قرآن مجید کے آینے میں صہیونیزم

صہیونیزم، اسلام کے دیرینہ دشمنوں میں سے ایک ہے اس قوم نے تاریخ انسانیت میں اسلام دشمنی کا جو نقش چھوڑا ہے وہ رہتی دنیا تک صفحہ قرطاس پر رقم رہے گا۔ دیگرا نبیاء الہی کی طرح محبوب دوعالم حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی آزار و اذیت سے دوچار کیا کبھی کفارو مشرکین کے ساتھ مل کر اسلام و بانی اسلام کے خلاف جنگ و جدال کیا تو کبھی ان کی ہتک حرمت تو کبھی ان کے خلاف دسیسہ کاری و۔۔۔۔۔۔۔

آج رسول اسلام ﷺ کو رحلت کئے ہوئے ۱۴۰۰ سو سال سے زیادہ کاعرصہ ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ قوم اسلام دشمنی سے باز نہ آءی اسکی دیرینہ دشمنی کا نتیجہ اسراءیل کی پیداوار ہے جو عالم اسلام کا سخت دشمن ہے ۔

صیہونی یا صیہونیزم وہی افراطی اور شدت پسند یہودی ہیں جوآج فلسطین جیسی سرزمین پر مسلط ہیں اور اپنے آقا و مولا، لات و منات (امریکہ اوراس جیسے اسلام دشمن عناصر ) کی مالی مدد سے مسلمانوں کے خلاف برسر عام میدان جنگ میں اتر آءے ہیں جوپوری عالم انسانیت کے سامنے ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ" صیہونیزم" ایسا لفظ ہے جو 1890 میں ایک ایسی تحریک کیلئے مشہور ہو گیا جس کا ہدف دنیا کے تمام یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنا تھا۔ "صیہونیزم" انیسویں صدی کے آخر میں "تھئوڈور ہرٹزل" نامی ایک یہودی مفکر کی جانب سے دنیا میں انتہاء پسندی اور عالم انسانیت پر آمرانہ حکومت کرنے کی غرض سے معرض وجود میں آیا۔۔۔۔۔

ہم اس مضمون میں قرآن مجید کے نکتہ ٔ نگاہ سے یہودیوں کے صفات بیان کر رہے ہیں ۔اور ان آیات کو جس میں یہودیوں کے صفات بیان کے گئے ہیں اسےکلی طور پر دوحصوں میں تقسیم کرے گیں۔

۱۔یہودیوں کے ایمان وعقائد :
۲۔یہودیوں کی وعدہ خلافی اور مسلمانوں کے خلاف ان کی تباہ کن سرگرمیاں:

ایمان وعقائد
۱۔ مؤمنین سےدشمنی:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النّاسِ عَداوَةً لِلَّذینَ آمَنُوا الْیهُودَ وَ الَّذینَ أَشْرَکُوا؛مائده/۸۲
آپ دیکھیں گے کہ صاحبانِ ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور ان کی محبت سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں ...._ یہ اس لئے ہے کہ ان میں بہت سے قسیس اور راہب پائے جاتے ہیں اور یہ متکبر اور برائی کرنے والے نہیں ہیں۔
۲۔ مؤمنین کو آزارواذیت :
لَتُبْلَوُنَّ فی أَمْوالِکُمْ وَ أَنْفُسِکُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذینَ أُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذینَ أَشْرَکُوا أَذًی کَثیرًا وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِکَ مِنْ عَزْمِ اْلأُمُور؛ِ آل عمران/۱۸۶
یقینا تم اپنے اموال اور نفوس کے ذریعہ آزمائے جاؤگے اور جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور جو مشرک ہوگئے ہیں سب کی طرف سے بہت اذیت ناک باتیں سنوگے- اب اگر تم صبر کروگے اور تقوٰی اختیارکروگے تو یہی امورمیں استحکام کا سبب ہے۔
۳۔ خود کے بارے میں یہودی کےعقائد:
وَ قالَتِ الْیهُودُ وَ النَّصاری نَحْنُ أَبْناءُ اللّهِ وَ أَحِبّاؤُهُ؛ مائده/۱۸
اور یہودیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم اللہ کے فرزند اور اس کے دوست ہیں۔
۴۔خدا کے بارے میں یہودی کا ایمان:
وَ قالَتِ الْیهُودُ یدُ اللّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ ایدیهِمْ وَ لُعِنُوا بِما قالُوا بَلْ یداهُ مَبْسُوطَتانِ؛ مائده/۶۴ .
اور یہودی کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں جب کہ اصل میں ان ہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
۵۔یہودیوں کی بغاوت اور ان کی سرکشی:
وَ قَضَینا إِلی بَنی إِسْرائیلَ فِی الْکِتابِ لَتُفْسِدُنَّ فِی اْلأَرْضِ مَرَّتَینِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبیرًا ، فَإِذا جاءَ وَعْدُ أُولاهُما بَعَثْنا عَلَیکُمْ عِبادًا لَنا أُولی بَأْسٍ شَدیدٍ فَجاسُوا خِلالَ الدِّیارِ وَ کانَ وَعْدًا مَفْعُولاً؛ اسراء۴/۵
اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ اطلاع بھی دے دی تھی کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور خوب بلندی حاصل کرو گے اس کے بعد جب پہلے وعدہ کا وقت آگیا تو ہم نے تمہارے اوپر اپنے ان بندوں کو مسلّط کردیا جو بہت سخت قسم کے جنگجو تھے اور انہوں نے تمہارے دیار میں چن چن کر تمہیں مارا اور یہ ہمارا ہونے والا وعدہ تھا۔
۶۔قساوت قلبی اور سنگدلی:
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِکَ فَهِی کَالْحِجارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً؛ بقره/۷۴
پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں ۔
وَ إِذْ قُلْتُمْ یا مُوسی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتّی نَرَی اللّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْکُمُ الصّاعِقَةُ وَ أَنْتُمْ تَنْظُرُونَ؛ بقره/۵۵ .
اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسٰی علیہ السّلام سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک خدا کو اعلانیہ نہ دیکھ لیں ۔
۸۔ کفران نعمت:
وَ إِذْ قُلْتُمْ یا مُوسی لَنْ نَصْبِرَ عَلی طَعامٍ واحِدٍ فَادْعُ لَنا رَبَّکَ یخْرِجْ لَنا مِمّا تُنْبِتُ اْلأَرْضُ مِنْ بَقْلِها وَ قِثّائِها وَ فُومِها وَ عَدَسِها وَ بَصَلِها؛ بقره/۶۱
اور وہ وقت بھی یادکرو جب تم نے موسٰی علیھ السّلام سے کہا کہ ہم ایک قسم کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے. آپ پروردگار سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے زمین سے سبزیً ککڑیً لہسنً مسوراور پیاز وغیرہ پیدا کرے۔
۹ انبیاء الہی کا قتل:
وَ ضُرِبَتْ عَلَیهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْکَنَةُ وَ باءُو بِغَضَبٍ مِنَ اللّهِ ذلِکَ بِأَنَّهُمْ کانُوا یکْفُرُونَ بِایاتِ اللّهِ وَ یقْتُلُونَ النَّبِیینَ بِغَیرِ الْحَقِّ ذلِکَ بِما عَصَوْا وَ کانُوا یعْتَدُونَ؛ بقره/۶۱
اب ان پر ذلّت اور محتاجی کی مار پڑ گئی اور وہ غضب الٰہی میں گرفتار ہوگئے. یہ سب اس لئے ہوا کہ یہ لوگ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیائ خدا کو قتل کردیا کرتے تھے. اس لئے کہ یہ سب نافرمان تھے اور ظلم کیا کرتے تھے
۱۰۔ مساءل و مشکلات اور کمی کو قیادت کی گردن پر تھوپنا:
وَ إِنْ تُصِبْهُمْ سَیئَةٌ یطَّیرُوا بِمُوسی وَ مَنْ مَعَهُ؛ اعراف/۱۳۱
اس کے بعد جب ان کے پاس کوئی نیکی آئی تو انہوں نے کہا کہ یہ تو ہمارا حق ہے ۔
۱۱ـ دوسروں کی خدمات و احسانات کو بھول جانا :
وَ إِذْ قالَ مُوسی لِقَوْمِهِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللّهِ عَلَیکُمْ إِذْ أَنْجاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذابِ وَ یذَبِّحُونَ أَبْناءَکُمْ وَ یسْتَحْیونَ نِساءَکُمْ وَ فی ذلِکُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظیمٌ؛ إبراهیم/۶
اور اس وقت کو یاد کرو جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دلائی جب کہ وہ بدترین عذاب میں مبتلا کررہے تھے کہ تمہارے لڑکوں کو ذبح کررہے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو (کنیزی کے لئے)زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑا سخت امتحان تھا۔
۱۲۔پیشواءے دین اور رہبران قوم کو اذیت دینا:
وَ إِذْ قالَ مُوسی لِقَوْمِهِ یا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنی وَ قَدْ تَعْلَمُونَ أَنّی رَسُولُ اللّهِ إِلَیکُمْ؛ صف/۵
اور اس وقت کو یاد کرو جب موسٰی علیھ السّلامنے اپنی قوم سے کہا کہ قوم والو مجھے کیوں اذیت دے رہے ہو تمہیں تو معلوم ہے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ۔
۱۳ ۔ وعدہ خلافی اورعهد شکنی:
فَبِما نَقْضِهِمْ میثاقَهُمْ لَعَنّاهُمْ وَ جَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِیةً ؛ مائده/۱۳
پھر ان کی عہد شکنی کی بنا پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا ہے۔
۱۴۔خدا وند عالم کےکلام کی تحریف:
یحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ؛ مائده/۱۳
وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں ۔
۱۵۔حق کوچھپانا اور اس کی وصیت کرنا:
وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلاَ بَعْضُهُمْ إِلَىَ بَعْضٍ قَالُواْ أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ۔ بقرة/ ۷۶
یہ یہودی ایمان والوںسے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لے آئے اور آپس میں ایک دوسرے ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ کیا تم مسلمانوں کو توریت کے مطالب بتادوگے کہ وہ اپنے نبی کے اوصاف سے تمہارے اوپر استدلال کریں کیا تمہیں عقل نہیں ہے کہ ایسی حماقت کروگے۔
۱۶۔ حرام خوری یعنی لوگوں کا مال ناحق کھانا اور انہیں دھوکہ دینا:
وَتَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔مائدة/۶۲
ان میں سے بہت سوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ گناہ اور ظلم اور حرام خوری میں دوڑتے پھرتے ہیں اور یہ بدترین کام انجام دے رہے ہیں۔
۱۷۔دنیا وی زندگی میں سب سے زیادہ حریص:
" وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ۔ بقرة./ ۹۶
آپ دیکھیں گے کہ یہ زندگی کے سب سے زیادہ حریص ہیں اور بعض مشرکین تو یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہزار برس کی عمر دے دی جائے جبکہ یہ ہزار برس بھی زندہ رہیں تو طول هحیات انہیں عذابِ الٰہی سے نہیں بچا سکتا.اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔

وعدہ خلافی اور مسلمانوں کے خلاف تباہ کن سرگرمیاں

۱۔وعدہ خلافی میں سب سے آگے:
أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ۔بقرة ۱۰۰
ان کا حال یہ ہے کہ جب بھی انہوں نے کوئی عہد کیا تو ایک فریق نے ضرور توڑ دیا بلکہ ان کی اکثریت بے ایمان ہی ہے۔۱۰۰
۲۔مومنین کے درمیان قومی عصبیت اور تفرقہ آراءی کا محا ذکھڑا کرنا۔
وَالَّذینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرارًا وَ کُفْرًا وَ تَفْریقًا بَینَ الْمُؤْمِنینَ؛ توبه/۱۰۷
۳۔ خدا کے مخالف عناصر کو پناہ دینا:
وَ إِرْصادًا لِمَنْ حارَبَ اللّهَ وَ رَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ؛ توبه/۱۰۷
۴۔ مفسد ( زمین میں فساد کرنے والے)
واَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إسْرائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا۔ اسراء۴
اور ہم نے بنو اسرائیل کے لیے ان کی کتاب میں صاف فیصلہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گئے اور تم بڑی زبردست تیاریاں کرو گئے ۔
۵۔ شہریوں(گھروالوں ) کو بے گھر کرنا :
یقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنا إِلَی الْمَدینَةِ لَیخْرِجَنَّ اْلأَعَزُّ مِنْهَا اْلأَذَلَّ ؛ منافقون/۸
۴۔ اقتصادی ناکہ بندی :
هُمُ الَّذینَ یقُولُونَ لا تُنْفِقُوا عَلی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللّهِ حَتّی ینْفَضُّوا ؛ منافقون/۷
۶۔مسلمانوں سے ناخوش! مگر یہ کہ وہ ان کی پیروی کریں :
وَ لَنْ تَرْضی عَنْکَ الْیهُودُ وَ لاَ النَّصاری حَتّی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَی اللّهِ هُوَ الْهُدی؛ بقره/۱۲۰
اور آج یہی اسرائیل ہے جو اپنے خصمانہ تفکرات کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور دنیا کے سامنے اس کے وحشیانہ اور غیرانسانی یعنی کبھی اسلام،تو کبھی قرآن اور کبھی حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس کی ہتک حرمت وغیرہ جیسے اعمال سامنے آرہے ہیں ۔

آخر میں اس امید کے ساتھ اس مضمون کا اختتام ہو رہا ہے کہ صفحہ ہستی سے اسراءیل اور افراطی عالمی صیہونیت کادنیا سے خاتمہ بہ دست منجی عالم بشر ۔انشاء اللہ۔
syed taqi abbas rizvi
About the Author: syed taqi abbas rizvi Read More Articles by syed taqi abbas rizvi: 2 Articles with 8181 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.