1 ۔ بیان الناس
نزول قرآن سے پہلے انسانی دنیا جن تاریک دورمیں زندگی بسر کررہی تھی اس سے
انسانیت اپنے مقام زوال سے قریب تر ہوچکی تھی خالق کائنات اپنے کلام سے
انسان کی راہنمائی نہ فرماتا تو حضرت نوح علیہ سلام سے فرد سے شروع ہونے
والا سلسلہ اور حضرت ابراہیم علیہ سلام کا افراد ۔خاندان۔قبیلے اورعام
انسانوں میں امام کا مقام نظروں سے اوجھل ہوچکا ہوتا دنیا کے الہامی مذاہب
میں حضرت ابراہیم علیہ سلام کے امام ہونے پر اعتراض نہیں بنی اسرائیل کے۔
زری دورپھر غلامی ۔ایک اور موقعہ کہ راہنمائی اور امارت کے سفر پر حضرت
موسیٰ و ہارون علیہ سلام کو نبوت عطا فرمانا بنی اسرائیل کو قوم اور حضرت
عیسیٰ علیہ سلام کو وحی سے سرفراز کرنامگربنی اسرائیل قوم نہ بن سکی
نسب۔حسب۔مذاہبی پیشوایت کی اجارہ داری۔
بنی اسماعیل کو زبانی ارتقاء عربی وعجمی کے حد تک لے آیا نسب۔حسب۔بیت اللہ
کی ملکیت خالق کا انسان سے آخری کلام جو انسانیت کے لے راہنمائی بنا وہ
حضرت محمدﷺپر انسانوں کے لے نازل ہو�آپ ﷺ آخری نبی مقرر ہوے نسب ۔حسب۔
ملکیت کعبہ اور مذاہبی اجاروداری سے بالاانسانوں کو امت ربانی کے مقام سے
سرفراز کیا گیا۔ یوں رہتی دنیا تک انسانوں کو راہنمائی فراہم کردی گئی
آیت :۔ 1 /1 رب الناس نے کلام فرمایا۔ مفہوم۔تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔
عربی کے اعلیٰ زبان دان بھی اس کلام کا جواب دینے سے قاضر رہے آج بھی زبان
کے ماہرین انسانی
رابطے کے لے استعمال ہونے والی زبانوں کے بارے میں کھل کر اعتراف کرتے ہیں
کہ کسی بھی لفط کے مکمل معانی کا احاطہ انسان کے لیے ممکن نہیں-
حمد۔ کے معنی کسی بھی محسوس شے جو حقیقت میں نہایت حسین ۔نادر اور متناسب
ہو اسے دیکھ کر انسانی دل میں جو جذبات پیدا ہوتے ہیں وہ حمد کہلاتی ہے-
آج بھی حمد باری تعالٰی انسان کے بیان سے ممکن نہیں ابھی تک لسانی علم میں
انسانی جذبات کی ترجمانی کا بیان ممکن نہیں-
ٓآپ اب غور کریں پہلی آیت ہی میں جو کلام کیاگیا ہے ان چارلفظوں میں کائنات
کی عظیم حقیقت کو بے نقاب کیا گیا ہے کہ کائنات کا ہر گوشہ اپنے نافع ہونے
کی بنا پر حمد کی زندہ شہادت ہے اور ذرہ آفتاب مل کر آغاز سے کمال تک کے
سفر میں مصروف عمل ہیں اور یہ کائنات خالق کی حمد میں سرگرم عمل ہے-
ہم احکامات الہیٰ سے خود میں مومنوں کی صفت حامدون بیدار کر یں کیونکہ مومن
وہ ہیں جو خالق کی حمد میں مصروف عمل رہتے ہیں-
کیا ہم حامد ہیں۔
مفہوم:۔ اردو تراجم سے ماخوذ |