کاش ہم آزاد ہوتے

محترم قارئین:سناہے آپ آزاد ہیں ۔میرے متعلق بھی یہی کہاجاتاہے لیکن آئیے ذرا دیکھتے ہیں ہم آزاد ہیں بھی کہ نہیں ۔۔۔۔۔

آزادی کوئی ایسی شہ نہیں ہے۔ جسے ناپا یا تولہ جاسکے ،اس لئے اسے سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان غلامی کا مفہوم سمجھ جائے ،آزادی کا مطلب ازخود اس کی سمجھ میں آجائیگا ۔قرآن مجیدمیں حضرت موسیٰ ؑکا قصہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔اس جلیل القدر نبی کی بعثت اس وقت ہوئی جبکہ ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا ۔سورہ شعراء میں اس واقعہ کا بیان کچھ یوں ہے اور (وہ واقعہ یاد کیجئے)جب آپ کے رب نے موسٰی (علیہ السلام)کو نِدا دی کہ تم ظالموں کی قوم کے پاس جاؤ، (یعنی) قومِ فرعون کے پاس، کیا وہ (اللہ سے) نہیں ڈرتے۔ یہ حکم حضرت موسیٰ ؑ کو ایک ایسے وقت میں دیا گیا جب وہ ایک طویل جلا وطنی کی زندگی گزار کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ بے یارو مدد گار مدین سے واپس لوٹ رہے تھے ۔ حضرت موسیٰ نے بارگاہِ خدا وندی میں اپنی مجبوری وناسپاسی کا اظہار اس طرح کیا کہ اے رب ،میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے، اور (ایسے ناسازگار ماحول میں)میرا سینہ تنگ ہوجاتا ہے اور میری زبان (روانی سے)نہیں چلتی سو ہارون (علیہ السلام)کی طرف (بھی جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ساتھ)بھیج دے (تاکہ وہ میرا معاون بن جائے)، اور ان کا میرے اوپر (قبطی کو مار ڈالنے کا)ایک الزام بھی ہے سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر ڈالیں گے۔

موسی ٰکلیم اللہ کی دلگدازعرضداشت کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے: ہرگز نہیں، پس تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ بیشک ہم تمہارے ساتھ (ہر بات) سننے والے ہیں، پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو: ہم سارے جہانوں کے پروردگار کے (بھیجے ہوئے) رسول ہیں، (ہمارا مدعا یہ ہے) کہ تو بنی اسرائیل کو (آزادی دے کر) ہمارے ساتھ بھیج دے ۔ بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لیجانے کا مطالبہ دراصل ان کی آزادی کا تازیانہ تھا ۔اس کے جواب میں فرعون نے ایک تو یہ کیا کہ پہلے اپنے احسان گنائے اور پھر احساسِ جرم کا شکار کر کے ڈرانے دھمکانے کو کوشش کی ۔ آج بھی عوام کو اپنا غلام بنانے کیلئے یہی دو حربے آزمائے جاتے ہیں۔

انتخابات کے دوران کیا ہوتا ہے؟عوام کو احسانات یاد دلائے جاتے ہیں۔ان سے کہا جاتا ہے کہ ہم انگریزی سامراج سے جنگ کی ۔ ہم نے تمہیں آزادی دلائی ۔ہم نے تمہیں تحفظ فراہم کیا ۔ ہمارے دم سے تم امن و سلامتی کی زندگی گزار رہے ہو۔تمہاری ساری خوشحالی کا سبب ہماری عنایات ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن محض ان غیر حقیقی احسانات کے اعادہ پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ اسی کے ساتھ کبھی اپنے آپ سے تو کبھی مخالفین سے بلواسطہ اور بلا واسطہ خوفزدہ بھی کیا جاتا ہے ۔ پسِ پردہ سازش کرکے فرقہ وارانہ فسادات کروائے جاتے ہیں اور پھر مظلوموں کے آنسو پونچھے جانے کا ناٹک کیا جاتا ہے ۔ صدر مملکت اقلیتوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وزیر اعظم وجوہات کا پتہ لگانے کی یقین دہانی کراتے ہیں ۔اس قدر عظیم سانحہ جس میں لوگ جان بحق ہوگئے اور لاکھ بے گھر کی وجوہات کا تک اگر وزیر اعظم کو ایک ماہ بعد تک پتہ نہ ہو توانہیں لال قلعہ پر یوم آزادی کے پرچم کشائی اور بلندباگ دعووں کا کوئی حق نہیں ہے ۔حکومت کے ذریعہ ایک طرف کسانوں کو خودکشی پر مجبور کرنے والے سودی نظام کو فروغ دیا جاتا ہے اور پھر ان کی بازآبادکاری کیلئے سرکاری خزانہ سے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ اس منافقت کے علاوہ وعدوں کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی ہماری انتخابی سیاست کی اہم ترین شناخت ہے جنہیں اب کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا اس لئے کہ وعدہ کرنے والے سیاسی رہنما اوررائے دہندگان دونوں جانتے ہیں کہ ان کو شاذو نادر ہی پورا کیا جائیگا ۔

فرعون نے حضرت موسیٰ کو مخاطب کرکے جوکہا تھا، وہ یوں تھا:کیا ہم نے تمہیں اپنے یہاں بچپن کی حالت میں پالا نہیں تھا اور تم نے اپنی عمر کے کتنے ہی سال ہمارے اندر بسر کئے تھے، اور (پھر) تم نے اپنا وہ کام کر ڈالا جو تم نے کیا تھا (یعنی ایک قبطی کو قتل کر دیا) اور تم ناشکر گزاروں میں سے ہو (ہماری پرورش اور احسانات کو بھول گئے ہو)۔اس طرح کی صورتحال میں ایک حریت پسند رہنما کوکیا موقف اختیار کرنا چاہئے اور کس جراتمندی کے ساتھ اس کا اظہار کرنا چاہئے اس کی مثال حضرتِ موسٰی علیہ السلام کے جواب میں ہے انہوں نے فرمایا: جب میں نے وہ کام کیا میں بے خبر تھا (کہ کیا ایک گھونسے سے اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے)، پھر میں (اس وقت) تمہارے (دائرہ اختیار) سے نکل گیا جب میں تمہارے (ارادوں) سے خوفزدہ ہوا پھر میرے رب نے مجھے حکمِ (نبوت) بخشا اور (بالآخر) مجھے رسولوں میں شامل فرما دیا، اور کیا وہ (کوئی) بھلائی ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے (اس کا سبب بھی یہ تھا) کہ تو نے (میری پوری قوم) بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا۔

حضرت موسیٰ ؑ نے بات کا رخ پھر آزادی و غلامی کی جانب موڑ دیا اور ببانگِ دہل فرعون کے سامنے اعلان کیا کہ تمہارے دربار میں میری پرورش یہ کوئی پسندیدہ فیصلہ نہیں تھا بلکہ مجبوری تھی۔ اگر بنی اسرائیل کو غلام نہ بنایا گیا ہوتا اور ان کے لڑکوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری نہ ہوتا تو کیوں میری ماں مجھے ایک ٹوکری میں رکھ کر دریائے نیل میں بہاتی؟گویا اس پرورش کیلئے فرعون کا جبر اور بنی اسرائیل کی غلامی سزاوار ہے نیز قبطی کوقتل کیلئے موسی ؑ کو ذمہ دارٹھہرانا ایسا ہی ہے جیسے تقسیم ہند کیلئے مسلمانوں کو قصور وار کہنا۔ کوئی ان وجوہات کو جاننے کی کوشش نہیں کرتا جن میں جناح جیسے سیکولر رہنما نے الگ ہونے کا فیصلہ اور ان لوگوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا جنہوں وہ صورتحال پیدا کی اگر جسونت سنگھ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں توان کے اپنے پرائے سب دشمن بن جاتے ہیں ۔ قبطی کا قتل اس لئے ہوا وہ کہ وہ بنی اسرائیل کے ایک شخص پروہ ظلم وزیادتی کررہا تھا جن کو زمین میں فرعون کے حکم سے غلام بنا کر رکھا گیا تھا ۔ان کو مساوات و عدل جیسے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا ۔ان کے اوپر مظالم کرنے والے قبطیوں کی کوئی سرزنش حکومت یا عدالت کی جانب سے نہیں ہوتی تھی۔ قرآنِ عظیم میں اس کی تصدیق اس انداز میں کی گئی ہے کہ بیشک فرعون نے زمین میں غلبہ پایا تھا اور اس کے لوگوں کو اپنا تابع بنایا ان میں ایک گروہ کو کمزور دیکھتا ، ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا بیشک وہ فسادی تھا ۔

اہل ایمان کے ساتھ دنیا کی مختلف نام نہاد جمہوریتوں مثلاً امریکہ، فرانس،اسرائیل ،ہندوستان اور برما میں یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے ۔غلامی کا کوئی لیبل نہیں ہوتا کہ غلام قوم پر چسپاں کر دیا جائے بلکہ حکمرانوں کا کسی ایک طبقہ کے تئیں اختیار کیا جانے والا ایک خاص رویہ مثلاً بنیادی حقوق سے محرومی یا امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ جس سے تمام لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ کون غلام ہے اور کون آقا ؟ انگریز اپنے سامراج کے اندر رہنے بسنے والے آزاد لوگوں کو برطانوی شہری اور غلام قوم کے باشندوں کو سبجیکٹ بائی برتھ یعنی پیدائشی ماتحت یا غلام لکھتے تھے جس سے اسے پتہ چل جاتا تھا کہ وہ کون ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے ؟وہ اپنے خاص باغوں بلکہ ریل گاڑی کے فرسٹ کلاس میں تختی لگا دیتے تھے کہ ہندوستانیوں اور کتوں کاداخلہ ممنوع ہے۔

آج کل کسی کے پاسپورٹ پر لکھا تو نہیں جاتا لیکن غلامانہ سلوک بہر حال کیا جاتا ہے اسی لئے جیل کی چہار دیواری کے پیچھے مظلوم قوم کے بہتیرے پابند سلاسل ہیں ۔ایک شخص کو پاکستانی جان کر پکڑا تو خاندان کا خاندان اس تشکیک کی نظر کردیاجاتاہے ۔دوسری جانب ان ظالم سفاک ،امن کے ٹھیکداروں ،انسانیت انسانیت کے رٹ لگانے والے طوطوں کی اپنی تو یہ حالت ہے کہ کسی کی گردن کچل دیں ۔ڈرون حملے کر گزریں ۔آبادیوں کی آبادیاں مسمار کردیں ۔کوئی فرق نہیں پڑتاکیوں کہ آزادی ان کے گھر کی باندی ہے ۔ہمیں ساتھ لاکھ چھانویں ہزار چھانویں کا رقبہ دے دیاگیا۔تم آزاد ہو ۔اور آزادی بھی ایسی کے گھر سے نکلتے ہوئے بھی خوف آنے لگا۔دل کا غبار اتارنے کے لیے پبلک پوائنٹ پر اپنی گفتگو بھی محدود کردی کہ ادھر امریکہ شریف کے بارے میں بولے ادھر ایجنسی دھر لے گئی ۔یہ سب کیا ہے؟

ایک واقعہ رونما ہواتھا کہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا سرخیل کہنے امریکہ میں ایک ایرانی خاتون شہر زاد کو محض اس لئے گرفتار کر لیا جاتا ہے کہ اس کے سابق شوہر محمد سیف نے اندھیرے میں استعمال کئے جانے والی عینک آسٹریا سے ایران برآمد کئے تھے ۔ جڑواں بچوں کی یہ ماں پانچ سال جیل میں گزارنے کے بعد ابھی حال میں رہا ہوتی ہے ۔ اسے کہتے ہیں غلامی کا سلوک جو دنیا کی سب بڑی جمہوریت میں روا رکھا جاتا ۔مگر ظلم کی یہ چکی ہمیشہ نہیں چلتی جب مشیت کا فیصلہ نافذہوتا ہے تو بازی الٹ جاتی ہے اور جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا کر رکھا گیا تھا انہیں رہنمائی کے منصب پر فائز کر دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کی بابت ارشادربانی ہے اور ہم چاہتے تھے کہ ان کمزوروں پر احسان فرمائیں اور ان کو پیشوا بنائیں اور ان کے ملک و مال کا انہیں کو وارث بنائیں۔
آہ!ہماراتابناک ماضی ،حاضر ہمارا بے حال ،مستقبل میں کی کچھ خبر نہیں ۔۔۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کاخلافت کے منصب کو سنبھالتے ہی اعلان فرما نا کہ اگر تم مجھے کسی معاملے میں خلاف ِ شریعت پاو تو میری اطاعت نہ کرنا ۔اسی حقیقی آزادی کا مظہر ہے جس میں صاحب ِ اقتدار عوام کو اپنی اتباع کا پابند نہیں بناتا بلکہ اس کے برخلاف اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرنے کی تلقین کرتا ۔ اسلامی تصور آزادی میں معیارِ حق حکمران کی مرضی نہیں بلکہ کتاب و سنت ہے اور عام آدمی کی طرح صاحبِ اقتدار بھی اس کا پابند ہوتا ہے ۔ غیر اسلامی نظامہائے سیاست میں حکمراں مختلف قسم کا جواز فراہم کرکے اپنی مرضی کو معیارِ حق بنا کر عوام پر اسے چلانے لگتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے ایسا کرنے کا مجھے موروثی حق ہے، کوئی اپنی نسلی برتری کو قائم رکھنے کیلئے اسے جائز قرار دیتا ہے ، کسی کے نزدیک ایسا کرنا قومی و ملکی مفاد میں ہوتا ہے تو کوئی اپنے آپ کو جمہور کا نمائندہ بناکر اس حق کو حاصل کر لیتا ہے اور اپنی من مانی کرتا ہے لیکن صرف اور صرف اسلامی نظام ایسے ہر جواز سے مبراہے جس سے حکمرانوں کی مرضی معیار حق بن جائے اور یہی حقیقی آزادی کی سب سے بڑی ضمانت ہے ۔

محترم قارئین : کیاکہتے ہیں آپ ؟آپ آزاد ہیں ؟فیصلہ کرنے کی آپ قدرت آپ رکھتے ہیں ۔اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازئیے گا۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542427 views i am scholar.serve the humainbeing... View More