جب کوئی درد میں ڈوبی ہوئی کوئی
کراہ سنائی دیتی ہے تو انساں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،جب بھی کوئی آہ
وبکا کانوں کے پردوں سے ٹکراتی ہے تو پورے جسم میں اک درد کی لہردوڑ جاتی
ہے،جب بنت حوا کی مظلوم صدا کی گونج سنائی دیتی ہے تو پتھر دل انساں کا دل
بھی پسیج جاتا ہے اور دردکی وجہ سے موم ہوجاتا ہے -
بنت حوا کے ذکر سے یاد آیا کہ آج کل عجب رسم چل نکلی ہے ،جہیز کی لعنت
معاشرے کا ناسور بن چکی ہے یہ ایسا ناسُور ہے جس کی وجہ سے کئی لڑکیوں کے
خواب چکنا چور ہو چکے ہیں ،کئی بیٹیاں اس ظالم رسم کی بھینٹ چڑھ کر اپنی
جوانی کی عمر کو گنوا چکی ہیں ،جہیز کی لعنت کی وجہ سے کئی دوشیزائیں پیا
گھر سدھارنے کی منتظر ہیں جن کی جوانی ڈھل رہی ہے اور پریشانی کی وجہ سے وہ
وقت سے پہلے بڑی عمرکی نظر آنے لگتی ہیں جب وہ آئینے میں خود کو دیکھتی ہیں
تو اپنے خوابوں کا خون ہوتے دیکھ کر ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں کیونکہ وہ
انتظار کرتے کرتے اپنی جوانی سے بڑھاپے کی طرف گامزن ہو چکی ہوتی ہیں ،ان
میں سے کچھ حوا کی بیٹیاں تو جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتی اور حواس کھو
بیٹھتی ہیںجس آئینے میں بن سنور کر خود کو دیکھ رہی ہوتی ہیں وہی شیشہ ان
کے ہاتھ سے گر کر جب ٹوٹتا ہے تو چھناکے سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے ،یہاں
قابل توجہ بات یہ ہے کہ شیشے کی ٹوٹنے کی آواز ہر کوئی سنتا ہے اور جو دل
میں اٹھنے والی چیخیں،صدائیں اور دل کی ٹوٹنے کی آواز کسی کو سنائی نہیں
دیتی،حوا کی بیٹی کا ذکر ہو تو مجھے اکثر مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ کی
یہ باتیں یاد آ جاتی ہیں ”وہ بیٹیاں تم جس کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے دو،وہ
اُف کئے بغیرتمہاری پگڑیوں اور داڑھیوں کی لاج رکھنے کے لئے ان کے ساتھ ہو
لیتی ہیں ،سسرال میں جب میکے کی یاد آتی ہے تو چھپ چھپ کر رو لیتی ہیں،کبھی
دھوئیں کے بہانے آنسو بہا کر جی ہلکا کر لیا ،آٹا گوندھتے ہوئے آنسو بہتے
ہیں وہ آٹے میں جذب ہو جاتے ہیں ،کوئی نہیں جانتا کہ ان روٹیوں میں اس بیٹی
کے آنسو بھی شامل ہیں،غیرت مندو! ان کی قدر کرو یہ آبگینے بڑے نازک ہیں“۔
بات ہو رہی تھی جہیز جیسی غلیظ لعنت کی ۔کہ جس کی وجہ سے کئی گھرانے تباہ
ہوچکے ہیں ،کتنی بیٹیوں کے خواب ملیا میٹ ہو چکے ہیں ،کئی نے تو تھپک تھپک
کر اپنے دلوں کو جھوٹی تسلیاں دے کر سلا دیا ہے اور کئی حوا کی بیٹیاں ابھی
بھی راہ تک رہی ہیں ،جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے نکاح مشکل ہوتا جا رہا ہے جس
معاشرے میں نکاح مشکل ہو جائے وہاں ”زنا“عام ہو جاتا ہے ،جہاں ”زنا“عام ہو
جائے ،وہاں پاکیزگی کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ،فحاشی و عریانی کا وہاں بسیرا
ہو جاتا ہے جہاں بے حیائی عام ہو جائے وہاں شیطانی کھیل سربازار کھیلا جاتا
ہے اورحوا کی بیٹی کی پازیب کی چھنکار میں وہاں غیرت کا جنازہ اٹھتا ہے اور
انسانیت کی چیخیں دم توڑ جاتی ہے ،جہاں شیطانی کھیل عام ہو جائے وہاں انساں
کا بد ترین دشمن شیطان راج کرتا ہے ،جہاں شیطان کا راج ہو گا وہاں سکون
کیونکر قائم ہو سکے گا ،وہاں تو درد میں ڈوبی انسانیت اور حیا کی دلدوز
چیخیں ہی سنائی دیں گی ۔
قارئین!ستمبر کی ستم گری توآپ نے دیکھ لی،کہ کس طرح آگ میں انساں جل گئے وہ
مناظر دیکھنے کے لئے انساں کو کافی دل گردہ چاہئے جب لوگ کی آہ و بکا سنائی
دے رہی تھی ان کی کربناک چیخیں آ رہی تھی وہ زندگی کو اپنے ہاتھ سے نکلتا
دیکھ رہے تھے اور خود کو موت کہ منہ جاتا دیکھ رہے تھے شاید ایسی بے بسی کو
میں اپنے الفاظ میں نہ ڈھال سکوں ،جب موت لمحہ بہ لمحہ ان کے نزدیک ہوتی جا
رہی تھی ،جب زندگی سے ان کا فاصلہ بڑھتا جا رہا تھا ،جب بے بسی سے وہ اپنے
پیاروں کو موت کے گلے لگاتے دیکھ رہے تھے اس افتاد میں اک نفسا نفسی کا
عالم تھا ،آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے ادھر ان کی چیخوں کی آوازیں کبھی تیز
ہوتی تھیں تو کبھی معدوم ہوتی جا رہی تھی یہ کیسا ستم تھا ،یہ کیسی افتاد
تھی جو ان پہ آپڑی تھی وہاں آدم کے بیٹے بھی دم توڑ رہے تھے اور حوا کی
بیٹیاں بھی سسک سسک کر خود کو موت کے حوالے کر رہی تھیں ایسے دردناک مناظر
،چیخ و پکار ،آہ و بکا جن کو قلم بیاں نہیں کر سکتا -
ستمبر کی ستم گری جاری ہے اب بھی کئی لوگ بہہ رہے ہیں پانی تباہی مچا رہے
ہیں سیلاب سب کچھ بہا کے لے کر جا رہے ہیں پھر وہی درد میں ڈوبی چیخیں
ہیں،فضا میں درد میں ڈوبی کراہوں کی صدا آ رہی ہے کہ ہمیں بچا لو،ہمیں بچا
لو۔لیکن کوئی کسی کے لئے کچھ نہیں کر رہا ،سب کچھ تباہ و برباد ہوتا جا رہا
ہے اور چیخیں بلند ہو کر معدوم ہوتی جا رہی ہیں ۔
ابھی ستمبر کے ستم جاری ہیں کہ اک بار وہ دن بھی نزدیک آ رہا ہے جب لوگ
معمول کے مطابق اپنے کام سر انجام دینے لگے تھے ،سکولوں کلاسز جاری تھیں
بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں کہ اچانک زمین ہلی اک لرزہ طاری ہوا
اور پھر وہ چھت جس کے نیچے وہ پڑھ رہے تھے وہ ان کا مدفن بن گئی ،اس وقت جب
وہ موت کو گلے لگا رہے تھے تو زور زور سے چیخ و پکار سے لوگوں کو اپنی مدد
کے لئے پکار رہے تھے لیکن کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی کوئی نہیں آیاتو
ان کی چیخ و پکار معدوم ہوتی چلی گئی اور وہ موت کے منہ میں چلے گئے ،ان کی
اس وقت کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ہر طرف تباہی مچ گئی تھی
،زمین ہل رہی تھی لوگ جائے پناہ تلاش کر رہے تھے اک افراتفری مچی ہوئی تھی
نفسا نفسی کا ماحول تھا ،ڈر کی لہر ان کے وجود میں سرایت کر گئی تھی اور وہ
جان بچانے کے لئے بھاگے چلے جا رہے تھے لیکن کہیں کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی
وہ مدد کے لئے پکار رہے تھے اور کچھ زخمی ہو کر درد میں ڈوب کر کراہ رہے
تھے ان کی کربناک چیخیں فضا میں گونج رہی تھیں ۔
حوا کی بیٹی کی جب اپنے خوابوں کا خون ہوتے دیکھ کر چیخ نکلتی ہے یا کسی کا
سہاگ اجڑ جانے پر جو چیخ و پکار ہوتی ہے،کسی پر ناگہانی آفت ٹوٹتی ہے یا
کوئی سیلاب جب تباہی مچاتا ہے تو اس وقت جو آہ و بکا ہوتی ہے تو ان سب چیخ
و پکار میں اک چیز میں مماثلت ہوتی ہے ،ان تمام چیخوں میں درد اور کرب ایک
جیسا ہوتا ہے۔ |