شاہ عبد اللہ کی قیادت میں سعودی عرب شاہراہ ترقی پر

آج سے بیاسی سال قبل آل سعودکے ہونہار فرزند،انتہائی دلیر اور بہادرشاہ عبد العزیز بن عبد الر حمن آل سعود رحمة اللہ علیہ نے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے کیلئے چالیس جانثاروں کے ہمراہ کویت سے سفر کرکے ایک رات کے آپریشن میں نماز فجر سے قبل بر اعظم ایشیاء،یورپ اور افریقہ کے سنگم پر واقع خطہ میں عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک ”سعودی عرب“کی 1932 ءمیں بنیاد رکھی اور 87ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے اس ملک کو ایک جدید مثالی مملکت بنانے کا عزم کیا اس مملکت کی تعمیر قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرکے ہوئی ملک کو استحکام ،خوشحالی ،تحفظ اورامن وامان کا گہوارہ بنا کر پائیدار مسلم معاشرہ کے طور پر اقوام عالم میں عزت و وقار سے روشناس کروایاگیا۔

در اصل درعیہ کی چھوٹی سی امارت سے آل سعودنے اپنی حکومت کا آغاز کیاتھا لیکن جلد ہی ان کا دائرہ نفوذ نجد ، عسیریہ ، حضر موت ، اِحساء،بحرین، بصرہ اور شام کے بعض حصوں نیز بغداد کے نواحی علاقوں تک وسیع ہوگیا ۔ اس زمانے میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی خدمت سعودی حکومت کے حصہ میں آئی تھی۔ چنانچہ عثمانی حکومت نے آل سعودکی قائم کردہ اسلامی ریاست کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا اور عثمانی حکومت اور اوّلین آل سعودکی حکومت کے درمیان تصادم ہوا جس کے نتیجے میں سعودی حکومت 1234ھ بمطابق 1818ءمیں ختم ہوگئی ۔

بعد ازاں امام عبد الر حمن بن فیصل جو سعودی حکومت کے آخری شہزادے تھے کویت مُنتقل ہوگئے ان کے ساتھ ان کے ہونہار بیٹے عبد العزیز بھی تھے جو اس وقت عہد طفولیت میں تھے ۔عبد العزیز نے اپنے ملک کو پنجہ اغیار سے نجات دلانے کا عزم کیا اور ضروری انتظامات کیے ۔ مختصر یہ کہ جلاوطنی کے دور نے ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی نیز ان کے ارادوں کو تقویت دی چنانچہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ شاہ عبد العزیز کو اس امر کا احساس ہوگیا کہ اب انہیں فوراً ریاض پر حملہ کردینا چاہیے تاکہ وہ اپنے اباﺅ اجداد کی سرزمین کو واپس لے سکیں ۔اللہ کے فضل سے وہ دن بھی آیا اوران کا خواب پورا ہوگیا اور وہ اپنے عزم و ارادے کی بدولت جزیرہ عرب میں اپنے بزرگوں کی عظمت رفتہ بحال کرنے نیز عربی و اسلامی تاریخ میں جزیرہ عرب کو مسلمہ سیاسی مقام دلانے میں کامیاب ہوگئے ۔

شاہ عبد العزیز کے ہاتھ پر ریاض کی فتح مملکت سعودی عرب کی تشکیل کا نقطہ آغاز تھی جو تقریباً25سال میں پایہ تکمیل کو پہنچی ۔ اس میں جزیرہ عرب کا تین چوتھائی حصہ شامل تھا اس طرح پہلی متحدہ عرب حکومت قائم ہوئی جو آج تک اسی طریقے پرقائم و کاربند ہے جس کی بُنیاد سعودی حکومت کے بانی شاہ عبد العزیز نے رکھی تھی شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز آل سعود سے قبل شاہ فیصل شہید،شاہ خالد ،شاہ فہد اور دیگر کا اقتدار رہا ۔ ان کی رحلت کے بعد مملکت سعودی عرب کے عوام نے اتفاق رائے سے خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبد العزیز سے پیمان وفا باندھا اور رشتہ الفت استوار کیا تاکہ وہ بھی اپنے اباﺅ اجداد کی طرح دین کی حفاظت ،دعوت محمد ی ﷺ کی نشرو اشاعت نیز امت مسلمہ کے مسائل کی تائید و حمایت کو نصب العین بنائیں۔

کرہ ارض کی وہ دھرتی جسے ہم سعودی عرب کے نام سے جانتے ہیں آج اسلام اور مسلمانوں کا قلعہ ہے اسی مقدس سرزمین پر قبلہ اور حرمین شریفین موجود ہیں ان شہروں کو اقائے دو جہاں ﷺ سے نسبت ہے ۔سعودی حکمرانوں کے اخلاص کی بدولت ملک میں قانون الہٰی کی عملداری اور امن و سکون کا دور دورہ ہے اور اس کے باسی اپنی مقبول رحمدل قیادت سے محبت اور وفاداری کے باعث خوشحال اور پرمسرت زندگی بسر کررہے ہیں حکومت سعودی عرب نے ہمیشہ اپنے عوام کو اسلامی طرز حیات ،جدید علوم و فنون ،اور مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کے ہر ممکن مواقع فراہم کیئے ہیں اور آج سعودی عرب دنیا کی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں کی صف میں شامل ہے کیونکہ سعودی عرب نے جی20 کے رکن کی حیثیت سے عالمی اقتصادی اور مالی نظام کونئی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب کے اس اعزاز پر بھی عالم اسلام کا سر فخر سے بلند ہے حقیقت یہی ہے کہ دنیا بھر کا مسلمان عالم عرب کے اس خطہ کو نہ صرف ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے بلکہ پوری دنیا کی قیادت و سیادت کو ایسے عجزو انکساری کے علمبردار حکمرانوں اور انسانیت کے مملکت کے خادموں کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتا ہے جہاں انسان کا مقام بلند ہے اور ذات پات ،رنگ و نسل کا کوئی اعتبار نہیں کریم ذات اپنی کرم نوازی سے شریروں کے شر سے تاقیامت مملکت سعودی عرب کو محفوظ فرمائے اور ہمیشہ حرمین کی ترقی و تعمیر اور معتمرین وزائرین اور حجاج کی سہولتوں کیلئے کوشش کرنیوالوں کو اجر عظیم عطا فرمائے۔

خادم الحرمین الشریفین کی علم دوستی پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے آپ کا علم سے اسقدر شغف وتعلق ہے کہ ملک بھر میں چھوٹی بڑی یونیورسٹیوں کے قیام کے ساتھ ساتھ عالمی سطح کی ایک بہت بڑی غیر معمولی ”شاہ عبد اللہ یونیورسٹی “کے قیام کے منصوبے پرتین سال قبل کام کا آغازکیا تھا جو ایک بڑی حد تک مکمل ہوچکا ہے ۔یہ یونیورسٹی ممتاز مقام کی حامل ہوگی جہاں جدید علوم پر غیر معمولی دسترس حاصل کرنے کیلئے دنیا بھر کے شائقین علوم کو زانوئے تلمذ کرنے کا موقع مل سکے گا اور پھر علم و ہنر کا دور دورہ ہوگا ۔

سعودی حکمران ”خادم الحرمین الشریفین“ کے لقب سے جانے جاتے ہیں یعنی حرمین شریفین کی خدمت کرنے والے ایک طرف مالک ارض و سماءنے انہیں مبارک ترین مقامات کی نگہبانی اور وہاں کے باسیوں کی مسؤلیت دی ہے تودوسری طرف حقیقی معنوں میں حرم کے ان پاسبانوں کو حرمین کی خدمت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطاءفرمائی ہے حرم کے خادم چاہتے ہیں کہ اطراف و کناف سے کشاں کشاں آنیوالے قافلوں کے مردو زن کو عبادت خداوندی کیلئے ہر ممکن سہولت حاصل ہو اور اس بات کی گواہی ہر حاجی و زائر دیتا ہے کہ حرمین میںحتی المقدورممکنات میں سے آخری درجے کے انتظامات کیے گئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور اب مسجد الحرام کی تاریخ کے سب سے بڑے توسیعی منصوبے کا سنگ بنیا د رکھ کرخادم حرمین شریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز آل سعودنے اپنی ترجیحات کا پھر اظہار کردیا ہے معلومات کے مطابق یہ توسیع مسجد کی موجودہ عمارت کے شمال مشرق اور شمال مغرب کی جانب چار لاکھ مربع میٹر پر محیط ہوگی ۔ توسیع کی خاطر ملحقہ اراضی حاصل کرنے کے لیے یہاں واقع ہزاروں چھوٹی بڑی عمارتوں کے مالکان کو چالیس ارب ریال معاوضہ ادا کیا گیا ہے نئے بلاک کی تکمیل سے مسجد الحرام میں نمازیوں کی گنجائش میں بارہ لاکھ کا اضافہ ہوگا اور مسجد کے اندر بیک وقت مجموعی طور پر بیس لاکھ افراد عبادت کرسکیں گے ۔منصوبے کو شاہ عبد اللہ توسیعی پروجیکٹ کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت مسجد کے شمال جانب تین سو اسی میڑچوڑائی میں چار منزلہ نیا بلاک تعمیر کرکے اسے مرکزی عمارت سے ملحق کردیا جائے گا اور یک کثیر المنزلہ پل کے ذریعے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے والے راستے سے بھی ملادیا جائے گا ۔نئے بلاک کا ایک مرکزی دروازہ ہوگا جسے شاہ عبد اللہ گیٹ کہا جائے گا۔ اس کے اوپر تین گنبد اور دو نئے مینار تعمیر کئے جائیں گے ۔نئے بلاک میں تہہ خانہ ، گراﺅنڈفلور،فرسٹ فلوراور سیکنڈ فلور تعمیر کیا جائے گا جو مکمل طور پر ایئر کنڈیشنڈ ہوگا۔شمالی جانب سے نمازیوں کو مسجد کے صحن میں پہنچانے کے لئے زیر زمین راستے بھی تعمیر کئے جائیں گے۔اس توسیعی منصوبے پر 10.6 ارب امریکی ڈالر کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ دس ہزارسے زائد پاکستانیوںسمیت دیگر غیر ملکی اس کی تعمیر میں حصہ لیں گے اور اسکی تعمیر ی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے۔

یہ پرچم سدا بلند رہے ارض حرمین امن کا گہوارا رہے اور آل سعودکے رحمدل حکمرانوں سے خلاق عالم مخلوق خدا اور حرمین کی خدمت کا کام لے لے ۔اللہ پاکستان کو بھی امن کا گہوارہ بنائے اور دونوں مملکتوں کو خطرات سے محفوظ فرمائے
پاک سعودیہ دوستی زندہ باد۔
Hafeez Ullah Usmani
About the Author: Hafeez Ullah Usmani Read More Articles by Hafeez Ullah Usmani: 57 Articles with 40597 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.