جہاد اور اخلاق

طلحہ السیف

’’ اخلاق ‘‘ خُلق کی جمع ہے اور خُلق کہتے ہیں عادت و خصلت کو.
عادت و خصلت اچھی کون سی ہو گی؟ اخلاق کسے کہا جائے گا؟.
انسانوں کی طبیعتوں کے اختلاف کی وجہ سے یہ مسئلہ بھی اختلافی بن جائے گا.
بعض لوگوں کے ہاں برائیاں بھی اچھائیوں کی گنتی میں ہیں اور بعض کے ہاں بعض اچھائیاں برائیوں کے شمار میں .
اس لئے وہ اخلاق جنہیں اپنانے کا حکم دیا گیا ہے ان کی تفسیر کے لئے بھی عقل دوڑانے کی بجائے ’’اوپر‘‘ سے رہنمائی لیتے ہیں.

نبی کریم ö نے اپنی امت کو حکم فرمایا:
تخلقوا باخلاق اللہ ﴿ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اختیار کرو ﴾
اور خود نبی کریم ö کے حق میں قرآن مجید کی گواہی ہے.
انک لعلی خلق عظیم ﴿ بے شک آپ بلند اخلاق والے ہیں ﴾ ﴿ الطور ﴾
اور آپ ö نے اپنی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک کام
بعثت لاتمم مکارم الاخلاق
’’ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے ‘‘.
اخلاق کے اعلی ترین درجے کی تکمیل و تعلیم کو قرار دیا .
ان نصوص سے معلوم ہوا کہ ہر وہ کام جسکی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو.
وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کریمہ جلیلہ کے مطابق ہو.
یا وہ نبی کریم ö نے کیا ہو اور امت کو اسکی تعلیم ارشاد فرمائی ہو .
عین اخلاق بلکہ اخلاق کے اعلی درجات پر فائز ہے .
اب کہیں بعض انسانوں کی کھوٹی عقل.
کسی زمانے کا جھوٹا عرف.
کسی قوم کی فرسودہ روایات.

ایسے کسی عمل کو اخلاق کے زمرے سے نکالنے کی کتنی بھی کوشش کریں ایک مومن ہونے کی حیثیت سے ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم اسے ’’ مکارم اخلاق‘‘ میں سے سمجھیں اور اسے اپنائیں.
ایسے کسی عمل کا ترک اخلاق نبوت سے محرومی کے مترادف ہو گا.
اور معاذ اللہ اسے سرے سے اخلاق ہی نہ سمجھنا. توبہ توبہ .
ایسی سوچ کی شناعت کے بارے میں کیا کہا جائے.
٭.٭.٭

اب ذرا سوچیے وہ لوگ کتنی بُری بات کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ’’ جہاد‘‘ یعنی قتال فی سبیل اللہ .
اللہ کے دشمنوں سے لڑنا . انہیں قتل کرنا. ان کے ٹکڑے اڑانا اخلاق نہیں، اخلاق کے منافی چیز ہے. نعوذ باللہ من ذلک.
جو کام اللہ تعالیٰ نے کیا. اس کا حکم دیا. اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی.
انبیائ کرام نے کیا. نبیوں کے امام ö نے کیا. ملائکہ کے سردار نے کیا.
اگر وہ اخلاق نہیں تو اخلاق کسے کہتے ہیں؟.
﴿۱﴾ قتال عمل الٰہی ہے:
ولکن اللہ قتلھم ﴿ اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو قتل کیا ﴾ الانفال
﴿۲﴾ قتال امر الہی ہے:
اقتلوھم، قاتلوھم، فلیقاتل،
یہ امر اتنی بار قرآن مجید میں آیا ہے کہ گنتے گنتے آپ تھک جائیں گے.
﴿۳﴾ صرف لڑائی کا حکم نہیں بلکہ سخت لڑائی کا حکم. کفار کو نشان عبرت بنا دینے کا حکم. اس قدر مارنے کا حکم کہ لڑائی کے قابل نہ رہیں. خالق اخلاق کی طرف سے بندوں کو دیا گیا:
’’ اے نبی ! اگر آپ ان کو لڑائی کے میدان میں پالیں تو ڈرا دیں ان کے ذریعے پیچھے والوں کو ‘‘ ﴿ الانفال﴾
’’ اور جب تم کفار کے مقابل آؤ تو ان کی گردنیں اڑاؤ. یہاں تک کہ جب خوب خونریزی کر چکو تو مشکیں باندھ لو ﴿ قیدی بنا لو ﴾ پھر احسان کر کے چھوڑ دینا ہے یا فدیہ لے کر . یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے ﴿ محمد، آیت ۴﴾
﴿۴﴾ ہر طرح کی لڑائی کی اجازت بلکہ امر. گھیر کر مارو. چھپ کر وار کرو. بڑے لشکر لے کر لڑو یا چھوٹے گروپ.
’’ پس ان کو پکڑو، ان کا گھیراؤ کرو اور ہر تاک کی جگہ بیٹھو ‘‘ ﴿ التوبۃ﴾
اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو پھر نکلو ٹکرے ٹکرے ہو کر یا اکھٹے ‘‘ ﴿ النسائ ﴾
یہ عمل اور امر ہیں اللہ تعالیٰ کے .
اللہ تعالیٰ کے وہ عظیم بندے جو انسانوں کو اخلاق سکھانے اور دنیا کو اخلاق کا اعلی ترین مرتبہ دکھانے آئے. ہم سب کے آقا و مولیٰ حضرت محمد ö.
آئیے ان کے اخلاق میں جہاد کو ڈھونڈتے ہیں.
﴿۱﴾ نبی کریم ö ۷۲ بار خود بنفس نفیس کفار سے لڑنے تشریف لے گئے ﴿ سیرت المصطفیٰ ﴾
﴿۲﴾ آپ نے ابی بن خلف نامی گستاخ و متکبر کافر کو قتل فرمایا ﴿ سیرت المصطفی ﴾
﴿۳﴾ نبی کریم ö نے درجنوں کفار کا نام لے کر صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ ان کو قتل کر دیا جائے.
کعب بن اشرف، ابو رافع، عصمائ، ابن خطل، خالد بن سفیان ہذلی.
فتح مکہ کے دن ۹۱ نام. صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں مستقل ابواب ہیں جن میں یہ اوامر مذکور ہیں .
﴿۴﴾ نبی کریم ö نے کفار کے قتل پر والہانہ خوشی کا اظہار فرمایا.
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب بدر کے دن ابو جہل کے قتل کی خبر دی نبی کریم ö نے تین بار خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کیا اور اس قدر مسکرائے کی نواجذ ظاہر ہو گئے ﴿ سیرت المصطفی ﴾
﴿۵﴾ نبی کریم ö نے بیت اللہ کے پردوں سے لپٹے ہوئے ابن خطل کے وہیں پر قتل کا حکم صادر فرمایا.
﴿۶﴾ نبی کریم ö نے کافر کے قتل پر قاتلوں کو جنت کی بشارت سے نوازا. کعب بن اشرف اور ابو رافع کے قاتلین کو جنت کا وعدہ بخاری میں مذکور ہے.
﴿۷﴾ نبی کریم ö کے سامنے مسجد میں جہاد کی تربیت کی گئی، آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا اور روکنے سے منع کیا.
﴿۸﴾ آپ ö نے امت کو گھڑ سواری ، تیر اندازی، تلوار بازی، کے فضائل دیے، تاکیدی حکم دیا. اور خود مقابلے کرائے.
اخلاق نبوت کی بات کرنے اور جہاد کو اخلاق کے منافی قرار دینے والے غور سے سنیں !
نبی کریم ö کے اخلاق ہیں کیا؟ .
گھر سے گواہی لیتے ہیں.
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ö کا خلق قرآن مجید تھا. یعنی قرآن کا ہر حکم اخلاقِ نبوت ہے.
اور قرآن مجید میں جہاد و قتال کا کتنا ذکر ہے؟
اب قرآن مجید سے جس طرح جہاد کو نہیں نکالا جا سکتا اسی طرح ’’ جہاد ‘‘ اخلاق نبوی کا بھی جز لا ینفک ہے جسے جدا نہیں کیا جا سکتا.
اور اس سے بھی بڑھ کر آقا مدنی ö کی اپنی گواہی .
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ö سوال کیا.
آپ کی سیرت کیا ہے؟
نبی کریم ö نے فرمایا:
’’ معرفت میرا سرمایہ ہے، عقل میرے دین کی اصل ہے، محبت میری بنیاد ہے، شوق میری سواری ہے، اللہ تعالیٰ کا ذکر میرا ہمدم ہے، توکل میرا خزانہ ہے، غم میرا رفیق ہے، علم میرا ہتھیار ہے، صبر میری چادر ہے، رضائ میری غنیمت ہے، عاجزی میرا فخر ہے، زہد میرا پیشہ ہے، یقین میری قوت ہے، سچائی میرا سفارشی ہے، جہاد میرا اخلاق ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ‘‘ ﴿ الشفائ ص ۷۹ ﴾
’’ الجہاد خلقی ‘‘ میرا اخلاق جہاد ہے۔ یہ الفاظ بار بار پڑھیے تاکہ شفائ نصیب ہو، اس مرض سے جو کفار کے بے بنیاد اور کمزور پروپیگنڈے کے زیر اثر مسلمانوں میں پھیل گیا کہ معاذ اللہ ’’ جہاد ‘‘ اخلاق کے منافی کوئی چیز ہے.
آقا مدنی ö کی سیرت مبارکہ سے متعلق اس سے سچی باتیں کوئی اور کہہ سکتا ہے جو آپ نے خود فرما دیں.
اس سے بھی بڑھ کر دیکھیں !
’’ انتقام ‘‘ بھی اخلاق نبوی ہے.
غزوۂ بنو قینقاع ایک مسلمان عورت کی حرمت اور ایک مسلمان مرد کے خون کے انتقام میں برپا ہوا . تفصیلی واقعہ سیرت المصطفی میں دیکھ لیجیے.
غزوہ موتہ قاصد نبوی کے قتل کے انتقام میں ہوا اور مشہور و معروف سریہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جسکی فکر آقا مدنی ö کو بستر وفات پر بھی تھی اہل موتہ کے انتقام کے لئے روانہ کیا گیا تھا.
نبی کریم ö کے حضرت اسامہ کو یہ الفاظ
’’ اپنے باپ کے مقتل کی طرف جاؤ ‘‘
اس بات کی کافی دلیل ہیں . ایک بیٹے کو باپ کے مقتل کی طرف بھیجنے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟.
وہ بھی لاؤ لشکر دے کر .
آقا مدنی ö کا ہر عمل سراپا اخلاق ہے . قتال کے اخلاق ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ رحم ، عفوودرگزر ، انسانی ہمدردی یہ اخلاق نہ رہے. ان سب کے اخلاق ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کفار پر شدت، قتال وغیرہ اخلاق سے خارج ہوئے.
ان میں سے ہر چیز اخلاق ہے بشرطیکہ اپنے وقت اور موقع پر ہو.
نرمی کے موقع پر سختی، جس طرح بد اخلاقی ہے اسی طرح سختی اور غصے کے موقع پر نرمی بسا اوقات بے غیرتی اور بے حمیتی بن جاتی ہے.
کیا خیال ہے اس شخص کے بارے میں جو اپنے گھر کی عزت و حرمت پر حملہ آور شخص کے بارے میں ’’ اخلاق ‘‘ کے نام پر دل میں ہمدردی اور زبان پر مٹھاس سجا کر بیٹھا ہو اور حملہ آور کام میں مشغول ہو؟ .
تو جب یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے دین کے ساتھ . قرآن کے ساتھ. آقا مدنی ö کے ناموس کے ساتھ .
مسلمانوں کے ساتھ ہر طرف عام ہے ایسے میں خاموشی ، محبت، ہمدردی یا نرمی اخلاق کہلانے کے لائق رہ جاتے ہیں؟ .
فیصلہ آپ خود کر لیجیے.
اور ہاں ! ایک انسان کے جسم سے گلا ہوا عضو یا پھوڑا کاٹنے میں اسے کتنی تکلیف پہنچائی جاتی ہے؟.
مگر اسے کوئی بد اخلاقی نہیں کہتا.
اور کفر کی طاقت . کفر کی حکومت اور کفر کا تسلط جو مسلمانوں کے ایمانوں کے لئے کینسر سے زیادہ خطرناک ہے اسے کاٹنا بد اخلاقی ہو. یقیناً یہ دہرا معیار ہے جو اسلام میں ہرگز روا نہیں .
خلاصہ یہ ہے کہ ’’ اخلاق ‘‘ صرف وہی ہیں جو آقا مدنی ö نے سکھائے .
اور ان میں ’’ جہاد ‘‘ ایک نمایاں خُلق ہے.
جہاں ہمارے آقا ö نے نرمی والے اخلاق سکھائے وہاں اخلاق صرف نرمی .
جہاں ہمارے آقا ö نے تلوار، تیر، خنجر، نیزے والے، خون والے، جسموں کے ٹکڑوں والے اخلاق سکھائے وہاں اخلاق صرف وہی .
ہمارے آقا ö سے اخلاقی تربیت پانے والی جماعت کے اخلاق قرآن مجید کے الفاظ میں ملاحظہ ہوں.
’’ کفار پر سخت اور آپس میں نرم دل ہیں ‘‘ ﴿ الفتح ﴾
مگر یہاں الٹ معاملے پر اصرار ہے .
کفار سے اتنی محبت کہ مجاہدین پر اس لئے ناراض ہیں کہ یہ کفار کو قتل کیوں کرتے ہیں.
اور اہل ایمان کے لیے مسجد میں تعلیم کی اجازت نہیں بیان پر پابندی ہے .
ایں چہ بو العجبی است.
٭.٭.٭
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210676 views A Simple Person, Nothing Special.. View More