میرے آقا دُنیا سے تشریف لے گئے
۔آپ کے وصال کی خبر سنتے ہی مدینے کی گلیوں میں کہرام بپا ہو گیا۔حضرت عمر
ؓنے سُنا تو شدّتِ جذبات سے تلوار سونت لی اور فرمایا کون کہتا ہے کہ محمد
وصال فرما گئے ؟۔ جو کہے گا میں اُس کی گردن تَن سے جُدا کر دونگا۔صدیقِ
اکبرؓ نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اوریہ قُرآنی آیات تلاوت فرمائیں کہ اگر
ہم نبی کو تُمہارے درمیان سے اُٹھا لیں تو کیا تُم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے
؟۔حضرت عمرؓ کا پورا جسم کانپنے لگا ، تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی اور آپؓ زمین
پر گِر پڑے ۔
آپ کے وصال کے بعد موذّنِ رسول حضرت بلالؓ نے اذان دینی بند کر دی۔وجہ یہ
تھی کہ جب وہ اشہدان محمدالرسول اللہ پر پہنچتے تھے تو سامنے آپ کو نہ پا
کر اُن کی آواز تھر تھرا جاتی تھی۔آپ کے وصال کے کافی عرصہ بعد حضرت بلالؓ
شام سے مدینہ تشریف لائے ۔حضرت امام حسینؓ کو خبر ہوئی تو ملاقات کے لئے
تشریف لے گئے ۔ملاقات پر حضرت حسینؓ نے حضرت بلال سے فجر کی اذان دینے کی
خواہش کا اظہار کیا ۔آپ ؓ نواسہ رسول کی خواہش کو نہ ٹھکرا سکے ۔صبح کے وقت
حضرت بلالؓ نے مسجد کی چھت پر چڑھ کر جب اللہ اکبر کہا تو سارا مدینہ تھرّا
اُٹھا ۔جب بلال ؓ کی زبان سے اشہدان محمدالرسول اللہ نکلا تو مدینہ النبی
کا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو زار و قطار روتا ہوا باہر نہ آگیا ہو۔
حضورِ اکرم وصال سے پہلے وصیّت فرمائی کہ اُن کا لباسِ مبارک حضرت اویس
قرنیؓ کو عطا کر دیا جائے ۔آپ کی وصیت کے مطابق حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ آپ
کا لباس لے کر کوفہ پہنچے ۔وادی قرن میں ملاقات پر انہوں نے دیکھا کہ حضرت
اویس قرنیؓ کے مُنہ میں ایک بھی دانت نہ تھا۔حضرت علیؓ کے استفسار پر حضرت
قرنیؓ نے مُسکرا کر کہا کہ جب انہیں پتہ چلا کہ غزوہ اُحد میں آقا کے دو
دندان مبارک شہید ہو گئے تو اُنہوں نے اپنے سارے دانت توڑ ڈالے کیونکہ
اُنہیں نہیں پتہ تھا کہ آپ کے کونسے دو دانت شہید ہوئے تھے۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ عشقِ رسول کے ایسے ہزاروں واقعات کی خوشبو سے
مہک رہی ہے ۔صدیاں گزر گئیں لیکن حبّ ِ رسول میں کوئی کمی نہیں آئی۔آج بھی
بِلا امتیاز ہر مسلمان عشقِ رسول میں سرشار نظر آتا ہے ۔ آقا کی حرمت پہ
کَٹ مرنے کو ہر مسلمان مرد و زن سعادت و عبادت سمجھتا تھا ، ہے اور تا
قیامت سمجھتا رہے گا۔آج ہمیں سیکولر حلقوں کی طرف سے صبر و تحمل کا درس دیا
جا رہا ہے لیکن مجھے اپنے ایمان کی انتہاؤں تک یقین ہے کہ میرے نبی کے
متوالے کسی بڑے سے بڑے سانحے پر تو صبر کر سکتے ہیں لیکن ایسی نا پاک جسارت
پر نہیں ، ہر گز نہیں۔یہ ہر مسلمان کا فرضِ عین ہے کہ وہ ایسی رقیق حرکت
کرنے والوں کو اُن کے عبرت ناک انجام تک پہنچائے بغیر اپنے جذبات کو ٹھنڈا
نہ ہونے دیں۔اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم جذبات میں آ کر اپنی ہی املاک
کو تباہ و برباد کرنا شروع کر دیں لیکن سیکولر دانشوروں کے درسِ تحمل پر
کان دھرنا بھی انتہا درجے کی بے غیرتی و بے حمیتی ہے ۔ہمیں اپنے اندر عشقِ
رسول کی وہی شمع روشن کرنا ہو گی جو غازی علم الدین کو شہادت کے منصب سے
سرفراز کر گیااور جس کے بارے میں حضرتِ اقبال نے بڑی حسرت سے یہ
کہا”ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا“۔
مجھے اِس سے کچھ لینا دینا نہیں کہ یورپ اور امریکہ میں ”اظہارِ رائے “ کی
آزادی کا معیار کیا ہے ۔اِس پر بہت سے کالم لکھے جا چُکے ہیں اور لکھے جا
رہے ہیں جن سے یہ امر مسّلم الثبوت ہے کہ امریکہ اور اہلِ یورپ کا حقِ
آزادی رائے کا دوہرا معیار ہے ۔اُنہوں نے یہود و نصاریٰ اور مسلم اُمّہ کے
لیے آزادی رائے کے الگ الگ معیار مقرر کر رکھے ہیں۔ بھاڑ میں جائیں ایسے
معیارجو ”ہولو کاسٹ“ جیسے فضول ، بکواس اور بے بنیاد افسانے کے خلاف زبان
کھولنے والے کو تو قتل کر دیں اور دو ارب مسلمانوں کے نبی ِ برحق کے خلاف
نا پاک جسارت کرنے والوں کو وائٹ ہاؤس میں پناہ دے دیں۔ویسے بھی یورپ اور
امریکہ کے مادر پدر آزاد معاشرے نے اُنہیں لازمہ انسانیت سے خارج کرکے
حیوانیت کے درجے تک پہنچا دیا ہے ۔ انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہ ہے
کہ اللہ تعا لےٰ نے انسانوں کو قبیلوں اور گروہوں میں پیدا کیا ہے تاکہ اِن
کی پہچان ہو سکے جبکہ کسی حیوان کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اُس کا باپ کون ہے
۔یورپ اور امریکہ میں یہی صورتِ حال نظر آتی ہے اور وہاں تو اب غالب اکثریت
ناجائز بچوں کی پیدا ہوتی ہے اورکسی سے اُس کے باپ کا نام پوچھنا بھی
انتہائی بد تہذیبی سمجھا جاتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ سویڈن اور ڈنمارک جیسے
ملکوں میں کسی کے باپ کا نام پوچھنا قانوناََ جُرم ہے۔یہ حیوانیت اب درندگی
میں ڈھل چُکی ہے ۔ اور یہ تو ہر ذی فہم کا ماننا ہے کہ درندے کبھی سیدھے
ہاتھوں سدھائے نہیں جا سکتے۔لیکن بد قسمتی سے ایسے درندوں کو سدھانے والے
ہاتھوں (مسلم حکمران) پر اِن درندوں کے خوف سے رعشہ طاری ہے ۔اگر وہ تھوڑی
سی غیرت کا بھی مظاہرہ کریں تو ہفتوں یا مہینوں نہیں بلکہ دنوں میں اِن
درندوں کو سدھایا جا سکتا ہے ۔عشقِ رسول کا تقاضہ تو یہی ہے کہ پوری اُمّتِ
مُسلمہ اپنے حکمرانوں کو اِن درندوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے مجبور
کر دے اور اگر وہ اپنی بے غیرتی اور بے حمیتی سے باز نہیں آتے تو سب کو
اُٹھا کر سمندر میں غرق کر دے۔تحقیق کہ جو مسلمان اب بھی مصلحتوں کی چادر
اوڑھ کر دم سادھے پڑا رہتا ہے وہ ایمان کے کمزور ترین درجے پر ہے اور لاریب
اُسے روزِ محشر اِس کاکڑا حساب اور جواب دیناہو گا۔
21 ستمبر کو عُلماءکی ہڑتال کی اپیل پر لبّیک کہتے ہوئے مرکزی حکومت نے عام
تعطیل کا اعلان کرکے اپنے بہت سے گناہوں کو دھو ڈالا ہے ۔اب یہ ہر مر د و
زن کا فرض ہے کہ وہ اکیس ستمبر کو پُر امن احتجاج میں شریک ہو کر عاشقِ
رسول ہونے کا ثبوت دے ۔یہاں معاملہ سیاست کا نہیں ، دینِ مبیں کا ہے جس کا
تقاضہ ہے کہ ہم حضور پر کثرت سے درود بھیجتے ہوئے گھروں سے نکلیں اورطاغوتی
طاقتوں پر یہ ثابت کر دیں کہ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن حرمتِ رسول
پر آنچ ہر گز نہیں۔آقا کا فرمان ہے ”تحقیق کہ تمہارا یمان اُس وقت تک مکمل
نہیں ہوتا جب تک کہ میں تمہیں تمہارے ماں باپ ، اولاد ، بہن بھائی ، عزیز ،
رشتہ دار حتّیٰ کہ دُنیا کی ایک ایک چیز سے پیارا نہ ہو جاؤں“۔ تو کیا ہم
اکیس ستمبر کو گھروں سے نکل کر آپ کے اِس فرمان کے مطابق عاشقِ رسول ہونے
کا ثبوت دیں گے؟۔۔۔۔۔۔ |