شہری انتظامیہ کی جانب سے اجازت
ملنے کے بعد شہر اور نواحی علاقوں میں قصائیوں / سبزی فروشوں نے نے پھر
اپنی چھری تیز کردی اور اب تو الٹی چھری سے کام لیا جارہا ہے اور شہر میں
گوشت کی فی کلو قیمت 300 روپے تک پہنچ گئی ہیں حالانکہ صارف کمیٹی نے گوشت
کی فی کلو قیمت 200 روپے مقرر کردی تھی اسی طرح سبزی کی قیمتیں لوکل منڈی
میں سبزی ہونے کے باوجود بڑھ رہی ہیں نرخنامے تو موجود ہیں لیکن اس پر
عملدرآمد کرانے کیلئے کوئی تیار نہیں اسی وجہ سے اب تو قصائیوں / سبزی
فروشوں نے نرخنامے بھی لگانے چھوڑ دئیے ہیںاور اپنی مرضی کے ریٹ مقرر
کردئیے ہیں یہ صورتحال شہری انتظامیہ کے اہلکاروںکیلئے بہتر ہے کیونکہ ایک
طرف انہیںگھر کیلئے گوشت/ سبزی "مفت" مل جاتی ہے تو دوسری طرف انہیں "
پیداگیری"کرنے کا بھی موقع ملتا ہے -یہ شکایت گذشتہ کئی دنوں سے شہری کررہے
ہیں لیکن ان کی کوئی سننے والا نہیں - عدالت عالیہ پشاور نے رمضان میں مرغی
گوشت اور جانور افغانستان سمگل کرنے پر پابندی عائد کرکے تاریخی فیصلہ کیا
تھا جس کے نتیجے میں رمضان میں گوشت کی قیمتوں میں کسی حد تک استحکام آیا
ساتھ ہی مرغیوں کی گوشت کی قیمت میں بھی کمی آئی جس کا فائدہ عام لوگوں کو
پہنچا اور شہریوں نے چیف جسٹس کو دعائیں دی کہ کسی کوعوام کا خیال تو ہے-
چیف جسٹس کا کا یہ فیصلہ پرمٹ کی آڑ میں سمگلنگ کرنے والے منافع خوروں
کیلئے پریشان کن ہے -کچھ نے تو ڈرامہ کرکے قبائلی علاقوں کا نام لیکر چیخنا
شروع کردیا کہ وہاں پر گوشت کی کمی ہے لیکن شکر ہے کہ صورتحال کنٹرول میں
رہی-
کچھ دن قبل میں نے اپنے محلے میں واقع قصائی سے جب میں گوشت لینے گیاتو
دکاندار نے مجھے کہا کہ فی کلو گوشت ڈھائی سو روپے ہے ہم جیسے لوگ تو پہلے
قیمت پوچھتے ہیں اور بعد میں خریداری کرتے ہیں میرے لئے گوشت کاٹنے کے
دوران ایک شخص گاڑی میں سے اتر کر قصائی کے دکان پر آیا اور بڑے رعب سے
پوچھا کہ " اوئے کلو گوشت کس طرح بیچ رہے ہو٫ اور قصائی جس کے ہاتھ میں
چھری بھی تھی بڑا ادب سے بولا کہ جناب دو سو بیس روپے میںآپ کو مل جائیگا -
میں حیران اور پریشان ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے خیر پیسے دینے کے بعد سبزی
لی اور گھر چلا گیا اور تقریبا آدھ گھنٹے بعد اسی قصائی کی دکان پر گیا کہ
یہ کیا ماجرا ہے مجھے ڈھائی سو روپے میں فی کلو گوشت دیاور گاڑی والے کو دو
سو بیس روپے میں یہ کیا معاملہ ہے- جواب میں قصائی نے کہا کہ جناب یہ شہری
انتظامیہ کے لوگ ہیں جو ہم سے گوشت لیکر جاتے ہیں اور ان کی پسندکا گوشت ہم
انہی کے مقرر کردہ رقم پر دیتے ہیں - یعنی جو نرخ عوام کیلئے مقر ر کئے گئے
وہ شہری انتظامیہ نے اپنے اہلکاروں کیلئے کئے ہبں ہم جیسے عوام کیلئے نہیں
- اس صورتحال میں شہری انتظامیہ کو ایک تو صارف کمیٹی کے مقرر کردہ قیمتوں
پر گوشت مل جاتا ہے دوسری طرف انہوں نے "پیداگیری" بھی ہوجاتی ہیں اپنی "
پیداگیری "کیلئے انہوں نے نیا انداز شروع کردیا ہے - شہری انتظامیہ کا ایک
ریٹائرڈ اہلکار آج کل مختلف علاقوں میں گراں فروشی کے نام چھاپے مار کر
لوگوں کو گرفتار کرکے متعلقہ تھانوں میں لے جاتا ہے جہاں پر ان سے پولیس کی
موجودگی میں ڈیلنگ کی جاتی ہیں - مزے کی بات یہ ہے کہ گراں فروشوں خصوصا
قصائیوں /سببزی فروشوں سے "پانچ سے دس ہزار روپے " جرمانے کے مد میں وصول
کئے جاتے ہیں لیکن کوئی رسید نہیں دی جاتی یعنی جرمانوں کی آڑ میں پیدا کیا
جانیوالا " مال حرام " شہری انتظامیہ کے " حرام خوروں" کے پیٹوں میں جارہا
ہے -چونکہ گراں فروشوں کو "جیل نہیں جانا پڑتا"اور وہ رقم دیکر نکل آتے ہیں
اسی وجہ سے واپس آنے کے بعد " انکی دادگیری" اپنے علاقوں میں شروع ہوجاتی
ہیں -
د و دن قبل پاک افغان دوستی بس سروس میں تین ہزار کلوگرام گوشت سمگل کرنے
کی کوشش کی گئی جسے محکمہ فوڈ اورپولیس نے ناکام بنادیا ہمارے ایک جاننے
والے دوست نے بتایا کہ یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے کیونکہ "وردی "والے
سرکار "ایک ہزار کا نوٹ ٫لینے کے بعد آنکھیں بند کرلیتے ہیں لیکن چونکہ
عدالت عالیہ نے سخت احکامات جاری کئے اس لئے اب "وردی والوں""کو اپنی پڑی
ہوئی ہے اسی وجہ سے یہ لوگ اب کارروائیاں کررہ ہیں -ہمارے ہاں لوگ گوشت
ڈھائی سو روپے کلو میں خرید نہیں سکتے جبکہ افغانستان میں یہی گوشت چار سو
سے پانچ سو روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے اس وجہ سے یہاں کے تاجر گوشت `
جانور پرمٹ کی آڑ میں افغانستان سمگل کررہے ہیں کیونکہ اس میں ان کا منافع
ہے -مقامی لوگ تو اب لگتا ہے کہ "مار اور ہوا"کھاکر زندگی گزاریں گے کیونکہ
"دال بھی مہنگی ہے "اور "سبزی " بھی افغانستان بھیجنے کا سلسلہ جاری ہوگیا
ہے روزانہ کئی ٹرک طورخم بارڈر پر افغانستان بھیجے جاتے ہیں پنجاب سے
آنیوالی سبزی بھی مقامی مارکیٹ کے بجائے افغانستان بھیجی جاری ہیں-
افغانستان گوشت/سبزی سمگل کرنے کے حوالے سے مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ ایک
طرف یہاں قیمتیں کم ہیں اور عام لوگوں کی قوت خرید بھی کم ہو کر رہ گئی ہیں
دوسری طرف شہری انتظامیہ ہفتے میں ایک مرتبہ چھاپہ مار " پیداگیری " کیلئے
آجاتے ہیںایسے میں زیادہ تر تاجرمقامی مارکیٹ میں سبزی / گوشت لانے کے
بجائے اسے افغانستان لے جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو ان کا منافع
تین گنا ہوتا ہے دوسری طرف انہیں شہری انتظامیہ کی ٹینشن بھی نہیں ہوتی-ان
تاجروں کے مطابق عیدالضحی کی آمد آمد ہے اسی وجہ سے مال مویشیوںکی قیمتوں
میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اسی کے ساتھ ساتھ پٹرول کی قیمتیں بھی مسلسل
بڑھ رہی ہیں اور پنجاب سے گاڑیوں پر مال مویشیوں/' سبزیاں لانے پر اخراجات
بڑھ رہے ہیں جس کا اثر مقامی مارکیٹ پر پڑ رہا ہے-
ہم افغانستان سے تجارت کے مخالف نہیں لیکن موجودہ حالات میں جب مقامی لوگوں
کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہیں ایسے میں مقامی مارکیٹ کی ضرورت کی
اشیاء افغانستان بھیجنا یہاں کے عوام کیساتھ زیادتی ہے -افسوسناک بات یہ ہے
کہ گوشت/ سبزی سمیت دیگر اشیاء افغانستان بھیجنے کے معاملے میں بہت سارے "
اعلی " اختیاراتی لوگ شامل ہیں جو اس کاروبار سے وابستہ ہیں -جنہیں عوام سے
کوئی غرض نہیں انہیں صرف "پیسہ کمانے" سے غرض ہے-ویسے آپس کی بات ہے کہ جو
لوگ اس وقت حکمرانی کے مزے لے رہے ہیں شرم کے معاملے میں "میراثیوں"سے بھی
گئے گزرے ہیں ان پر کچھ اثر نہیں ہوتا ان میں " لالٹین"کے دور میں بھیجنے
والے حکمرانوں سمیت " تیر "کے ذریعے انقلاب لانے والے بھی شامل ہیں جو اس
وقت صرف "مال کمائو"مہم میں شریک ہیں - |