آج کے دن امّی کو بہشت نگر گئے
ہوئے پورے بائیس سال ہو گئے۔ اتنے برس بیت گئے مگر ہمارے دل و دماغ میں ہر
لمحہ سرمایہِِ حیات کی طرح محفوظ ہے۔ امی کے ساتھ بہت تھوڑا وقت گزرا۔ اسے
مشیتِ ایزدی کہیئے یا پھر بد قسمتی کہ میں صرف تین دن کا تھا جب پہلی بار
ماں سے جدا ہونا پڑا۔ ابا حضور کو بیٹے کی پیدائش کا علم ہوا تو مجھے لینے
پہنچ گئے۔ میری پیدائش میرے ننھیال میں ہوئی تھی۔ اسے اولاد کی محبت
سمجھیئے یا پھر معاشرتی نا ہمواری کہ ایک ماں سے صرف تین دن کا بچہ چھن گیا۔
یہ میرا پہلا سفر بھی تھا اور ماں سے جدائی کا اولین واقعہ بھی۔ اللہ کی
رحمت ہو دادا حضور پر کہ انہوں نے مجھے واپس ماں کے پاس بھجوا دیا۔ خالصتاً
ایک دیہاتی ماحول، گوجری ثقافت اور جموں و کشمیر کا رنگ زندگی پر غالب رہا۔
ماں کی زندگی بالکل ویسی ہی تھی جیسی کسی بھی ایک سادہ لوح دیہی خاتون کی
ہوتی ہے۔ تا ہم قرآن کریم کی تلاوت اور نماز کا اہتمام بھی ہم نے دیکھا۔
کھیتوں کھلیانوں، گائے ، بھینس اور بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال اور پرورش بھی
ہماری ماں نے کی۔ سرکاری ملازمت ختم ہونے کے بعد دادا ابو رات کھیتوں ہی
میں سوتے تھے۔ فصلوں اور زمین کی رکھوالی کی خاطر۔ فجر کے بعد گھر آتے تو
امی نے ان کے لئیے دیسی روایات کے مطابق ناشتہ تیار کیا ہوتا۔ بھانجی اپنے
ماما جی کی اس قدر خدمت گزار تھی کہ دادا ابو ان کی وفات کے بعد جب بھی ذکر
کرتے تو نیر بہنا شروع ہو جاتے۔ ہم بھی اس مقدس یاد میں ان کے شریک ہوتے۔
دوسری مرتبہ امی سے جدائی کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہمارے ایک تھانیدار
چچاصاحب کو ہماری"محبت" لاحق ہوئی۔ اور وہ اپنے ساتھ ہمیں سیالکوٹ لے گئے۔
اس وقت عمر چھے سال تھی، تا ہم کچھ عرصہ کے بعد ہی ماں کی گود میں واپسی ہو
گئی۔ تیسری جدائی اس وقت ہوئی جب میرے بزرگوار چچاحاجی گلزار احمد صاحب
مجھے اپنے ساتھ ڈڈیال (آزادکشمیر) لے گئے۔ جس دن میں چچا جی کے ساتھ گیا اس
دن امی گھر پہ نہیں تھیں اور میں ان کی غیر موجودگی میں چچا جی کے ساتھ چلا
گیا۔ ان کا مجھے اپنے ساتھ لے جانا اللہ کی طرف سے ایک بہتر فیصلہ تھا کہ
آنے والے وقت نے مجھے اس کا احساس دلایا۔ کچھ عرصہ کے بعد جب ماں کو ملنے
گیا تو مجھے دیکھتے ہی نم آنکھوں کے ساتھ ماں یوں گویا ہوئی"ماں کو ملے
بغیر اتنا دور چلا گیا کہ میں وہاں آکر تیری شکل دیکھنے سے بھی قاصر"۔ امی
کے وہ الفاظ اور والہانہ پیار کا انداز۔۔۔آج بھی میری سوکھی آنکھوں میں
سمندر رواں کر دیتا ہے۔
معاشرے کی ہر وہ اذیت اور تکلیف جو ایک کم علم، نا ہموار اور جہالت نگر ی
میں پائی جاتی ہے، ہماری ماں نے برداشت کی۔ تا ہم نسبتاً صبر اور ضبط قائم
رکھا۔ قرب و جوار میں بسنے والے آج بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ دوسروں کے
لئیے شفیق و مہرباں تھیں۔ ایک مرتبہ میں چند مہینوں کے بعد امی کے پاس گاؤں
گیا تو مجھے بتانے لگیں کہ فلاں بچے یتیم ہو گئے ہیں۔میں انہیں روزانہ گھر
بلا کے شام کو کھانا دیتی ہوں۔ پھر کچھ مہینوں کے بعد اس ماں کے اپنے بچوں
پہ کرب کے وہی دن آگئے۔
پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ اپنے تینوں بچوں کو نہلا کر تیار کر دیا۔ خود
بھی با وضو ہوئیں اور تسبیح و تحمید کی۔ اس سے قبل ہم نے عام دنوں میں کبھی
امّی کو اس طرح اہتمام کرتے نہیں دیکھا تھا۔ رشتہ داروں سے ملاقات کی اور
ہم تینوں کی زندگی کی وہ واحد رات تھی جب ہماری ماں رات دیر تک جاگی۔ کیا
خبر تھی کہ اس کے بعد ہمیشہ کے لئیے سونا ہے۔ جبر و استبداد، انا و فساد،
دنیاوی طمع ولالچ، حقیقت سے نا واقفیت، چوہدراہٹ و روایتی سیاسی شرارتیں
بارود کی شکل میں ہماری قیام گاہ کی طرف بڑھ چکی تھیں۔ ناکردہ گناہوں کی
سزا امی کو ملی اور اب کی بار ماں سے ایسی جدائی ہوئی کہ بائیس سال گزر گئے
ماں کا چہرہ دیکھے ہوئے۔ ہمیں آج تک سمجھ نا آئی کہ کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو
تلاش کریں اور کس سے منصفی چاہیں۔
امی کے جانے کے بعد زندگی ایک خانہ بدوش کی طرح گزر رہی ہے۔ آج کے دن تک
کوئی شہر، مکان اور ملک راس نہیں آیا۔ چچا جی نے بنیاد تو مضبوط کرنے کی
کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی رہے، مگر ماں کی کمی ہر موڑ پر بجلی بن
کے کڑکتی رہی۔ امی کے دنیا سے جاتے ہی تمام رونقیں ماند پڑھ گئیں، نا
کھیتوں کی ہریالی رہی نا زندگی کی بہاریں۔ چوہدراہٹ کی شوقینوں نے بھی ترکِ
ارادہ کر لیا۔
آج کے دن امی سے کچھ باتیں کہنی ہیں کہ آ پ کے جانے کے بعد مجھ سمیت آپ کے
چھوٹے لختِ جگر اور آپ کی نورِ نظر نے حالات و واقعات سے بہت کچھ سیکھ لیا
ہے۔ زمانے نے ہمیں پٹخ پٹخ کے مارا۔ مگر آپ کی ہستی کی عزت کرنے والوں نے
ہمیں سنبھالا۔ جو آپ کی حیاتی میں آپ کے وجود سے خوش نہیں تھے انہوں نے
ہمارے اوپر اپنی "شفقتوں" کی مہر ثبت کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے نام پر بہت
سوں نے اپنی "نیکیوں" میں اضافہ کرنے کی کوشش کی۔ خیر۔۔۔ اللہ سب کو جزا
دے۔میں آپ کی دونوں نشانیوں کے ساتھ لے کر آپ کے پاس ملنے کے لئیے آیا کرتا
تھا مگر آپ کی تربت بھی ہم سے دور ہو گئی۔ اجداد میں سے صرف نانی امّاں رہ
گئی ہیں۔ وہ بھی آپ کی یاد میں آنسو بہا بہا کر اپنی بینائی سے ہاتھ دھو
بیٹھی ہیں۔ ضعیف العمری میں بھی آپ کی قبر پر جاتی ہیں اور آپ کی قبر کو
ایسے ہی صاف کرتی ہیں جیسے آپ ہم تینوں کی صفائی کا خیال رکھا کرتی تھیں۔
ابو اور چچا نے ہمیں اس قابل کر دیا ہے کہ ہم تنگیِ داماں کے باوجود حالات
سے لڑنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ تا ہم آپ کا چھوٹا "چوہدری" ویسا ہی ہے جیسا
آپ چھوڑ کے گئی تھیں۔ سکول میں بھی نا چل سکا اور کاروبارِ حیات میں بھی
سست ہے۔ اس کے لئیے اللہ جی سے کہئے کہ سنبھل جائے۔ میں نے خود کو ان کے
لئیے ہی زندہ رکھا ہے۔ زیست میں کئی ایسی راتیں بھی آئیں جب سڑکوں اور فٹ
پاتھوں پہ بھی شب بسری کی۔ آخر آپ کی امانتوں کی حفاظت بھی تو کرنی تھی۔ اب
اللہ کے فضل و کرم سے آپ کے قندیل، حیدر اور حسّان بھی رونقِ جہاں بن چکے
ہیں۔ آج جب میں آپ کو ایصالِ ثواب کرنے بیٹھا تو حسّان اپنے ننھے ہاتھ اٹھا
کر دادی کے لئیے آمین کہہ رہا تھا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی
اولاد آپ کے لئیے صدقہ جاریہ ہے۔ انشاءاللہ۔ آپ کی تربت کے صدقے ہمارے
ایمان محفوظ ہیں۔ اللہ کے ولیوں کا دامن ہاتھ میں ہے۔ معصیت اور وسواس نے
میرا گھیراؤ کیا مگر آپ کی دامن کی حرمت نے مجھے گناہوں کی دلدل سے بچائے
رکھا۔ دن میں پانچ بار آپ سے محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ الحمدللہ۔ آپ کے
خاندان کے پہلے حاجی بھی بن گئے ہیں۔ جب آپ کا پوتا درِ کعبہ کے سامنے سفید
احرام میں ملبوس تھا تو اس کی آمین آپ کی بلندیِ درجات کا باعث بنی ہو گی۔
آمنہ بی بی رضی اللہ عنہا کے دلارے ﷺ کی سنہری جالیوں کے سامنے بھی آنا
جانا رہتا ہے۔ سرکارﷺ اکثربلاتے رہتے ہیں۔ وہاں بھی آپ کی یادیں ہوتی ہیں۔
آپ کے بچھڑنے کے بعد ہم تینوں بھی اکٹھے نہی رہ سکے۔ سوچا تو یہ تھا کہ آپ
کے قریب ہی رہنے کو ایک کٹیا بنا لوں تا کہ ہر صبح اٹھ کہ آپ کو سلام کر
لوں مگر زندگی دن بدن دور سے دور تر دھکیلتی جا رہی ہے۔ جب کوئی چڑیا زمین
پہ گرے ہوئے اپنے بچے کو اٹھا کر گھونسلے میں رکھے، جب وقتِ رخصت کوئی ماں
اپنے لختِ جگر کے سر پہ ہاتھ رکھے، یا پھر جب بخار کی حدت و شدت ہو تو آپ
کی یاد بہت آتی ہے۔ آپ نے تو بچپن ہی میں مجھے خط لکھنے کا عادی بنا دیا
تھا اب بتائیے کسے خط لکھوں کس سے حالِ دل کہوں؟
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ ! میرا انتظار ؟
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بیقرار ؟
خاک مرقد پر تری لیکر یہ فریاد آؤں گا
اب دُعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایہء عزت ہوا
دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات
تھی سرّاپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا ، تُو چل بسی
پیٹ کی آگ بجھانے کے لئیے ہم نے شرق و غرب کے سفر کر لئیے۔ ایمان کی سلامتی
درکار ہے۔ آپ اللہ کریم سے دعا کیجئے کہ آپ کی اولاد کو ٹھکانا میسر آئے۔
آپ کے "وقار" کو اللہ تعالیٰ آسانیاں عطا کرے اور آپ کی نورِ نظر کو بھی
ایک پر سکون زندگی ملے۔ اللہ ہم سے ایسے کام لے جس سے آپ کی روح کو تسکین
پہنچے۔ جنہوں نے ہمیں سکون پہنچایا روز محشر آپ ان کا شکریہ ادا کیجئیے گا۔
اور ہاں آخری بات یہ کہ مدت گزر گئی آپ ملنے نہیں آئیں۔ اللہ تعالیٰ سے بھی
دعا کی تھی مگر دعاؤں میں اثر ختم ہو گیا ہے شاید۔ کسی روز اگر بہشت کی
رونقوں سے فرصت ملے تو چند لمحوں کے لئیے آئیے گا کچھ دل کا بوجھ ہلکا کرنا
ہے۔ بس اب ضبط کے بندھن ٹوٹ رہے ہیں ۔۔۔ پھر ملوں گا۔ ابھی آپ کا پوتا میرے
بہتے آنسو دیکھ کر مغموم ہوئے جا رہا ہے۔ اللہ کی کروڑوں رحمتیں ہو آپ کی
تربت پر۔ |