شان مصطفی اور اظہار رائے کی آزادی

عجیب دستور زمانہ ہے جب کسی عورت پر حملہ کیا جاتا ہے تواسے جنسی تعصب اور امتیازی سلوک کا نام دیا جاتا ہے جب ہم جنس پرستوں پر حملہ کیا جاتا ہے تو لوگوں میں صبر کا مادہ ختم ہونے کا کہا جاتا ہے جب کسی یورپی ملک پر حملہ ہوتا ہے تو دہشت گردی ہوتی ہے لیکن یہی حملہ جب کسی مسلمان ملک پر ہوتا ہے تو اسے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی قرار دیا جاتا ہے اور جب شان مصطفی محمد صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی شان میں کوئی بکواس کرتا ہے تو اسے "آزادی اظہار رائے " کا نام دیا جاتا ہے اگر یہ اظہار رائے کی آزادی ہے تو لعنت ہے ایسے اظہار رائے کی آزادی پر جس میں ہمارے نبی آخر الزمان کی شان میں گستاخی کرنے والے کو تحفظ ملے-یہودی نژاد امریکی کی فلم ریلیز ہونے کے بعد جس صورتحال کا ہمیں سامنا ہے اور جس طرح کے اسلامی ملکوں میں ہنگامے ہورہے ہیں اس سے مغربی ممالک پریشان ہے -مغرب سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی اس حوالے سے لوگوں کی رائے جاننا چاہتے ہیں گذشتہ روز فرانس کی ایک نیوز ایجنسی کی طرف سے ای میل ملا کہ کیا میں اس احتجاج میں شریک ہونا پسند کرونگا اور میرا اس فلم کے بارے میں کیا خیال ہے میں نے اسے جوابی ای میل کی کہ ابھی تک میں نے فلم نہیں دیکھی اس حوالے میں کچھ نہیں کہہ سکتا پھر اس نے مجھ سے کچھ سیاسی لیڈروں کے فون نمبر مانگے جن سے اس سلسلے میں رابطہ کیا جاسکتا ہے بحیثیت صحافی میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ آخر کیا اس فلم میں ہے جس سے وقت کے فرعون امریکہ کے سفیر بھی مارے گئے اور اب یورپی یونین بھی مسلمانوں سے صبر اور پرامن رہنے کی تلقین کررہی ہے-

انٹرنیٹ پر سرچ کرکے فلم دیکھنے کی کوشش کی لیکن ویب سائٹس بلاک ہونے کی وجہ سے اس فلم تک رسائی نہیں ہوئی تاہم ایک امریکی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ دیکھی جس میں اس فلم کے کچھ حصے دکھائے گئے ان حصوں کو دیکھنے کے بعد میرا کیاخیال ہوا اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا-نبی آخر الزمان کی شان میں جتنی گستاخی اس فلم میں کی گئی ہے اس کا اندازہ لوگوں کو نہیں کیونکہ جو کچھ اس فلم میں دکھایا گیا وہ ناقابل برداشت ہے -بحیثیت ایک کمزور ایمان والے مسلمان اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی کے میرااس بات پر ایمان ہے کہ ان کی شان ان چیزوں سے مبرا ہے کیونکہ وہ نبیوں کے سردار ہے -اور جس فلم ساز نے یہ حرکت کی ہے اگر وہ مجھے مل جائے تو میں اس کا کیا حشر کرونگا یہ میں اور میرا خدا جانتا ہے -کچھ لوگوں کیلئے یہ انتہا پسندی ہوگی لوگ اسے کیا سمجھیں اور کیا کہیں مجھے اس کی کوئی پروا نہیں -کیونکہ کچھ لوگ جن کا روز آخرت اللہ اور اس کی نبی پر ایمان اور یقین نہیں ان کیلئے یہ باتیں انتہا پسندی ہوگی -

مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ امریکہ میں "دلالی "کرکے سفارت حاصل کرنے والے ایک سابق پاکستانی سفارتکار جو کچھ عرصہ قبل ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے بھی بدنام ہوئے تھے اور بعد ازاں امریکہ بھاگ گئے تھے وہاں پر آج کل " خوشامد " کرکے اپنی پوزیشن دوبارہ بہتر کررہے ہیں انہوں نے رد عمل میں اپنا ایک مضمون شائع کیا ہے جسے وائس آف امریکہ نے بھی آن لائن دیا ہے جس میں نام سے لگنے والے سابق پاکستانی سفیر نے نے لکھا ہے کہ" اس قسم کے بے حقیقت وڈیوزکہیں بھی کسی کو فرق نہیں پڑتا جب تک اسلامی انتہا پسند اپنی انتہا پسندی کو فروغ دینے کیلئے خود اس کی تشہیر نہ کریں-حالات حاضرہ کے حوالے سے امریکی ادارے میں پروفیسرز کے عہدے پر تعینات نام نہاد مسلمان کے مطابق " اصل مسئلہ اہانت کا نہیں بلکہ مسلم ممالک میں سڑکوں پر جس تشدد کا مظاہرہ ہوتا ہے وہ تین صدیوں سے مسلمان ملکوںکی مسلسل اس تنزلی پر مایوسی کا اظہار ہے جس کے متوازی مغرب کے عسکری اور اقتصادی طاقت نئی نئی بلندیوں کو پہنچی ان کے بقول متنازعہ فلم پرمظاہرے اسلامی انتہا پسندوں کیلئے بہانہ ہے-

میرا ایک سوال ان جیسے مسلمانوں کی دلالی کرنے والوں سے ہے کہ کیا وہ اپنی ماں باپ کے بارے میں غلط اور بیہودہ گفتگو پسند کرتے ہیں یقینا ان کا جواب نفی میں ہوگا تو کیا اس نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی جس کی وجہ سے دنیا قائم ہوئی جو اللہ کا محبوب ہے اور رحمت العالمین ہے - ہم اسی محبوب کے امتی ہے جس پر ہم جیسے گناہ گاروں کو فخر ہے کہ ان کے توسط سے ہماری بخشش ہوگی کیا ہم اپنے پیغمبر کی شان میں گستاخی برداشت کرینگے یقینا نہیں -دنیا اسے انتہا پسندی کہے ہمارے لئے بحیثیت مسلمان اسی زندگی سے خاک میں دفن ہونا بہتر ہے کہ ہمارے نبی کی شان میں کوئی غلط بات بھی کہے اور ہم خاموش رہے - ہمیں اس پر فخر ہے کہ غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے --خوش آئند امر یہ ہے کہ حکومت نے فوری طور پر متعدد ویب سائٹس کو بلاک کردیا ہے جس پریہ فلم لوڈ کی گئی ہیں تاہم کچھ حصے ابھی تک انٹرنیٹ پر آن لائن موجود ہے جسے فوری طور پر بلاک کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت اور افغانستان جیسے ممالک میں ان سائٹس پر پابندی عائد کردی گئی ہیں -اس فلم کے حوالے اب تک پاکستان کے مذہبی و سیاسی جماعتوں نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے وہ قابل تحسین ہے لیکن اس احتجاج میں حکومت کو بھی کھل کرساتھ دینا چاہیے-

میرے لئے باعث اطمینان و قلب یہ ہے کہ الحمد اللہ ہم لوگوں میں غیرت ایمانی کا کچھ ذرہ تو موجود ہے جس کی بنیاد پرہم لوگ احتجاج کررہے ہیں لیکن کیا ہم اپنے احتجاج کو آرگنائز کرسکتے ہیں اور توڑ پھوڑ کے اس احتجاج کو ہم پرامن کرسکتے ہیں کیونکہ اپنے ہی املاک پر حملہ کرنا `توڑ پھوڑ کرنا بھی بے وقوفی ہے -ہمارے پاس وسائل ہونگے تو ہم احتجاج کرسکیں گے اگر ہم اپنے وسائل کو خود تباہ کرے تو پھر کیسے احتجاج کرینگے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بھوکے پیٹ نماز نہیں ہوتی کیونکہ نمازی نماز کے دوران بھوک ختم کرنے کیلئے سوچتا ہے ویسی ہی صورتحال ہماری بھی ہے اگر ہم خود اپنے اداروں کو تباہ کرے تو پھر ہمار ے پاس کیا رہ جائیگا اور ہم کیسے احتجاج کرسکیں گے کیا اس ملک میں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں کام نہیں کررہی کیا ہم ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کرسکتے -مارکیٹ میں سینکڑوں ایسی چیزیں موجود ہیں جس کا بائیکاٹ کرکے ہم اپنا احتجاج ریکارڈ کرسکتے ہیں اس عمل نہ صرف وقت کے فرعون "امریکہ " کو نقصان ہوگا بلکہ وہاں پر بیٹھے "کالے "کو اس فرق کا پتہ بھی چل جائیگا کہ "اظہار رائے کی آزادی"کیا چیز ہے -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497943 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More