(اور نہ) ان لوگوں میں (ہونا )جنہوں
نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور (خود)فرقے فرقے ہوگئے۔
سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے۔( القرآن ،سورة الروم ، آیت 32)
اسلام کسی خظہ زمین کے لئے مخصوص نہیں بلکہ خطہ زمیں کے لئے نظام اسلام کا
آئین انبیا ءعلیہ السلام کے توسط سے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے
آسمانی کتابوں اور صیحفوں کی صورت میں بذریعہ وحی دیا گیا ۔ انسانوں کی
جانب سے متواترتحریف نے سابقہ آسمانی کتابوں کو متنازعہ بنا دیا اور منحرف
اقوام کی وجہ سے اللہ تعالی کی جانب سے عذا ب و تباہی مختلف اشکال میں بطور
سزا بھی اس وقت تک دی جانے لگی جب تک حضرت نبی آخر الزماںصلی اللہ علیہ
وسلم کو قرآن کریم اس حکم کے ساتھ مکمل اور محفوظ بنا کر دے دی گئی کہ اب
اس میں کوئی انسانی ہاتھ تحریف تو نہیں کرسکتا لیکن فرقے فرقے بننے کےلئے
اپنے تئیں تاویلات نہ بنا لینا۔
مدینہ ریاست اسلامی نظام کےلئے بننے والی پہلی خطہ زمین تھی جیسے انصار مکہ
اور مہاجر ِ مدینہ نے مل کر عظیم قوت بنا دیا اور اسلامی ریاست کی حدود
چھوٹے سے شہر سے بڑھ کر دنیا بھر میں کچھ اس طرح پھیل گئی کہ اس زمین کا
کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں اذان کی آواز بلند نہ ہوتی ہو اور مسلمان سجدہ ریز
نہ ہوتے ہوں۔لیکن جہاں قوت و طاقت بڑھتی ہے وہاں سازشیں بھی سر اٹھاتی ہیں
جنہیں دبانے کےلئے ہر مسلم حکمران نے اپنے زمینی حقائق کے مطابق اقدامات
کئے اوراپنی سلطنت کے انتظام کے لئے علاقائی روایات،اور مذہبی رجحانات کے
تحت احکامات اور آئین بھی بنایا۔آج ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ مسلم
حکمرانوں نے سینکڑوں سال غیر مسلموں سے جزیہ لیکر انھیں امان دیا ۔سائنس کی
ایجادات میں مسلمانوں کا سب بڑا ہاتھ ہے ، جدید سائنس کی بنیاد مسلمانوں نے
رکھی اور پھر ہم یہ کہتے بھی نہیں تھکتے کہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوج
رکھنے والی ایٹمی قوت پاکستان بنا ہی اسلام کے نام پر تھا۔
اب یہی پاکستان اسلام کے نام لیواؤں کے ہاتھوں دنیا بھر میں تضحیک و شدت
پسندی کی علامت بنا ہوا ہے۔شدت پسندی، عدم برداشت کی رویوں کی بنا ءپر ہر
مکتبہ فکر میں جاگزیں ہوچکا ہے۔ سیاست میں عدم برداشت ، اخلاقیات میں عدم
برداشت ، مذہبی رواداری میں عدم برداشت کے رویوں نے اکثریت کو متشدد بنا
دیا ہے۔ اکثریت اپنی فکر و فلسفے و منشور کو مجادلہ سے نہیں بلکہ بزور طاقت
اقلیت پر حاوی کرنا چاہتا ہے۔سب سے بڑا بگاڑعقائد کی ترویج کے لئے تشدد کا
استعمال ہے جس کی وجہ سے ہر مکتبہ فکر دہشت گردی کے طوفان میں گھرا نظر آتا
ہے۔مزارات اورمساجد میں خود کش دہماکے اور حملے، مخصوص فقے کے لوگوں کو
شناخت کرکے دہشت گردی کا نشانہ بنانا ایسا ہی جیسا دہشت گرد پاکستان کی
حدود باجوڑ سے فوجیوں کو اغوا کرکے سر قلم کرنے وحشیانہ واقعات۔لسانی
،سیاسی بنیادوں پر صرف کراچی میں ہزاروں معصوم لوگوں کو شناخت کرکے ہلاک
کیا گیا۔بسوں میں شناختی کارڈ چیک کرکے علاقوں کی نسبت کی بنا ءپر معصوم بے
گناہ انسانوں کے سر قلم کرکے فٹ بال کھیلے جانے کے واقعات زیادہ پرانے نہیں
ہیں۔مزدور ، محنت کشوں کو بسوں ، رکشہ ، ٹیکسوں ،پتھارے دارں ، فیکٹریوں سے
آنے والے بے قصور انسانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا مقصد بھی وہی تھا جو گلگت ،
لولوسر، کوہستان،گنج ہزاری میں بسوں سے اتار کر بے گناہ انسانوں کے قتل عام
کرنے سے تھا۔ کراچی میں ایسا کون سا دن ہے جہاں دہشت گردی کے ہاتھوں ہلاک
ہونے والوں کی تعداد کم ہو۔
یقینی طور پر مسلک کے نام پر مزارات ، مساجد ، امام بارگاہوں پر دہماکے
کرکے بے گناہ مسلمانوں کے قاتل اسلام کے نام لیوا نہیں ہوسکتے ۔مذہبی
ریلیوں ، جلسوں اور نشتر پارک میں بارہ ربیع الاول کو جید علما اکرام اور
عام مسلمانوں کو شناخت کرکے دہشت گردی کرنے والوں کا تعلق بھی اسلام سے
نہیں ہوسکتا۔شیعوں کو مسلک کی بنیاد پر بسوں سے اتار کر ہلاک کرنے والے بھی
اسلام کے داعی نہیں ہوسکتے۔کیونکہ اسلام امن و آشتی کا پیغام و حکم دیتا ہے
۔ فرقہ پرستی کو امت کی وحدت کے لئے زہر قاتل قرار دیتا ہے۔تو ہم کس طرح
کسی ایک فقہ کو بنیاد بنا کر کسی دوسری فقہ کے ماننے والوں کو قابل گردن
زنی سمجھیں ۔
دہشت گردوں کا بنیادی مقصد پاکستان کی وحدت و یکجہتی کو نقصان پہنچا کر
اپنے مذموم مقاصد ا حصول چاہنا ہے ۔ وہ کبھی لسانیت کے نام پر بے گناہ
انسانوں پر بسوں میں فائرنگ کرکے دہشت گردی کرتا ہے تو کبھی مذہب کے نام پر
خود کش دہماکے کرا کر تو کبھی فرقہ وارانہ فسادات کرانے کےلئے مخصوص انداز
میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کرکے دہشت گردوں کے ایجنڈے کے مطابق مملکت
کی بنیادیں کمزور ار پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔کہیں نسلی عصبیت کے نام
پر ، تو کہیں لسانیت کے نام پر تو کہیں فرقہ واریت کے نام پر ملکی سا لمیت
و بقا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پھر عجب تماشہ یہ ہے کہ واقعہ
کہیں بھی ، کیسا ہی ، کسی کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ، احتجاج اور بد امنی کا
محور کراچی کو اس لئے بنا دیا جا تا ہے کیونکہ ستر فیصد ریونیو دینے والا
معاشی شہہ رگ متاثر ہوگا تو پورا ملک متاثر ہوگا۔اس سلسلے میں کراچی کو
سیاسی ار مذہبی اختلافات کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ایم کیو ایم کی جانب
سے اتحاد بین المسلمین کانفرنس ار فورم کا قیام دیگر جماعتوں کے لئے قابل
تقلید عمل ہے کہ مسلمانوں میں ملی وحدت کےلئے سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی
اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مذہب کے نام پر سیاست اگر قومی سلامتی کےلئے ہے
تو یہ عین اسلامی روح کے مطابق ہے لیکن اصلاح کے نام پر شر پھیلانا مقصد ہے
تو ایسی سیاست کیا فائدہ ، جو عوام میں تحفظ کا احساس ہی پیدا کرنے میں
ناکام ہو اور سیاست کا مقصد صرف اقتدار کا حصول ہو اور اس کےلئے رسہ کشی
ہو۔
استاد محترم حاوی اعظم کچھ اس طرح سمجھاتے ہیں کہ" جب کمزور کو عدم تحفظ کا
مکمل احساس شکنجے میں جکڑ لیتا ہے تو اپنے حق میں تاویلیں تلاش کرتا ہے۔
ہوتے ہوتے و ہ مقام آتا ہے کہ اُسے تاویلوں کی ضرورت پیش نہیں آتی ،بلکہ ہر
چیز اسے گمان کے عین مطابق دکھائی دینے لگتی ہے ۔ایسے میں کمزوری بذات خود
ایک بڑی طاقت بن کر مہاتما بدُھ یا مہایر کی صُورت اختیار کرلیتی ہے ۔ جو
کمزوری کی خامی کو سب سے بڑی طاقت یا خوبی سمجھتے ہیں۔کمزوروں کی اکثریت کے
باعث اپنی ہمنوائی میں زبردست اضافہ دیکھ کر ان کی کمزوری کو زبردست تقویت
ملتی ہے۔پھر وہ اپنی عظمت اور طاقت وروں کی گراوٹ کا اعلان کردےتے ہیں۔"یہی
وجہ ہے کہ ہر مکتبہ فکر دہشت گردی کے طوفان کی زد میں ہے۔ |