انہوں نے مغل بادشاہ اکبر شاہ
ثانی کے گھر دہلی میں آنکھ کھولی۔ بادشاہ کے گھر پرورش پانے کے باوجود
انہیں امور سلطنت سے خاص مناسبت نہیں تھی۔وہ فطری طور پر شعری ملکہ لے کر
پیداہوئے تھے۔ ان کی خوبصورت شاعری پر مشتمل چار دیوان ہیں۔سیاست وقیادت سے
کوسوں دور ہونے پر بھی1837ءمیں ملک کی باگ دوڑ ا ن کے ہاتھ میں آئی۔بادشاہت
سنبھالنے کے بعد ان کا شعرو شاعری کامشغلہ مزید پروان چڑھا۔شاطر انگریز ان
کی طبیعت سے خوب واقف تھا۔ سکھوں کو ساتھ ملاکر ان پر چڑھائی کردی۔جنرل
نکلسن نے انگریز اور سکھ فوج کی مدد سے تقریباً چار ماہ دہلی کا محاصرہ
کیا۔چودہ ستمبر 1858ءمیں کشمیری دروازہ توڑدیا۔اس دوران جنرل نکلسن
ماراگیا۔مگر انگریز اور سکھ فوج نے دہلی، لکھنو اور کانپور جیسے مقامات پر
قبضہ کرکے ان کی حکومت ختم کردی، ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو قتل اور
ان کو رنگون جیل میں قید کردیاگیا۔یوں بہادر شاہ ظفر مغلیہ سلطنت کے آخری
”چشم وچراغ“ثابت ہوئے۔
بہادر شاہ ظفر کی بادشاہت اگرچہ عبرت آموز ہے مگر ان کی شاعری آج بھی
تروتازہ ہے،ڈیڑھ صدی گزرنے کے بعد بھی ان کاکلام زبان زدعام ہے، بعض اشعار
ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔مثلاً:عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن،
دوآرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں۔موجودہ حالات میں جہاں ایک طرف ملک میں
بدامنی، قتل وغارت اوردوسری طرف یہودونصاریٰ کی جانب سے رحمت لّلعالمین صلی
اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کاسلسلہ شروع ہواہے، ان حالات پر ان کے یہ
اشعارکیسے منطبق بیٹھ رہے ہیں۔
لے گیاچھین کر کون آج تیرا صبرو قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تونہ تھی
چشم قاتل میری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسے اب ہوگئی قاتل کبھی ایسی تونہ تھی
مارکیٹ سے گزرتے ہوئے دوآدمیوں کو باہم دست وگریباں دیکھا۔ بڑی مشکل سے صلح
صفائی کرائی گئی۔جب لڑنے کا سبب بتایاگیاتو ذہن کے نہاں خانہ میں بہادرشاہ
ظفر کے اشعار گنگنانے لگے۔معاشرہ اسی وقت بگاڑکاشکارہوتاہے جب فرد اپنی
اصلاح ، اپنے حال اور برائیوں کی فکر نہیں کرتابلکہ دوسروں کے عیب وہنر کی
ٹوہ میں لگارہے، اپنی آنکھ کے شہتیر سے صرف نظر کرتے ہوئے دوسروں کی ٓآنکھ
کے چھوٹے سے کانٹے کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑجائے۔ہمارے اکثر لڑائی جھگڑے
چھوٹی سی بات پر شروع ہوکر قتل وغارت تک پہنچ جاتے ہیں، بچوں کی نوک جھونک
کوبڑھاکر خاندانی دشمنی مول لےتے ہیں، خواتین کی توتکار مردوں کی مار دھاڑ
میں بدل جاتی ہے۔اگر دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے سے قبل ہم اپنے حال اور
اپنی غلطیوں پر نظر ڈالیں تواسّی فیصد لڑائی جھگڑے وجود میں ہی نہیں آئیں
گے۔ایک دوسرے کے لیے دل میں محبت ومودّت اپنی جگہ بنائے گی۔گلی محلہ بازار
دفترہرسو چین وسکون کے شادیانے بجیں گے۔بہادر شاہ ظفر کی زبانی سمجھیے۔
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی اپنی برائیوں پہ جو نظر
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا |