اسلام میں انسانی برادری کے باہمی حقوق کی تعلیمات

ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا جوحق کسی ملک کے دستو ر نے دیا ہے ، اسلام اس سے چھیڑچھاڑ کی اجازت نہیں دیتا۔

ازقلم:محقق مسائل جدیدہ مفتی محمدنظام الدین رضوی صاحب،مبارکپور،انڈیا

حقوق نمبر۱: مذہب کا تحفظ
انسانی برادری کے باہمی حقوق میں پانچ امور کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔(۱)مذہب کا تحفظ(۲)جان کا تحفظ(۳)مال کا تحفظ (۴)عقل کا تحفظ۔ یعنی پوری انسانی برداری پر مشتر کہ طور پرحقوق عائدہوتے ہیںکہ ہر ایک کامذہب،جان ،مال ،عقل ،نسب دوسرے کے ہاتھوں محفوظ رہے اور کوئی اس کے حقوق پر دست درازی نہ کرے۔مصطفٰی جان رحمت ﷺکی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں پربھی ان حقوق کالحاظ واجب ہے ۔جس کا ایک اہم سبب یہ ہےکہ دنیا کی حکومتوں کے قوانین میں تھوڑے فرق کے ساتھ پانچوں حقوق کو نمایا ں مقام حاصل ہے اور ہرایک ملک کے باشندے وہاں کے ملکی قوانین کے پابندہوتے ہیں ۔ تومسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر مسلمان پر اپنے عہد کا ایفالازم ہے کیوں کہ کتاب وسنت میں ایفائے کی بار بار تاکید فرمائی گئی ہے ۔مثلاً کتاب الٰہی میں یہ ارشاد بانی ہے ۔اے ایمان والو !اپنے عہد کوپورا کرو ۔ (المائدہ،۵)نیز ارشا د خدا وندی ہے :اور عہد پورا کرو بے شک عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔ (الاسرائ:17)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں چارخصلتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا ۔اور جس میں ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی جب تک کہ وہ اسے چھوڑنہ دے( ۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے(۲)جب معاہدہ کرے تو توڑدے(۳)جب کسی سے وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے(۴)جب کسی سے جھگڑا ہوتو گالی گلوچ کرے ۔(صحیح مسلم شریف ا،۶۵)اس سے بڑی بات ایک مسلمان کے لئے نہیں ہو سکتی کہ عہد شکنی کرنے پر اسے”خالص منافق‘ ‘کہا جائے ۔اس سے اسلام میں ’عہد‘کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

(۱) مذہب کا تحفظ:
مذہب کے تحفظ سے مراد یہ ہےکہ ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا جوحق کسی ملک کے دستو ر نے دیا ہے ،ہم اس سے چھیڑچھاڑ نہیں کریں گے جیسا کہ مسلم ریاست کے تمام باشندوں کو یہی حکم ہے ۔وہاں بھی سب ایک مقررہ دستور کے پابند ہوتے ہیں اور آج کے دور میں بھی ایساہی ہے ۔اس حیثیت سے درج ذیل آیات سے بھی اس نظرےے کی تائید ہوتی ہے ۔قرآن حکیم میں ہے :”تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین “۔(الکافرون ۶) نیز ارشاد باری ہے :دین میں کچھ زبردستی نہیں بے شک نیک راہ گمراہی سے خوب جداہوچکی ہے ۔تو جو شیطان کونہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے اسنے بڑی محکم گرہ تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں اوراللہ سنتا جانتا ہے ۔ (البقرہ:356) اسلام نے اپنی ریاست کے باشندوں کو مذہبی آزادی عطافرمائی ہے اور معاملات میں بھی انہیں وہ تمام حقوق دیئے ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔سوائے اس کے کہ شراب و خنزیر کی خرید و فروخت سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے اور غیر مسلموں پر اس بارے میں کوئی پابندی نہیں عائد کی گئی کیوں کہ وہ ان کے مذہب میں حلال ہیں ۔قانون اسلامی کی بڑی معتمد ومستند کتاب الہدایہ میں یہ ”دفعہ “اس طرح مذکور ہے : غیر مسلم ذمی خرید وفروخت (وغیرہ)کے معاملا ت میں مسلمانوں کی طرح ہیں ۔اس لیے کہ رسول ﷺنے ان کے متعلق فرمایا ”انہیں بتا دو کہ جو معاملات مسلمانوں کے حلال ہیں ،وہ ان کےلئے بھی حلال ہیں اور جو معاملات مسلمانوں پرحرام ہیں ،وہ ان پر بھی حرام ہیں ،اور اس لئے بھی کہ وہ بھی مسلمانوں کی طرح سے مکلّف وحاجت مند ہیں ۔البتہ خاص طور پرشراب وخنزیر کے سلسلے میں ان کا حکم مسلمانوں سے الگ تھلگ ہے ۔کیوں کہ ان کے نزدیک شراب کی خرید وفروخت میں مسلمانوں کے شیرئہ انگوری کی خرید و فروخت کی طرح ہے اور ان کے یہاں خنزیر کی خرید و فروخت مسلمانوں کے بکری خرید نے بیچنے کی طرح ہے کیوں کہ شراب و خنزیر ان کے اعتقاد میں مال ہیں اور شریعت اسلامی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ انہیں ان کے عقیدہ ومذہب پر آزاد چھوڑ دیں ۔(ہدایہ ،۳ ،86)

مذہبی آزادی کے حقوق میں یہ امر حائل ہے کہ کسی مذہب کے مر جع طاعت وعبادت کو نشانہ طعن وتنقید نہ بنایا جائے ۔قرآن حکیم میں خدائے ذو الجلال کا یہ فرمان ہے :اور انہیں گاکی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پو جتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں زیا دتی اور جہالت سے بے ادبی کریں گے ۔(آیت 109،سورة الانعام ۶) اس قانون نے کسی بھی مذہب کو جو تحفظ دیا ہے ، اس پر آج بھی مسلمان پورے طور پر کاربند ہے ۔ نہ وہ کسی مذہب اور اس کے مرجع طاعت و عقیدت کو گالی دیتا ،لیکن اس کے بر خلاف آج کی غیر مسلم دنیااس اہم قانون کو پامال کرتی نظر آرہی ہے ۔اس کی شہادت یہ ہےکہ آج برا ہ راست مذہب اسلام کو ”دہشت گردی“کی گالی دی جارہی ہے ۔کہیں کسی مسلمان یانام نہاد مسلمان سے کوئی انتقامی کاروائی یا زیادتی سر زد ہوجاتی ہے توفورا اسے”اسلامی دہشت گردی “کا عنوان دے کر مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ انصاف کی بات تویہ ہے کہ جو دہشت پھیلائے صرف اس کیطرف اس کا انتساب کیاجائے جیسا کہ غیر مسلم دہشت گردوں مثل الفا ،ماﺅ وادی ،ن کسلی ،ایل ٹی ٹی وغیرہ کے ساتھ ایسا ہی کیا جاتا ہے ۔کبھی ان کے مذہب کے ساتھ ان کی بدی کو نہیں جوڑا گیا ، حتٰیٰ کہ کسی مذہب کے ماننے والوں کی طرف عمومی طور پر نہیں منسوب کیا گیا ۔زیا دہ سے زیا دہ چند افراد کے اس فعل کو ”مسلم دہشت گردی “کہا جا تا تاکہ اس گالی کا نشانہ صرف مسلمان بنتے ،مذہب کاتقدس پا ما ل نہ ہوتا ۔کیا اس فرق کو ہمارے سر براہان مملکت اوران کے وزرا ءاور دوسرے ارباب علم ودانش نہیں سمجھتے ہیں تو پھر اپنے اور پرائے اورمسلم و غیرمسلم میں یہ امتیاز کیسے روا رکھاگیا ؟ایک زمانہ میں سکھ قوم اس کیلئے کافی مشہور تھی ،جب اسے ”اُگروادی “کا ٹائیٹل دیا گیا تھا مگر اس وقت بھی اسے کسی قوم نے مذہب سے نہیںجوڑا ۔پھر اسلام اور مسلمانوں پر ہی یہ عنایت کیوں ہے؟سب جانتے ہیں کہ جس کام کو ”دہشت گردی “کہا جا تا ہے ، اس کا ارتکاب مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ کرتے ہیں ۔سوئے اتفاق کہ کسی ظلم وعدوان،یا اپنی بے رحمی وسخت دلی کے باعث کچھ مسلمان کہلانے والے بھی اس گناہ میں شریک ہیں ،جن کی تعداد پانچ فےصد سے زیا دہ نہیں ہو سکتی مگر ان کی بنیاد پر تمام مسلمانوں بلکہ خود اسلام کو ہی ہدف ملا مت بنا یا جا رہا ہے ۔کیا یہی انصاف ہے ؟افسوس یہ ہے کہ یہ کا رنامہ وہ لوگ انجام دے رہے ہیں جو اپنے آپ کو حقوق انسانی (ہیو من رائٹس)کا علم بردار کہتے ہیں ۔اور اب تو حد ہو چکی ہے کہ رسولوں کے سردار ،نبیوں کے خاتم ،پیغمبر اعظم ،جناب محمد رسول ﷺکی شان اقدس میں بر ملا گستا خی کی جا تی ہے ، گستاخانہ کارٹون شائع کیے جارہے ہیں اور خلا ف احتجاج کایہ جواب دیا جاتا ہے کہ ”ہر شخص کو آزادی گفتا ر کا حق حاصل ہے “رومن کیتھولک عیسائیوں کے اسقف اعظم نے اسلام و پیغمبر اسلام ﷺکے تعلق سے 12ستمبر کو جودل آزار بیان دیاہے ،اس پر مسلمانوں کی برہمی کے جواب میں یہ عذر پیش کردیا گیا کہ یہ بات میری نہیں ،چودھویں صدی کے ایک عیسائی بادشاہ مینوئل دوم کی ہے یعنی دوسرے کی مجرمانہ بات کو اپنی تقریر میں نقل کرنا جرم نہیں ہے ۔یہ فہم وفراست ہے دنیا ئے عیسائیت کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا پاپائے اعظم کی ۔یہ چند اشارے اس لیے پیش کردئیے ہیں تاکہ یہ اندازہ لگا یا جا سکے کہ اسلام نے مذاہب عالم کو جو حق عطاکیا ہے اور اس تعلق سے اپنے ماننے والوں کو اپنی کتاب ہدایت میں جو حکم دیا ہے ،وہ بہت ہی اہمیت کا حامل اور دنیا کے لئے مشعل راہ ہے ۔کہتے ہیں :الا شیاءتعرف با ضدادھا ۔چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جا تی ہیں ۔(یہ مضمون تسلسل کے ساتھ ہماری ویب ڈاٹ کام کے قارئین کی نذرکیا جائے گا۔حقوق نمبر۲،۳،اور۴اگلے مضمون میںملاحظہ فرمائے۔) انشاءاللہ تعالیٰ
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731357 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More