تورات و انجیل میں پیغمبراعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبرآمد .

تورات و انجیل میں پیغمبراعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبرآمد .

Prophet Muhammad) peace be upon him( in the Torah and the Gospel
السلام علیک یا رسول اللہ ﷺ السلام علیک یا حبیب اللہ
ترے وجود سے رحمت کو اعتبار ملا
ترے وجود سے خلقت کو افتخار ملا
ترا وجود غلامی کو دے گیا زنداں
ترے وجود سے انسان کو وقار ملا
ترا وجود تمدن کو دے گیا نقشہ
ترے وجود سے دیں کو خرِد کا ہا ر ملا

موجودہ دور جسے مغربی منشاء کے مطابق تہذیبی تصادمThe Clash Civilization کا دور کہا جا تا ہے جس میں عالم عیسایت و صیہونیت عالم اسلام سے بر سر پیکار ہے ایک بارپھرروشن خیالی ،آزادی بیان اور اظہار رائے کی آڑ میں فلوریڈا کےنام نہاد پادری ٹیری جوئز اور نکولہ باسیلی نےبھی یہودی لابی کی مالی تعاون سے فلم اننوسینس آف مسلمس(مسلمانوں کی معصومیت )جیسی دل آزر فلم بناکرفرزندان توحید کے جذبات سے کھلواڑ کیاہے ۔

پوپ کاليکٹس سوم Calixtus III 58؁۔1455؁ کی طرح اسلام دشمن عناصر نے اس پادری کو ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اسلام مخالف جذبات ابھارنے کے لئے استعمال کيا ۔

جس طرح مشرقي يورپ پر عثمانيوں کے بڑھتے سيلاب نے بابائے روم کواز سرنو مسلمانوں کے خلاف دوسري صليبي جنگ شروع کرنے کي صدادينے پر اکسايا تھا بالکل اسی طرح دور حاضر میں اسلام کی بڑھتی ہوئی محبوبیت و مقبولیت، پیش رفت اور اس کی عظمت و و بلندی کو دیکھتے ہو ئے پوری عالمی صیہونیت و عسائیت بالخصوص ان کے ہمفکر و ہم خیال، اسلام کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہیں۔

قرآن مجید ان کی درینہ دشمنی کی عکاسی ان الفاظ میں کرتا ہے :لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النّاسِ عَداوَةً لِلَّذینَ آمَنُوا الْیهُودَ وَ الَّذینَ أَشْرَکُوا(مائده/۸۲) یقیناً ! بلحاظِ عداوت یہودیوں اور مشرکوں کوایمان والوں کے حق میں سب لوگوں سے زیادہ سخت پائیں گے۔

اس آیہ کریمہ کے تناظر میں اگر ایک اچٹتی نظر ہوئی نظر اسلام دشمن عناصر کے اسلام مخالف پروپیگنڈا پر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہسلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین اور ایچ ،جی،ویلس کی طرح ایک مرتبہ پھر اسلام صیہونیوں کی مالی مدد سے حضور سرورکائنات کی ذات اقدس پر رکیک حملہ کرنے کی سعی ناسعید کی گءی ہے ۔ حالانکہ دنیا بخوبی جانتی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی توہین ،محض آنحضرت ﷺ کی توہین نہیں بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام اورپوری انسانیت کا مذاق اڑانا ہے ۔ یہ نازیبا حرکتیں عالم صیہونیت کا کوءی نیا حربہ نہیں ہے بلکہ یہ ظہور اسلام سے لیکر اب تک جو سلسلہ چلا آرہا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے ۔ اس قوم کے کچھ انتہاء پسند افراد نے یہ سوچا تھا کہ اننوسینس آف مسلمس جیسی فلم سے لوگ اسلام اور مسلمانوں سے برات اختیار کرنے لگے گیں لیکن اسے کیا معلوم کہ یہ توہین آمیز فلم مسلمانوں کا غم و غصہ ہی نہیں بھڑکھا ءے گی بلکہ انہیں ہمیشہ کی طرح پھر سےمتحد ومنسجم اور ان کی دسیسہ کاریوں کے مقابلہ میں انہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم بھی کر دے گی ۔کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے کہ :
سماعت چھین لیتا ہے بصارت چھین لیتا ہے
زمانہ سر سے دستار فضیلت چھین لیتا ہے

وہ دن دور نہیں کہ اس کھلی ہو ئی دہشتگردی اور انتہا پسندی کا جواب انھیں بہت جلد مل جائے گا اس لئے کہ رد عمل توایک فطری عمل ہے ۔ اس شنیع فعل سے پوری مسلم برادری میں غم و غصہ اور امریکہ و اسرائیل کے خلاف نفرت پھیلا چکا ہے ۔

اس تمحید کے پیش نظر راقم نے سرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس کو توریت و انجیل کے نکتہ ٔ نظر سے بیان کرنے کی ایک ادنی سی کوشش کی ہے ۔البتہ : آپؐ ایک ایسی ذات تھے جن کی پیشنگوئی اللہ نے ہر اہم مذہب میں ڈالی تھی۔ہندو مذہب کی کتابوں میں محمدؐ کو کلکی کے نام سے موجود ہے۔لفظ کلکی سنسکریت لفظ ہے جس کی معنی "وہ شخص جس کی تعریف کی گئ" اگر ہم عربی میں اس کا ترجمہ کریں تو بن جائیں گا "محمد"۔اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی موجود ہے۔مثلاً بدھمت میں آپؐ کو سپریم بددھا کہا گیا ہے اور عیسائیت اور ےھودیت میں تو صاف طور پر پایا جاتا ہے۔تفصیلی تحریر ملاحظہ فرمائیں :
اشاریه:
حُسن یوسف دم ِعیسی ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

یہ تحریر جو آپ کے زیر نظر ہے 'پیغمبرِ اعظمﷺ'کےخلاف دنیا کے پست ترین افراد کے جنہوں نے آنحضرت ۖ کی ہتک حرمت کی سعی ناسعید کی تھی ان کی ردمیں لکھی گئی تھی۔یہ ایسا موضوع ہے جس پر ہمارے محققین اور قلمکار حضرات بہت کم بحث کرتے ہیں۔ لہذا دنیا میں مرسل اعظم ۖ کی سیرت و سنت کے تشنہ افراد کی سیرابی کے لئے کچھ راقم الحروف نےمرقوم کرنے کی کوشش کی ہے جسے آپ ملاحظه فرمائیں گے ۔

خدا وندعالم ہمیں زیادہ سے زیادہ دین اور بانیانِ دین کے پیغام کو عام کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ اور ان کے دشمنوں کو دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار کرے۔(آمین)

راقم نے ''عہدین ''کے حوالہ سے رسول خدا ۖ کی خبر آمد(مبعوث بہ رسالت) پر ایک اجمالی نظر ڈال کر ان افراد کو ''لفظِ عہدین ''سے آشنا کرنے کی کوشش کی ہے جو افراد اس لفظ سے آشنا نہیں ہیں ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ صدیاں گزرجانے کے باوجود آج بھی تحریف شدہ آسمانی کتابوں(تورات و انجیل و.. )حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام کی پیشنگوئیاں موجود ہیں جواسلام و مسلمین کی حقانیت بالخصوص حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بلندی پر ایک واضح دلیل ہے ۔
اس مضمون میں ''عہدین '' کی وضاحت کے بعد مندرجہ ذیل عناوین کے تحت ''جیسے :
*…پیشنگوئی یا تصدیق رسالت! ؟
*…عہدین (تورات و انجیل )میں رسول خدا ۖ کی خبر آمد.
*…کیوں !عہدین میں تمام چیزوں کو بطور کنایہ اور استعارہ بیان کیا گیا ہے ؟
*…منتظران حضرت ختمی مرتبت ۖاور ان کاسر انجام!
*…انتظار اور اس کا صلہ'' گفتگو کرتے ہو ئے اپنے اس مختصر سے مضمون کو اختتام تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔

امید ہے کہ خدا اور اس کے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے اصحاب اجمعین علیہم السلام اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں گے ۔ (آمین)
الحمد للّٰہ رب العالمین
و الصلاة و السلام علی رسول اللّٰہ و آلہ الطاہرین قال اللّٰہ الحکیم فی کتابہ المبین
''یا بنی اسرائیل ،انی رسول اللّٰہ الیکم مصدقاً لما بین یدی من التوراة و مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمه احمد ۔اے بنی اسرائیل ! میں صرف تمہاری طرف رسول ۖ بنا کر بھیجا گیاہوں اور مجھ سے پہلے جو تورات نازل ہو ئی اس کی تصدیق کرنے والا ہو اور تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ میرے بعد ایک عظیم الشّان رسول ۖ تشریف لائیں گے جن کا اسم گرامی ''احمد '' ہے۔

عہد ین کیا ہے ؟
تورات وانجیل کو ہی ''عہدین ''کہا جاتاہے جیساکہ ہم نے مقدمتاً یہ بیان کیا ہے کہ تورات و انجیل قدیم ترین دو سماوی کتابیں جو خداوندعالم نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر بالترتیب نازل فرمائیں ہیں اور تورات کے متبعین( پیرو) کو ''یہود ''اور انجیل کے ماننے والوں کو ''نصاری'' کہا جا تا ہے ۔

بعض کے مطابق خدا وند عالم نے ان سے دوعہد لیےہیں۔ پہلا: تورات کی صور ت میں جسے عہد قدیم کہا جاتا ہے. اور دوسرا:عہد انجیل کی صورت میں جس کو عہد جد یدکہتے ہیں۔

یہ دونوں کلمات یونانی ہیں جسکےمعنی ''بشارت'' کے ہیں۔اور جیسا کہ مشہور ہے کہ یہ دونوں کتابیں ماہ مبارک رمضان میں نازل ہوئیں ہیں۔تورات کو عہد قدیم کہاجاتا ہے جو پانچ رسالوں(اسفار خمسہ:سِفر تکوین ،سفرخروج ،سفر لاویان،سفر اعداد اور سفر تثنیہ )پر مشتمل ہے۔ان تمام مجموعہ کو عہد عتیق بھی کہتےہیں۔اوریہ (تورات)یہودیوں کے مجموعہ ٔ احکام کی بیان گر ہے۔

انجیل کے معنی بھی ''بشارت ''کے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ،ان کی تعلیمات اور ان کے معجزات پرمشتمل ہے۔وسے تو یہ ٢٧رسالوں پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے صرف چار مشہور ہیں:انجیل متی،انجیل مرقّس،انجیل لوقااورانجیل یوحنّا۔اس مجموعہ کو عہد جدید کہاجاتاہے۔لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ '' صاحبان عہدین ''کے بعد یہ تحریف سے نہ بچ سکیں !دور حاضر میں جوکتاب تورات وانجیل کے نام سے موجود ہے وہ یہودی و مسیحی احبار و رہبان کی ساختہ وپرداختہ ہے۔جسے مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے لکھی اور لکھوائی ہے۔

قرن سوم وچہارم میں بادشاہ روم نے ١٦٠انجیل کےنسخو ںمیں سے صرف ٢٧کو منتخب کیاجوعہد جدید کے نام سے مشہورہو ئی۔

چارمذکورہ انجیل کےنسخو ں کے علاوہ ایک انجیل اور ہے جسے ''انجیل برناباس'' کہتے ہیں جس میں صریحاً اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ اور رسول اکرمۖ کے صفات اور آپۖ کی بعثت وغیرہ کا بیان ہے ۔جسے یہودیوں اور مسیحیوں نے کتمان حق کے غرض سے ممنوع المطالعہ قرار دیا ہے ۔اور لوگ اسلام اور رسول اکرمۖکے حوالے سے جو باتیں عہدین و...سے بیان کرتے ہیں تو اکثرو بیشتراسے ہی اپنا محورقرار دیتے ہیں۔انجیل متی:فلسطین میں لکھی گئی جس کی زبان عبرانی ہے،انجیل مرقس:روم میں مرتب ہو ئی جس کی زبان رومی ہے،انجیل لوقا،یوحنااور برنابا:کی زبان یونانی ہے۔جو اسکندریہ اور آفس میں لکھی گئی ہے۔

خدا وندعالم نے حضرت ختمی مرتبت ۖکے خصوصی مقام و منصب ، القابات ، فضائل و کمالات ،آپ ۖ کی شریعت حمیدہ کے خصائص اورآپ ۖکی عالمگیر نبوت کے حوالے سے ان دونوں مقدس آسمانی کتابوں میں سردار الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف و خصائص بڑی تفصیل سے بیان کر دیئے تھے تا کہ آخری اور عالمگیر نبوت کی پہچان میں کسی کو کسی قسم کی بھی دقت و پریشانی نہ ہواور اور ہر کو ئی باآسانی اسے پہچان کر اتباع و پیروی کی سعادت سے بہرہ مند ہو سکے ۔

جیسا کہ اس حقیقت کو خدا وندعالم نے قرآن مجید میں مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے :''الذین یتّبعون الّرسول النبیّ الامی الذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التوراة و الانجیل ....''جو بھی اس نبی امی اور رسول اعظم ۖ کی پیروی کرتے ہیں جس کا ذکر وہ اپنے یہاں تورات و انجیل میں موجودپاتے ہیں...

صا حب مجمع البیان سے مروی ہے کہ تورات کے سفر ِخامس میں اس طرح ارشاد ہے کہ ''ان کی برادری میں ان ہی میں سے ایک نبی بھیجوں گا۔ اور میں اپنا کلام اس کی زبا ن پر جاری کروں گا پس وہی کچھ کہے گا جو میں اس کووصیت کروں گا۔اسی طرح انجیل میں بھی ہے کہ جسمیں آپ ۖکو'' فارقلیط'' کے لفظ سے یاد کیاگیا ہے۔چنانچہ ایک مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کہنا ہے کہ ''میں جا رہاہوں اور تمہارے پاس'' فارقلیط'' آئے گااور وہ روحِ حق ہوگاجو اپنی مرضی سے بات نہ کرے گا۔اور وہ تمہارا نذیر ہوگا۔

''یا ایھا النبی انا ارسلناک شاہداً و مبشراًو نذیراً و دعیاًالی اللہ باذنہ و سراجاًمنیراً۔'' ''محمد رسول اللہ و الذین معہ اشدّاء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعاً سجدا یبتغون فضلاً من اللہ و رضواناً سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود ذالک مثلھم فی التوراة و مثلھم فی الانجیل ۔''

حضرت محمدۖ! اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھی ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں بہت رحم دل ہیں تو دیکھئے گا انھیں کہ وہ کبھی حالت رکوع میں اور کبھی حالت سجدہ میں ہیں وہ اللہ کی رضا اور اس کے فضل کی تلاش و جستجو میں رہتے ہیں سجدوں کے نشانات ان کی پیشانیوں میں نمایاں ہیں تورات و انجیل میں ان کی یہ تمام نشانیاں اور مثالیں بیان کر دی گئی ہیں ۔

اور وہ '' فسا کتبھا للذین یتقون و یوتون الزّکاة و الذین ھم بآیتنا یومنون ....یامرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر و یحل لھم الطیّبات و یحرم علیھم الخبائث و یضع عنھم اصرھم و الاغلال التی کانت علیھم فالذین آمنوا بہ و عزّروہ و نصروہ و اتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون ۔

ہم یہ رحمت ان خوش نصیبوں کے لئے مقدر فرمادیں گے جو شان تقوی اپنا تے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں ... اور یہ کہ وہ لوگوںکو ہر نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور ہر برے اعمال سے روکتے ہیں پاکیزہ اشیاء کے لئے ان کے لئے حلال ٹہراتے ہیں اور ناپاک چیزیں حرام قرار دیتے ہیں اور ان کے سروں سے بھاری بوجھ اتارتے ہیں اور دست و پا کی زنجیر کو توڑتے ہیں ۔

اس لئے جو سعادت مند لوگ ان پر ایمان لا ئے اور ان کی عزت و مدد کی اور جو نورتاباں ان کے ساتھ اتار ا گیا ہے اس کی پیروی کی تو وہی لوگ فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہو نے والے ہیں ۔

تبصرہ:
١)''فارقلیط''کلمہ ٔ یونانی ہے جس کا معنی کسی شخص کی تعریف اور حمد و ثنا بیان کرنے کے ہیں اور فرانسیسی زبان میں بھی اس لفظ کا معنی ''پاراکلت'' یعنی یونانی ''فارقلیط'' کاہی مفہوم ہے جو عربی میں لفظ محمد(ص) کا ہے ۔
٢) آیہ مذکورہ کہ جس میں قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ''''الذین یتّبعون الرّسول النبیّ'' الامی'' الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراة و الانجیل ...''جو بھی اس نبی امی اور رسول اعظم ۖ کی پیروی کرتے ہیں جس کا ذکر وہ اپنے یہاں تورات و انجیل میں موجودپاتے ہیں..٦ جب انبیائے ماسبق نے اپنی اپنی امتوں کو ''رسول امی'' کی آمد و بعثت سے باخبر کیا اور آنحضرت ۖکی خصوصیت ،ان کے القاب اور صفات حمیدہ بیان کئے تو آج کی طرح برسوں برس پہلے بھی یہود و نصاری لفظ ''امی ''سے سو استفادہ کرتے ہو ئے آنحضرت ۖ پر اعتراض کرتے تھے کہ العیاذ باللہ مسلمانوں کے رسول لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ ''امی'' ہیں اور کسی راہب سے انہوں نے اسلام سیکھ لیا تھا ؟!

مارگیولس (Margolith ) ڈرپیر(Draper)اور ولیم میور (William Muir)نے اپنی کتاب ''The Life of Muhammad ''میں آشکارا اس بات کو لکھتا ہے اور یہ تمام لوگ اس بات پر معتقد ہیں کہ حضرت ختمی مرتبت ۖ نے بحیرا راہب سے اسلام کے رموز و اسرار سیکھے تھے! اور یہ اعتراض آج بھی یہود و نصاری و...اور مسلمانوں کے بعض فرقوں میںاب بھی پایاجا تا ہے !تو یاد رہے یہ بات بے بنیاد اور عقل سلیم کے سراسر خلاف ہے ۔

قارئین کرام جیسا کہ یہ جانتے ہیں کہ صحف سماوی میں لفظ ''امی''کی تکرار سے مراد یہ نہیں ہے کہ آنے والا رسول ایسا ہے جو لکھنے پڑھنے سے عاجز ہے ! نہیں بلکہ اس لفظ سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ۖ ''ام القریٰ ''میں مبعوث بہ رسالت ہو ں گے ۔

''ام القریٰ ''خطّۂ عرب کا مرکز اور ساری دنیا کے لئے دینی مرکز تھا جو آج مکہ ٔ مکرمہ کے نام سے موسوم ہے ۔قرآن مجید میں ہے کہ ''لتنذ ر ام القری و من حولھا۔''تا کہ (آپ)مکہ مکرمہ کے رہنے والوں کو اور جو لوگ اس کے ارد گرد رہتے ہیں ،بد عملی سے ڈرائیں ۔

لغت میں ہر اس چیز کو ''ام '' کہا جاتا ہے جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح و تربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبدا ء بنے ۔جس طرح ام الاضیاف (مہمان نواز )ام المساکین (مسکین نواز )ام الایتام (یتیم پرور) و یا لوح محفوظ کو ام الکتاب کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام علوم کا سرچشمہ و منبع ہے اسی طرح حضرت ختمی مرتبتۖ کو ''امی ''کہا گیا ہے کیونکہ یہ باعث تخلیق کائنات بھی ہیں اور فطری اصول حیات کے ضامن بھی ۔یہ نہ ہو تے تو کائنات کی تخلیق نہ ہو تی''لو لاک لما خلقت الافلاک ۔''یہ نہ ہو تے تو دنیا میں تعلیم و تعلم و...کا باب ہی نہ کھلتا۔ ''ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الُْمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ۔''

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ''آنحضرت ۖکو امی اس لئے کہا جا تا ہے کہ آپ ۖ ''ام القریٰ '' یعنی مکہ مکرمہ میں پیدا ہو ئے، اور اس بات کو اہل کتاب خوب سمجھتے تھے لیکن صرف نسلی تعصب تھا جس کی بنیاد پر وہ لجاجت پر اتر آئے تھے ورنہ تمام کتب سماوی میں حضرت کی خبر آمداور آپۖ کے اوصاف کا صاف صاف بیان تھا کہ آپ ۖ کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہو گی پھر آپ مدینہ کی طرف ہجرت کریں گے ۔

تفسیر صافی میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :رسو ل خدا ۖ ٧٢یا ٧٣ زبانوں میں لکھ پڑھ سکتے تھے اور یہ عدد صرف کثرت بیان کے لئے ہے ورنہ آپ ۖ عالمی رسول تھے اس لئے وہ عالمی تمام زبانوں پر حاوی تھے ۔

کیوں خدا وند عالم نے آپ کو قرآن مجید و دیگر صحف سماوی میں لفظ ''امی ''سے یاد کیا ہے ؟

''امی''یہ آنحضرتۖ کی ایک خاص صفت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آپۖ نے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذانہ تهه نہیں کیے نہ ہی کسی سے کسی قسم کی تعلیم حاصل کی ۔لیکن اس کے باوجود آپۖ نے جو قرآن پیش کیا اس کے اعجاز و بلاغت کے سامنے دنیا کے تمام فصحا و ادبا نے گھٹنے ٹیک دیئے! اور آپۖ نے جو تعلیمات پیش کیں ان کی صداقت و حقانیت کی معترف ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ۖ(بقول دشمنان اسلام )''امی'' نہیں ہیں بلکہ خدا ئے علیم کے سچے رسول ، عالم و دانا تھے ۔ ورنہ ایک امی نہ ایسا قرآن پیش کر سکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات بیان کر سکتا ہے جو عدل و انصاف کا بہترین نمونہ اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے ناگزیر ہیں ، جنھیں اپنا ئے بغیر دنیا حقیقی امن و سکون اور راحت وعافیت سے ہمکنار نہیں ہو سکتی ۔

پیشنگو ئی یا تصدیق رسالت حضرت ختمی مرتبتۖ؟
جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ کسی چیز کی پیشنگو ئی وہی کر سکتا ہے جو اس کا جاننے والا ہو یا اس سے باخبر ہو بطور مثال ''نیوٹن'' نے جب جاذبہ ٔ زمین کا مشاہدہ کر لیا تو اس نے اس کی مزید تحقیق و چھان بین کی پھر دنیا کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین ہر شئے کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔''نیوٹن ''کی یہ بات اس کے مشاہدہ کا ثمرہ اور اس کے نظریہ پر ایک بین دلیل ہے کہ وہ ان چیزوں کا عالم ہے جسے اس نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ۔

یا ایک دوسری مثال اور وہ یہ کہ ''پاور ہاؤس ''میں کام کرنے والا یا اس کی دیکھ بھال کرنے والا شخص بر سر عام یہ اعلان کر دے کہ کچھ دنوں کے لئے بجلی کا سلسلہ منقطع ہو جا ئے گا تو لوگ اس کی بات سن کر تجسس میں مبتلا ہو جا ئیں گے کیونکہ انہیں ایسے شخص نے یہ خبر دی ہے جو اس کا عالم بھی ہے اور اس کے تمام نشیب و فراز سے بھی واقف ہے تو یہ پیشنگو ئی نہیں بلکہ تصدیق حقیقت حال ہو گی جسے وہ دیکھ رہا ہے ۔ یہ تو عام لوگوں کی بات تھی جس کی بات پر لوگ تجسس پر مجبور ہو جاتے ہیں جن کا علم محض قیاسی ہوتا ہے اور اس کے نتائج بھی غالباً ظنی ہوتے ہیں لیکن خدائے علیم کے برگزیدہ بندوں کا علم قیاسی نہیں بلکہ یقینی اور قطعی ہو تا ہے کیونکہ ذات وحدہ لاشریک اپنے ان چنے ہو ئے افراد کو ''علم لدنی'' سے سرفراز فرماتا ہے جو کہ وحی ، الہام کشف، وجدان، اور خواب کے ذریعے روبہ عمل آتا ہے چنانچہ اس دنیا میں جتنے بھی نبی و رسل نے اس صفحہ ہست و بود پر قدم رکھے سبھی نے آپ ۖ پر ایمان کا عہد کیا اور اپنی امتوں کو بھی آنے والے حالات سے آگاہ کیا اور اس ذات والا صفات کی کہ جس کا انہوں نے''عالم اَلست ''میں کلمہ پڑھا (و اخذا اللّٰہ میثاق انبی لما آتیتکم من کتاب و حکمة ثم جائکم رسول مصدق لما معکم . ..اور جب خدانے تمام انبیاء سے عہد لیا کہ ہم تم کو جو کتاب دے رہے ہیں اس کے بعدجب وہ رسول آجا ئے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے تو تم سب اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا ...)
اور ان کی عالمگیر رسالت کی تصدیق بھی کی تھی اوراپنی امت کو بھی اس بات کی دعوت دی کہ وہ اس کی اتباع و پیروی کریں۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ''قال قدجئتکم بالحکمة و لابیّن لکم بعض الذی تختلفون فیہ فاتّقوااللّٰہ واطیعون . . . ' جناب عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ''میں تمہارے پاس حکمت لایا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ جن بعض چیزوں میں تم مختلف ہو،انہیں واضح کردوں ،پس تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔''کیونکہ''و لکل امة رسول فاذا جآء رسولھم ۔''ہر امت کے لئے ایک رسول ہے۔

''فالذین آمنوا بہ و عزّروہ و نصروہ واتّبعوالنّور الذی معہ اولئک ھم المفلحون ۔''پس جولوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے ،ایسے ہی لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں ۔

جناب موسیٰ علیہ السلام کو خدا وند عالم نے مخاطب کر کے فرمایا ''قل یا ایھا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعاً الذی لہ ملک السّموات والارض ،لا الہ الا ھو یحی و یمیت فامنوا باللّٰہ و رسولہ النبی الامی الذی یؤمن باللّٰہ و کلمتہ و اتبعوا لعلّکم تھتدون ۔'' پیغمبر کہہ دیجیئے کہ میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول اور نمائندہ ہوں جس کے لئے زمین و آسمان کی مملکت ہے ۔اس کے علاوہ کو ئی خدا نہیں ہے وہی حیات دیتا ہے او ر وہی موت دیتا ہے لہذا اللہ اور اس کے پیغمبر پر ایمان لے آؤ جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اسی کا اتباع کروکہ شاید اسی طرح ہدایت یافتہ ہو جاؤ۔

جیسا کہ ہم نے یہ پہلے بیان کیا ہے کہ تمام انبیاء ورسل نے حضرت ختمی مرتبت ۖکی رسالت و نبوت کی گواہی دی اور ان کا اس بات کی گواہی حضور اکرمۖ سے صرف والہانہ محبت کی بنا پر نہیں بلکہ ان تمام کے وظائف میں سے ایک وظیفہ تھا جس پر وہ سارے عمل کر رہے تھے کیونکہ ان کی بعثت پیغمبر اعظم ۖ کی بعثت کی مرہون منت تھی لہذا ان کا فریضہ تھا کہ وہ آفاقی نبوت کی لوگوں کو خبر دیں ۔اور ان کی دلی تمنا یہ تھی کہ خدا وند عالم انھیں آنحضرت ۖ کی امت میں قرار دے۔

تفسیر مجمع البیان میں ایک طویل روایت ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے امت پیغمبر آخر الزمان ۖ کے ذات احدیت سے جب فضائل و مناقب سنے تو اس کی بارگاہ میں دست دعا بلند کر دیئے کہ میرے معبود !مجھے بھی حضرت خاتم الانبیاء کی امت میں شمار کر۔(اور آپ کی یہ دعا مستجاب ہو ئی )روایت میں ہے کہ جب حضرت قائم آل محمد کا ظہور ہو گا تو حضرت موسی اپنے اصحاب کے ساتھ آپ کے ہمراہ ہوں گے ۔

جناب آدم(ع) سے حضرت ابراہیم تک اور جناب ابراہیم علیہ السلام سے جناب موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام... تک کا جو سلسلہ چلا تو سبھی نے حضرت ختمی مرتبت ۖ کی آفاقی نبوت کی لوگوں کو بشارتیں دی ہیں اور خود ان کے دل بھی حضور سرورکائنات کا امتی ہونے کے خواہش مند تھے اور ان کی زبان پر ہمیشہ یہ دعا تھی کہ ''ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم آیاتک و یعلمھم الکتاب و الحکمة و یزکیھم انک انت العزیز الحکم ۔''میرے معبود! ان میں وہ رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے بے شک تو غالب و حکیم ہے ۔

روایات میں ہے کہ خدا وند عالم نے صحیفہ ابراہیمی کے ذریعہ جناب ابراہیم علیہ السلام کو اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ ''اے ابراہیم !آپ کے بیٹے کی نسل سے کئی خاندان پیداہوں گے یہاں تک کہ وہ نبی تشریف لائیں گے جو خاتم الانبیاۖ ہوں گے ۔

جب جناب ابراہیم علیہ السلام اپنے اہل و عیال کو لیکر شہر سے کوچ کرنے لگے تو ایک ایسے مقام پر
پہنچے جہاں نہ ہی کو ئی بستی تھی اور نہ کو ئی آبادی بلکہ بے آب و گیاہ صحرا تھا تو جبرئیل نے فرمایا اے خلیل خدا آپ اسی مقام پر ٹہر جائیں یہی آپ کی جائے سکونت قرار پائے گی یہ سن کر آپ حیران ہو گئے کہ ایسے بے آب و گیاہ صحرا میں کہ جہاں نہ آبادی ہے نہ ہی پانی کا انتظام یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟!

جبرئیل امین نے فرمایا :ہاں اسی جگہ آپ کو سکونت اختیار کرنی ہے یہیں آپ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے وہ نبی پیدا ہوں گے جن پر نبوت کا خاتمہ ہو گا اور دین کی تکمیل ہو گی ۔

تورات کے بہت بڑے عالم ''وہب بن منبہ ''کے بقول ''جب خدا وند عالم نے کلام کرنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قرب خاص عطا فرمایا تو انہوں نے عرض کی میرے معبود!تورات میں ایک امت کا ذکر موجود ہے جس کے بارے میں بتا گیا ہے کہ وہ تمام امتوں سے افضل ہو گی اس کے افراد نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور خدا پر یقین رکھیں گے ۔اے اللہ !اسے میری امت بنا دے !آواز قدرت آئی :اے موسیٰ یہ احمد ۖ کی امت ہے..

جناب ابن عباس اس بات کے روای ہیں کہ ''خدا وند عالم نے جناب عیسیٰ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ''اے عیسیٰ!میرے محمد ۖ! کی تصدیق کرو !اور اپنی امت کو کہہ دو کہ ان پر ایمان لے آئے کیونکہ اگر محمد ۖنہ ہو تے تو میں آدم کو خلق نہ کرتا اور اگر محمد ۖنہ ہو تے تو میں جنت اور دوزخ کو بھی خلق نہ کرتا جب میں نے عرش خلق کیا تو اس پر اضطراب طاری ہوگیا میں نے اس پر کلمہ طیبہ لکھ دیا تو وہ ساکن ہو گیا ۔

اور اس بات پر بطور دلیل خود رسول اکرم ۖ کی حدیث ہے کہ جسمیں آپۖ نے جناب سلمان سے فرمایا:''اے سلمان!خدا وند عالم نے مجھے اپنے نور سے خلق کیا اور پھر اس نے مجھے پکارا تو میں اس کی اطاعت میں سربسجود ہو گیا پھر اس نے میرے نور سے علی بن ابیطالب کو خلق کیا اور انہیں آواز دی تو انہوں نے اس کی آواز پر لبیک کہا ،علی کے نور سے میری بیٹی(فاطمہ)کو خلق کیا اور پھر انہیں پکارا تو انہوں نے اس کی اطاعت کی اور پھر میرے ،علی اور فاطمہ کے نور سے حسن و حسین کو خلق کیا اور انہیں آواز دی تو ان دونوں نے اس کی آواز پر سر تسلیم خم کر دیا ۔ پھر اس نے ہمارے ناموں کو اپنے ناموں پر رکھا ۔یعنی اللہ محمود ہے تو مجھے محمد بنا دیا ، اللہ علی ہے تو اپنے اس نام کو اس نے علی بن ابیطالب کے لئے منتخب کر دیا ،خدا فاطر ہے تو اس نے میری بیٹی کو فاطمہ بنا دیا ،خدا صاحب احسان تو اس نے میرے پہلے فرزند کا نام حسن رکھ دیا ،خدا محسن ہے تو اس نے میرے دوسرے فرزند کا نام حسین رکھ دیا پھر اس نے ہمارے نور سے وہ بھی صلب حسین سے ٩ دیگراماموں کو خلق کیا اور انہیں بھی آواز دی تو ان ساروں نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور اس کی اطاعت کی ۔اور یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب نہ ہی آسمان کا شامیانہ تھا اور نہ ہی زمین کا فرش بچھا تھاا اور نہ ہی پانی کا کہیں وجود تھا اور نہ ہی کو ئی ملک و بشر کو اس نے خلق کیا تھا ....''

نیز آپ ۖ نے فرمایا :''خدا وند عالم نے میرے نور سے عرش ، میرے بھا ئی علی بن ابیطالب کے نور سے ملائکہ ،میری بیٹی فاطمہ کے نور سے آسمان و زمین اور میرے فرزند حسن کے نور سے چاند ،سورج اور ستارے اور میرے نورعین حسین کے نور سے بہشت و حورالعین کو خلق کیا۔''اور ہاں سنو!''اوّلُ ما خلق اللّٰہ نوری ۔''یعنی سب سے پہلے جس موجود کو خدا وندعالم نے خلق کیا وہ میرا نور تھا ۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ''حضرت ختمی مرتبت کی خلقت اس وقت ہو ئی جب کچھ نہ تھا تو خدا وند عالم نے آپ کے نور کو خلق کیا اور ایک ہزار سال اسے اپنے سامنے رکھا ....پھر اسکے بعد ان کے نور سے ١٢ حجاب خلق کئے حجاب قدرت ،حجاب عظمت ،حجاب عزت،حجاب ہیبت،حجاب جبروت،حجاب رحمت،حجاب نبوت،حجاب منزلت،حجاب رفعت،حجاب سعادت،حجاب شفاعت اور حجاب کبریا۔اور جب یہ نور تمام مراحلوں سے گزر چکا تو پھر اسی نور سے ٢٠ نور کے سمندر خلق کئے :بحر عزت ،بحر انابت،بحر صیانت،بحر ہدایت،بحر خشیت،بحر صبر ، بحر خشوع ،بحر تواضع ،بحر وقار،بحر حلم،بحر رضا، بحرہیزگاری و...جب یہ نور ان تمام مراحلوں سے گذر چکا تو قدرت نے آواز دی اے میرے حبیب !آپ ہمارے آخری رسول ہیں اور آپ ہی روز جزا کے شافع ہیں پس یہ سنتے ہی یہ نور سجدہ میں گرگیا اور جب سجدہ سے سر اٹھا یا تو اس کی پیشانی سے نے ایک لاکھ چوبیس ہزار قطرات ٹپکے پس خدا وند عالم نے ہر قطرے سے پیغمبروں میں سے ایک کے بعد دیگرپیغمبر کو بنا یا ۔پس وہ تمام نور حضرت ختمی مرتبت ۖ کے گرد طواف کرنے لگے اور یہ کہتے تھے کہ :سبحان من ھو عالم لا یجھل ،سبحان من ھو حلیم لا یجھل ،سبحان من ھو غنی لا یفتقر ...پس قدت نے آواز دی کیا تم مجھے پہچناتے ہو ؟تو نور محمد ۖ نے ان تمام نور سے پہلے یہ ندا دی :انت اللّٰہ الذی لا الہ الا انت و حدک لا شریک لک رب الارباب و ملک المملوک تو آواز آئی تو ہی میرا اتنخاب کردہ ہے تو ہی میرا دوست و محبوب ہے تو ہی میرا بہترین مخلوق ہے تمہاری امت تمام امتوں سے بہتر ہے ...

انجیل یوحنّا کی چوتھی فصل میں ١٦،١٧،٢٥،،٢٦آیتوںمیں اور سولہویں فصل کی ٧،١٢اور چودہویں آیات میں یا سفرِ تثنیہ کے ٣٣ویں باب کی دوسری آیت میں جو مطالب رسول اکرم ۖ کے حوالے سے جناب عیسی علیہ السلام نے بیان کی ہیں ا گر ان تمام مطالب کا خلاصہ بیان کیا جا ئے تو وہ یہ ہو گا کہ حضرت ختمی مرتبت ۖ فخر الانام ہیں اور وہ تمام انبیائے ما سبق سے اعلیٰ و افضل ہیں ۔

جیسا کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام اپنی امت سے فرماتے ہیں ''بہت سی باتیں ایسی ہیں جو تمہیں نہیں بتا سکتا کیونکہ کائنات کا حاکم و مختار آرہا ہے اور اس جیسی کو ئی شان مجھ جیسوں میں نہیں ہے ! وہی جو چاہے گا تم سے کہہ گا۔جس وقت وہ ''روح راستی'' آئے گا تمہیں ہر طرح سے راہ ہدایت کی نشاندہی کرے گا۔وہی تمہیں آئندہ کے حالات سے بھی باخبر کرے گا۔روح القدس تمہیں ہر قسم کی ،تعلیم دے گا اور جو کچھ مین نے تم سے کہا ہے وہ سب تم کو دوبارہ بتا ئے گا...

حضرت ختمی مرتبت ۖ کی شان میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کی یہ رطب اللسانی اور ان ۖ کی مدح و ستائش ! شاید وہ اپنی امت کو قرآن مجیدکے بیانات سے آشنا کر رہے ہوں کہ ہم جس کی ہم توصیف بیان کررہے ہیں وہ کوئی معمولی نبی نہیں بلکہ سرکار دوعالم ہے جس کی شان میں قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے کہ:
''و ما ارسلنک الارحمة للعالمین۔''اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے
''ورفعنا لک ذکرک ۔'' اور کیا آپ کے بوجھ کو اتار نہیں لیا
''من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ۔'' جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے اللہ کی اطاعت کی
''ان الذین یبایعونک انما یباعون اللّٰہ یداللّٰہ فوق أیدیھم۔'' بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں.
''وللّٰہ عزّة و لرسولہ۔'' ساری عزت اللہ , رسول اور صاحبان هایمان کے لئے ہے.
''یا ایھا الذین آمنوا استجیبواللّٰہ و للرّسول۔'' اے ایمان والو اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کهو.
''قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ۔'' اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو-

جس کا تذکرہ رہتی دنیا تک باقی رہنے والا ہے جو رحمةللعالمین ہوگا، جس کی محبت خدا کی محبت ہوگی،جس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہوگی،جس کی یاد خدا کی یادہوگی،جس کی عزّت خدا کی عزّت ہوگی،جس کی رضا خداکی رضا ہوگی ، جس کی اجابت خدا کی اجابت ہوگی ،جس کی امت تمام امت سے افضل ہو گی ، جس کا دین دنیا کے تمام ادیان سے بہترہوگا، جس کی بیعت خدا وند عالم کی بیعت ہوگی ،جس کے معجزات تمام انبیاء کے معجزات سے برتر ہوں گے کہ جس کاجواب دنیا لانے سے قاصر ہوگی۔

آپۖ ہر عیب سے پاک پیدا کئے گئے ،آپۖ کو درخشاں ''مہرختم نبوت عطا ہو ئی جو آپۖ کی صداقت کی گواہی دے رہی ہے ،خدا نے اپنے نام کے ساتھ آپ ۖ کے اسم مبارک کومشتق کیا تا کہ ان کی جلالت کی شان کو واضح فرمادے چنانچہ وہ محمود ہے تو یہ بھی احمد و محمود ہیں وہ ہادی ہے تو یہ بھی ہادی و سراج منیر ہیں۔یہ موجود ہیں لہذا ہم ان کی دمِ واپسیں تک پیروی کرتے رہیں گے ۔

تبصرہ:
١٧ ربیع الاول بمطابق٥٧٠ میں مکہ مکرمہ میں یادگار حضرت عبد اللہ،وجہ تخلیق کائنات محبوب کبریا حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہو ئی۔

٤٠ سال کی عمر میں غارِ حرا ء میں مبعوث برسالت ہو ئے ۔اور بالآخرجب آپۖ نبوت و رسالت کے تما فرائض انجام دے چکے تو٦٣سال کی عمر میں بروز شنبہ ٢٨صفر ١١ھ مطابق ٦٣٣ئ میں اپنے جانشین حضرت علی علیہ السلام کے سپرد اپنی وصیتیں کرکے کائنات کو وداع کہااور خالق کائنات کی طرف کوچ کر گئے۔
مغربی مصنفین اورسرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی ﷺ

مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔

تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد ﷺ سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔

فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد ﷺ دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔

جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد ﷺ اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔

جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔

فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں:
۱)۔ مقصد کی بلندی
۲)۔ وسائل کی کمی
۳)۔حیرت انگیر نتائج ۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد ﷺ سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔

فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ۔

بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا....وہ محمد ﷺ ہیں ....جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد ﷺ سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟

ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد ﷺ گزشتہ اورموجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔

عہدین (تورات و انجیل ) میں رسول خدا ۖ کی خبرآمد
مسند احمد بن حنبل میں منقول ہے کہ رسو ل خداۖ فرماتے ہیں کہ ''انا دعوة ابی ابراہیم و بشارة عیسیٰ...''میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا ثمرہ ہوں ۔

تورات میں آنحضرت ۖ کا نام صاحب المحلم اور آپ کی کنیت ابو االارامل ہے ۔انجیل میں آپ کو فارقلیط (قابل غور بات یہ ہے کہ لفظ فارقلیط کا ترجمہ عربی میں احمد کے ہیں لیکن اناجیل کے مترجمین نے عمداً یاسہواً اسے'' تسلی دینے والے '' کہ معنی کیئے ہیں )،نور ،روح وغیرہ کہا گیا ہے۔

جیسا کہ علامہ مجلسی تذکرة الآئمہ میں فرماتے ہیں کہ تورات و... میں حضرت ختمی مرتبت ﷺ کو لفظ صاحب سے یاد کیا گیا ہے ۔ پس صحف سماوی اور روایات سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ یہود و نصاری حضور کو پہچانتے تھے جیسا کہ آیات قرآنی میں ارشاد باری تعالی ہے کہ'''الذین آتینھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم ...''جسے ہم نے کتاب دی وہ تو انھیں ایسا پہچانتے ہیں جیسے کو ئی اپنے بچوں کو پہچانے...

جن کے اوصاف حمیدہ تورات و انجیل میں مذکور ہیں۔سورۂ بقرہ کی ٨٩ و ٩٠ آیات کے ذیل میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :''یہود اپنی کتابوں میں آنحضرت ۖ کے تمام اوصاف و خصوصیات کو دیکھ چکے تھے اور ان کے منتظر بھی تھے اور بعض حضورﷺکی تلاش میں مدینہ کی جانب ہجرت بھی کرنے لگے تھے کیونکہ ان کی کتابوں میں مدینہ (کوہ عیراور کوہ احد ) کوحضورۖ کی جائے ہجرت قرار دیا گیا تھا ۔

اور یہ (یہود )مشرکین سے شکست کھاجاتے تو اللہ سے دعا کرتے تھے کہ میرے معبود !آخری نبی ۖ کو جلد مبعوث فرما تا کہ اس سے مل کر ہم ان مشرکین پر غلبہ حاصل کر لیں ۔اس کے علاوہ یہود ی کافروں کو بھی یہ خبر دیتے تھے کہ عنقریب نبی ۖ کی بعثت ہو گی ۔

عبد اللہ بن سلام کا بیان ہے کہ ''تورات میں حضور ۖ کے اوصاف و القاب اسطرح مذکور ہیں :اے نبی ۖ!بے شک ہم نے آپ کو گواہ ،نوید مسرت سنانے والا ، انجام سے ڈرانے والا ،اور اپنی قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ۔

آپ میرے بندہ اور رسول ہیں میں نے آپ کو متوکل کا لقب دیا ہے ۔ اے لوگو! وہ نبی تلخ مزاج اور سخت گیر نہیں نہ ہی بازاروں میں اونچی آواز سے بولنے والا ہے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتا ہے بلکہ عفو و در گزر سے کام لینے والا ہے میں انھیں اسوقت تک واپس نہیں بلاؤں گا جب تک ان کے ذریعہ راستے سے بھٹکی ہو ئی ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہ کر دوں ...خدا وند عالم اس کے ذریعے نابینا آنکھوں کو بینا کرے گا بہرے کانوں کو قوت سماعت بخشے گا اور دلوں پر پڑے ہو ئے پردے تار تار کر دے گا ۔''

مذکورہ بالا عبد اللہ بن سلام کے بیان کی تائید قرآن مجید کی اس آیہ شریفہ سے ہو تی ہے کہ جس میں ارشاد ہو تا ہے :''یا ایھا النبی انا ارسلناک شاہداً و مبشراًو نذیراً و داعیاًالی اللہ باذنہ و سراجاًمنیراً۔''اے نبیۖ! ہم نے آپ ۖ کو گواہ ،خوشخبری سنانے والا ، اور انجام سے ڈرانے والا،اور اللہ کے حکم سے ''داعی الی اللہ ''اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ۔''

''فبما رحمةٍمن اللہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضّوا من حولک ۔''''اے میرے حبیب!یہ خدا کی رحمت خاص ہے کہ تو ان کے لئے نرم دل ہے اور اگر تو سخت مزاج اور سنگدل ہو تا تو یہ لوگ قریب سے بھاگ جاتے ۔

جناب ابن عباس نے کعب سے پوچھا کہ آپ تورات میں حضرت ختمی مرتبتۖ کا ذکر کس اسلوب میں پاتے ہیں ؟آپ نے جواب دیا کہ تورات میں حضور ۖ کا ذکر اس انداز میں ہوا ہے کہ ''محمدۖ! اللہ کے رسول ہیں مکہ میں پیدا ہوں گے اور ہجرت کرکے مدینہ جائیں گے اور ان کی حکومت شام تک پہنچ جا ئے گی وہ فحش گو اور بازاروں میں چیخنے چلانے والے نہیں ہوں گے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی کے ساتھ دیں گے بلکہ معاف کر دیں گے ۔

حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل سے فرماتے ہیں کہ :اے کاش !وہ منحمنا ابھی آجاتا ،جو اللہ تمہاری طرف بھیجے گا ۔''(یاد رہے سریانی زبان میں محمد کو منحمنا اور رومی زبان میں برقلطیس کہتے ہیں ۔)

آپ نے فرمایا :''اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے احکام پر عمل کرو اور میں باپ کی بارگاہ میں دعا کروں گا ۔(چنانچہ )وہ تمہیں ایک دو سرا راحت رساں عطا فرمائے گا جو تمہارے ساتھ ہمیشہ رہے گا ۔
15-If you love me keep my commandments.
16-and i will pray the father.and he will give you another counselor to be with you for ever.

بہت سی باتیں تم سے نہیں کروں گا کیونکہ کائنات کا حاکم و مختار آرہا ہے اور اس جیسی کو ئی شان مجھ میں نہیں ہے ۔
30-I will not longer talk much with you,for the ruler of this world is coming ,and the has nothing in me .

تا ہم، میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ تمہارے ہی لئے مفید ہے کہ میں جاؤں کیونکہ اگر میں نہیں جاؤں گا تو وہ راحت رساں تمہارے پاس نہیں آئے گا لیکن اگر میں چلا گیا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا ۔
7-Neverthless I tell you the truth ;it is to your advantage that I go away ;for if I do not go away ,the comforter will not come to you. but if I depart, I will send him to you.

تاہم جب وہ سراپا صدق تشریف لا ئے گا تو وہ سچا ئی کی راہ دکھا ئے گا کیونکہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں بو لے گا بلکہ جو کچھ سنے گا وہی بیان کرے گا اور وہ تمہیں آنے والی چیزوں کی خبر دے گا ۔
13-Hwobeit when he ,the spirit of truth,comes,he will guide into all the truth:for he shall not speak of himself, but what soever he shall hear,that shall he speak and he will shew you things to come.

روایت میں ہے کہ حضرت عبد المطلب کے پاس ایک پادری آیااور کہنے گلا کہ : ''تورات میں ایک ایسے نبی کاذکر ہے جس کی تمام صفات بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہیں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہو گا ۔اب اس نبی کا زمانہ ظہوربالکل قریب ہے ۔''اتنے میں رسو ل خدا ۖ تشریف لے آئے اور اور اپنی مسند پر بیٹھ گئے ۔وہ آپ کو دیکھ کر دنگ رہ گیا آپ ۖ کی آنکھوں میں تیرنے والے ڈوروں کا جائزہ لیا پشت مبارک اور قدموں کو دیکھا اور وہ بے ساختہ چلا اٹھا !
اے عبد المطلب !یہی وہ نبی ہے بتاؤ تمہارا کیا لگتا ہے ؟
حضرت عبد المطلب نے جواب دیا : یہ میرا بیٹا ہے ۔پادری نے کہا :یہ نہیں ہو سکتا اس کو یتیم ہو نا چاہیئے تھا۔
عبد المطلب نے بتایا ایساہی ہے اس بچے کے ماں باپ فوت کر چکے ہیں یہ میرا پو تا ہے۔پادری نے کہا :اس کی حفاظت کرو ...
کیوں عہدین میں تمام چیزوں کو بطور کنایہ اور استعارہ بیان کیا گیا ہے ؟

ایک سوال ہے جو لوگ اکثر کرتے ہیں وہ یہ کہ کیوں قرآن مجید وغیرہ کی طرح دیگر کتابوں میں بالخصوص عہدین (تورات و انجیل ) میں رسول اکرمۖ کی عالمگیر رسالت کا صریحاً بیان نہیں آیاکیوں کبھی انھیں صاحب ،نور،فارقلیط وغیرہ سے یاد کیا گیا ہے ؟!البتہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ تورات و انجیل میں کہیں کسی جگہ پر صریحاًحضور اکرم ۖ کے اسم گرامی کو بیان نہیں کیا گیا ہے عموماًاستعارہ سے کام لیا گیا ہے اور یہ کو ئی نئی اور تعجب خیزبات نہیں ہے کیونکہ ہمیں اپنی دیگر معتبر کتابوں میں بھی یہ چیزیں ملتی ہیں جیسے جب علائم ظہور ''اخبار غیبة'' جو کہ ائمہ علیہم السلام بالخصوص جو روایت حضرت امیر المؤمنین سے نقل ہو ئی ہے اسمیں بھی آنحضرت نے اشارة اور کنایة ً ہی ساری باتیں بتائی ہیں ۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟! تو بقول ایک مؤلف کے کہ یہ خدا وند عالم کی مصلحت ہے کہ یہ تمام بشارت و پیشنگو ئیاں دشمنان اسلام کے دل میں اسطرح محفوظ رہیں جیسے جوہری نایاب و قیمتی پتھر وں کو اپنے خزانہ (صندوقچہ ) میں محفوظ رکھتا ہے تا کہ آنے والی نسلیں جو علم و دانش کی تشنہ ہوں گی ان سے سیراب و سر شار اور اس پر غور فکر کرسکیں ۔

اس لئے کہ جو قوم حضرت ختمی مرتبتۖ کا بے صبری سے انتظار کر ہی تھی اور آنحضرت ۖ کی عالمگیر رسالت کی تبلیغ میں اپنا سرمایۂ حیات لٹا رہی تھی جب آنے والا آیا تو اس کی راہوں میں کانٹیں بچھا نے لگے اور اسے یک و تنہا چھوڑ دیا اور اس کا انکار کرنے لگی محض اس جلن اور حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لا ئے کہ آنے والا (پیغمبر اعظم ۖ)ہماری نسل میں سے کیوں نہ ہو ا،جیسا کہ ہمارا گمان تھا( ''فلما جائھم ما عرفوا کفروا بہ فلعنة اللّٰہ علی الکفرین ۔''یعنی آجانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے ،اللہ تعالی کی لعنت ہو کافروں پر۔

سب نشاں بیکار اُن کے بغض کے آگے ہو ئے ہو گیا تیرِ تعصّب اُن کے دل میں وار پار اور یہ فطرت جب وہاں سے چلی تو انسانیت کو پامال کرتی ہو ئی چلی کہیں طبقاتی نظام (دورہ بنی امیہ و بنی عباس )قائم کیا تو کہیں حسد و عناد کی دیواریں کھڑی کیں جس کے نتیجے میں عالم انسانیت کا شیرازہ بکھرتا چلا گیا اور آج تک یہ الٹی سانسیں لے رہی ہے ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ یہودی اور عیسا ئی ذہنیت کو اپنے پیروں تلے کچل کر کردار رسول، ۖتعلیمات رسول اور پیغام رسول ۖ پر گامزن ہو جا ئے تا کہ اسے راہ نجات مل جا ئے ۔

منتظرانِ حضرت ختمی مرتبتۖ اور ان کا سر انجام!
جیساکہ ہم نے اپنے گزشتہ بیانات میں ذکر کیا ہے کہ جتنا زیادہ پیغمبر اعظم ۖ کی رسالت کی تبلیغ ہو ئی شاید ہی کسی دوسرے رسول کی رسالت و نبوت کی اتنی تبلیغ ہوئی ہو!؟حضرت ختمی مرتبتۖ کی آمد کا شہرہ آپۖ کے آنے سے سالہا پہلے ہو چکا تھاجسے صاحبان عہدین و دیگر تمام صاحبان صحف سماوی نے اپنی امت کو ہمیشہ اس بات کی تاکید کی کہ جب بعثتِ محمدی ۖ کا وقت آئے تو وہ کسی سے پیچھے نہ رہیں اور فوز و فلاح دائمی سعادت اور ابدی کامیابی ان کے قدم چومے اور وہ خاتم النبینۖ کی رسالت کا کلمہ پڑھ کر اللہ کے مقبول بندوں میں شامل ہو جا ئیں ۔

جیسا کہ قرآن کریم نے جناب موسیٰ علیہ السلام و... کی زبانی یوں بیان کیا ہے کہ'' یہ اپنی امت سے فرمایا کرتے تھے:
اک نشاں ہے آنیوالاآج سے کچھ دن کے بعد
''یا بنی اسرائیل ،انی رسول اللّٰہ الیکم مصدقاً لما بین یدی من التوراة و مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ۔اے بنی اسرائیل ! میں صرف تمہاری طرف رسولﷺبنا کر بھیجا گیاہوں اور مجھ سے پہلے جو تورات نازل ہو ئی اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ میرے بعد ایک عظیم الشّان رسول آئے گاجسکا اسم گرامی ''احمد '' ہے۔ ''

یہ قندیل ِ نور در اصل صدیوں سے نسل در نسل منتقل ہو نے والا ایک خاص پیغام تھا جسے صاحبانِ عہدین و...نے اپنی امت کو دیا کہ اے لوگو!دیکھو عنقریب ہمارے بعد ''فارقلیط ،منحمنا ،بر قلیطس ،محمد اور احمد ۖ آنے والے ہیں ۔

لہذااس دور کے ہر مذہب و ملت کے لوگ آنحضرتۖ کے دیدار کے منتظر تھے اور ہر طرف ایک ہی بحث تھی کہ ایک منجی عالم آنے والے ہیں جیسا کہ جناب سلمان سے ایک راہب خدا رسیدہ نے کہا تھا :''قد اظل زمان نبی وھو مبعوث بدین ابراہیم علیہ السلام ، یخرج بارض العرب ،مھاجر الی الارض بین حرتین بینھما بہ علامات لا تخفی یاکل الھدیة و لا یاکل الصدقة،و بین کتفیہ خاتم النبوة فان استطعت ان تلحق بتلک ابلاد فالحق۔''

البتہ نبی آخرالزمان ۖکے ظہور کا زمانہ قریب ہے وہ دین ابراہیمی کے ساتھ مبعوث ہونے والے ہیں سر زمین عرب میں ظاہر ہوں گے اور ہجرت کر کے ایک ایسی سرزمین کی طرف جائیں گے جو دو میدانوں میں گھری ہو ئی ہے اور ان کے درمیان نخلستان ہے۔اس نبی کی نمایاں علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کریں گے اور صدقہ بالکل نہیں کھا ئیں گے ان کے دونوں کاندھوں کے درمیان ''مہر نبوت''ہے۔ جوخاتم النبین ہیں جسے خدا وندعالم پورے عالم کے لئے رحمت بنا کربھیجا گا جس کے ذریعہ لوگوں کے ہم وغم دور ہوں جائیں گے جو لوگوں کو ذلت و رسوائی سے نجات دینے والاہے جو لوگوں کوطوق وسلاسلِ غلامی سے چھڑانے والا ہے ۔جنکی کی آنکھیں اللہ کی آنکھیں ہوں گی جن کی زبان خدا کی زبان ہوگی وہ دیکھے گا تو اللہ کی نگاہ سے اور بولے گا توصرف وحی الہی ہوگی(و ماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی کے مصداق ہوں گے ) اور سارے عالم پران کا پرچم لہرائے گا اور ان کی ایک ہی ندا ہو گی ''ایھا الناس قولو!لا الہ الا اللّٰہ تفلحو''اے لوگو!خود کو ان کی اطاعت و پیروی کے لئے آمادہ کر لو اب وہی سلسلۂ نبوت کا آخری نشان رہ گئے ہیں ان کے بعد کو ئی نبی پیدا نہیں ہو گا وہ آئیں گے تو کائنات کو اجالوں برکتوں رحمتوں اور سعادتوں سے بھر دیں گے جو ان کا قرب پا ئے گا وہ امن و اطمینان کے مضبوط حصار میں آجا ئے گا جو ان کے حضور بیٹھے گا وہ رحمتِ الہی کے آغوش میں آجا ئے گا۔وہ سکون و قرار کا مخزن امن و عافیت کا گہورا اور رحمت و شفقت کا سمندر ہوں گے ۔

اس پیشنگوئی اور بشارت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر عام و خاص اس بات کو اپنافریضہ سمجھنے لگا تھا کہ ہمیںان کے حضور پہنچ کر حق و صداقت کی تتبع اختیار کرنی ہے ہمیںاخلاق و شرافت اور تہذیب و تمدن کے اعلیٰ مناصب تک پہنچنا ہے۔

ابن ہشام اپنی تاریخ (سیرہ ابن ہشام ) میں رقمطراز ہیں کہ'' ربیعة بن نصر جو یمن کے بادشاہوں میں سے تھا ایک دن اس نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا اس کے بعد جب وہ خواب سے بیدار ہوا تو وحشت و خوف کے عالم میں تھا اس نے اپنے خواب کی تعبیر جاننے کے لئے تمام کاہنوں اور نجمیوں ( معبران )کو اپنے دربار میں بلوا بھیجا جب وہ لوگ حاضر ہو ئے تو بادشاہ وقت نے ان سے اپنے خواب کی تعبیر چاہی تو لوگوں نے کہا :حضور ! آپ پہلے اپنا خواب تو بیان کریں ؟پھر ہم اس کی حقیقت بیان کرتے ہیں !

ربیعة نے کہا اگر میں اپنا خواب بیان کردوں اور تم اس کی تعبیر مجھے بتادو تو شاید میرادل مطمئن نہ ہو ۔میں چاہتاہوں کہ اس پہلے کہ میں تمہیں اپنا خواب بیان کروں تم ہمیں اس کی تعبیر بتاؤ تب میں سمجھوں گا کہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ خواب نہیں گویا ایک حقیقت ہے۔

بادشاہ کے حضور جو لوگ موجود تھے ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ یہ کام تو صرف دو ہی لوگ کر سکتے ہیں اور وہ ''سطیح اور شقّ '' ہیں جسے میں اس کام کے لئے تمام لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں ۔یہ سنتے ہی ربیعة نے انھیں بلوا بھیجا !شق سے پہلے ربیعہ کے دربار میں سطیح حاضر ہوا بادشاہ وقت نے کہا کہ اے سطیح! میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس کی تمہیں تعبیر بیان کرنی ہے ۔

سطیح نے کہا ضرور بیان کروں گا !آپ نے جو گذشتہ شب خواب میں ایک آگ کے شعلہ کو دیکھا ہے جو ایک تاریکی سے بلند ہوا اور سرزمین ''تہامہ ''پر جا گرا اور اس کے تمام جاندار کو نگل گیا !ربیعہ نے کہا :تم نے بالکل صحیح کہا اب بتاؤ اس خواب کی تعبیر کیا ہے ؟

سطیح نے کہا :قسم ہے ان تمام جاندارا شیاء کی جو اس سر زمین پر زندگی بسر کرر ہے ہیں! حبشہ کے لوگ آپ کی سر زمین پر مسلط ہو نے والے ہیں اور اسے عنقریب آپ کے دست قدرت سے چھین لیں گے اور اس پر وہ خود قابض ہو جائیں گے !بادشاہ یہ سنکر اضطراب و وحشت کے عالم میں سوال کرتا ہے یہ بتاؤ یہ واقعہ کب واقع ہو گا کیا یہ میری جیتے جی ہی انجام پذیر ہوگا یامیرے بعد ؟!

سطیح نے کہا :نہیں یہ آپ کی سلطنت کے بعد واقع ہو گا ۔ربیعہ نے کہا :اچھا یہ بتاؤ ان کی سلطنت میں دوام بھی ہو گا یا یہ کہ یہ سلسلہ چند مدت کے بعد ختم ہو جا ئے گا ؟ کہا : نہیں ٧٠ سال کے بعد یا اس سے کچھ اور مدت کے بعد ان کی سلطنت کا سلسلہ منقطع ہو جا ئے گا ۔بادشاہ نے پوچھا یہ کیسے ہو گا ؟!سطیح نے جواب دیا :ارم بن زی یزن نامی شخص کے ہاتھوں یہ کام ہو گا جو مملکت عدن سے ہو گا ۔

بادشاہ نے کہا : کیا اسے دوام نصیب ہو گی ؟کہا :نہیں اسے بھی دوام نصیب نہیں ہو گی وہ بھی بہت جلد منقرض ہو جائے گا ۔پوچھا کیوں ؟!

سطیح نے کہا : ایک پاکیزہ پیغمبر ۖ جس پر اللہ کی وحی نازل ہوا کرے گی وہ اسے منقرض کر دیں گے ۔ بادشاہ نے کہا :یہ کس قبیلہ سے ہوں گے ؟!جواب دیا : یہ غالب بن فہر بن مالک بن نصر نامی شخص کے فرزندوں میں سے ہوں گے جن کی بادشاہی اس سر زمین سے تا آخر زمان اس کے پیروکاروں میں ہو گی ۔ربیعہ نے کہا :مگر یہ عالم بھی ختم ہو جا ئے گا ؟! کہا :ہاں یہ عالم اس روز تک قائم رہے گا کہ اس کے پہلے و آخر یکجا ہو جا ئیں اور نیکو کار سعادت اور بد کار اسکے انجام تک نہ پہنچ جا ئیں ۔بادشاہ نے کہا : کیا یہ واقعاً انجام پذیر ہو گا ؟!سطیح نے کہا قسم ہے صبح و شام کی کہ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سب کچھ ہو کر رہے گا ۔

اسی طرح سے ساموک یہودی کا بھی بیان ہے کہ ''تبع یمن کا بادشاہ تھا (تبع کا ذکر سورۂ قاف میں بھی موجود ہے )یہ بادشاہ کسی بات پر ''اہل مدینہ '' سے بگڑ گیا اور وہاں آباد یہودیوں کو تباہ و برباد کرنے کا مصمم ارادہ کر بیٹھا !اس نے پیش قدمی کی اور شہر کا محاصرہ کر لیا ۔

تمام انسانی اور اخلاقی ضابطے بالائے طاق ر کھ کر انھیں واضح الفاظ میں بتا دیا کہ اب تمہاری مکمل تباہی و بر بادی کا وقت آگیا ہے اور میں تمہاری نسلوں کو مٹا دوں گا ۔ ساموک یہودی بڑا دانا اور صاحب علم شخص تھا وہ بادشاہ کے پاس گیا اور کہا :''ایھا الملک ان ھذا بلد یوکن الیہ مھاجر نبی من بنی اسماعیل مولدہ مکة اسمہ احمد و ھذہ دار ھجرة '' اے بادشاہ !غور سے سنو !حضرت اسماعیل کی اولاد سے مکہ مکرمہ میں ایک نبی پیدا ہوں گے ان کا نام احمد ہو گا یہ مقدس شہر ان کی ہجرت گاہ ہے۔
''ان منزلک ھذا الذی انت بہ یکون بہ من القتلی الجراح امر کبیر فی اصھابہ و فی عدوھم ۔''

جس جگہ تم موجود ہو یہاں ان کے اصحاب اور دشمنوں کے درمیان زبردست جنگ ہو گی اور دونوں طرف سے کافی لوگ مارے جائیں گے اور زخمی ہوں گے ۔بادشاہ نے کہا :اے ساموک! دشمن کہا سے آئیں گے جبکہ تم کہہ رہے ہو وہ نبی ہوں گے ؟ اس نے جواب دیا :ان کی قوم ہی ان کی دشمن ہو گی اور قتال کے لئے یہاں تک آجا ئے گی ۔

بادشاہ نے پو چھا اچھا یہ بتاؤ پھر انجام کیا ہوگا ؟ساموک نے جواب دیا : ان جنگوں میں نبی کریم ۖ کے اصحاب کو مکمل فتح حاصل ہو گی مگر کبھی جزوی طور پر انھیں بظاہر شکست بھی ہو گی لیکن بالاخر مکمل کامیابی انھیں ہی نصیب ہو گی ۔

بادشاہ نے پو چھا :اب بتاؤ !وہ نبی کریم ۖ کہا وصال فرمائیں گے اور ان کی آخری آرام گاہ کہاں ہو گی ؟ساموک نے جواب دیا :وہ اسی شہر میں وصال فرمائیں گے اور اسی جگہ ان کا روضۂ اقدس ہو گا ۔بادشاہ نے اشتیاق سے پو چھا : اچھا ان کا حلیہ مبارک کیا ہوگا؟ساموک نے اسے بتا یا :''رجل لیس بالطویل و لا بالقصیر ،فی عینیہ حمرة یرکب البعیرو یلبس الشملة ،سیفہ علی عاتقہ،لا یبالی من لا قی اخا او ابن عم او عما حتی یظہر امرہ ۔''

ان کا قد مبارک درمیانہ ہو گا بالکل کو تاہ قامت یا بہت لمبے قد والے نہیں ہوں گے ان کی دونوں آنکھوں میں سرخ ڈورے ہوں گے زیادہ تر اونٹ کی سواری فرمائیں گے شملہ لٹکائیں گے تیغ بدست ہوں گے دین کے معاملے میں بھا ئی ،چچا ،ان کی اولاد وغیرہ کسی بھی رشتے کی پرواہ نہیں کریں گے یہاں تک کہ انھیں غلبہ حاصل ہو جا ئے گا ۔

تبع بادشاہ نے جب یہ حقیقت افروز باتیں سنیں تو بے حد متاثر ہوا اور آنے والے عظیم نبی ۖکے احترام میں اس شہر کو گرانے کا رادہ ترک کر دیا اور اپنے وطن واپس چلا گیا ۔

انتظار اور اس کاصلہ
بالا مذکورہ واقعا ت اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ اس دورکے ہر عام و خاص حضرت ختمی مرتبت ۖ کے انتظار میں بے قرار اور جہالت و بت پرستی ، ضعیف الاعتقادی و..کے دور سے بیزار نظر آرہے تھے لیکن دنیا جانتی ہے جب محبوب خدا سرکار دوعالم ۖمبعوث بہ رسالت ہو ئے تو ماجرا اس کے بالکل بر عکس نظر آیا جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ عہد و پیمان باندھنے والے لوگوں میں انگشت شمار لوگ ملے جنہوں نے آنحضرت ۖ کی اطاعت و پیروی کی اور بقیہ جو آپ ۖ کی عالمی رسالت کے مبلغین تھے وہ اپنے عہد و پیمان سے پھر گئے اور آپ کا انکار کرنے لگے جس کے نتیجہ میں انھیں خدا وندعالم نے ابدی لعنت کا مستحق بنا دیا ''فلما جائھم ما عرفوا کفروا بہ فلعنة اللّٰہ علی الکفرین ۔''یعنی اس کے آتے ہی منکر ہو گئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی تھے تو اب کا فروں پر خدا کی لعنت ہے۔

اور ایک وہ بھی تھے جو آپ کی خبر آمد سن کر اپنے دل کی ہر دھڑکن کوآپۖ کے نام کر رہے تھے ۔اور آپۖ کے انتظار بعثت میں بیقرار تھے جنھیں خدا نے کامیاب و فلاح پانے والے لوگوں میں شامل کر دیا اور یہ ''اولئک ھم الفائزون '' کے زمرہ میں آگئے۔اور پھرقرآن مجید نے یہ ارشاد فرمایا''ووھبنا لھم من رحمتنا وجعلنا لھم لسان صدقٍ علیّاً۔''اورپھرانھیں اپنی رحمت کاایک حصہ بھی عطا کیااورانکے لئے صداقت کی بلند ترین زبان بھی قراردے دی۔

جیسا کہ قارئین کرام کے پیش نظر جناب سلمان فارسی کا واقعہ موجود ہے کہ جنھیں انتظار کا صلہ یہ ملا کہ دنیا حیرت سے انگشت بدندان رہ گئی کہ مدتوں سے ہم ان کی رسالت کی تبلیغ کر رہے تھے لیکن !آنحضرت ۖ نے ایک فارس کے رہنے والے شخص کو ''السلمان منّا اہل البیت ''کہہ کر اپنوں میں داخل کر لیا جنھیں دنیا وی و اخری دونوں سعادتیں حاصل ہو گئیں اور وہ یہاں بھی آپ ۖکے نور ایمان سے سرشار تھے اور وہاں بھی آپ ۖ کی محبت و شفاعت کے مستحق گردانے گئے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جناب سلمان فارسی اصفہان (ایران)کے رہنے والے تھے(آپ کی کنیت :ابو الحسن ،ابو عبد اللہ یا ابو اسحاق ہے ۔ اسلام سےپهلے آپ کو روز به ابن بد خشان کے نام سے لوگ جانتے اور پهچانتے تهے. آپ کی تاریخ وفات ٣٤ہجری قمری بتا ئی جاتی ہے ۔

شروع سے ہی آپ کی طبیعت میں حق و صداقت کی تڑپ تھی اس لئے آپ کمسنی کے عالم میں حق کی تلاش میں گھر سے نکل گئے اور مختلف مقامات پر احبار و رہبان کے پاس رہے۔راہ حق میں اتنی صعوبتیں جھیلیں اور مصیبتیں برداشت کیں کہ آپ کی مصیبتوں کو در حقیقت زبان بیان کرنے سے قاصر ہے !آپ اپنے والدین کے اکلوتے ہونے کے ناطے شہزادوں کی طرح بڑے ناز و نعم میں پرورش پا رہے تھے ۔

معاشرے کے غلط رسوم و رواج کے منفی اثرات سے بچانے کے لئے ماں باپ نے ان کی تربیت کا خصوصی انتظام کر رکھا تھا ۔آپ کے والد بہت بڑے جاگیر دار تھے جن کا مذہب آتش پرستی تھا اور یہ مجوسیوں کے بڑے پیشوا بھی تھے لہذا باپ نے اپنے اس اکلوتے بیٹے کو اپنے نقش قدم پر چلاتے ہو ئے انھیں آتشکدہ کا نگراں بنا دیا ۔ایک دن آپ کے جاگیردار والد نے آپ کو اپنی پھیلی ہو ئی جاگیر کی انتظامی امور کی انجام دہی سپرد کی اور شام تک واپسی کی تاکید کر کے فرض کی ادائیگی کے لئے روانہ کر دیا ۔جناب سلمان نے باپ کو تسلی دی اور جاگیر کی طرف روانہ ہو گئے ۔

جب آپ اپنے شہر سے باہر نکلے تو ایک گرجا کے قریب سے آپ کا گذر ہوا تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ عبادت میں مشغول ہیں ۔چونکہ طبیعت متجسس پا ئی تھی اس لئے وہاں رک گئے اور ان کی حرکات و سکنات کو دلچسپی سے دیکھنے لگے ۔یہ منظر انھیں اتنا اچھا لگا کہ وقت کا انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔سورج غروب ہو نے کے قریب آگیا انہوں نے پادری سے پو چھا : اس دین کی اصل تعلیمات کہاں میسر ہو سکتی ہیں ؟

اس نے جواب دیا :ملک شام میں ایسے ماہرین اور تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں جن سے اس دین کی تعلیمات حاصل کی جا سکتی ہیں ۔جناب سلمان ایک انوکھی کیفیت سے سر شار ایک نئی دھڑکنیں لئے واپس آئے تو دیکھا باپ بہت پریشان ہے اور سارے کام چھوڑ کر ان کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔بیٹے کی معصوم صورت دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی تو پو چھا :تم کہاں تھے ،تاکید کی تھی کہ جلد آجانا ؟ جناب سلمان نے سوال نظر انداز کرتے ہو ئے کہا :''مررت باناس یصلون فی کنیسہ لھم فاعجبنی مارأیت من دینھم فواللّٰہ مازلت عندھم حتی غربت الشمس۔''میں راستے میں ایک گرجا کے قریب سے گذرا لوگ وہاں عبادت کر رہے تھے ۔مجھے ان کا دین اور طریقہ بہت اچھا لگا میں انہیں کے پاس رہا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا ۔

یہ سن کر باپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے وہ فکر مند ہوگیا اور بولا :بیٹا ہمارا دین ان سے بہتر ہے ۔مگر جناب سلمان نے ٹوک دیا، نہیں ان کا دین ہم سے بہتر ہے ۔باپ نے ان کے پاؤں میں زنجیر ڈال دی کہ کہیں یہ بھاگ نہ جا ئے۔جناب سلمان نے گرجا والوں سے خفیہ طور پررابطہ قائم کیا اور کہلا بھیجا کہ جب کو ئی قافلہ ملک شام جانے والا آئے تو مجھے مطلع کر دیں ۔ وقت گذرتا رہا آخر ملک شام سے ایک قافلہ آیا اور اپنا مال ِ تجارت فروخت کرتا رہا ۔ جانے لگا تو سلمان بھی چپکے سے باپ کو بتا ئے بغیر اس میں شامل ہو گئے ۔شام پہنچے تو کسی بڑے عالم کا پتہ پو چھا انہوں نے ایک مشہور راہب کا پتہ بتا دیا ۔یہ اس کے پاس گئے ۔ مقصد ِ آمد بیان کیا اس نے قیام کی اجازت دے دی اور آپ وہیں رہنے لگے ۔ بہت جلد آپ نے محسوس کر لیا کہ راہب اندر سے پکا دنیا دار اور ہوس پرست ہے وہ عوام سے کہتا ہے کہ غرباء و مساکین کے لئے صدقات دو!اور جب وہ لوگ دے کر چلے جاتے ہیں تو سب مال ہضم کر لیتا ہے ۔ مستحقین کو کچھ بھی نہیں دیتا اس طرح اس نے سونے چاندی سے سات گھڑے بھر لئے اور حفاظت کے نقطہ نظر سے اپنے کمرے میں گڑھا کھود کر دفن کردیئے اس پر حرص اتنی غالب تھی کہ قبر میں پیر لٹکنے کے باوجود اسے یہ دولت تقسیم کرنے اورغرباء تک ان کا حق پہنچانے کاخیال نہ آیا بالآخر وہ اسی ہوس پرستی میں دم توڑ گیا۔لوگوں کے نزدیک وہ ایک خدا دوست نیک سیرت اور زاہد و عابد انسان تھا۔اس لئے نہایت عقیدت سے اس کی تجہیز و تکفین میں لگ گئے جناب سلمان نے انکشاف کیا کہ وہ راہب کے روپ میں نو سرباز اور ٹھگ تھا ۔

پھر انہیں سونے چاندی کے گھڑے بر آمد کر کے دیئے اسے دیکھتے ہی وہ بپھر گئے اوراس کی میت کو سو لی پر لٹکا دیا اور اظہار نفرت کے لئے پتھر مارے ۔اس کی جگہ جو راہب آیا وہ حقیتاًعابد شب زندہ دار متقی اور دنیاسے بے نیاز انسان تھا ۔ اسے مال و دولت اور نام نہاد سے کو ئی دلچسپی نہ تھی ہر وقت یاد الہی میں مصروف رہتا اور عوام کی صحیح رہنما ئی کرتا تھا۔جناب سلمان بھی اسی راستے کے مسافر تھے اس سے بے حد انس ہو گیا اور جان توڑ کر اس کی خدمت کی۔بوڑھا آدمی تھا چراغ سحر ثابت ہوا ۔

جناب سلمان بے تاب ہو گئے امید کی کرن ہاتھ سے جارہی تھی بے قراری سے پو چھا : ''الی من توصی بی؟وبم تامرنی؟قال :ای بنی واللّٰہ ،ما اعلم الیوم احدا علی ماکنت علیہ فقد ھلک الناس و ترکو ا اکثر ماکانوا علیہ الا رجلا بالموصل ،و ھو علی ماکنت علیہ فالحق بہ۔''

''اب میرے لئے کیا حکم ہے؟آپ مجھے کس کے سپرد کرتے ہیں؟اس نے کہا : اے بیٹا! خدا کی قسم !لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور کو ئی بھی اس راہ پر نہیں ہے جس پر میں چل رہا ہوں سب لوگ دین کا زیادہ حصہ چھوڑ چکے ہیں البتہ ''موصل''میں ایک شخص ہے جو میری طرح ''راہ حق''پر ہے تم اس کے پاس چلے جاؤ۔''جناب سلمان س کے پاس پہنچے اور دل و جان سے اس کی خدمت میں لگ گئے مگر جلد ہی اس کا بھی آخری وقت آپہنچا ۔اور وہ نصیبین جانے کا مشورہ د ے کر موت کی آغوش میں سوگیا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ حالات وواقعات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت حق پرست ایک ایک کر کے اٹھتے جارہے تھے اور دنیا گمراہی کی تاریکیوں میں ڈوب رہی تھی چنانچہ جب جناب سلمان اس کی ہدایت کے مطابق نصیین پہنچے اور ایک اچھے رہنما کی صحبت میں زندگی گذارنے لگے تو اس کا بھی آخری وقت آگیا اور وہ انہیں عمور جانے کی نصیحت کر کے مر گیا ۔

جناب سلمان کوتلاش حق کی ایسی دھن سوار تھی کہ یہ عمور بھی پہنچ گئے اور اپنے مقصودِ نظر راہب کی
خدمت و اطاعت کے ساتھ ساتھ کچھ کاروبار بھی شروع کر دیا تا کہ کسی کا دست نگرنہ ہونا پڑے اس طرح کچھ بکریاں اور گائے جمع کرلیں۔ابھی مصائب و آلام اور گردش کے دن ختم نہیں ہو ئے تھے کہ یہاں بھی وہی صورت حال پیدا ہو گئی اور اس انتہا ئی نیک سیرت اور خدا رسیدہ (عارف و زاهد)راہب پر جانکنی کا عالم طاری ہو گیا ۔ مایوسی اور بے بسی سے جناب سلمان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ لب پر وہی سوال تھا کہ فلاں نے فلاں اور اس نے فلاں کے پاس بھیجا لیکن سب داغِ مفارقت دے گئے اور اب آپ بھی جا رہے ہیں !اب میں نور حق ڈھونڈنے کے لئے کس کے پاس جاؤں؟راہب نے بتایا:اب رو ئے زمین پر ایک فرد بھی ایسا نہیں جس کے پاس تمہیں جانے کا مشورہ دوں !

''ولکنہ قد اظل زمان نبی وھو مبعوث بدین ابراہیم علیہ السلام ،یخرج بارض العرب ،مھاجر الی الارض بین حرتین بینھما بہ علامات لا تخفی یاکل الھدیة و لا یاکل الصدقة،و بین کتفیہ خاتم النبوة فان استطعت ان تلحق بتلک ابلاد فالحق۔''

البتہ نبی آخرالزمان ۖکے ظہور کا زمانہ قریب ہے وہ دین ابراہیمی کے ساتھ مبعوث ہونے والے ہیں سر زمین عرب میں ظاہر ہوں گے اور ہجرت کر کے ایک ایسی سرزمین کی طرف جائیں گے جو دو میدانوں میں گھری ہو ئی ہے اور ان کے درمیان نخلستان ہے۔ا س نبی کی نمایاں علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کریں گے اور صدقہ بالکل نہیں کھا ئیں گے ان کے دونوں کاندھوں کے درمیان ''مہر نبوت''ہے اگر تم اس سرزمین کی طرف سفر کرسکتے ہو تووہاں چلے جاؤ۔

راہب کی یہ بات دل میں سما گئی ۔سر زمین عرب تک پہنچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ ادھر کا کو ئی قافلہ مل جا ئے اور اس میں شمولیت اختیار کر لی جا ئے قدرت نے اس کے اسباب بھی پیدا کر دیئے قبیلہ بنو کلب کا ایک قافلہ ادھر آیا ہوا تھا ۔

جناب سلمان نے اپنے تمام مال مویشی دے کر انھیں ساتھ لے جانے پر راضی کر لیا ۔

جب یہ قافلہ ''وادی القریٰ'' پہنچا تو بے اہل قافلہ نے ظلم ڈھانا شروع کر دیئے ۔اور غلام ظاہر کر کے انھیں ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا !وہ اپنے شہر لے آیا وہاں آپ کو کچھ نخلستان دکھا ئی دیئے ۔یہ اس خیال سے خوش ہو گئے کہ یہ وہی شہر ہے جس کی انہیں نشاندہی کی گئی ہے ۔اس لئے راستے کی تمام تکالیف بھول گئے مگر جب گرد و پیش کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا یہ وہ شہر نہیں ہے جو ان کے دلبر کی ہجرت گاہ بننے کا شرف حاصل کرنے والا ہے ۔اس لئے بحوالہ تقدیر غلامی کی حالت میں اپنے شب و روز گذارنے لگے اور'' پردۂ غیب سے کیا وقوع میں آتا ہے ''اس کا انتظار کرنے لگے ۔

مدینہ منورہ میں یہود کا ایک قبیلہ بنو قریظہ رہاش پذیر تھا اس کا ایک باشندہ وادی القریٰ آیااس نے آپ کو خرید لیا اور اپنے ساتھ مدینہ لے آیا ۔جناب سلمان نے جب یہ جگہ دیکھی توان کی خوشی کی انتہا نہ رہی بتائی ہو ئی تمام نشانیاں یہاں موجود تھیں اس لئے انہیں یقین ہو گیا کہ نبی آخر الزمان ہجرت کر کے یہیں تشریف لائیں گے اب وہ اس روز سعید کے انتظار میں زندگی گذارتے ہوئے شایدزبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ :
منتظر میں بھی میری روح بھی اور جان بھی ہے
آپ کے آنے کی حسرت بھی ہے ارمان بھی ہے

ایک روز پتہ چلا کہ مکہ مکرمہ میں ایک نبی ظاہر ہو گئے ہیں اور انہوں نے اعلان نبوت فرما دیا ہے اور لوگ اپنی ہمت شوق اور سعادت کے مطابق ان پر ایمان لا رہے ہیں۔یہ کلیجہ تھام کے رہ گئے !کیونکہ یہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہو ئے تھے ۔غلام ہونے کے باعث اپنے نادیدہ محبوب ۖ تک نہیں جا سکتے تھے ۔اگر آزاد ہوتے تو یقیناًپَر لگا کر سب سے پہلے وہاں پہنچتے مگر غلامی کی بیڑیاں پاؤں کی زنجیر تھیں وفورِ شوق اور حسرت ِ دید کے باوجود ایک قدم بھی باہر نکالنے سے قاصر تھے اس لئے اس روزِ سعید کے انتظار میں گھڑیاں گننے لگے کہ کب محبوب عالم حضرت ختمی مرتبتۖ اس شہر میں رونق افروز ہوں گے اور اپنے قدموں سے یہاں کی فضاؤں میں نورافشانی کریں گے !اس طرح ہجر محوب میں بار ہ سال کا عرصہ بیت گیا ۔

ایک روز جناب سلمان درخت سے کھجوریں توڑ رہے تھے اور نیچے انکایہودی آقا بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک اس کا بھا ئی دوڑتا ہوا آیا اور ہانپتے کانپتے ہو ئے بولا :کیا تم نے کچھ سنا بھی ہے ؟وہ ... وہ... وہ نبی ۖ یہاں آگئے جنہوں نے مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا سارا شہر ان کے استقبال کو جوق در جوق حرکت کر رہا ہے !

جناب سلما ن کے کان کھڑے ہو گئے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ اس اچانک خوشخبری پر وہ حیران و ششدر رہ گئے تھے شاید یہ دل ہی دل میں کہتے ہو ں :
تیرے آنے کا انتظار رہا عمر بھر موسم بہار رہا

اسی دن کے انتظار میں تو انہوں نے زندگی کی گھڑیاں گن گن کر گذاری تھیں ۔اسی خبرکے لئے وہ ہر وقت گوش بر آواز رہتے تھے اسی روزِ سعید کے لئے انہوں نے سینہ شق کردینے والے مصائب برداشت کئے تھے غیروں کے مظالم سہے تھے صحراؤں اور میدانوں کی خاک چھانی تھی اہل نظر کی سالہا سال خدمت کی تھی اور والدین اعزا و اقارب کی جدائی کے داغ سینے پر سجایا تھا صرف اس امید پر کہ ایک روز نورانی چاند طلعت بار ہو گا جس سے من کی کائنات میں اجالا ہو گا وہ حُسنِ مجسم اپنے رخ نازنین سے ضرور نقاب سرکائے گا جس کی دید سے من کی دنیا مہک اٹھے گی اور زندگی کی ساری کوفت ختم ہوجا ئے گی ۔
ہے زیست کی آنکھوں میں چھلکتا ہوا ساغر
اے حسن ازل رخ سے نقاب اب تو اٹھا دے

کچھ ہوش نہ رہا ،بدن پسینے سے شرابور ہوگیا،عالم بے خودی میں اوپر ہی سے چھلانگ لگادی اور آنے والے کو دیوانوں کی طرح جھنجوڑ ڈالا !
کیا کہا تم نے ؟کیا کہا .. کیا... کیا؟!

وہ بے مہر ،بے خبر اس کیفیت کو کیا سمجھتا !ایک غلام سے ایسی حرکت توان کے خیال کے مطابق سنگین ترین گستاخی تھی ۔اسے زندگی کے مسائل میں دلچسپی لینے یا جذبات سے کام لینے کا کو ئی حق نہیں پہنچتا تھا اسی وجہ سے آقا نے آپ کے معصوم چہرہ پر ٹھپر کھینچ مارا !جاؤ اپنا کام کرو ۔تمہیں ایسی باتوں سے کیا سروکار ؟!

اب جناب سلمان کو ہو ش آیا وہ عالم ورافتگی میں کیا کر بیٹھے وہ کب اپنا راز افشاء کرنا چاہتے تھے۔ اپنے مالک سے معذرت خواہی کی کیونکہ اس کے سوا کو ئی اور چارا بھی نہیں تھا !اور بظاہر پھر پھل توڑنے میں مشغول ہو گئے مگر دل و دماغ میںرسولخدا ۖ کی خبر آمد ہی رچی بسی تھی جسم موجود تھا لیکن روح مدینہ منورہ میں حضرت ختمی مرتبت کے قدموں کی خاک چھا ن رہی تھی ۔شام کو فرصت ملتے ہی آپ نے کچھ کھجوریں لیں اور اپنے محبوب کے دربار میں پہنچ گئے اور عرض کی :یہ صدقہ کی کھجوریں ہیں مہربانی فرما کر اسے قبول فرما لیں ۔

حکم ہوا ''حاضرین میں اسے بانٹ دو ۔'' جناب سلمان نے دل میں کہا : ایک نشانی پوری ہو ئی ۔

پھر رسول خداۖ شہر میں منتقل ہو گئے اوربہ نقل تاریخ حضرت ابوایوب کو شرف میزبانی بخشا ۔ایک روز جناب سلمان کھجوریں لے کر پھر حاضر ہو گئے اور عرض کی : میری طرف سے یہ ہدیہ قبول فرمائیے ۔

رسول خدا ۖ نے حاضرین کو دیں اور خود بھی تناول فرمایا ۔جناب سلمان نے اپنے دل سے کہا :لو دوسری نشانی بھی پوری ہو گئی ۔

پھر ایک روز سرکار دوعالم اۖیک جنازہ کے ساتھ بقیع تشریف لے گئے جناب سلمان وہاں پہنچے گئے ان کی خواہش تھی کہ تیسری نشانی بھی دیکھ لیں تا کہ مکمل اطمینان ہو جا ئے ۔اسرار نہاں سے آگاہ و باخبر رسول ۖ نے بھانپ لیا کہ سلمان ''مہر نبوت '' دیکھنا چاہتے ہیں ۔

آپ ۖ نے شانوں سے پردہ ہٹا دیا نورانی مہر آن و بان کے ساتھ دونوں کندھوں کے درمیان نمایاں تھی اس کی زیارت کو ئی معمولی سعادت نہ تھی جناب سلمان پر وفورِ جذبات طاری ہو گئی ۔وہ رونے لگے اور اسی حالت میں جھک کر اس نشانِ عظیم کو بڑی نیاز مندی اور عقیدت و محبت سے بوسہ دیا ۔جب آپ اس کی زیارت کر چکے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۖ نے فرمایا سامنے آجاؤ!جناب سلمان رقت و سوزگداز میں ڈوبی ہو ئی کیفیت کے ساتھ سامنے آکر بیٹھ گئے اور اپنے مصائب و آلام کی ساری داستان بیان کی ۔ یہ عجیب و غریب داستان اور راہ حق میں تکلیفیں برداشت کرنے کی جرأت آموز روئیداد سن کر سب دنگ رہے گئے آپ ۖ نے حکم دیا کہ یہ کہانی سب کو سناؤ تا کہ ان میں جذبہ اور حوصلہ پیدا ہو اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے اور مخالفانہ کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کا عزم بالجزم حاصل کریں ۔

اب کیا تھا !منزل ِ مقصود پالینے کے بعد جناب سلمان کی زندگی بڑی سلامت روی سکون اور عافیت کے ساتھ گذرنے لگی۔ یہودی کی غلامی سے نجات ملی اور آپ کو حضور اکرم ۖ کی نہ صرف یہ کہ صحابیت کا شرف ملابلکہ آپ کو حضرت ختمی مرتبتۖ نے اپنے اہلبیت میں شمار کر لیا۔
ثنائے احمد مختار ۖ سے دل شاد ہو تا ہے
یہ گلشن ان کی اک اک یاد میں آباد ہو تا ہے
اسیرِ عشق احمدۖ جو بھی ہو جا تا ہے عالم میں
غلامی سے وہ دنیا کی ہر اک آزاد ہو تا ہے

بزم رسالت ۖمیں بہت سے لوگ لبادۂ صحابیت زیب تن کئے ہو ئے تھے لیکن جومقام جناب سلمان کو ملا وہ شاید ہی کسی اور کو ملا ہو کیونکہ جناب سلمان کو رسول ۖ و آل رسول کی معرفت حقیقی حاصل ہو چکی تھی لہذا وہ فارس سے آپ ۖ کے نقوش پا کو ڈھونڈتے ہو ئے آپۖ تک پہنچ گئے لیکن جو آپ کے ساتھ ساتھ تھے !وہ ایسے تھے کہ بقول شاعر :
یہ شیخ ہی کی فضیلت ہے شیخ ہی کا مقام
سدا حرم میں رہا عارف حرم نہ ہوا

حضرت امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہم السلام فرماتے ہیں کہ : ''أسعد الناس من عرف فضلنا ،و تقرب الی اللّٰہ بنا ،و اخلص حبّنا ،و عمل بما الیہ نبنا ،و انتھی عما عنہ نھینا،فذاک منّا ،و ھو فی دار المقامة معنا۔''کامیاب ترین انسان وہ ہے جس نے ہماری بر تری اور فضیلت کو پہچان لیا اور ہمارے ذریعہ خدا کا تقرب حاصل کیا اور ہماری محبت کو خالص کیا اور جس کی طرف ہم نے اسے بلا یا اس پر عمل کیا اور اس چیز سے باز رہا جس سے ہم نے اسے رو کا ایسے اشخاص ہم میں سے ہیں اور بہشت میں وہ ہماری منزل میں ہو نگے ۔

یہ امتحان و آزمائش کے دو سخت مراحل تھے جسے تاریخ نے دہرایا ہے ۔ اگر شائقین اسکی تفصیل چاہیں تو تاریخ کی دیگر کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔جہاں ہمیں دو مکتب ِانتظار نظر آتا ہے۔

جی هاں! ایک مکتب یہود و نصاریٰ کا تھا تو دوسرا مکتب جناب سلمان کا ۔

دونوں حیرت و اشتیاق کے عالم میں سرگرداں تھے لیکن ایک کو فلاح و کامیابی ملی تو دوسرا خد،رسول ۖ اور ان کی آل کے غیض و غضب کا مستحق بنا !اسی حقائق کے پیش نظر ہمیں بھی دنیا وارث ِ رسول ۖ کا منتظر جانتی ہے کہ مکتب تشیع کوایک وارث رسول ۖ،منجی عالم ،ہادی دین ، حجت آخرالزمان کا انتظار ہے ۔اور یقیناً ہر شیعہ فرد اپنے حقیقی وارث امام عصر عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے فراق میں گریہ کناں ہے!اور حیرت و اشتیاق اور اضطراب کے عالم میں اس فرزند رسول ۖکا منتظر ہے جو سلسلۂ امامت کی آخری کڑی حجت زمان ہیں جو حق و صداقت اور خیر و فلاح کے علم بردار ہیں جن کی یا د میں ہماری آنکھیں اشک آلودہ رہتی ہیں جن کے وصال و دید میں ہم مدتوں سے تڑپ رہے ہیں !

یہ ہو بہو وہی کیفیت ہے جس کا تذکرہ ہم نے اپنے اس مختصر سے مقالہ میں بیان کیا ہے کہ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے صدہا ہزار سال پہلے لوگوں پر طاری تھی کہ اس دور میں لوگوں کے صبح و شام کا مشغلہ آنحضرت ۖکی یاد اور آن کا تذکرہ بن چکا تھا !لیکن جیسا کہ دنیا جانتی ہے جو مدتوں سے حضور اکرمۖ کی آمد و بعثت اور آپ ۖ کے فیوض و برکات کا چرچہ کر رہے تھے جب اچانک صورت بدلی اور آپ ۖ مبعوث بہ رسالت ہو ئے تو ان لوگوں (یہود و نصاریٰ )کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے وہ وحشت وحیرت کا شکار ہو گئے اضطراب و سراسیمگی اور تذبذب کے عالم میں زمین و آسمان میں لٹک گئے قومی اور نسلی تعصب میں یہ کہنے لگے :''یہ وہ نہیں ہیں جنکا ذکر ہم کیا کرتے تھے یہ کو ئی خاص چیز لے کر نہیں آئے جسے ہم پہچناتے ہوں!!! ''

اس کے بعد کی تاریخ عجیب تاریخ ملتی ہے !جس کی آمد ،جسکے حسن اخلاق کردار و گفتار اور اس کے جود وسخا پر تبصرہ کیا کرتے تھے جب آنے والا آیا تو اتنے مظالم دھائے کہ خود رسول خداۖ کو کہنا پڑا''کہ جتنی مصیبتیں مجھ کو جھیلنا پڑیں کسی انبیاء نے اتنی مصیبت نہیں جھیلی!!''اس بد عملی کے نتیجے میں پروردگار عالم نیف انہیں مخاطب بناتے ہو ئے پوری عالم انسا نیت کو جھنجوڑ کر رکھ دیااور اپنی بابرکت کتاب میں فرمایا ''اور ان کے پاس جب اللہ تعالی کی کتاب ان کتاب کو سچا کرنے والی آئی ، حالانکہ پہلے یہ خود (اس کے ذریعہ ) کافروں پر فتح چاہتے تھے تو باوجود آجانے اور باوجود پہچان لینے کے پھر کفر کرنے لگے ،اللہ کی لعنت ہو کافروں پر ۔ بہت بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا ،وہ ان کا کفر کرنا ہے ۔

خدا وند عالم کی طرف سے نازل شدہ چیز کے ساتھ محض اس بات سے جل کر کہ خدا نے اپنا فضل اپنے جس بندہ پر چاہا نازل فرمایا ،اس کے باعث یہ لوگ غضب بر غضب کے مستحق ہو گئے ،اور ان کافروں کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔

انھیں یہ نہیں معلوم کہ ''واللّٰہ یختص برحمتہ من یشآء واللّٰہ ذوالفضل العظیم ۔''یعنی :اللہ جسے چاہتا ہے اپنی خصوصی رحمت عطا فرما دیتا ہے ،اللہ بڑا فضل والا ہے۔

خدا وند عالم نے ان کا امتحان اپنے محبوب سرکار دوعالم حضرت ختمی مرتبتﷺکے ذریعہ لیا اور انہیں مبعوث بہ رسالت کیا تا کہ ''جھوٹوں کو دروازے تک پہنچایا جا سکے'' وہ انھیں آزمائے کہ ان میں اچھا عمل کرنے والا کون ہے ۔

ٹھیک اسی طرح وہ ہمیں بھی اپنی آخری حجت امام عصر ارواحنا لہ الفدا کو پردۂ غیب میں رکھ کر آزمارہا ہے۔ تا کہ وہ دیکھے کہ ہم کس عظمت بلندی تک پہنچ سکتے ہیں یہ مرحلہ یقیناً اس مرحلہ سے کہیں زیادہ سخت ہے اگر اس راہ سے کو ئی بھٹک جا ئے تو پھر اس کی نجات محال ہے !لہذا ہمارے سامنے دونوں کردار موجود ہیں!ایک وہ جو لعنت ابدی کا مستحق قرار پایا دوسرا وہ جو ''السلمان منّا اہل البیت '' کا مصداق بنا۔!!!
پس...
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل ہے کو ئی !

زبانی دعوں کا انجام آپ نے دیکھا کہ قوم بنی اسرائیل کے ساتھ کیا سلوک ہوا !؟ لہذاتاریخی حقائق کے پیش
نظر صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ہمکتی ہو ئی عقل کو بروکار لائیں اور بجائے یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چلنے کے جناب سلمان کہ جو ''السلمان منا اہل البیت '' کے مصداق ہیں انھیں اپنا نمونۂ عمل بنا کر عملی میدان میں اپنے آخری امام کے تعجیل فرج کے لئے خدا وند عالم کی بارگاہ میں خلوص نیت کے ساتھ دعا کریں تا کہ جب امام عصر علیہ السلام کا ظہور ہو تو وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح ہمیں بھی اپنے سینہ سے لگا ئیں اور ''الشّیعة ُ منّا '' کہہ کر اپنے اعوان و انصار میں شمار کرلیں ۔(انشاء اللہ تعالی المستعان)
(اللّٰھم عجل لولیک الفرج)
والسلام علی عباد اللّٰہ الصالحین
سید تقی عباس رضوی کلکتوی
[email protected]



منبع و ماخذ
قرآن مجید۔
فرہنگ عمید ۔
قاموص الرجال ۔
کتاب حقیقت مسیحیت ازدرسہای از اصول دین ۔
تاریخ ادیان و مذاہب جہان ۔
تفسیرانوار النجف جاڑا ۔
الطبقات الکبریٰ۔
الخصائص الکبریٰ ۔
بحار الانوار ۔
نور الانوار بمعرفة الابرار وترجمہ و شرح و نقد سفر پیدائش تورات(علی قلی جدید الاسلام ''پاپ آنٹونیو دوژویر پرتقالی )
یوحنا st.jhon,ch.14Nelson'New York
تفسیر نمونہ ۔
الطبقات الکبری۔
الوفا باحوال المصطفی ۔
سیرة النبی ۔
دلائل النبوة۔
خاتم پیغمبران ۔
شرف النبی ۔
بررسی سیرہ زندگی و حکمت و حکومت سلمان فارسی۔
سیرة الرسول ۔
السیرة النبویہ لابن ہشام۔
غرر الحکم۔
Syed Taqi Abbas Rizvi
About the Author: Syed Taqi Abbas Rizvi Read More Articles by Syed Taqi Abbas Rizvi: 2 Articles with 8324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.