موت اللہ کی رحمت اور طریقہ غسل میت

از قلم:مولانا سیدمحمد امین القادری صاحب(نگراں سنی دعوت اسلامی،مالیگاﺅں،انڈیا)

ا س عالم رنگ وبو میں بے شمار انسان بستے ہیں۔ اور سب کسی نہ کسی معاملے میں اختلاف رکھتے ہیں۔ مثلا رنگ میں صورت میں سیرت میں مذہب میں مسلک میں عقیدے میں عمل میں مگر موت ایسی تلخ حقیقت ہے کہ اس پر تمام انسان متفق نظر آتے ہیں۔قرآن مقدس نے جا بجا موت کا ذکر فرمایا۔ (۱) ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے(سورئہ ال عمران آیت نمبر 185)(۲) تم فرماﺅ وہ جس سے تم بھاگتے ہو وہ ضرور تمہیں ملنی ہے۔ (سورئہ جمعہ آیت ۸) (۳)تم جہاں کہیں ہو موت تمہیں آئے گی اگر چہ مضبوط قلعوں میں ہو(سورئہ نساءآیت 78) درج بالا آیات کے ترجمہ سے صاف طور سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ موت سے بچنا ممکن ہی نہیں جب موت کا وقت آتا ہے تو ساری تدبیریں ناکام ہوجاتی ہے اور انسان کو نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا سے رخصت ہونا پڑتا ہے جب یہ روز روشن کیطرح عیاں ہے اور موت آنی ہی ہے تو ہمیں چاہیئے کہ ہر وقت موت کی تیاری میں مصروف رہیں تاکہ وقت رخصت پشیمانی اور شرمندگی سے محفوظ رہ سکیں۔ اور جب بھی موقع ملے رشتہ دار واحباب کی اموات کے موقع پر شرکت کریں۔ تاکہ دل میں موت کی یاد تازہ رہے۔ اور دنیا سے بے رغبتی ہو۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگجنازہ میں شرکت تو کرتے ہیں مگر آداب واحکام سے لا علمی کی بنیاد پر تجہیز وتکفین میں بے چار سومات اور بدعات کا شکار ہوجاتے ہیں۔لہٰذہ عوام الناس کی اصلاح کیلئے چند سطور قرطاس کی نذر کر رہا ہوں۔ تاکہ ایسے موقع پر بدعات سے بچتے ہوئے مسنون طریقے کو اختیار کر کے اللہ عزوجل اور اسکے پیارے محبوب ﷺ کی خوشنودی حاصل کریں۔

٭موت اﷲ کی رحمت:حضور سید عالم جان عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا موت ایک پل ہے جو محب کو محبوب سے ملادیتی ہے دوسرے مقام پر تاجدار مدینہ ﷺ فرماتے ہیں موت مومن کیلئے کفارہ گناہ ہے(بحوالہ جامع صغیر) یعنی ۔اللہ کے بندے ایسے ہیں جو زندگی میں گناہوں سے آلودہ تھے مگر موت کی تکلیف انکے لئے معافی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

٭تدفین میں جلدی: ہمارے معاشرے میں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ رشتہ داروں واحباب کیلئے بلا وجہ تاخیر کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کے پیارے حبیب عالم ماکان وما یکون ﷺ نے ارشاد فرمایا کے جنازے میں جلدی کرو اس لئے اگر وہ اچھا آدمی ہے تو تم اس کو بہتر ٹھکانے تک جلدی پہنچاﺅگے اور وہ اچھا نہیں ہے تو تم اپنے کاندھوں سے برائی کا بوجھ دور کرو گے۔ (مسلم شریف) دوسری روایت میں ہے اور اس کی تیاری میں جلدی کرو کیونکہ کسی مسلمان کی لاش کا اسکے گھر والوں کے درمیان پڑے رہنا مناسب نہیں ہے(ابو دادو شریف) اس تعجیل (جلدی کرنے )کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کسی کا انتقال جمعہ کے دن ہو تو محض اس وجہ سے نماز جمعہ تک تاخیر کرنا مکروہ ہے کہ نماز جمعہ کے بعد جنازہ میں مجمع کثیر ہوگا بلکہ جیسے ہی تیاری مکمل ہوجائے نماز جنازہ پڑھ کر دفن کردینا چاہیئے۔(در مختار)

٭غسل میت:میت کو نیم گرم پانی سے غسل دینا مستحب ہے کیونکہ ٹھنڈے پانی کے مقابلے میں گرم پانی جسم سے میل کچیل جلدی اور آسانی سے دور کرتا ہے دور رسالت میں بیری کے پتوں میں جوش دیکر نیم گرم پانی سے غسل دیا جاتا تھا ۔چنانچہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی سید ہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو غسل دے رہے تھے آپ ﷺ نے فرمایا اسے تین پانچ مرتبہ اس سے زیادہ جتنا تم مناسب سمجھو غسل دو غسل بیری اور پانی سے دینا آخر میں کچھ کافور ملا ہوا پانی بہانا۔(بخاری مسلم ،فتاوی رضویہ) بہتر یہ ہے کہ میت کو غسل دینے والا میت کا سب سے قریبی رشتہ دار ہو اگر وہ موجود نہ ہو یا موجود ہو مگر نہلانے کا مسنون طریقہ نہیں جانتا تو اس سورت میں کوئی پر ہیزگار متقی میت کو غسل دے۔ اسی طرح میت کے بالوں میںکنگھی کرنا ناخن تراشنا مکروہ تحریمی ہے (در مختار) ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ ایک عورت کی میت کو کنگھی کی جارہی ہے تو آپ نے فرمایا کہ کیوں میت کو تکلیف پہنچارہی ہو (مصنف عبدالرزاق)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731346 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More