محمد اسماعیل ریحان
اتوار 26 اگست 2012 ءکو بی بی سی اردو ڈاٹ کام پروسعت اللہ خان کامضمون
”میں سچا مسلمان کیسے بنوں؟“ پڑھنے کاموقع ملاجس میںموصو ف نے یہ سوال
اٹھاتے ہوئے کہ وہ سچامسلمان بننے کے لیے کیاکریں،یہ تاثردینے کی کوشش کی
ہے کہ اس وقت سنی دیوبندیوں کے ہاں سچا مسلمان بننے کے لیے ا ہل تشیع کونہ
صرف قتل کرنابلکہ ان کانام ونشان تک مٹاڈالناضرور ی ہے۔ چنانچہ موصوف سوال
کرتے ہیں: ”ایک سنی دیوبندی گھرانے میں پیدا ہونے والا وسعت اللہ خان خود
کو ایک اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے کہاں تک جائے، کیا کرے ؟شاید شیعوں کو
مارنے سے میرا کام نہیں چلے گا۔ شاید اور بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ تو کیا بو
علی سینا کی قبر پر جا کے تھوک دوں؟بابائے الجبرا الخوارزمی کے فارمولے جلا
دوں؟بابائے کیمیا جابر بن حیان کی ہڈیاں زمین سے نکال لوں؟بابائے فلکیات
البیرونی کے مزار کو آگ لگادوں؟مورخ المسعودی کی تاریخِ اسلام حرام سمجھ
لوں؟حضرت معروف ِ کرخی کے تصوف، ملا صدرا کے نظریہِ وجودیت اور سیّد علی
ہمدانی کی تبلیغ کو شرک کے خانے میں رکھ دوں؟ عمر خیام کی رباعیات چھلنی کر
دوں؟شاہ نامہ والے فردوسی کا تہران یونیورسٹی میں لگا مجسمہ گرا دوں؟............“
موصوف نے اس خامہ فرسائی میں دوقسم کی مغالطہ آرائیاں کی ہیں۔ ایک فکری
اوردوسری تاریخی۔ فکری مغالطہ یہ ہے کہ وہ یہ جتاناچاہ رہے ہیں کہ اہل تشیع
کاقتل عام اوران کونیست ونابودکرنادورِحاضرکے اہل سنت نے اپنامذہب، وطیرہ
اور شعاربنالیاہے اوراس فریضے کی ادائی کے بغیر وہ کسی کواچھامسلمان ماننے
کے لےے تیارنہیں۔ اس مغالطے کی تردیدکے لیے اتناکہناکافی ہے کہ موصوف اس
بارے میں علمائے اہل سنت خصوصاً علمائے دیوبند کی جانب سے کوئی ایک فتویٰ
پیش کردیں جس میں یہ کہاگیاہوکہ اہل تشیع کوقتل کرنادین وایمان کاحصہ ہے
اور اس کے بغیر کوئی شخص پختہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ جب وہ کوئی ایسافتویٰ
پیش نہیں کرسکتے تو پھر ا س شکوے شکایت کی کیاتک ہے کہ ”’ایک سنی دیوبندی
گھرانے میں پیدا ہونے والا وسعت اللہ خان خود کو ایک اچھا مسلمان ثابت کرنے
کے لیے کہاں تک جائے، کیا کرے؟شاید شیعوں کو مارنے سے میرا کام نہیں چلے گا۔
شاید اور بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ “موصوف سے آخرکون سے سنی دیوبندی عالم نے
کہاہے کہ وہ شیعوں کی جان ومال پردست درازی کیے بغیراچھے مسلمان ثابت نہیں
ہوسکتے۔ اس وقت پاکستان میں کروڑوں کی تعدادمیں دیوبندی موجودہیں۔ اگر
بھارت اوربنگلہ دیش کے دیوبندیوں کوشامل کرلیاجائے تومیرے خیال میں یہ
تعدادتین چارگناہوجائے گی۔ ان میں سے کسی کویہ شبہ نہیں ہوا۔ صرف بی بی سی
کے ایک تبصرہ نگارکو یہ شک کیسے ہوگیا کہ سنی دیوبندی مسلک میں اس قسم کی
دہشت گردی فرض کادرجہ رکھتی ہے۔ کیا موصوف کایہ خیال ہے کہ دیوبندی مسلک کا
ہر فرد ایسی دہشت گردی کو اپنا دین و ایمان تصور کرتا ہے؟ دعویٰ تو اتنا
بڑا اوردلیل ایک بھی نہیں۔ کیاصحافت صرف تہمتیں دہرنے اور سنگین الزامات
عاید کرنے کانام ہے؟ بہرحال اگرموصوف نے یہ سب کسی غلط فہمی کے تحت لکھاہے
توکسی بھی وقت علمائے دیوبندسے رابطہ کرکے دیکھ لیں، ان سے تحریری فتویٰ لے
لیں۔ غلط فہمی ہے تودورہوجائے گی۔
موصوف کے الفاظ ”شاید گلگت اور بلتستان کے شیعوں کو بالکل ٹھیک سزا مل رہی
ہے....“سے اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے شمالی علاقہ جات میں کچھ اہل تشیع کے
دہشت گردی کانشانہ بننے سے متاثرہوکر قلم اٹھایاہے۔ شمالی علاقے ہوں
یاجنوبی، ہرجگہ دہشت گردی کی وارداتیں افسوس ناک ہیں اوراس میں ہم سب موصوف
کے شریک رنج وغم ہیں۔ مگرسوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ تصویرکاایک ہی رخ کیوں
دیکھتے ہیں؟اگرآپ گلگت بلتستان میں اہل تشیع کے قتل کوزبردستی سنی دیوبندی
مذہب کا حصہ مان رہے ہیں تو کراچی میں اہل سنت کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ کودیکھ
کر آپ کویہ غلط فہمی کیوں نہیں ہوتی کہ اہل تشیع کے نزدیک بھی اہل سنت کی
جان وما ل حلال ہیں۔ اگر اس قسم کی دہشت گردی کو شیعہ مذہب کا حصہ نہیں
ماناجاتابلکہ اسے چندمشتعل افرادیانامعلوم قاتلوںہی کے کھاتے میں
ڈالاجارہاہے تو شیعوں کے قتل کواہل سنت کے مذہب کاحصہ کیوں اورکس دلیل سے
تصور کیا جارہا ہے؟
اہل سنت کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوںنے اہل تشیع کومعاشرے میں اپنے ساتھ
بطوراسلامی مملکت کے شہریوں کے پوری وسعتِ قلبی کے ساتھ جگہ دی ہے۔ بڑے بڑے
فاتحین اسلام کے ہاں وہ معززعہدوںپررہے۔ ان کی قابلیت کا لحاظ کرتے ہوئے
انہیں ہرسہولت دی گئی۔ کبھی ان کوگھٹانے یاگرانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
اگراہل سنت کامسلک ومذہب دوسرے فرقوں کی نسل کشی ہوتاتوآج شاید اسلامی
دنیامیں کوئی اورجماعت نہ ہوتی مگر خلفائے اسلام اور فاتحین نے ہمیشہ
رواداری کاسلو ک کیا۔ باجوداس کے کہ متعددمواقع پراہل تشیع کے بعض گروہوں
یاافرادکی طرف سے انہیں سازشوں اورغداریوں کاسامنابھی کرناپڑامگرانہوں نے
چندافراد کے جرائم کی سزاپوری قوم کودینے کی کوشش کبھی نہیں کی۔
اہل سنت کی یہی ”وسعت ظرفی “پاکستا ن میں بھی برقرارہے جس کامظاہر ہ نو،دس
محرم کوسب دیکھتے ہیں کہ اکثریت گھروںمیں محصورہوتی ہے اوراقلیت پورے تزک
واحتشام سے فوج، پولیس،خفیہ ایجنسیوں اورتمام سرکاری مشینری کے کڑے پہرے
میں ماتمی جلوس لے کرگزرتی ہے۔ ملک کے کلیدی عہدوںتک میں شیعہ سنی کاکوئی
امتیازنہیں ہے۔ یہ سنی اکثریت کی عملی رواداری نہیں تواورکیاہے۔ اس کے
باوجود اہل سنت کوموردِ الزام ٹہراناوہ بھی اس طرح کہ دوسرے فرقے سے جنگ
وجدال کواس کے عقائد وارکان میں داخل ہونے کادعویٰ کردیناکہاں کاانصاف ہے؟
جہاں تک باہمی کشیدگی اورقتل وغارت کی بارباراٹھنے والی لہروں کاتعلق ہے،
ان کی حقیقت وسعت اللہ خان جیسے صحافی سے مخفی ہے نہ ارباب ِ حکومت سے۔ اس
پرایسی مغالطہ آرائیوں کے دبیزپردے ڈالنے کامقصدکیاہے؟اس سے اشتعال کم
ہوگایامزید بڑھے گا۔ مسئلہ حل ہوگایا مزیدالجھے گا۔ سب جانتے ہیں کہ دہشت
گردی اگر ہے تو دونوں طرف سے، یعنی کچھ مشتعل اور انتہا پسند افراددونوں
صفوں میں موجودہیں جنہیں کوئی مذہبی سندحاصل ہے نہ کوئی فتویٰ ان کی
کارروائیوں کی حمایت کرتاہے۔ یہ ہے حقیقت۔ اس کومان لیں۔ اس کے
بعدخودبخودیہ سوال پیداہوگا کہ آخریہ لوگ کیوں لڑ رہے ہیں؟اس کا جواب ان ہی
لڑنے والوں سے پوچھیں توہرایک دوسرے کو اشتعال انگیز تحریروتقریر کاالزام
دے گا۔ اب تک ایسی کارروائیوں میں جتنے افرادکوسزاہوئی ہے، عدالتوںمیںان کے
بیانات کاحاصل یہی ہے۔ یہی جڑہے سارے فساد اور قتل وغارت کی۔ کیاحکومت کے
پاس ا س کاحل نہیں؟ضرورہے۔ آج ہی اصحاب رسول، اہل بیت اور مقدس شخصیات کی
توہین کے ارتکاب پر کڑی سزا کا قانون پاس کردیاجائے اور اس پرعمل درآمد
ہواور توہین آمیز لٹریچر پر سخت پابندی لگادی جائے تو پھردیکھیے امن وامان
کی فضا قائم ہوتی ہے یانہیں۔ یہ تجاویز فریقین کے مشترکہ اجلاسوں میں اہل
سنت قائدین برسوں سے حکومت کو دے رہے ہیں مگر حکومت کی نامعلوم مصلحتیں آڑے
آجاتی ہیں۔
موصوف نے اپنی تحریر میں بہت سے مشاہیراہل سنت کواہل تشیع کی طرف منسوب
کردیاہے۔ ان کی اس جسارت پرشدیدحیرت ہے۔ ان تاریخی مغالطہ آرائیوں پرا گلی
نشست میںبات کریں گے۔ ا |