ اور ان کے اہلِ زمانہ کی عقلوں کو جمع کیا جائے تو ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کی عقل سب پہ غالب آ جائے۔

عباسی خلیفہ منصور نے امام اعظم رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ آپ میری مملکت کے قاضی القضاة بن جائیے۔ تو آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا میں اِس عہدے کے قابل نہیں ۔ منصور بولا ، آپ جھوٹ کہتے ہیں۔ تو اِس پر آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو جھوٹا آدمی قاضی بننے کے لائق ہی نہیں ہوتا۔ اس انکار کو منصور نے اپنی توہین تصورکرتے ہوئے آپ رحمة اللہ علیہ کو جیل میں ڈال دیا اور پھر آپ رحمة اللہ علیہ کو راضی کرنے کیلیے ہرطرح کو دباﺅ ڈالا گیا یہاں تک کہ روزانہ دس کوڑے سرپر مارے جاتے ، آخر ایک دن آپ رحمة اللہ علیہ کو زہر کا پیالہ پیش کیا گیامگرآپ رحمة اللہ علیہ مومنانہ فراست سے زہر کو پہچان گئے اور پینے سے انکار کردیا، اس پر آپ رحمة اللہ علیہ کو لٹا کر زبردستی حلق میں زہر اُنڈیل دیا گیا،جب زہر نے اثر دکھانا شروع کیا توآپ رحمة اللہ علیہ سجدہ ریز ہوگئے اور سجدے ہی کی حالت میں 150 ہجری میں جامِ شہادت نوش کیا۔

امام اہلسنت سیدنا امام شافعی رحمة اللہ علیہ جب بغداد شریف میں تھے تو آپ رحمة اللہ علیہ کے متعلق مروی ہے کہ آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں اور جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رکعت پڑھ کر ان کی قبرِ انور کے پاس آتا ہوں اور اُس کے پاس اللہ عزوجل سے دعا کرتا ہوں تو وہ حاجت جلد پوری ہوتی ہے۔
Akhtar Abbas
About the Author: Akhtar Abbas Read More Articles by Akhtar Abbas: 22 Articles with 62822 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.