مساجد اور آج کے اعلانات

عَن اَبِی ہُرَیرَ ةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہ اَنَّہ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ یَقُولُ:”مَن سَمِعَ رَجُلًا یَنشُدُ ضَالَّةً فِی المَسجِدِ فَلیَقُل :لَا رَدَّھَا اللّٰہُ عَلَیکَ فَاِنَّ المَسَاجِدَ لَم تُبنَ لِہٰذَا۔”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :جو شخص کسی آدمی کو مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان اور اسکی تلاش کرتے ہوئے سنے پس چاہئے کہ وہ (اعلان سننے والا)کہے اللہ تعالیٰ تجھے یہ چیز واپس نہ لوٹائے ، کیونکہ مسجدیں اس مقصد کےلئے نہیں بنائی گئیں۔“(مسلم شریف صفحہ210جلد 1)

شرح حدیث:مذکورہ بالا صحیح مسلم کی روایت جو کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے ۔میں آداب مسجد کے حوالے سے ایک نہایت اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس کا آج مساجد کے اندر بہت کم خیال رکھا جاتا ہے اور وہ ہے مسجد کے اندر گم شدہ چیز کے اعلان کا مسئلہ ۔مذکورہ مسئلے کو حدیث پاک میں کھول کر بیان کر دیا گیا ہے کہ کسی مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرنا شرعاً ممنوع و ناجائز ہے ۔

آداب مسجد :1۔بعض وہ کام یا اشیاءہوتی ہیں کہ مسجد میں جن کا کرنا یا ہونا جائز ہوتا ہے بلکہ اسی مقصد کےلئے مسجد کو بنایا جاتا ہے ۔2۔اور بعض کام اور اشیاءوہ ہیں کہ مسجد کے اندر جن کا کرنا یا ہونا جائز نہیں ہوتا ۔

اولاً تعمیر مسجد کا مقصد حدیث پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کہ مساجد پیشاب و گندگی کسی بھی شئے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔“اِنَّمَا ھِیَ لِذِکرِ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَقِرَائَ ةِ القُرآنِ۔”بےشک مساجد اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قرآن کی قرات کےلئے ہوتی ہیں۔“(رواہ المسلم ریاض الصالحین رقم الحدیث 1693ناشر قدیمی کتب خانہ کراچی)

حدیث بالا سے معلوم و ثابت ہو اکہ مساجد کے اندر گندی اور نجس اشیاءکا ہونا درست و جائز نہیں اور دوم یہ کہ تعمیر مسجد کا مقصد صرف یہی ہے کہ اس میں عبادت و ذکر الہٰی کیا جائے اور قرآنی علوم پڑھے پڑھائے جائیں ۔

مسجد میں بعض وہ اشیاءیا کام ہوتے ہیں جن کامسجد کے اندرنہ ہونا ضروری ہے ۔مثلاً (1)مسجد میں مٹی کا تیل جلانا ۔ (2)یا سلائی جلانا ۔ (3)گیس والے ہیڑ جلانا۔(4)پیاز یا لہسن کھا کر مسجد میں جانا ہاں البتہ مذکورہ تمام اشیاءکی کسی طور پر بد بو زائل کر دی جائے تو ان کا مسجد میں ہونا کچھ مضر نہیں بصورت دیگر ناجائز و حرام ہے ۔

چنانچہ علامہ علاﺅ الدین الحصکفی رقم طراز ہیں :”مسجد کے اندر نجاست لے جانا مکروہ تحریمی ہے لہٰذا ناپاک تیل کے ساتھ وہاں چراغ جلانا درست نہیں ۔“(درمختار )

حدیث پاک میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” جس شخص نے اس بدبو دار درخت سے کھایا وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو بھی ہر اس چیز سے تکلیف پہنچتی ہے ۔ جس سے انسانوں کو پہنچتی ہے ۔“(صحیح مسلم)

مسجد کے دیگر آداب:مسجد میں خرید و فروخت ممنوع ہے ۔ حدیث شریف میں ہے :” جب تم کسی کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے دیکھوں تو کہوں کہ اللہ تعالیٰ تیرے سودے میں فائدہ نہ دے۔“ (جامع ترمذی جلد 1صفحہ758)

2۔مسجد میں تعویز ات بیچنا ممنوع ہیں ۔فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ”ایک شخص مسجد میں تعویز بیچتا ہے تو اس تعویز میں تورات ،انجیل اور قرآن پاک لکھتا ہے اور اس پر رقم وصول کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس کا ہدیہ مجھے دو تو یہ جائز نہیں الکبریٰ میں اسی طرح ہے ۔“(فتاویٰ عالمگیری312)

3۔مسجد میں سونے اور کھانے کا حکم ۔فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ”مسجد کے اندر سونا اور کھانا غیر معتکف کےلئے مکروہ ہے۔“(فتاویٰ عالمگیری صفحہ321)

4۔مساجد میں دنیاوی معاملات کی باتیں کرنا حرام ہیں۔اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں :
دنیا کی باتوں کے لئے مسجد میں جاکر بیٹھنا حرام ہے۔ اشباہ و نظائر میں فتح القدیر سے نقل فرمایا :”مسجد میں دنیا کا کلام نیکیوں کو ایسے کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو ۔“ یہ مباح باتوں کا حکم ہے پھر اگر باتیں خود بری ہوئیں تو اس کا کیا ذکر ہے دونوں سخت حرام در حرام ، موجب عذاب شدید ہے ۔“(فتاویٰ رضویہ جدید جلد8صفحہ112)

درج بالا چند سطور میں آداب مسجد کے بارے تھوڑی سے روشنی ڈالی گئی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے لوگوں کے دل و دماغ کے اندر مساجد جو کہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں کی اہمیت ومقام گر کر جائے ورنہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آج ہم لوگ مساجد کا کس حد تک احترام بجا لا رہے ہیں ۔مساجد کے اندر آوازیں بلند کی جارہی ہیں ۔ ایک دوسری کی عیب جوئی ہو رہی ہے دنیاوی و سیاسی باتیں ہو رہی ہیں۔کسی دور میں مسجد کی انتظامی کمیٹی مسجد کی خادم ہوا کرتی تھی آج خدمت مسجد کا کام تنخواہ دارنوکروں کو سونپ کر خود عہدہ صدارت و ممبری پر فائز ہو کر مسجد جیسی مقدس جگہ کی حرمت کو اپنی نام نہاد سیاست کے ذریعے پامال کر رہی ہے ۔سچ تو یہ ہے آج کے دور میں یہ بات کثرت سے دیکھنے میں آرہی ہے کہ جہاں حکومتی عہدوں پہ نااہل لوگوں کا بسیرا ہے وہاں مساجد کی کمیٹیاں بھی نا اہل صدور ،ناظمین و ممبران سے بھری پڑی ہیں ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے ہاں کسی بھی شعبے میں کسی کو کوئی عہدہ سونپنے کا کوئی معیار نہیں رکھا جاتا۔اگر معیار رکھا جائے تو ہر شعبہ زندگی میں ہم ترقی کر سکتے ہیں اور خصوصی مساجد کی انتظامی کمیٹی کا عہدے دار ہونے کے سلسلے میں اگر صرف اس قدر معیار رکھ دیا جائے کہ جو شخص مسجد میں نمازِ پنجگانہ با جماعت آکر پڑھے اور مسجد کی صفائی ستھرائی وغیرہ و دیگر کام خود اپنے ہاتھ سے کرے گا ،تو وہی شخص عہدیدار اور رکن بننے کا اہل ہے ۔ تو یقینا مساجد کا نظام بہت بہتر اور شاندار ہو سکتا ہے ۔

ہمارے ہاں شہروں اور دیہاتوں میں کثیر مساجد کے اندر آدب مسجد کے خلاف مختلف اشیاءکی گمشدگی کا اعلان ہوتا ہے ، کسی کا بچہ گم ہو گیا ،کسی کا جانور کہیں بھاگ گیا ،کسی کی بکری گم ہو گئی تو مسجد میں اعلان ،دیہاتوں میں توحد ہو گئی وہاں پہ گم شدہ آدمی یا جانور کا اعلان الگ رہا ،وہاں سبزی منڈی کی سبزی کا خریدنے اوربیچپنے کا اعلان بھی مسجدوں میں کیا جاتا ہے ۔آہ! برُا ہو جہالت کا جو کہ مساجد کے عہدیداروں پہ قبضہ جمائے ہوئے ہے ۔کاش! اس جہالت سے انہیں چھٹکارا نصیب ہو جائے اور علم دین کی روشنی میں اپنے عہدوں کو دیکھ لیں ،ہاں پھر دیکھیں کہ مذکورہ بے ضابطگیاں کیسے رفو چکر ہوتی ہیں ۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 658580 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.