2 ۔ بیان الناس
تشبیہات کو انسانی علم کی عام سطح اور ان پر غورو فکر کرنے والو ں کی فکری
صلاحیت کے مطابق سمجھا جاسکتا ہے اب جس زوایے سے جو سمجھا گیا ان مفہوم کو
حرف آخر قرارنہیں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ مفہوم سند اور حجت ہوسکتے ہیں
آیت :۔ 2/1 مفہوم:۔ وہ رحمان اور رحیم ہے۔
جس طرح ایک اچھا انسان اپنے اطراف کے انسانوں کی تربیت کرتے ہو سختی و نرمی
برت کر اچھے انسان معاشرے کو فراہم کرتا ہے۔یہ کہ والدین۔عزیز۔ رشتے دار۔
دوست احباب ۔اس کی نشونماکررہے ہیں ان باتوں کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ
انسان خود معاشرے کا حصہ بنتا ہے۔
رحمان۔رحیم ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مکمل ادراک انسانی سوچ کے احاطہ میں
آنا ممکن نہیں اس صفت کو خود پر لاگو کرنا اور انسانیت کے لے رحمان بن کر
رحمان کی رحمانیت تو محسوس کی جاسکتی ہے یوں ہی رحیم ہے کہ انسانی جسم میں
بے شمار انسانی جرثومے کی موجود گی میں ایک کا منتخب ہونا اور شکم مادر میں
چند ماہ میں ایک مکمل انسانی جسم حاصل کرکے دنیاوی زندگی کا سفر شروع
کرناشکم مادر میں اور دنیا کی حیات میں موت تک تمام ضروریات زندگی کا فراہم
ہونا رحیم کی معنی میں لیاجاسکتا ہے
جو انسانی عقل وسوچ کے دائرے اپنے جیسے انسان کے جذبہ محرکہ کا صحیح ادراک
نہیں کرسکتے ہوں وہ خالق کی صفات کا احاطہ کرلیں ممکن نظر نہیں آتا
119) / 3 آیت مفہوم:۔ انسان کا مکمل احاطہ ہوتا ہے ۔ 16 / 5 0 آیت مفہوم:۔
ہم نے انسان کو پیدا کیا اس کے دل میں گزرنے والے خیالات تک سے واقف ہیں ہم
اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں ۔ 74/2 ۔آیت مفہوم:۔ جو تم
کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ۔تقربیا دس مرتبہ اس طرح کا فرمان ہے ۔ 96/2
آیت مفہوم:۔ اللہ ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے ۔ .154/3 آیت مفہوم:۔ اللہ
تمھارے دل کی باتوں سے بھی واقف ہے)
اب آپ اللہ تعالیٰ کے رحمان اور رحیم کی صفات پر غور فرمائیں انسان اپنی
نظروں کے سامنے ہونے والے فساد کو اصلاح خیال کرتا ہے اور اصلاح کو فساد
خیال کرسکتا ہے انسان کی سوچ اور انسانی دائرے کار محدود ہیں کیا انسان
اپنے اطراف کی اس چھوٹی سی دنیا میں آپ خودرحمان اور رحیم کی صفات پر عمل
کرتا ہوا زندگی بسر کرتا ہے اگر کرتا ہے تو اس کا کوئی عمل بے کار نہیں
جاسکتا
ہم کو بلا مقصد پیدا نہیں کیا گیا یہ ہم کو غور اور فکر کرنا ہے
مفہوم :۔ اردو تراجم سے ماخوذ |