وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دوکان اپنی بڑھا گئے
مانا کہ یہ ’’اُن‘‘ کے لیے سچ ہوگا .
لیکن یہاں کا تو معاملہ ہی کچھ اور ہے!
یہ تو درد بانٹتے ہیں!
جی ہاں یہ راہ ہی ایسی ہے یہاں دوائے دل سے کام نہیں بنتا. یہ سفر دردِ دل
سے ہی کٹتا ہے۔
ایسا درد جو پتھروں کو پگھلا دے، جو صحرائوں کو رُلا دے اور جو اتنا بے چین
کردے کہ محب محبوب کے وصال تک تڑپتا رہے . ایک پل کے لیے قرار نہ آئے۔ محبت
تو نام ہی درد کا ہے۔
عشق تو سراپا غم ہے. یہاں آرام نہیں. یہاں سکون سفر ختم ہونے پر ہی ملتا ہے۔
ْْپروانے کے دل میں ایسا کونسا درد ہوتا ہے، اُس کا دل کس آگ میں سلگ رہا
ہوتا ہے جو اُسے خوشی خوشی موت کے منہ میں کودنے کو بے چین کر دیتا ہے؟ اہل
عقل و دانش کی پرواز یہاں پر ختم ہو جاتی ہے. اُن کی سوچ یہاں ہتھیار ڈال
دیتی ہے۔ یہ کام عشق کا ہی ہے. درد کا ہی ہے جو انسان سے ایسے بلند حوصلہ
کام کروا دیتا ہے جو اُسے رفعت کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
ارے عاشق تو ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح کوئی ایسا طریقہ مل جائے
جس سے محبوب راضی ہو جائے۔ قربان جائیں ہمارے محبوب رب پر کہ خود ہی اس قدر
زیادہ اور آسان طریقے بھی بتا دئیے جس سے وہ راضی ہوتا ہے اور پھر اس کی
توفیق بھی خود ہی دیتا ہے۔
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
محبت دے کے تڑپایا گیا ہوں
سمجھتا خاک اسرارِ محبت
نہیں سمجھا میں سمجھایا گیا ہوں
اعتکاف ایک عاشقانہ عبادت ہے اس کا عملی مشاہدہ اس سال مرکز عثمان(رض) و
علی(رض) بہاولپور میں رمضان کا آخری عشرہ گزار کر ہوا۔ کیا تھا؟. بس آنسو،
آہیں، نالے، سسکیاں. آہ! درد ہی درد۔ یہ سب عشق کی ہی تو سوغاتیں ہیں۔
کوچہ کوچہ ، نگری نگری سے لوگ یہاں دیوانہ وار جمع ہوتے ہیں اور ہر سال اس
تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ طرح طرح کے مسافر. کوئی گناہوں کا
بوجھ لے کر، کوئی حبِّ مال و جاہ کا طوق لے کر ، کوئی عشقِ مجازی کا روگ لے
کر آتا ہے. اور کوئی خوش قسمت عبادت کا شوق لے کر آتا ہے۔
یہاں آنے والے دیوانوں کو عشق کے دستور بتا دئیے جاتے ہیں. محبوب کو راضی
کرنے کے 40 اعمال جو انہوں نے اعتکاف کے دوران محبت اور اخلاص سے کرنے ہوتے
ہیں۔
مکتب عشق . اللہ کے گھر میں پہلی مہمانی. افطاری کے بعد 20 رکعت نوافل کی
توفیق. سورۂ واقعہ ،سورۂ ملک کی تلاوت اور پھر عشائ کی تیاری۔
اعتکاف کے دوران اللہ کے عاشقوں کی تربیت کے لیے بڑے درد کے ساتھ کچھ کتب،
مضامین و مکتوبات کی تعلیم کروائی جاتی ہے۔ وہ باتیں جو دل میں اتر کر دل
کی دنیا بدل دیں. جو سوچ میں ا نقلاب پیدا کردیں. جو اصلاح کی فکر پیدا کر
دیں.
مراقبات بھی ہوتے ہیں جو دل کو جھنجوڑ دیں. جسم میں کپکپی پیدا کر دیں.
جومحبوب رب سے محبت، تعلق اور خشیت پیدا کردیں. جودل میں تڑپ اور درد پیدا
کر دیں۔ موت کا مراقبہ جو دنیا کی محبت کو دل سے نکال کر آخرت کی فکر پیدا
کردے. آہوں، سسکیوں اور آنسوئوں میں ڈوبا ہوا گناہوں سے معافی کا مراقبہ جو
توبہ کی فکر اور گناہوں سے نفرت پیدا کردے . اللہ تعالیٰ سے محبت کا مراقبہ
جو دل کو حق تعالیٰ کی محبت سے معمور اور مسرور کر دے اور ایمان کی حلاوت
دل میں پیدا کر دے. اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر کا مراقبہ جوشکر گزاری
پیدا کر دے.
عشائ کی نماز ہوئی اور تعلیم کے بعد خود ہی اپنے اعمال کا محاسبہ ا ور پھر
مراقبۂ موت . اب رات کی محنت کے لیے دیوانوں نے ایک گھنٹہ آرام کرنا ہے۔
محبوب سے باتیں کرنا عاشقوں کو کتنا محبوب ہوتا ہے؟ اس کے بغیر دل کو چین
کہاں آتا ہے؟ ارے ایک عاشق کے لیے اس سے بڑھ کر کیا دولت ہوگی کہ اُسے
محبوب سے چند لمحے ہمکلام ہونے کا موقع مل جائے۔ اس لیے ان دیوانوں کو جب
بھی چند منٹ ملتے ہیں یہ قرآن مقدس اُٹھا لیتے ہیں اور اپنے محبوب رب سے
ہمکلام ہوجاتے ہیں۔ کوئی محبت میں سرشار ہو کر جھوم جھوم کر پڑھ رہا ہے،کسی
کے جذبات میں جنت کے شوق نے تلاطم برپا کیا ہوا ہے، اورکسی کی آواز قیامت،
حشر اور جہنم کے تذکرے سے رندھ گئی ہے اور کسی پر اللہ تعالیٰ واحد قہار کی
عظمت اور خوف سے کپکپی طاری ہے۔
محبوب رب سے یہ ہمکلامی اگر محبوب کے سامنے کھڑے ہو کر ہو تو اس کا کیا ہی
کہنا. ایک گھنٹہ آرام کے بعد اب یہ دیوانے اللہ تعالیٰ کے دربار میں کھڑے
ہو گئے اور تراویح میں حق تعالیٰ کے پاک کلام کی تلاوت سے اپنے دل کو ٹھنڈک
پہنچا رہے ہیں۔ امام صاحب جھوم جھوم کر پڑھ رہے ہیں اور دیوانے پیچھے کھڑے
سن رہے ہیں. اور صبح تک اسی میں مسرور رہیں گے۔ تراویح کے دوران مراقبات،
تعلیم اور ایک دور کلمہ طیبہ کے بارہ سو مرتبہ ورد کابھی ہے.
رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق رات ہے، رب کریم کے سامنے کھڑے ہو کر
ہمکلامی میں چالیس سجدوں کا یہ مرحلہ مکمل ہوا۔ ابھی ممبر سجنے لگا ہے.
امیر المجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ کے برادرِ صغیر حضرت
مولانا مفتی عبدالرؤف اصغر دامت برکاتہم خطاب فرمائیں گے۔ حضرت مفتی صاحب
کا اندازِ خطاب نہایت پُرسوز اور پُر اثر ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت کے دل کو
امت مسلمہ کے درد سے معمور فرمایاہے جو یہ دوسرے مسلمانوں میں تقسیم فرماتے
رہتے ہیں۔ حضرت مفتی صاحب جیسے ہی ممبر پر جلوہ افروز ہوئے. واقفِ حال سمجھ
گئے حضرت مفتی صاحب اب خود بھی تڑپیں گے اور دوسروں کو بھی تڑپائیں گے، خود
بھی آنسو بہائیں گے اور حاضرین کو بھی رلائیں گے۔ اور یہی ہواجوں جوں خطاب
آگے بڑھا حاضرین کے آنسو ٹپکنے لگے اور آہوں، سسکیوں میں اضافہ ہوتا چلا
گیا۔
لیجئے! منبر سے درد کی سوغات تقسیم ہونا شروع ہوگئی. اب کس کے حصے میں کتنا
آتا ہے یہ اُس کی کوشش اور طلب پر ہے یا پھر اُس کی قسمت. محروم انشائ اللہ
کوئی نہیں۔
اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کر سرِعام رکھ دیا
اب رب کو منانے کا وقت ہے. رات کی محنت کی مزدوری مانگنے کا وقت ہے. وقتِ
دعا ہے۔ جو لوگ ابھی تک خود کو سنبھالے ہوئے تھے اُن کے ضبط کے بندھن بھی
ٹوٹ گئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ استغفار، معافی ربا معافی. اللہ،
اللہ ، اللہ. آہ! درد ہی درد۔
توبہ استغفار، اور درد میں ڈوبے آنسوئوں سے گناہگاروں کے بوجھ کم ہونے لگے
اور دل یہ عہد کرنے لگے کہ ربا اب کسی گناہ کے قریب بھی نہیں جائیں گے.
خواہشات کو کچلنا پڑے گا؟ کچلیں گے ربا آپ کی رضاکے لیے دل پر آرے بھی
چلانے پڑے تو چلائیں گے. دل کو توڑنا پڑے گا؟ یا اللہ توڑیں گے. ہاں اگر یہ
دل بچا بچا کر رکھو گے تو کچھ نہ پائو گے. دل ٹوٹے گا تو درد اُٹھے گااور
درد مل گیا تو سب مل گیا۔
نہ بچا بچا کہ تُو رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینۂ ساز میں
حبّ جاہ و مال کے طوق اُتر نے لگے۔ یا اللہ! آج سے بس تو ہی ہمارا سب کچھ
ہے، ہم تیری رضا کے لیے اپنی ہستی کو فنا کردیں گے۔ اپنے نفس کو مٹانا پڑے
گا؟ مٹائیں گے ربا ضرور مٹائیں گے۔
آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل
کچھ نہ پوچھو دل بہت مشکل سے بن پاتا ہے دل
آہ! یہ عشق مجازی کا روگ. یہ روگ تو بہت بھاری ہے. اس کا معاملہ بہت مشکل
ہے، اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ یا اللہ اس آگ نے تو اندر سے
جھلسا کے رکھ دیا ہے، مجھے گرا دیا ہے، مٹا دیاہے۔ یا اللہ! اس آتشِ عشق سے
کیسے چھٹکارا ہو؟. اسے بجھانا تو بس کی بات نہیں لگتی۔
لیکن محبت کا درد تو ہر کسی کو کہاں نصیب ہوتا ہے؟ اس درد کو کم نہیں کرنا.
یہ آتشِ شوق تو کسی کسی کو عطائ کی جاتی ہے. اس کو ٹھنڈا نہیں کرنا. اس کا
رُخ بدلنا ہے۔ عشق کو نہیں مٹانا. مجازی کو حقیقی سے بدلنا ہے، نقلی کو
اصلی سے بدلنا ہے، فانی کو دائم سے بدلنا ہے، گندگی کو پاکی سے بدلنا ہے۔
پھر یہی عشق جو مجازی ہو تو انسان کو پستیوں کے گڑھے میں گرا دیتا ہے اور
اگر محبوب حقیقی سے ہو تو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔
محبوب سے تنہائی میں ملاقات کا لطف ہی کچھ اور ہے. عاشقوں کی نماز تہجد
شروع ہوئی۔ پھر مناجات اور اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَْۃً
کا عملی نمونہ نظر آنے لگا۔ کون کیا لین دین کر رہا ہے؟ ہر کسی کا اپنے
محبوب رب سے الگ معاملہ ہے. محبوب سے راز و نیاز کا مزہ اہل محبت اور اہل
دل ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ اللہ اللہ. آہ! درد ہی درد
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
آنسوئوں کے بادل چھٹنے کے بعد نمناک آنکھوں سے سحری ہوئی اور دیوانے پھر
اپنے محبوب کے کلام مقدس کی تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ باجماعت فجرکے بعد
تلاوت سورۂ یٰسین، منزل، اورادِ فتحیہ، دعائیں اور ’’سبحان ا للہ وبحمدہ‘‘
ایک ہزار بار اور پھر اشراق کے نوافل کی ادائیگی کے بعد سونے کا معمول۔
گیارہ بجے اٹھ کر پھر دیوانے اپنے رب سے باتوں میں مشغول ہو گئے اوراب قرآن
کریم کی تلاوت سے اپنے دل اور آنکھوں کوٹھنڈا کرنے کے لیے کافی وقت مل گیا۔
پھر ایک گھنٹہ مذاکرہ جس میں نماز، کلمے، دعائیں وغیرہ سیکھنے کی ترتیب۔
ظہر کی نماز باجماعت. اور اب عاشقوں کی محفل سجنے لگی ہے جس میں اپنے محبوب
رب کا اسم اعظم ’’اللہ‘‘ کا ورد پندرہ ہزار بار کرنا ہے۔ ذاکرین ترتیب سے
بیٹھ گئے اور ذکر شروع ہو گیا. اللہ اللہ اللہ. اللہ اللہ اللہ. ہر طرف سے
ایک ہی آواز آ رہی تھی۔ دیوانے اپنے محبوب رب کا نام پکار رہے ہیں.ہر ایک
کا رنگ اور حال جدا ہے.کوئی محبت سے سرشار ہے. کسی پر وجد طاری ہے.اور کوئی
اس نام کی عظمت کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہے۔ کہاں یہ عظیم نام اور کہاں
ہماری گندی زبانیں. یا اللہ آپ کا احسان ہے۔
دیوانے اپنے رب کو یاد کر کے فارغ ہوئے تو عصر کی تیاری میں مشغول ہو گئے۔
عصر کے بعدپانچ تسبیحات، پہلا کلمہ، استغفار، درود شریف، تیسرا کلمہ اور
دعا ﴿اَللّٰھُمَّ اِنّی اَسْئلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ
وَالْغِنٰی﴾۔ اور پھر افطار کے دسترخوان پر دیوانوں نے اللہ کے حضوراپنے
ہاتھ اٹھا لیے اور اپنے لیے، اپنے والدین اور اولاد کے لیے، اپنے عزیز و
اقارب کے لیے، اسیران ، مجاہدین، مظلوم مسلمانوں ا ور پوری امت مسلمہ کے
لیے رو رو کر دعائیںکرتے رہے یہاں تک کہ مغرب کی اذان سنائی دی۔
اعتکاف میں یہ دیوانے محض اپنے محبوب کو راضی کرنے کے لیے خود کو تھکا رہے
تھے. کام زیادہ، آرام کم.لیکن پھر بھی جذبات تھے کہ دن بدن بڑھتے ہی جا رہے
تھے۔ شروع شروع میں جو نئے دیوانے عشق کے دستوروں سے واقف نہیں تھے وہ بھی
اب سمجھ گئے ہیں. رب کی محبت اور خشیت میں کبھی نہ رونے والوں کے دل بھی
موم کی طرح نرم ہو گئے اور آنکھیں ہر وقت آنسوئوں سے بھیگی رہتی ہیں۔ درد
کی وہ سوغات جو انہیں یہاں مل رہی تھی وہ رنگ لا رہی ہے. اپنی زندگی کی عیش
و عشرت کے مزے میں گم رہنے والوں کا دل اب پوری امت مسلمہ کا درد سمیٹ رہا
تھا۔ صرف اپنی خواہشات کی طلب میں جینے والے اب پوری دنیا کے مسلمانوں کے
لیے فکر مند تھے۔
اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنا دے
اعتکاف کے دوران ہونے والے 40 اعمال مرکز عثمان(رض) و علی(رض) میں دورۂ
تربیہ کی صورت میں سارا سال جاری رہتے ہیں۔ اور اگر کوئی ان کی سیر گھر
بیٹھے کرنا چاہے تو امیرالمجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ
کی کتاب ’’۷دن روشنی کے جزیرے پر‘‘ کا مطالعہ کرے ۔ یقینا آپ اس روشنی کے
جزیرے پر آنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
اللہ کا ایک مہمان عاشق اعتکاف کے دوران بیمار ہو گیا تو جوش میں آکر بولا.
رب کعبہ کی قسم مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میری توبہ قبول ہو گئی، اللہ تعالیٰ
کی محبت کی حلاوت میں اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں۔ پوچھا گیا کہ تم تو
بیمار ہو گئے ہو؟ بولایہ تومحبت کے بوسے ہیں. حق تعالیٰ کومجھ پر بہت پیار
آ رہا ہے۔محبت کی یہ ادائیں اہلِ محبت ہی سمجھ سکتے ہیں.
دشمنوں کو عیشِ آب و گل دیا
دوستوں کو اپنا درد دل دیا
محبوب کی نظر میں عاشق کا مقام جتنا بڑھتا جاتا ہے عاشق کی تکالیف بھی
بڑھتی جاتی ہیں.لیکن ان تکالیف کی مٹھاس اہلِ دل ہی سمجھ سکتے ہیں۔ عاشقوں
کو تو آروں سے کاٹا گیا، سولی پر چڑھایا گیا، آگ میں جلایا گیا۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اُسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
حضرت ایوب علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے بیماری کے دن اچھے تھے یا
یہ تندرستی کے دن؟ آپ(ع) نے فرمایا کہ بیماری کے دن زیادہ یاد آتے ہیں۔
پوچھا گیا کیوں؟ آپ(ع) نے فرمایا کہ بیماری کے دوران اللہ تعالیٰ روزانہ
پوچھتے تھے کہ ایوب کیا حال ہے؟ بس اس پوچھنے پر جو لطف ملتا تھا وہ اب
حاصل نہیں۔
جب اپنی ہستی کو محبوب کی رضا میں فنا کر دیا تو پھر کیا غم؟ پھر محبوب کی
خاطر ہر تکلیف اٹھانے میں مزہ آتا ہے. جتنی زیادہ تکلیف اتنا زیادہ کیف. دل
ٹوٹنے پر حلاوت ملی. خواہشات نفس دبانے، مٹانے پر لطف حاصل ہوتا ہے. پھر یہ
درد ہی دوا بلکہ سرور بن جاتا ہے. بے قراری میں بھی سکون، بے چینی میں بھی
آرام. اللہ اللہ اللہ. آہ! درد ہی درد۔
یہ بھی سچ ہے کہ بڑی عشق سزا دیتا ہے
درد جب حد سے گزرتا ہے مزا دیتا ہے
ترے غم کی مجھ کو جو دولت ملے
غمِ دو جہاں سے فراغت ملے
ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا ’’کیسی گزر رہی ہے‘‘؟ انہوں نے جواب دیا بہت
اچھی، ہر کام میری مرضی کے مطابق ہوتا ہے ، جو چاہتا ہوں وہ ملتا ہے۔ وہ
صاحب بہت حیران ہوئے اور سوال کیا ایسا تو کسی کے ساتھ بھی نہیں ہوتا، تو
وہ بزرگ فرمانے لگے کہ میں نے اپنے محبوب رب کی رضا اپنی رضا اور اُس کی
چاہت کو اپنی چاہت بنا لیا ہے۔
نہ تو ہجر ہی اچھا نہ وصال اچھا
یار جس حال میں رکھے وہی حال اچھا
محبت جب کامل ہو جاتی ہے. عشق جب دل میں راسخ ہو جاتا ہے. دل اس کے اسرار و
رموز سمجھنے لگتا ہے. تو پھر اس کے ثمرات محسوس ہونے لگتے ہیں۔ جب محبوب سے
تعلق مضبوط ہو جاتا ہے. محبوب کی رضا ہی مقصودِ اصلی ہو جاتی ہے. باقی ہر
چیز سے دل خالی ہو جاتا ہے. بس ہر طرف ایک ہی جلوہ نظر آنے لگتا ہے.
تیرے جلوے مجھے اب ہر سُو نظر آنے لگے
کاش یہ بھی ہو کہ مجھ میں تُو نظر آنے لگے
بیقراری بڑھتے بڑھتے دل کی فطرت بن گئی
شاید اب تسکین کا پہلو نظر آنے لگے
پھر محبوب کی خاطردرد سہنے میں وہ لطف آنے لگتا ہے جس کا اندازہ اہل محبت
ہی کر سکتے ہیں. اسی لطف کی طلب میں دیوانے درد سہتے جاتے ہیں۔ پھر جب شوقِ
ملاقات جاگتا ہے. وصال کی تڑپ دل کو بیتاب کر دیتی ہے تو دیوانے اپنے محبوب
کی خاطر اپنے ٹکڑے کروانے کے لیے بے چین اور بے قرار ہوجاتے ہیں. تڑپتے
رہتے ہیں. مارے مارے پھرتے ہیں. روتے گڑگڑاتے ہیں. دعائیں، فریادیں کرتے
ہیں۔ پھرجب محبوب رب کی طرف سے قبولیت آجائے تو اسی درد سے لذت کی وہ انتہا
پا لیتے ہیں جسے شہادت کہتے ہیں. جس کا مزہ جنت بھی نہ بھلا سکے گی
دل میں اب درد محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگی میری عبادت کے سوا کچھ بھی نہیں
میں تیری بارگاہِ ناز میں کیا پیش کروں
میری جھولی میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
اے خدا مجھ سے نہ لے میرے گناہوں کا حساب
میرے پاس اشک ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں
وہ تو مِٹ کر مجھے مل ہی گئی راحت ورنہ
زندگی رنج و مصیبت کے سوا کچھ بھی نہیں
جی ہاں! یہ مرکز عثمان(رض) و علی(رض) والے درد بانٹتے ہیں، سسکیاں ،
آہیںاور نالے دیتے ہیں۔ آہ ! آنسوئوں کی سوغات تقسیم کرتے ہیں. وہ آنسو جو
جہنم کو حرام کر دیتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو آئیں ،کچھ دن رہ کر دیکھ لیں۔ |