تحفظِ ختم ِنبوت،اکابرین ملت اور ہماری ذمہ داریاں ۔ ۔ ۔ ۔

سات ستمبر یوم ختم نبوت کے حوالے خصوصی تحریر

عقیدہ ختم نبوت اسلام کی بنیاد و اساس ہے جس پر مکمل ایمان رکھے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا،قرآن مجید کی 100 کے قریب آیات مبارکہ اور 200 سے زائد احادیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی نہیں،تمام صحابہ کرام،تابعین عظام،تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین،محدثین،متکلمین،علماء اور صوفیاء سمیت پوری اُمت مسلمہ کا اِس بات پر اجماع رہا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی،لہٰذا اب اگر کوئی شخص کسی بھی معنوں میں دعوائے نبوت کرتا ہے تو وہ بالاتفاق اُمت کافر و مرتد،کذّاب و دجّال اور دائرہ اسلام سے خارج قرار پاتاہے،حضورخاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں،آپ کے بعد کسی شخص کو اِس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا،جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے عقیدہ ختم نبوت ثابت ہے،بالکل اسی طرح احادیث متواترہ سے بھی یہ بات ثابت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں” میں خاتم النبیین ہوں،میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“ (ابوداود جلد2،ص:228)”رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔“(ترمذی،جلد2،ص51)” میں آخری نبی ہوں اورتم آخری امت ہو۔“ (ابن ماجہ:297)

اِن ارشادات ِ نبوی میں اِس اَمرکی تصریح فرمادی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کی اُمت آخری امت،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے،یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں،جو اللہ تعالیٰ نے پورے کر دیے، امام اہلسنّت الشاہ احمد رضا فاضل بریلوی کے مطابق ”حضور پر نورخاتم النبیین سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم یعنی بعثت میں آخر جمیع انبیاء و مرسلین بلا تاویل و بلاتخصیص ہونا ضروریات دین سے ہے،جو اِس کا منکر ہو یا اِس میں ادنیٰ شک و شبہ کو بھی راہ دے،کافر مرتد ملعون ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ جلد 6 ۔ص 57) اِن تصریحات،تشریحات اور دلائل و اقوال سے یہ بات ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں،آپ کے بعد قیامت تک نبوت و رسالت کا سلسلہ بند ہوچکاہے،اِس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم کے بعد جو شخص بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے اور پھر اس دعوے کے بارے میں کتنی ہی تاویلیں کیوں نہ کرے،اپنی نبوت کو ظلّی،بروزی،تشریعی،غیر تشریعی،یا لغوی ثابت کرنے کیلئے لاکھ جتن کرے،لیکن اسے کافر،مرتد اور زندیق ہی قرار دیا جائے گا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے،اُن میں سے ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دی اور گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی تصدیق کی،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی تصدیق تو فرمائی لیکن کسی نئے آنے والے نبی کی بشارت نہیں دی،بلکہ فرمایا”قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ 30 کے قریب دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں،جن میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔“ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا”قریب ہے کہ میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں،ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں،حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں،میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“اِن ارشادات میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ”مدعیان نبوت“ کے لئے دجال اور کذاب کا لفظ استعمال فرمایا،جس کا معنیٰ ہے کہ” وہ لوگ شدید دھوکے باز اور بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے ہوں گے،اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو اپنے دامن فریب میں پھنسائیں گے۔“ لہٰذا اُمت کو خبردار کردیا گیا کہ وہ ایسے عیار ومکار جھوٹے مدعیان نبوت اور اُن کے ماننے والوں سے دور رہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس پیشنگوئی کے مطابق عہد رسالتمآب سے لے کر آج تک سینکڑوں کذاب اور دجال مدعیان نبوت پیدا ہوئے،جن کا حشر تاریخ اسلام سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں ۔

لیکن بیسویں صدی میں فرنگی سرپرستی میں قادیان کے ایک ضمیر فروش مرزا غلام احمد قادیانی نے جس نبوت ِکاذبہ کا دعویٰ کیا،اُس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا تھا کہ جو بھی شخص مرزا کی نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے،چنانچہ قادیانیوں نے بھی یہی کیا،انہوں نے اُن تمام مسلمانوں کو اپنی تحریر و تقریر میں اعلانیہ کافر قرار دیا،جنھوں نے مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانا، قادیانیوں کا مسلمانوں سے اختلاف صرف مرزا کی نبوت کے معاملے میں ہی نہیں تھا،بلکہ خود قادیانیوں نے اپناخدا،اپنا اسلام، اپناقرآن،اپنی نماز،اپنا روزہ،غرض کہ اپنی ہر چیز مسلمانوں سے الگ قرار دی،جس کا منطقی نتیجہ ظاہر ہے کہ اُن کے غیر مسلم اقلیت ہونے کی شکل میں نکلا،مرزا قادیانی نے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا،برصغیر میں مرزا کی عجمی نبوت کا مقصد انگریزی اقتدار کی مضبوطی کیلئے مسلمانوں کی فکری وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور جذبہ جہاد کا خاتمہ تھا،مرزا کی ساری زندگی انگریزکی حاشیہ برداری میں گزری،اُس نے اپنی زندگی کا اِک اِک لمحہ حکومت برطانیہ کی مدح سرائی اور جاسوسی میں صرف کیا،انگریز کا دور حکومت مرزا کے نزدیک ”سایہ رحمت اور ایسے امن و استحکام کا باعث تھا،جو اُسے مکہ و مدینہ میں بھی نہیں مل سکتا۔“ایسی صورت میں مرزا کے متبعین یہ کب گوارہ کرتے کہ انگریز اِس سرزمین سے چلے جائیں،چنانچہ مرزا کی جماعت نے برصغیر میں انگریزکے قیام کو طول دینے کیلئے اُسے ہرممکن مدد و معاونت فراہم کی،حقیقت یہ ہے کہ قصر نبوت میں نقب لگانے کی کوشش کرنے والے مرزا کی ذرّیت نے ”اکھنڈ بھارت “کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تحریک پاکستان کی ہی مخالفت نہیں کی بلکہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد بھارت و اسرائیلی گٹھ جوڑ سے عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف سازشیں کرکے وجود پاکستان کو نقصان پہنچانے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔

یہاں یہ تاریخی حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ قادیانیت کے خلاف تحریک تحفظ ختم نبوت کی رہبری و قیادت میں علماءو مشائخ اہلسنّت ہمیشہ پیش پیش رہے،علمائے اہلسنّت و جماعت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سب سے پہلے مومنانہ فراست سے کام لیتے ہوئے مرزا کے کفر و نفاق اور اُس کے مزموم عقائد کا پردہ چاک کرکے اُس کا اُس وقت زبردست ردّ کیا،جس وقت کچھ لوگ مرزا ئے قادیانی کو” مرد صالح “اور اُس کی کتاب”براہین احمدیہ“ کو صدی کا شاہکار قراردے رہے تھے،عین اُسی وقت علمائے حق اہلسنّت و جماعت کے نمائندے عارف کامل”علامہ غلام دستگیر قصوری رحمتہ اللہ علیہ“ مرزا قادیانی کی کتاب ”براہین احمدیہ“ میں کئے گئے مرزا کے دعووں کا بطلان اپنی کتاب”رجم الشیاطین براغلوطات البراہین“میں پیش کرکے اُس کے کفر و گمراہی کا پردہ چاک کیا،علامہ غلام دستگیر قصوری رحمتہ اللہ علیہ برصغیر کے سب سے پہلے عالم دین تھے جنھوں نے مرزا کی کتاب” براہین احمدیہ “ کے ابتدائی حصے پڑھ کر اُس کے کفرگمراہی کو بھانپ لیا تھا اور انہوں نے بروقت اِس فتنے کا ردّ کرکے برصغیر کے مسلمانوں کو مرزا کے ناپاک عزائم سے آگاہ کیا ۔

حقیقت یہ ہے کہ تعاقب فتنہ قادیانیت کے سب سے پہلے سرخیل علامہ غلام دستگیر ہاشمی قصوری سے لے کر پیر سیدنا مہر علی شاہ صاحب،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں فاضل بریلوی،حجة الاسلام علامہ حامد رضاخان،امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب،مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی،پروفیسر محمد الیاس برنی،قاضی فضل احمد لدھیانوی،تاج العلماء مولانا مفتی عمر نعیمی،مفتی مظفر احمد دہلوی،قائد تحریک ختم نبوت 1953 علامہ ابوالحسنات سید محمداحمد قادری،مجاہد ملت حضرت علامہ عبدالستار خان نیازی،غازی تحریک ختم نبوت 1953 سید خلیل احمد قادری،حضرت شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی، مفتی ظفر علی نعمانی،صوفی محمد ایاز خان نیازی اورعلامہ عبدالمصطفیٰ الازہری،رحمھم اللہ تعالیٰ اجمعین تک ہزاروں علماء و مشائخ اہلسنّت شامل ہیں،لیکن عصر حاضر میں جس کے نام پر قادر مطلق نے تحریک ارتداد قادیانیت کا سہرا مقدر فرمایا وہ شخصیت حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے،تاریخ اسلام میں ریاست و مملکت کی سطح پر فتنہ انکار ختم نبوت کو کفرو ارتداد قرار دینے اور اُس کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کرنے کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ اوّل سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا اور اُن کے بعد یہ اعزاز اُنہی کی اولاد امجاد میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو نصیب ہوا ۔

علامہ شاہ احمد نورانی نے 30جون 1974 کو قومی اسمبلی میں قادیانیت کے خلاف قرار داد پیش کرنے سے لے کر اُس کی منظوری تک نہایت ہی محنت و جانفشانی سے کام کیا،اِس دوران آپ نے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کے ساتھ،اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لینے،انہیں مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت و حیثیت سے روشناس کرانے،رات گئے تک اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے ساتھ قادیانیوں سے پوچھے جانے والے سوالات کی تیاری کے ساتھ،مرزا ناصر اور صدرالدین لاہوری کے محضر نامے کے جواب میں 75 سوالات پر مشتمل سوالنامہ کی تیاری میں بھی بھر پور حصہ لیا،آپ نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کے رکن ہونے کے باوجود عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے ملک بھر کے طوفانی دوروں میں چالیس ہزار میل کا سفر طے کیا اور ڈیڑھ سو سے زائد شہروں،قصبوں اور دیہاتوں میں عوامی جلسوں سے خطاب کرکے مسلمانوں کو قادیانیوں کے گمراہ کن عقائد،فتنہ پردازیوں اور شرانگیزیوں سے آگاہ کیا،پاکستان کی تاریخ میں اسمبلی فلور پر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے سب سے پہلے مسلمان کی تعریف کو آئین کا حصہ بنانے کا مطالبہ کرنے والے علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی پیش کردہ قرار کے نتیجے میں 7 ستمبر 1974 کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو اُن کے کفریہ عقائد کی بناء پر غیر مسلم اقلیت قراردیا اور یوں نوّے سالہ فتنہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا ۔

قارئین محترم ! علماءاسلام کی گرفت اور پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے بعد قادیانی جماعت نے اپنے لٹریچر کو چھپانے کی منظم کوشش کی اور اپنے اسلام دشمن عقائدپر تقّیہ کا پردہ ڈال کر اہل اسلام میں نقب زنی کا عمل جاری رکھا ہواہے،ایسے میں ضرورت اس اَمرکی ہے کہ قادیانیت کے کفر و ارتداد کو مستند شہادتوں کے ساتھ عوام کے سامنے لایاجائے اور قادیانیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں،اسلام کے خلاف ہرزہ سرائیوں،مضحکہ خیزیوں اور کفریہ عقائد و عزائم کا بھر پور محاصرہ کیا جائے اور اُن کے راہ فرار کے تمام دروازے بند کردیئے جائیں،اس کام کیلئے ہم سب کو اپنا بھرپور،فعال اور متحرک کردار ادا کرنا ہوگا،دعا ہے کہ اللہ کریم فتنہ قادیانیت کی سرکوبی اور بیخ کنی کیلئے ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح سرفروشانہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین بحر مة خاتم النیین سیّد المرسلیٰن وعلی و آلہ و اصحابہ اجمعین)
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358403 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More