اُدھار نہ کیا تو پھر کیا جیا

زمانے کا چلن یہی ہے کہ اگر کوئی غلط بات بھی پھیل جائے تو بس پھیلاتے ہی جائیے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ جس چیز سے محبت بڑھتی ہے اُسی کو لوگ ہر وقت بدنام کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہی سُنتے آئے ہیں کہ اُدھار محبت کی قینچی ہے۔ اب جبکہ ہوش خاصے سنبھل چکے ہیں، غور کرنے پر اندازہ ہوا ہے کہ محبت کے حوالے سے اُدھار کو صرف بدنام کیا جاتا رہا ہے۔ ہم نے تو اُدھار کی بدولت محبت کو پنپتے دیکھا ہے! اگر یقین نہ آئے تو اُدھار دینا شروع کیجیے اور پھر دیکھیے کہ آپ کے چاہنے والوں اور آپ کو ”بھائی جان، مہربان، قدر دان“ قرار دینے والوں کی تعداد میں کِس قدر اور کِس تیزی سے اضافہ ہوتا ہے!
آپ نے بھی سُنا ہی ہوگا کہ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا

یعنی کم کم مِلیے اور محبت بڑھائیے۔ جسے اُدھار دیجیے اُس سے محبت خود بخود بڑھے گی کیونکہ وہ کم کم ہی دِکھائی دے گا! اور بعض صورتوں میں تو صورت دِکھانے سے بھی گریز کرے گا، محض اِس خیال سے کہ کہیں محبت میں کچھ زیادہ کمی واقع نہ ہو جائے! یہ وہ کمال ہے جو کوئی بڑے سے بڑا شعبدہ باز بھی نہیں دِکھا سکتا!

مزے کی بات یہ ہے کہ جو عمل محبت بڑھاتا ہے یعنی کِسی کی شکل گُم کرکے اُس کی طلب میں اِضافہ کرتا ہے وہی عمل بالکل مخالف سمت جاکر بھی آپ کے مَن کی مُراد پوری کرتا ہے! یعنی اگر آپ کِسی کو دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے ہیں اور اپنی آنکھوں کو کچھ آرام اور سُکون دینے کی غرض سے چاہتے ہیں کہ وہ اپنی شکل گم کرلے تو دیر کِس بات کی ہے؟ اُدھار دیجیے اور آنکھوں کے ساتھ ساتھ کلیجے کو ٹھنڈک پہنچانے کا بھی اہتمام کرلیجیے!

اگر کوئی سنگ دِل آپ کو مُنہ نہیں لگاتا تو کِسی عامل وامل کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ قبرستان سے گلی سَڑی، چٹخی ہوئی، بُھربُھری کھوپڑی نکال کر اُس پر غلام احمد بلور کی بڑبڑاہٹ سے مماثل کوئی وظیفہ پڑھ کر پھونکنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی کھوپڑی کو استعمال کیجیے یعنی اُدھار کی پیشکش کیجیے۔ پھر دیکھیے کہ اِنتہائی سنگ دِل محبوب بھی کِس طرح آپ کے قدموں میں گرتا اور آپ کے پیروں تلے کی خاک (چھانے بغیر) چاٹتا ہے!

بیشتر دُکانداروں کو ہم نے اُدھار کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی جذباتی پایا ہے۔ آپ نے بہت سی دُکانوں پر ”کشمیر کی آزادی تک اُدھار بند ہے“ کی تختی لٹکی ہوئی دیکھی ہوگی! ہمیں تو لگتا ہے ایسے دُکاندار کشمیر کی آزادی پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں! اِن سے ذرا کوئی پوچھے کہ کیا ہم اِتنے بے وقوف ہیں کہ اِن سے ذرا سا سودا اُدھار خریدنے کی خاطر کشمیر کی آزادی کے نام پر جنگ کا میدان سجالیں! کون جانے کہ کشمیر کے آزاد ہو جانے پر یہی دکاندار اُدھار دینے کے لیے امن کی آشا کے انت، بلکہ دیہانت کی شرط عائد کردیں! ایک ذرا سے اُدھار کے چکر میں کشمیر کا اچھا خاصا سدا بہار اِشو بھی (جسے ہم نے حلق پھاڑ قسم کے نعرے لگا لگاکر پروان چڑھایا ہے) ہاتھ سے جائے گا اور امن کی آشا بھی پرماتما سے جا مِلے گی! اُدھار کو فساد کی جڑ بنانے کی یہ سازش دکانداروں کو پسند ہو تو ہو، ہمیں تو ذرا بھی پسند نہیں!

اُدھار کے دم سے دُنیا کا کارخانہ چل رہا ہے بلکہ ساری ترقی اِسی کے دم سے ہے۔ کون سا معاملہ ہے جس میں اُدھار کار فرما نہیں۔ بھارت کے جوش و جذبے اور ترقی میں اُدھار کا مرکزی کردار ہے۔ یہ اُدھار وہ ہے جو بھارت در اصل ہم پر کھائے بیٹھا ہے!

اُدھار لینا ایک فن ہے اور اُس سے بڑا فن ہے اُدھار نہ لوٹانا! کبھی آپ نے سوچا ہے کہ دُنیا کا بہترین تعلیمی ادارہ بھی وہ سُوجھ بُوجھ، گفتگو کا سلیقہ اور ذہانت نہیں سِکھا سکتا جو اُدھار لینے والا از خود نوٹس کے تحت کِسی کے سِکھائے بغیر سیکھ لیتا ہے! ہمارے ہاں مزاج کی نرمی صرف دو طرح کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اُدھار لیکر زندگی بسر کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور دوسری طرف ہیں باقاعدگی سے ہیروئن کا نشہ کرنے والے!

اُدھار وہ وصف ہے جو مخلوقات میں ہمیں امتیازی حیثیت دِلاتا ہے، شرف بخشتا اور نِری حیوانیت ختم کرکے اِنسانیت پیدا کرتا ہے۔ اُدھار لینا اور دینا اِس بات کی علامت ہے کہ ہم اِنسان ہیں۔ کبھی آپ نے کِسی جانور کو اُدھار لیتے یا دیتے دیکھا ہے!

لوگ کہتے ہیں کہ اب یہ دُنیا رہنے کے قابل نہیں رہی۔ ہر طرف مایوسی کا رونا رویا جاتا ہے مگر کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اُدھار کے دم سے ابھی تک اُمید کے باغ کی بہار سلامت ہے! جو اُدھار لینے گھر سے نکلتے ہیں وہ خوش اُمیدی اور مثبت فکر کی جیتی جاگتی تصویر ہیں اور جو لوگ دیئے ہوئے اُدھار کی واپسی کی آس لگائے رہتے ہیں وہ تو رجائیت یعنی اُمید پرستی کے انتہائی درجے پر فائز ہیں!

اُدھار اِنسان میں کئی دوسرے اوصاف بھی پیدا کرتا ہے مثلاً بھرپور اعتماد اور غیر متزلزل یقین۔ کچھ لوگ اِس اعتماد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں کہ کبھی اُدھار نہیں لوٹائیں گے! بہت سے لوگ اِس یقین کے ساتھ جیتے ہیں کہ اُنہیں اُدھار مل کر رہے گا۔ اور وہ اکثر جیتتے ہیں!

دیا ہوا اُدھار ہم میں اُمید کا چراغ روشن رکھتا ہے۔ اور پھر یہ اُمید آخرت پر ہمارا یقین بڑھا دیتی ہے۔ کبھی کبھی ہمیں اپنی دی ہوئی رقم ڈوبی ہوئی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ مومن کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جو رقم ہمیں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہے وہی آخرت پر یقین بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے، یعنی ہمیں یقین ہو رہتا ہے کہ اِس دُنیا میں نہ سہی، اُس دُنیا میں تو ہم وصولی کر ہی لیں گے!

اُدھار نام ہے اُس اعتماد کا جو ہمیں آنے والی نسلوں پر ہے۔ ہم آج جو اُدھار دنیا بھر سے لے رہے ہیں اُسے ادا کرنے کی فکر لاحق نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ آنے والی نسلیں اِسے بخوبی ادا کردیں گی! جو ابھی پیدا نہیں ہوئیں اُن نسلوں کو اِس غیر متزلزل یقین و اعتماد پر ابھی سے ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے!

اُدھار وہ آکسیجن ہے جس نے ہماری حکومت سمیت کئی سرکاروں کو سانس لینے کے قابل کر رکھا ہے۔ جو چیز حکومتوں کو زندہ رکھتی ہو وہ اِتنی بُری ہرگز نہیں ہوسکتی کہ ہم اُس سے بچتے پھریں اور اُس کا نام بھی لینے سے کترائیں!

آج کی دُنیا میں دِلوں جو جوڑ کر رکھنے والی ڈوریاں ٹوٹ گئی ہیں۔ ایسے میں اُدھار کا دم غنیمت ہے جو پُل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ پُل نہ رہا تو ہم پھر الگ الگ جزیروں کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اور اپنی اپنی ویرانی میں گم رہنے لگیں گے! اچھا ہے کہ اُدھار سلامت رہے اور ہم اِس بہانے ایک دوسرے سے جُڑے رہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486363 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More