احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور
شرعی:
عقلی احکام میں تقلید جائز نہیں، جیسے صانع عالم (جہاں کا بنانے-والا) اور
اس کی صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)، اس طرح رسول الله صلے الله علیہ
وسلم اور آپ کے سچے ہونے کی معرفت وغیرہ.
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول_دین میں بھی تقلید کو جائز
کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"تمہارے رب
کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع
نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو"(سورہ الاعراف:٣). اسی طرح
الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی
کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے
جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے
ہدایت ہوں"(٢:١٧٠), اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے
عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام_حلال و حرام کے خلاف
ان کو حاکم - حکم دینے والا), اللہ کو چھوڑ کر..."(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام_شرعیہ، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
١) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے نماز، روزہ، حج،
زكوة اسی طرح زنا و شراب کا حرام ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے
کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں، اس لئے ان میں تقلید کا کوئی
معنی نہیں.
٢) دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے:
عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے.
اللّہ تعالیٰ کے قول "پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم
رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧) کی دلیل سے. اور وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ
حضرات ہیں جن کو احکام_شرعیہ کے استنباط (٤:٨٣) کے طریقے معلوم نہیں ہیں،
تو اس کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ نہیں
ہے. الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: "پس تم سوال کرو اہل_علم (علماء) سے، اگر تم
نہیں علم رکھتے"(١٦:٤٣، ٢١:٧)
حضرت ابن_عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلے الله
علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگۓ، پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے
انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی. اس کی اطلاع نبی
صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے
کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج دریافت (سوال) کرنا نہ
تھا؟...الخ (سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ
يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث: ٢٨٤(٣٣٦)
دوسری اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ اہل_اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی
فرض ہے. جیسے نابینا، جس کے پاس ذریعہ_علم نہیں ہے تو قبلے کے سلسلے میں اس
کو کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.
مومن (اسلام کا علم رکھتے ماننے والے) باپ دادا کی اتباع:
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے
چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے...(٥٢:٢١)
https://www.scribd.com/doc/99039736/Al-Fa...ih-2-Arabi
[الفقيه والمتفقه: ٢ /١٢٨-١٣٣،علامہ خطیب بغدادی شافعی رح (٣٩٢-٤٦٢ھ)،
مطبوعہ دار ابن الجوزیہ]
===============================
اتباع، تقلید و پیروی ہم-معنى الفاظ ہیں:
١. "قرآن" کی اتباع (سورہ-اعراف:٢٠)
٢. "سنّت" کی اتباع (سورہ-آل_عمران:٣١)
٣. اتباع سبیل_مومنین (کی جماعت) یعنی-"اجماع"کا مخالف جہنمی (النساء:١١٥)،
خصوصن "مہاجر-و-انصار" صحابہ(رض) کی اتباع (التوبہ:١٠٠)
٤. منیب کی اتباع (لقمان:١٥) مجتہد بھی "غیرمنصوص-جزئی" کو
"منصوص(قرآن-و-سنّت) کی طرف لوٹانے-والا ہوتا ہے. یعنی مجتہد بھی
اختلافی(یا جدید) مسائل کو منصوص کی طرف لوٹاتا ہے. سو اس کی بھی پیروی کا
حکم ہے.
...(یہ) کیا (بات ہے کہ) تم کتابِ (خدا) کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور
بعض سے انکار کئے دیتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں، ان کی سزا اس
کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت کے
دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دیئے جائیں اور جو کام تم کرتے ہو، خدا ان سے
غافل نہیں[البقرہ:٨٥]
اتباع "قرآن-و-حدیث ہی کی دلیل سے" کسی کی پیروی کرنے کا نام ہے، تو ان
آیات میں
[نفسانی-خواھشات کی اتباع(٣٦:٢٦)،
بے-ہدایتے،بے-علم-و-عقل باپ-دادا کی اتباع(٢:١٧٠)،
یہود-و-نصاریٰ کی اتباع (٢:١٢٠/١٤٥)،
بے-علم،غیر-عالم کی اتباع (٩:٤٣، ١٠:٨٩، ٤٥:١٩)]
سے منع کیا گیا ہے، تو وہ کونسی اور کیا دلیل دیتے ہیں کہ ان پر "تقلید" کے
بجاتے"اتباع" کا لفظ استمعال ہوا؟؟؟
معلوم ہوا کہ اتباع، تقلید و پیروی ہم-معنى الفاظ ہیں |