تحریر!ذیشان حسین
”گرہ ڈھیلی کرلیں“ میرے سامنے بیٹھے نوجوان سائیکاٹرسٹ نے کہا تو غیر ارادی
طور پر میرا ہاتھ ٹائی کی گرہ کی طرف اٹھ گیا۔”یہ گرہ نہیں“ اس نے ٹوکا اور
ہلکے سے مسکرایا میرے ہاتھ وہیں رک گئے میں سمجھا تھا کہ وہ میری کیفیت کو
دیکھتے ہوئے کوئی ایکسرسائز بتائے گا اعصاب کے سکون کیلئے۔”تو پھر؟“ میں
خالی نظروں سے اسے گھو رہا تھا اس نے اپنا ہاتھ میرے آگے کیا اور بند مٹھی
کھول دی ”یہ گرہ ڈھیلی کرلیں“ میں ہنوز ہونقوں کی طرح اس ڈاکٹر کے ”کرتب“
دیکھ رہا تھا۔
”میں ابھی بھی نہیں سمجھا“ اس نے میری فائل آگے سِرکالی اور کسی ٹیچر کی
طرح بولنے لگا۔”آپ شہر کی ان ہستیوں میں سے ہیں جنہیں تقریباً ہر چھوٹا بڑا
جانتا ہے آپ کا وسیع وعریض کاروبار ہے جائیداد‘ گاڑیاں‘ پلازے سب کچھ ہیں
وہ سب کچھ جس کی کسی کو تمنا ہو سکتی ہے آپ کے تینوں بیٹے اسٹیٹس میں اپنی
اپنی دنیا میں مگن ہیں اور خود آپ۔۔۔“وہ ابھی بول رہا تھا کہ میں نے چِڑ کر
ٹوکا”لیکن ان سب کا میری بے خوابی سے کیا تعلق؟“
”Let me complete please“ا س نے شکستہ انگریزی میں شائستگی سے ٹوکا۔میں نے
دل ہی دل میں اسے ”تگڑی سی گالی دی مگر اس کی سنتا رہا۔”ہر چیز کا ایک
Point of Saturationہوتا ہے ایک ایسا مقام جب وہ چیز آپ کے لیے مزید سکون
کا باعث نہیں رہتی۔آپ دنیاوی طور پر اس مقام پر ہیں کہ اب یہ سب آپ پر بوجھ
ہے آپ کی ضرورت نہیں۔
”اچھاتو تم یہ مشورہ دے رہے ہو کہ میں یہ سب محنت کی کمائی فقیر فقٹوں میں
بانٹ کر مہاتمابدھ کی طرح جنگلوں میں نکل جاﺅں“ میں نے انتہائی بدتمیزی سے
اس کی بات اُچک لی تھی ۔
”سنو میاں اتنی تمہاری عمر نہیں جتنا میرا تجربہ ہے معمولی ملازمت سے اتنا
بڑا کاروبار تک کا سفر میں نے جیسے طے کیا ہے تم کیا جانو ایک سیلف میڈ
انسان ہوں تمہاری طرح ڈگریوں کامحتاج نہیں “
میرے لہجے کی کڑواہٹ ابتک اس کے چہرے پہ کھیلتی دھیمی مسکراہٹ کا کچھ نہ
بگاڑ سکی تھی ”سر آپ بتائینگے کہ جب آپ معمولی ملازم تھے تو نیند کی کتنی
گولیاں استعمال کرتے تھے دو‘تین یا چار“؟۔
”نہیں بالکل نہیں ایک بھی نہیں“ میں نے پورے اعتماد سے جواب دیا ”یہی تو
میں سمجھانا چاہ رہا تھا
اس کی مسکراہٹ زہر لگی مجھے” جب کچھ نہیں تھا تو آپ مطمئن اور بھرپور نیند
لیتے تھے اور آج اگر سب کچھ ہے تو یہ بے سکونی کیسی؟“کمرے میں گہری خاموشی
تھی۔میں نے سگریٹ سلگایا۔”محترم ہر چیز اپنے اصل کو لوٹتی ہے“ وہ رکا پھر
بولا ”جلد یا بدیر مگر لوٹتی ہے آپ بھی اصل کو لوٹ جائیں خدا تعالیٰ کی آپ
پر جو عنایت ہے بلاشبہ اس میں آپ کی محنت کا بڑا حصہ ہے مگر ان میں ان سب
کا حصہ ہے جو آپ کے اردگرد ہیں ۔خدا کے دئے میں سے دینا ہے آپ نے“۔
وہ رکا۔ ایسٹرے میرے آگے سرکایا اور پھر سے بولنے لگا ۔”اپنے کسی غریب
مزدور کی بیٹی کی شادی پر‘کسی بیروزگار کو موقع دیکر‘کسی بیمار عزیز کی
بیماری پر خاموشی سے خرچ کر کے دیکھیں آپ کو احساس ہوگا کہ سکون سے آپ کی
دوستی ابھی بھی دوبارہ ممکن ہے۔“
”اپنے پرانے وقت کے دوستوں سے ملیں جن سے آپکی دوستی بے لوث اور بے غرض
ہو‘پرانے محلے میں جائیں ‘کھائیں پیئے‘قہقے لگائیں اپنی زندگی خود جئے آپ
کو محسوس ہوگا کہ زندگی کہ وہ معنیٰ جو آپ کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئیں ہیں
ابھی بھی اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔“
”اگریہ سب کرنا میرے لیے ممکن نہ ہوتو؟؟”میں نے گہرا کش لگاتے ہوئے سوال
کیا۔”پھر آپ اپنی مصنوعی زندگی میں لوٹ جائیں۔یورپ چلے جائیں تفریح کے لیے
عارضی خوشیاں تلاش کریں وقتی اور مصنوعی قہقے لگائیں اور واپس آکر اسی
طرح‘انہوں گولیوں کے سہارے نیند کے محتاج رہیں۔“
ڈاکٹر کا شکریہ ادا کر کے میں گاڑی میں آبیٹھا‘گھنگھور گھٹا چھا رہی تھی۔دل
تو بہت کیا کہ پرانے محلے میں جا کر”لنگوٹیوں“ سے ملاقات کروں مگر میری
شناخت اب اس علاقے سے بہت مختلف تھی ۔ویسے بھی ”لنگوٹیے“ بہت خطرناک ہوتے
ہیں اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے باوردی ڈرائیور کو پتہ چلے کہ میرا
آغاز شہر کی کسی بستی سے تھا کہ جہاں سے کبھی اتفاقاً گزر ہو بھی تو میں
ناک پر رومال کوڑے کی سڑن کی وجہ سے نہیں پہنچانے جانے کے ڈر سے رکھتا
تھا۔میں نے ڈرائیور کو گاڑی ٹریول ایجنٹ کے دفتر کی طرف موڑنے کی ہدایت کی
اور گاڑی کی کھڑکی سے باہر رشک بھری نگاہ سے اس جوڑے کو دیکھنے لگا جو تیز
ہوتی بارش سے بے نیاز ایک شیڈ کے نیچے بائیک کھڑی کیے کھڑا تھا اور کمال بے
فکری سے پاس کھڑی ریڑھی سے ”گول گپے“ کھا رہے تھے۔ |