پاکستان بھارت جنگوں کے سربستہ راز

یہ جملہ ہم سکول میں پڑھتے آئے ہیں کہ ” بزدل دشمن نے6ستمبر1965ءکو رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کر دیا“ اور شاید اب بھی اس طرح کے جملے ہمارے نصاب میں شامل ہیں۔حقائق سے آگاہی کا سلسلہ شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ 6ستمبر سے کئی ماہ قبل ہی پاکستان کے فوجی دستے اور رضاکار مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو کر بھارتی فورسز کے خلاف لڑائی میں مصروف تھے۔

قدرت اللہ شہاب اپنی مشہورخود نوشت ” شہاب نامہ“میں لکھتے ہیں کہ 1962ءکی چین بھارت جنگ سے چند دن پہلے ایک رات پاکستان میں تعینات چین کے سفیر نے ہنگامی طور پر قدرت اللہ شہاب سے ملاقات کی اور انہیں اس بارے میں اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس موقع پر آسانی سے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج داخل کر سکتا ہے۔قدرت اللہ شہاب(جن کا تعلق جموں سے تھا) لکھتے ہیں کہ وہ چینی سفیر سے ملاقات کے بعد فوری طور پر آدھی رات کو ایوب خان کے بیڈ روم کے باہر پہنچے اور انہیں جگایا گیا،ایوب خان نے ناگواری سے جگائے جانے کہ وجہ پوچھی،قدرت اللہ شہاب نے چین کے سفیر سے اپنی ملاقات اور اس کی تفصیل بتائی اور کشمیر میں فوج داخل کرنے کی بات کہی۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ سنتے ہی ایوب خان غصے میں آ گیا اور کہنے لگا کہ تم سویلین لوگ جنگ کو نہ جانے کیا سمجھتے ہو۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ وہ کشمیر کو حاصل کرنے کا ایک نادر موقع تھا جو ایوب خان نے گنوا دیا۔

کیپٹن عالمگیر آپریشن جبرالٹر کے پانچ گروپوں میں سے ایک گروپ کے ہیڈ تھے ۔اس گروپ کا کام سرینگر پر قبضہ تھا۔کشمیری النسل کے کیپٹن عالمگیر نے90ءمیں ”آپریشن جبرا لٹر“ کے نام سے کتاب لکھی جس میں اس آپریشن کے تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ کیپٹن عالمگیر لکھتے ہیں کہ گروپوں کو فراہم کیئے جانے والے سامان کی حالت ناقص تھی،ان گروپوں کو گورکھا رجمنٹ کے چھوٹے بوٹ فراہم کئے گئے ۔کیپٹن عالمگیر لکھتے ہیں کہ ہمیں مقبوضہ کشمیر میں جس شخصیت سے ملکر مدد حاصل کرنے کو کہا گیا تھا ،وہ انہیں دیکھ کر حیران و پریشان رہ گیا کیونکہ اس کو ان کی آمد کی کوئی اطلاع نہ تھی۔ان گروپوں کو سپلائی نہ ملی،منصوبے کے مطابق اقدامات نہ کئے گئے ،گروپوں کے درمیان رابطہ نہ رہا،اور جب کیپٹن عالمگیر کا گروپ واپس آیا تو بیس کیمپ کی ذمہ داری والا گروپ اپنی جگہ موجود ہی نہ تھا۔مزید لکھتے ہیں کہ سرینگر پر حملے کا منصوبہ بنایا تو جوان چھپ گئے اور واپسی کے سفر کے دوران ظاہر ہوتے گئے اور واپسی کے سفر میں شامل ہوتے گئے۔کیپٹن عالمگیر لکھتے ہیں کہ جوانوں کے چھپ جانے اور حملے کے منصوبے کی ناکامی پر میں دریا کے کنارے بیٹھ کر دیر تک روتا رہا۔ آج یہ بات واضح ہے کہ آپریشن جبرا لٹرمقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے بجائے ایوب خان کو کمزور کرنے کا ایک منصوبہ تھا،وزیر خارجہ ذولفقار علی بھٹو نے ایوب خان کو نہ صرف یہ کہ اس آپریشن کے لئے راضی کیا بلکہ انہیں یہ یقین دلانے میں بھی کامیاب رہے کہ اس کے جواب میں بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔بڑی عجیب بات ہے کہ 1962ءمیں سازگار ماحول کے باوجود جنرل ایوب وادی کشمیر میں فوجی دستے داخل کرنے پر راضی نہ تھے پھر صرف دو ڈھائی سال میں ایسا کیا ہو گیا کہ ناموافق حالات کے باوجود ایوب خان نامناسب تیاری کے ساتھ پانچ گروپوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر آزاد کرانے کے لئے پر امیدہو گئے جن گروپوں میں اکثریت رضاکاروں کی تھی؟

پاکستان میں کمانڈوز تیار کرنے کے خالق جنرل ابو بکر عثمان مٹھا اپنی آبیتی میں لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب نے ایک مرتبہ ان سے مقبوضہ کشمیر کو گوریلوں کے ذیعے آزاد کرانے کے بارے میں رائے طلب کی،جنرل مٹھا نے ناموافق حالات کی وجہ سے ایسے کسی منصوبے کی مخالفت کی۔پھر جب آپریشن جبرالٹر ہوا تو جنرل مٹھا کو اس کی کوئی خبر نہ تھی جبکہ وہی کمانڈوز تیار کرنے کے ذمہ دار تھے۔

میجر(ر) امیر افضل خان اپنی کتا ب ” پاکستان کی کہانی “ میں لکھتے ہیں کہ ستمبر کے مہینے میں ہی جبکہ صورتحال یہ تھی کہ پاکستانی فوجیوںکو چھٹیوں پر خصوصی طور بھیجا جا رہا تھا اور بھارت سے ملنے والی سرحدوں پر معمولی انداز میں فوجیوں کی تعیناتی بھی تقریبا خفیہ انداز میں جاری تھی، اسی دوران اطلاع ملی کہ اٹاری،واہگہ سے ایک امریکی فوجی افسر سرحد عبور کر کے لاہور آئے گا، اس دوران اس کو پاکستانی فوج کی سرگرمیاں نظر نہ آنے کی ہدایات آئیں۔امریکی فوجی افسر بھارتی فوج کی ایک جیپ میں بھارتی ڈرائیور اور ایک شخص کے ساتھ آیا ،امریکی فوجی افسر کو لاہور چھوڑتے ہی بھارتی فوج کی جیپ امریکی فوجی افسر کا سامان لینے کے بہانے واپس روانہ ہو گئی۔اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے مصنف کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ بھارت حملہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا جبکہ امریکہ حملے کے لئے بھارت کی حوصلہ افزائی میں مصروف تھا۔1965ءکی لڑائی کے بعد جنرل ایوب خان نے خود کو فیلڈ مارشل کا خطاب دے دیا ،یعنی جنگ جیتنے والا جنرل۔

کئی اوقات مختلف حلقوں کی طرف سے کہا جاتا اور باور کرایا جاتا رہا ہے کہ ” پاکستان نے کشمیر کے لئے تین جنگیں لڑی ہیں“ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے لئے پاکستان نے جنگ لڑی ہی کب ہے۔بدقسمتی سے شاہی رازوں کی طرح پاکستان کی پالیسیاں اور اقدامات بھی معمہ ہی رہتے ہیںکیونکہ عوام کو حقائق سے لاعلم رکھنے اور جھوٹ پر مبنی اطلاعات پر یقین کرنے کی سرکاری تلقین کا چلن ہی رہا ہے۔گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کا معاملہ ہو،لیاقت علی خان کے قتل کی منصوبہ بندی ہو ،محترمہ فاطمہ جناح کی پراسرار وفات،1947-48ءکی جنگ کشمیر،1958ءکا مارشل لاء،انڈس واٹر ٹریٹی ہو،سقوط ڈھاکہ ہو ،کرگل کی لڑائی ہو،سیاچن کا محاذ ہو یا دہشت گردی کے خلا ف حالیہ جنگ،ہر معاملے میں پاکستانی عوام کو من پسند ”افسانے “سنائے جاتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947-48ءکی جنگ،1965ءکی جنگ،1970ءکی جنگ،سیاچن کی لڑائی،کرگل کی لڑائی اور اب پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری لڑائی،ہر ایک کے ر ازایسے پوشیدہ راز ہیں جنہیں راز میں ہی رکھے جانے کو قومی مفاد قرار دیا جاتا ہے۔اور ایسا پاکستان کے وہ پالیسی ساز ہی کرتے ہیں جن کی ناکام پالیسیوں نے ملک کو قوم کو بربادی ،نامرادی ،افلاس اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔محققین کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی گئی جنگیں اور لڑائیوں سے متعلق سربستہ راز تحقیق کے بڑے موضوعات ہیں اور ان حقائق و محرکات کو سامنے لانا پاکستان میں بہتری کی کوششوں کے حوالے سے بھی نہایت اہم ہے۔ پاکستان کے لئے جان و مال کی قربانیاں دینے والے تو نیک مقاصد سے اپنا شاندار کردار ادا کرتے ہیں لیکن یہ پالیسی ساز ہی ہیں جن کی پالیسیاں تمام قربانیوں اور جزبوں کو نامراد کر دیتی ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698949 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More