(اس آرٹیکل کو پڑھتے قے ہو سکتی
ہے، احتیاط کریں)
جی جناب! میرا نام نکولا باسلے ہے ، میں ایک امریکی کتا ہوں اور میرا کام
صرف بھونکنا اور کاٹنا ہے۔ اگر چہ میں مصر ی نزاد ہوں پر شاید مجھے کسی
اچھی سی کتیا سے ملوانے میرے آبا ﺅ اجداد مجھے مصر سے امریکہ لے آئے تھے۔
یہاں آکر میں نے پڑھا لکھا پرمیں سدھر پھر بھی نہ سکا۔ کتا جو ٹھہرا۔ بڑا
ہوا تو کچھ اچھے لوگوں کی سوسائیٹی ملی پر مجھ پر اسکا بھی کوئی اثر نہ
ٹھہرا کہ کتے کو عموما اپنے جیسے کتے ہی ملتے ہیں جو صرف بھونکنا، کاٹنا ،
لڑنا جھگڑنا کرتے اور سکھاتے ہیں ۔یہاں پر میںنے کچھ کتیوں کے ساتھ بھی
دوستیاں گاٹھنے کی کوشش کی پر سارا سارا دن انکے پیچھے لٹو ہونے اور دم
ہلانے کے باوجود انہیں اپنا نہ بنا سکا اور وہ مجھے باسٹرڈ کہہ کہہ کر
دھتکارتی رہیں۔ویسے تو یہاں امریکہ میں ایک سے ایک کتے کے پلے پائے جاتے
ہیں اور انکی رکھشا بھی بہت ہوتی ہے پر مجھے جس مالک نے بھی رکھا، کچھ روز
بعد ہی میری کمینگی کی وجہ سے مجھے دھکے دیکر گھر سے نکال دیا۔
میری نیچر شروع ہی سے بے چین سی تھی اور ہر پل کوئی نیا کام کر کے مار
کھانے کا شوق ہمیشہ غالب رہا۔ دوسروں کے منہ سے نوالے چھین کر بھا گ جانا ،
کتیوں کے پیچھے اکثر راتوں کو خوار ہونا، ایک کتیا پھنسانے کے چکر میں
دوسرے کتوںسے لڑائی مار کٹائی کر کے خود کو زخمی کر ا لینا، دوسروں کی کو
کتیا کو پیچھے سے چھیڑ کر بھاگ جانا میرے مشاغل میں شامل تھا۔ جس کی وجہ سے
میں اکثر ہسپتال میں بھی پایا جاتا رہا ہوں۔ ایک بار میں نے ایک دوسرے کتے
کی گرل فرینڈ کتیا کو چھیڑا تو کتے نے مجھے شوٹ کر نے کی کوشش کی پر میں
پھر بھی بچ نکلا۔ یہاں امریکہ میں پاکستان کی طرح چونکہ گوشت کی دکانیں
کھلی ڈلی نہیں ہوتیں، میں اپنا گوشت کھانے کا یہ شوق کسی اروڑی پر پڑے
مردار یا دوسرے گند مند کو کھا کر پورا کر لیتا ہوں۔
اپنی افتاد طبع طبیعت کی وجہ سے سے ایک روز میرے گندے غلیظ ذہن، جسمیں دنیا
جہان کے گٹر کے کیڑے ، گندگی، کاکروچ اور دیگر حشرات ا الارض بستے ہیں ،
اسمیں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ مسلمانوں کی ایک انتہائی عظیم ہستی کے خلاف
کچھ کام کر کے ان سے پنگا لیا جائے۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے
میں نے اپنے کچھ قریبی دوستوں سے مشورہ کیا تو کئی ایک مجھ جیسے غلیظ کتے
ساتھ چلنے اور سپانسرکرنے کو تیار ہو گئے۔ پھر ہم سب نے مل جل کر اس موضوع
پر ایک فلم بنانے کا ارادہ کیا اور ایک ہیروئن کو ولا دیکر اسمیں کاسٹ کر
لیا۔(پر اس بیچاری کو ابھی تک پیسے دینے ہیں)۔ یوں ہم سب کتے اور کتیوں نے
مل کر ایک فلم تیار کی جسے ہم نے the innocense of Mulsims کا نام دیا۔ یہ
فلم تیار کر کے یو ٹیوب پر لوڈ کرتے ہی ہمارے تو وارے نیارے ہو گئے کہ یہ
فلم دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلم بن گئی اور ہم کنگلے کتے
راتوں رات ارب پتی بن گئے اور دنیا کے تمام مسلمان ہمارے مخالف ہو گئے ۔
حتی کہ ان پاگلوں نے ہمارے قتل پر لاکھوں ڈالر انعام تک رکھ دیے ۔ تا ہم ہم
تمام کتوں کا ایک مین مقصد یوں پورا ہوا کہ فلم کے غصے میں تمام مسلمان
اپنے ہی گھر کو اپنے ہی ہاتھوں آگ لگاتے رہے۔ یقین کریں کہ میں وہ لمحے
نہیںبھول سکتا جب لوگ اپنے سے لوگوں کو مار مار کر انہیںجہاد کا نام دے رہے
تھے، میں ان لمحوں کو نہیں بھول سکتا جب مسلمان لوگ اپنے ہی گھروں اور
دکانوں کو آگ لگا کر لوٹ مار کر رہے تھے، میں ان لمحوں کو نہیں بھول سکتا
جب یہ لوگ بنکوں، سنیما گھروں اور دیگر عمارات کو لوٹ کر اور نوٹ لیکر بھاگ
رہے تھے، اس وقت میرے خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ہم سب کتے دوست یہ منظر دیکھ
کر اتنے خوش تھے کہ شراب کباب میں دھت ہو کر کئی روز ایسے پڑے رہے کہ کپڑوں
کا بھی ہوش نہ تھا۔ حتی کہ اس نشے میں میں اتنے میں دیوانے ہوئے کہ ہمیں
اپنی ماﺅں بہنوں تک کا بھی ہوش نہ تھا۔ ویسے تو ہمارے ہاں اس طرح کے واقعات
کچھ عجب نہیں ہیں پر اس روز کچھ اور ہی مزہ تھا۔ لوگ تو ویسے ہی طعنے دیتے
ہیں کہ پاکستانی روپوں کے لیے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں، حالآنکہ ہم انسے
کئی ہاتھ آگے ہیں۔ کتے جو ٹھہرے۔
۱ب حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں ہمارے خلاف مظاہرے اور جلسے جلوس ہو رہے ہیں
پر ہمیں کیا ، ہمیں کوئی فکر نہیں۔ ہاں اگر کبھی ٹینشن ہو بھی تو ہم قریبی
گٹر لائن پر جاکر ہووہاں سے نکلے گند کو کھا پی کر ایسے مد ہوش ہوتے ہیں کہ
ہمیں کسی چیز کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ ان گٹروں سے
نکلے گند اور یہ گندا پانی ہمارے لیے آبِ حیات ہے اسکے بغر تو ہم زندگی کا
تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ اسکے علاوہ انسانوں کا فضلہ، مرداروں کا کیڑے پڑا
گوشت ،گلا سڑا فروٹ اور مردوں کی ہڈیاں بھی ہماری مرغوب غذا میں شامل ہے۔
ہماری دیکھا دیکھی کچھ اور کتے بھی ہماری جیسی حرکتیں کر کے مشہور ہو نے کی
کوشش کر رہے ہیں، پر جو مشہوری ہمیں ملی وہ کسی کونہیں مل سکتی۔
ہمارے مذکورہ کارنامے کے بعد سے مجھ جیسے ہزاروں کتے روزانہ مجھے
مبارکبادوں کے پیغام بھجوا رہے ہیں اور مجھے آئے روز دعوتی کارڈز بھی موصول
ہو رہے ہیں پر اپنی مرغوب غذا تو میں اوپر لکھ ہی چکا ہوں۔ یوں میں نے سب
سے کہہ دیا ہے کہ ایک گرینڈ ڈنر نئے ورلڈ ٹریڈ سینڑ کی مین گٹر لائن یا پھر
جہاں پورے نیو یارک شہر کا فضلہ جمع ہو وہاں رکھی جائے تاکہ ہمیں اپنی مرضی
کی غذا مل سکے۔ میرے اس مشورے کو تمام کتوں نے سراہا اور ہم نے وہاں ایک
ڈنر خوب انجوائے کیا ہے۔
انجام: اب میری حالت ایک ایسے خارش زدہ کتے کے جیسی ہے کہ جسکی ہر آن میں
خارش ہے۔ میں دن رات اپنے آپ کو خارش کر تاہوں پر میر ی خارش ختم نہیں
ہوتی۔ جہاں سے خارش کر تا ہوں وہیں پر سے کھال سی ادھڑنے لگتی ہے ۔ اب تو
مجھ میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ میں اپنے جسم پر خود سے خارش کر سکوں۔ کچھ عر
صہ میں نے اس کام کے لیے دو کتے ملازم رکھے پر وہ بھی بیماری لگنے کے ڈر سے
رفو چکر ہوگئے۔ میری بیوی تو پہلے ہی کسی کتے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ پھر
میں نے ایک کتا گٹر لائن سے کھانا لانے کو رکھا، کچھ روز بعد وہ بھی بھاگ
گیا ۔ اب میرے پاس دولت تو بہت ہے پر سکون نہیں۔ ہزاروں ڈالر دینے کے باوجو
د بھی کوئی میری ملازمت کو تیا ر نہیں۔ ہسپتال والے مجھے کئی بار مار کر
بھگا چکے ہیں۔ اب تو خارش کر کر کے میرے جسم سے رہا سہا گوشت بھی جھڑنے لگا
ہے۔ لگتا ہے کہ اب میں کچھ ہی روز کا مہمان ہوں۔ اب میرے جسم پر صرف ہڈیاں
رہ گئی ہیں۔ گوشت نیچے گر کر اسے کیڑے کھا رہے ہیں پر میر ی جان ابھی نہیں
نکلی اور ان ہڈیوں میں پھنسی ہوئی ہے ۔ اب میری ہڈ یاں بھی ا یسے گلنا شروع
ہوگئی ہیں جیسے تیزاب سے گلائی جاتی ہےں۔ اب میں اپنی اس نام نہاد زندگی سے
تنگ آ چکا ہوں۔ میں مر نا چاہتا ہوں پر موت نہیں آتی۔ اب میں نے اپنی ہڈیوں
کو خود ہی کھانا شروع کر دیا ہے تا کہ جلدی سے میر ی جان نکل جائے۔ پر یہ
تو پھر بھی نہیں نکل رہی۔ ایسے لگتا ہے کہ منہ سے اپنا کھایاگیا دوبارہ جسم
پر لگ ر ہا ہے۔ مجھ میں تو اب اتنی بھی سکت نہیں اٹھ کر پانی ہی پی سکوں۔
ہے کوئی جو مجھے چند گھونٹ گٹر کے پانی کے پلا دے ۔ پھر ایک روز ایک کتیا
کو رحم آگیا اور وہ میرے لیے گٹر کا کھانا اور پانی لانے لگی۔ پر یہ کیا کہ
میں کھاتا اور پیتا جاتا ہوں پر میری بھو ک اور پیاس ہی نہیں مٹتی۔ پھر وہ
بھی تنگ آ کرایک روز بھاگ گئی۔پھر یکایک میرے گندے ذ ہن میں ایک اور آ
ئیڈیا آیا۔ میں نے اپنی تمام دولت ایک کتے کو دی کہ مجھے کسی طرح نیو یارک
کی سب سے اونچی بلڈنگ پر لیجاﺅ۔ وہاں جاکر میں نے خود کشی کرنے کو چھلانگ
لگائی، پر یہ کیا کہ میں تو نیچے زندہ سلامت موجود تھا۔ میں نے پھر کوشش کی
مگر اس بار بھی میرے خود کشی کو کوشش کامیاب نہ ہوسکی، یوں میں کئی روز تک
خود مرنے کی کوشش کر تا رہا پر ناکام رہاہوں ۔ لوگ مجھ پر سے گاڑیاں گزار
جاتے ہیں پر میں پھر بھی بچ جاتا ہوں۔ اسوقت میں ایک انتہائی اذیت اور کرب
کی زندگی گزار رہوں۔ میرا دھن دولت ، گھر بار، بیوی ، بچے سب کچھ ختم ہو
چکا۔ میں مرنا چاہتا ہوں پر موت نہیں آتی۔ میں خود کشی کر نا چاہتا ہوں پر
موت نہیں آتی۔ یہ کیسی زندگی ہے، یہ کیسی زندگی ہے۔ کوئی تو بتاﺅ آخر اس
درد کی وجہ کیا ہے ؟ اب میرا بسیرا شہر کے ایک انتہائی غلیظ گٹر کے اندر ہے
اور میں سسک سسک کر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہاہوں۔ کل تک جو کیڑے مکوڑ ے
میر ی خوراک تھی آج وہ مجھے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں پر میں مر پھر بھی نہیں
رہا، نہ جانے مجھے موت کب آئیگی؟ کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں لوگوں کو ماں
یاد آتی ہے، لیکن مجھے تو نہ اپنی ماں کا پتہ ہے اور نہ باپ کا۔ ویسے بھی
ہمارے ہاں نسل ماں سے چلتی ہے اصلی باپ کا تو کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید یہ میری کسی غلطی کی سزا ہو۔ پر میں نے توکبھی
زندگی میں غلطی کی ہی نہیں۔پھر یہ سب کیا ہے ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں ؟؟؟؟؟
واقعی ! کسی نے سچ کہا ہے کہ کتے کی دم کو سو سال بھی دباکر رکھو تو ٹیڑھی
کی ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔ |