حکومت کے تو مزے آگئے۔ اُسے ایک
بار پھر مُہلت مل گئی۔ اور دوسری طرف سپریم کورٹ کو بھی، ذرا سی دیر کے لیے
سہی، آرام آگیا۔ کام اِتنا بڑھ گیا ہے کہ اب اعلیٰ عدلیہ کو سُکون کا سانس
لینے کے لیے بھی سو موٹو ایکشن لینا پڑتا ہے! آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن
کیسز کُھلوانے کے سلسلے میں سوئس حکومت کو لکھے جانے والے خط کی سُوئی اِس
بار وزیر قانون فاروق ایچ نایک پر آکر اٹکی ہے۔ قوم یہ دیکھنے کے لیے بے
تاب ہے کہ وہ نایک ہی رہتے ہیں یا کھلنایک ثابت ہوتے ہیں! سُنا ہے حکومت کے
قانونی ماہرین نے خاصی طویل اور صبر آزما مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ اِس
بار گھنٹی وزیر قانون کے گلے میں باندھی جائے۔ مگر قوم خوب سمجھتی ہے کہ
وزیر موصوف شیر کی خالہ نہیں بلکہ قُربانی کے بکرے ہیں! وہ یہ دیکھنے کے
لیے بے تاب ہے کہ عید الاضحیٰ سے قبل ایک اور سیاسی ذبیحہ واقع ہوتا ہے یا
نہیں!
قرون وسطیٰ کے مشہور حکیم ابن سینا نے ”القانون فی الطب“ لکھ کر نیک نامی
سمیٹی تھی۔ جن کی مہربانی سے سینیٹ کی چیئرمین شپ اور پھر قانون کی وزارت
ملی ہے اُن کے نمک کا حق ادا کرنے کے لیے فاروق نایک شاید ”الخط والقانون
فی الحکومت“ لکھ کر کچھ نام کمانے کے سفر پر نکلے ہیں! یہ سب ”وفاداری بہ
شرطِ اُستواری“ سے زیادہ کچھ نہیں لگتا۔ مگر خیر، پیپلز پارٹی خوش نصیب ہے
کہ اُسے اب تک جاں نثار بلکہ وزارت نثار قسم کے کارکن میسر ہیں! ذرائع کا
دعویٰ ہے کہ وعدے کے مطابق سپریم کورٹ میں پیش کیا جانے والا (خط کا)
مُسوّدہ ایسا ہوگا جس کے کئی نکات پر کورٹ کو اعتراض ہوگا اور ”خط اسکینڈل“
کی لہریں پھر مہلت کے ساحل سے آ ٹکرائیں گی! ہم حکومت کے حوالے سے ایسی
کوئی بدگمانی نہیں رکھتے۔ جب اِس سے کہیں کم درجے کی دانائی اور معاملہ
فہمی سے بھی کام چل ہی رہا ہے تو خواہ مخواہ مزید بدنامی مول لینا حماقت کے
سِوا کچھ نہیں!
ایک خط نے پوری قوم کے معاملات کو خطِ مُنحنی میں تبدیل کردیا ہے۔ خط نہ
ہوا، قوم کے گلے کا طوق ہوگیا۔ اہل وطن سوچتے ہیں کہ جس خط نے لکھے جانے سے
پہلے اِس قدر یعنی اچھا خاصا ”رولا پا دیا ہے“ وہ لکھے جانے پر کون سی
قیامت نہیں ڈھائے گا! ایسے میں، ظاہر ہے، حکومت سے یہ توقع نہیں رکھنی
چاہیے کہ وہ خط کے معاملے میں خطِ مستقیم پر گامزن ہوگی!
اور معاملہ ایک خط کا نہیں۔ ایک خط لکھنا ہے تو دوسرا واپس لینا ہے۔ وزیر
اعظم نے 18 ستمبر کو سپریم کورٹ میں پیش ہوکر بتایا کہ اُنہوں نے سابق
اٹارنی جنرل ملک قیوم کی جانب سے 2007 کے آخر میں سوئس حکومت کو لکھا جانے
والا وہ خط واپس لینے کی ہدایت بھی کردی ہے جس میں صدر آصف علی زرداری کے
خلاف کیسز نہ کھولنے کی یا کُھلے ہوئے کیسز ختم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
حکومتوں کی بہت سی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں اور پیچیدگیاں تو خیر ہوتی ہی ہیں
مگر ہماری حکومت خدا جانے کن خطوط پر اُستوار ہے کہ کرنے کے کام کرنے کی
پوزیشن میں آ ہی نہیں پارہی!
راجہ پرویز اشرف کی پریشانی بھی ایسی نہیں کہ ہم آپ سمجھ نہ سکیں۔ بڑی
مَنّتوں، مُرادوں سے جو منصب ملا ہے اُسے کھونا وہ کیوں پسند کریں گے؟ اب
”دھرم سَنکٹ“ یہ آن پڑا ہے کہ ایک طرف منصب کا مزا ہے اور دوسری طرف پارٹی
سے وفاداری ہے۔ یعنی اِدھر کھائی اور اُدھر پہاڑ۔ بے چارے وزرائے اعظم کو
بھی کیسی کیسی اُلجھنوں سے نپٹنا پڑتا ہے! عام آدمی کیا جانے کہ اِس راہ
میں کِتنے اور کیسے کیسے سخت مقام آتے ہیں۔ کبھی وزیر اعظم بنا ہو تو معلوم
ہو!
حکومت کے قانونی ماہرین کی ٹیم نے کوشش تو کی ہے کہ راجہ پرویز اشرف کا
”پلیژر ٹرپ“ چلتا رہے، حکومتی ٹرانسفارمر میعاد ختم ہونے سے پہلے کِسی صورت
ٹرپ نہ ہو! بعض کو یہ گمان ہے کہ سپریم کورٹ کو ٹریپ کرنے کی کوشش کی جارہی
ہے۔ مگر صاحب، سپریم کورٹ نے بھی کوئی کچّی گولیاں تو نہیں کھیل رکّھیں۔
مُہلت دے کر وہ بھی حکمتِ عملی کے لیے کچھ وقت نکالنے میں کامیاب رہی ہے۔
اعلیٰ ترین اداروں میں مُہلت اور التواءکا سلسلہ جاری ہے اور قوم کے رگ و
پَے میں یہ غم سرایت کئے
ہوئے ہے کہ حالات کا ٹائی ٹینک کہاں جاکر رُکے گا۔ قوم کا حال تو یہ ہے کہ
احتجاج کی دلدل میں گلے تک دھنسی اور پھنسی ہوئی ہے۔ احتجاج، ریلیاں،
مظاہرے اور دھرنے اُس کی تقدیر ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب
پنجسالہ منصوبوں میں عوام کو مختلف جھمیلوں میں اُلجھائے رکھنے کی منصوبہ
بندی بُنیادی حیثیت رکھتی ہے! میڈیا کے ذریعے اِشو پر اِشو کھڑا کیا جارہا
ہے۔ ایک معاملہ دم توڑنے لگتا ہے تو کِسی اور معاملے کے مُردے میں جان ڈال
دی جاتی ہے تاکہ رونق میلہ لگا رہے اور قوم کے ذہن کی گود رنگ سے، اُمنگ سے
بھری رہے!
قوم کی نفسی ساخت میں یہ بات ”ڈیفالٹ“ کی حیثیت سے ڈال دی گئی ہے کہ جب کچھ
بھی سمجھ میں نہ آئے تو امریکہ اور یورپ کو گالیاں دے کر دِلوں کی بھڑاس
نکال لو، کلیجوں کو ٹھنڈک پہنچانے کا اہتمام کرلو! حکومت اپنی ڈگر پر چل
رہی ہے، عوام البتہ ڈگر بدلتے رہتے ہیں۔ بدلتے حالات کے مطابق خود کو بدلتے
رہنے اور احتجاج کے نئے طریقے اختیار کرنے کا ہُنر جیسا پاکستانیوں نے سیکھ
لیا ہے ویسا کِسی نے نہیں سیکھا۔ اور یہ ہُنر خیر سے ”عالمی معیار“ کا ہے
یعنی دُنیا جو کچھ چاہتی ہے ہم وہی کر رہے ہیں۔ اپنے پیروں پر کلہاڑی کون
مارتا ہے؟ ہم مار رہے ہیں! اپنی معیشت کو آگ کون لگاتا ہے؟ ہم لگا رہے ہیں!
اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں۔ دُنیا کیا چاہے؟ ہماری تباہی۔ اور ہم بخوشی اِس
کا اہتمام کر رہے ہیں یعنی اغیار کو زحمت سے بچا رہے ہیں! اِتنے پیسوں میں
اِتنے مزے کِسی کو اور کہاں ملیں گے؟
وزیر اعظم کو سپریم کورٹ میں پیشی سے استثنٰی مل گیا ہے۔ جن کے رُتبے بڑے
ہیں اُن کے لیے اِستثنٰی بھی بڑا ہے! صدر زرداری استثنٰی کا رونا روتے آئے
ہیں اور راجہ پرویز اشرف کو حکم کی تعمیل کے صِلے میں استثنٰی مِل بھی گیا۔
اور خیر سے حکومت کی بَلا بھی وزیر قانون کے سَر جاچکی ہے! اب دیکھنا یہ ہے
کہ سیاسی سرکس کے اِس بیلینسنگ ایکٹ میں فاروق نایک کِس حد تک نایک یعنی
ہیرو ثابت ہوتے ہیں! |