قومی ترقی اور نظام تعلیم

قیا م پا کستا ن سے لے کر اب تک ہما ر ا نظام تعلیم حکو مت کی عدم توجہ کا شکار ہے ۔آج ہما رے تمام مسا ئل کی وجہ نظام تعلیم کی طر ف حکومت کی عد م توجہ ہے ۔ملک میں تعلیمی بحران دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے لیکن ہما ری حکو مت سوئس حکا م کو خط لکھنے ، صد ر اور وزیر اعظم کو بچا نے اور سپر یم کو رٹ کو نیچا دکھا نے کے لئے قوانین بنا نے میں مصروف ہے۔ ہرفر د کو مفت اور معیا ری تعلیم مہیا کر نا حکومت کی زمہ داری ہو تی ہے۔ آئین کی شق 25A کے مطابق ہر 5سے 16سال کے بچے کو معیا ری تعلیم مہیا کر نا حکومت کی زمہ داری ہے ۔جہاں حکومت نے دوسرے شعبوں میں آئین شکنی کی ہے و ہیں تعلیم جیسے اہم شعبے میں بھی آئین کی پاسدای کرنے میں نا کام رہی ہے۔ حکومت کی اس عد م توجہ کی وجہ سے کم پڑھے لکھے اور بغیر پڑے لکھے لوگ اسمبیلوں میں آتے ہیں جو ایسے قوانین اور پا لیسیا ں بنا تے ہیں جس کا خمیازہ پو ری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

کسی بھی ملک کی تر قی کا دارومدار اور اس کی تعلیمی پالیسوں پر ہو تا ہے۔ دنیا کے تر قی یافتہ ممالک کی تر قی کا راز ان کی تعلیمی پا لیسوں میں پو شیدہ ہے ۔ جا پا ن اور سنگا پور جیسے کئی ممالک کی مثالیں مو جو د ہیں ۔ جنہوں نے اپنی تعلیمی قابلیت کے بل بوتے پر دن دگنی اور رات چو گنی تر قی کی ہے۔ جیسے جیسے ان ممالک کی شرح خواندگی بڑھتی گی ویسے ویسے ان کی تر قی کے پہیہ کی رفتار میں اضافہ ہو تا گیا۔دوسر ی جنگ عظیم میں شکست کھا نے کے بعد جا پا ن نے تعلیمی میدان میں دنیا سے مقابلہ کا فیصلہ کیا ۔ جنگ کے میدان میں شکست سے دوچا رہو نے والا جا پان آج ساری دنیا کو تعلیمی میدان میں پیچھے چھوڑچکا ہے۔ جاپا ن کی شر ح خواندگی 99%ہے جو کہ پو ری دنیا میں سب سے زیا دہ ہے۔

لیکن جب دنیا کی بڑی ایٹمی طاقت کی تعلیمی کا رکردگی کا جا ئزہ لیں تو سر شرم سے جھک جا تا ہے۔ پا کستا ن کے شرح خواندگی صر ف 28%ہے جو کہ جنو بی ایشیا کی کم تر ین شرح خواندگی ہے UNOکے ایجوکیشن انڈکس میں پا کستا ن کا 173ممالک میں 166واں نمبر ہے۔ سکولوں میں بچوں کی تعداد ہر سال کم ہو تی جا رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 100میں سے صر ف 25بچے سکول جا تے ہیں اور ان 25میں سے 6بچے ہی ہا ئی سکول تک پہنچ پا تے ہیں۔ سکو لوں میں اسا تذہ کی شدید قلت ہے۔ ہر 60بچوں کے لئے صر ف ایک استا د مو جود ہے جوکہ دنیا کا کم تر ین تنا سب ہے۔ ان میں سے بھی اکثر سکول سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ بہت سے سکولوں کی حا لت ایسی ہے کہ وہ ”سکو ل“کہلا نے کے قا بل نہیں ہیں60%َ سرکاری سکولو ں میں بجلی نہیں ہے 40%میں پا نی نہیں ہے۔ ۔ اکثر سکو لوں میں جا نور باندھے جا تے ہیں۔ زیا دہ تر سکولوں میں پڑھا ئی نہ ہو نے کے برابر ہے ایک رپورٹ کے مطابق دوسر ی جما عت کے 70% بچے بلکل بنیادی حسا ب کے سوال حل کر نے سے بھی قاصر ہیں۔ پچھلے دنو ں گھوسٹ سکو ل سکینڈل اور سرکاری سکول درزیوں کو کرائے پر دینے والے واقعہ نے حکو مت کی تعلیمی کارگردی کے پو ل کھو ل دیئے ہیں ۔ جن حکمر انوں نے حج جیسے مقد س فریضے کو نہیں بخشا انہوں نے تعلیم جیسے عظیم شعبے میں بھی کر پشن کے رکارڈقائم کیے ہیں۔

پا کستا ن تعلیم پر GDPکا صرف 1.8%خر چ کرتا ہے جبکہ بھا رت 4.3%، بنگلہ دیش 2.5%اور ایران % 4.9خرچ کرتا ہے۔

پا کستا ن GDPکا 19%دفاع پر خرچ کرتا ہے جو کہ تعلیم پر خر چ ہو نے والی رقم سے 90%زیادہ ہے۔ آج اتنی رقم خر چ کر نے کے باوجود بھی پا کستا ن کو بے شما ر اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ یہ ایک حیر ان کن با ت ہے کہ پا کستان دفاع پر جتنی زیا دہ رقم خر چ کر تا ہے اتنا ہی نہ صرف پا کستا ن کا بلکہ پورے خطے کا امن خطر ے میں پڑنا جاتا ہے۔

انسان قدرتی طور پر جا ہل پیدا ہوتاہے اور اگر اسے بنیادی اورمعیا ری تعلیم مہیانہ کی جائے تو یہ جاہل ہی رہتا ہے۔انسان کی جہا لت اسے انسا ن دشمنی کی طر ف لے جا تی ہے انسان کی ایسی جہا لت کی وجہ سے تاریخ انسانی کئی بے مقصد خون خرابوں سے بھری پڑی ہے جبکہ تعلیم انسانیت سے محبت سیکھاتی ہے اور انسان دوستی کا درس دیتی ہے۔ آج کروڑوں روپے خرچ کر نے کے باوجود بھی دہشتگردی پر قابو نہیں پا یا جا سکا و جہ صرف اتنی ہے کہ رقم غلط سمت میں خر چ ہو رہی ہے جس سے مسائل حل ہو نے کی بجائے مزید الجھتے جارہے ہیں اگر یہ رقم تعلیمی میدان میں دہشتگردی اور جہا لت اور کے خلا ف جہا د کر نے میں صرف کی جا تی تو نہ صر ف ہما رے معا شرے سے دہشتگردی اور جہا لت اور ظلم کا خا تمہ ہو جا تا بلکہ ہمار امعا شرہ مہذب تعلیم یا فتہ معاشر ہ بن جا تا۔

میرے خیا ل میں انسا ن کو جا ہل رکھنا سب سے بڑ ی دہشت گردی ہے۔جہالت ایک اندھیرا ہے اور علم روشنی ہے اندھیرے سے روشنی کی طر ف لے جا نا حکومت کی اہم اوربنیادی زمہ داری ہے۔ حکومت اپنی اس زمہ داری سے مخرف ہو کر اس دہشتگر دی کا مر تکب بن رہی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستا ن میں روشنی نہیں۔

ہمارے تعلیمی نظام کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام کمزور اور فرسودہ ہے۔دنیا نے HIGGS BOSSONجیسا زرہ دریا فت کر لیا ہے جس سے کا ئنات کے چھپے ہو ئے رازوں کو معلوم کر نے میں مدد ملی گی اور ہما ری حکو مت ابھی تک اسی بحث میں پڑی ہے کہ ہما را نظام تعلیم اردو میڈیم ہو نا چاہئیے یا انگلش میڈیم !

اس وقت اس طر ح کے غیر ضروری بحث مبا حثوں سے نکل کر ایک مضبوط متوازں اور اکیسو یں صدی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی نظام مر تب کر نے کی ضرورت ہے۔موجودہ نظام تعلیم نے ہمارے ملک کو مختلف طبقات ، گروہوں اور نظریا ت میں با نٹ دیا ہے جو کہ ملکی سا لمیت اور بقا کے لئے خطرات کا با عث بن سکتا ہے۔ جب کو ئی قوم مختلف نظریا ت اور گروہوں میں تقسیم ہو جا ئے تو وہ قوم نہیں رہتی۔ اقبا ل نے اسی نظام تعلیم کے متعلق کہا تھا
وہ علم نہیں زہر ہے احر ار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہو جہا ں میں دو کف جو

ایسا نظام تعلیم مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس میں بچے کو خود سوچنے کا مو قع دیا جائے اور ایک مخصوص سوچ تھو نپ کر سوچنے کی قدرتی صلاحیت کو متاثر نہ کیا جائے ۔ بچوں کو یہ نہ بتا ئے جا ئے کہ وہ کیا سوچیںبلکہ یہ سکھایا جا ئے کہ وہ کیسے سوچیں۔ اس نظام تعلیم میں بچے کے جسم کی تربیت کر نے کی بچائے روح کی تربیت کی جا ئے۔ سارے ملک میں ایک جیسا تعلیمی نصاب رائج کیا جائے۔صوبا ئی حکو مت نے کروڑوں روپے کے لیپ ٹاپس تقسیم کر دیے اور بچے قبر ستانوں میں بیٹھ کر تعلیم حا صل کر نے پر مجبو ر ہےں۔ یونیورسٹی کے طلبا میں لیپ ٹاپس تقسیم کرنا ایک قابل تعریف عمل ہے لیکن حکو مت کو پہلے بنیادی تعلیم کی طر ف توجہ دینی چاہیے۔سکولو ں کی حا لت کو بہتر بنا یا جا ئے ۔سکولوں میں تما م ضروری سہولیات مہیا کی جا ئیں ۔استاتذہ کی تعداد اور انکی تنخواہوں میں اضافہ کیا جا ئے ۔ سکولوں میں 100%داخلے کو یقنی بنا نے کے لئے ٹھو س اقداما ت کئے جا ئیں ۔ بچوں کو سکو ل داخل کروانے والے غریب والدین کے لئے انعام رکھا جا ئے اور سکول داخل نہ کروانے والے والدین کے ساتھ سختی سے پیش آ یاجا ئے تعلیم ہر بچے کا بنیا دی حق ہے اسے یہ حق ہر صور ت ملنا چاہیے۔

اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہر ست میں شامل ہو نا چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیمی میدان میں خاطر خواہ اقدام کر نے ہونگے تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے تعلیم کا اپنا نصب العین بنا ئے رکھا وہ ترقی کی راہ پر گامزن رہیں اور جن قوموں نے تعلیم سے کنارہ کشی اختیا ر کی تاریخ نے انھیں اپنے با ب سے نکا ل با ہر کیا اور وہ زلت اور بستی کاشکا رہوکر دوسر ی قوموں کی غلا می پر مجبور ہوگیں۔ قوموں کی تبا ہی کی دو بنیا دی وجوہا ت ہو تی ہیں ایک علم سے کنارہ کشی دوسرا تاریخ سے سبق نہ سیکھنا ۔ بدقسمتی سے یہ دونوں عناصر ہما رے ملک میں موجو د ہیں (خدا خیر کرے۔)
Harris Abrar
About the Author: Harris Abrar Read More Articles by Harris Abrar: 4 Articles with 5102 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.