گُذشتہ سے پیوستہ
کتنی بدنصیبی کی بات ہے۔ کہ کل تک کُفار جو طعنہ اللہ کریم کی ایک ولیہ کو
دِیا کرتے تھے۔ جو کہ نا صِرف مسلم سفیر و مسلم وزیر دادی کی محسنہ تھیں
بلکہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی مُحسنہ تھیں کہ مسلمانوں کے سفیر کی مدد
فرمارہی تھیں۔ ہم بجائے اُنکے احسان مند ہُوتے۔ آج تک ہِنود کی روش اپناتے
ہُوئے وہی طعنہ ناسمجھی میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو بھی دیتے ہیں۔
لیکن فرقان میاں میں آپ سے پھر یہی کہوں گا۔ کہ آپ نعمان میاں کی جانب سے
اپنا دِل میلا نہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک نا ایک دِن وہ ضرور پلٹ کر آئے
گا۔ تب تک اُسکی واپسی کا انتظار کرنا۔ اُور واپسی کی راہ کو مسدود نہ
کرنا۔ آپ کل سے اپنی فیکٹری پر توجہ دینا شروع کردیں اللہ کریم آپکی مدد
ضرور فرمائے گا۔ اُور ایک دِن آپ کو آپکی قربانی کا پھل ضرور مِل کررہے گا۔
اَب مزید پڑھیئے۔
چار برس بعد۔۔۔
ظہر کی نماز کی ادائیگی کے دُوران موبائیل فون کی متواتر وائیبریشن فرقان
کی محویت میں دخل انداز ہُوتی رہی ۔ مسجد سے آفس کی طرف جاتے ہُوئے فرقان
نے اپنے دِل میں عہد کیا کہ وُہ آئندہ اپنا سیل فُون وائیبریشن پر لگانے کے
بجائے اپنے آفس میں ہی چھوڑ کر آئے گا یا پھر اُسے آف کر دِیا کرے گا۔
مِسڈ کالز چیک کرتے ہُوئے فرقان کو خُوشگوار حیرت کا سامنا ہُوا۔ کیونکہ آج
قریباٍ چار برس کے بعد نعمان کی سترہ مِس کالز فرقان کی موبائیل اسکرین پر
جگمگا رہی تھیں۔ فرقان نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر نعمان کو کال مِلا دی۔
دوسری ہی بیل پر نعمان نے کال ریسیو کرلی فرقان کو ایسا مِحسوس ہُوا جیسے
وُہ اُس ہی کی بیل کا منتظر تھا۔
فرقان نے گرمجوشی سے سلام میں پہل کی لیکن نعمان نے تھکے تھکے سے انداز میں
فرقان کے سلام کا جواب دیتے ہُوئے بتایا کہ وہ فرقان سے فوراً مُلاقات کرنا
چاہتا ہے۔ فرقان نے نعمان کو جواب دیتے ہُوئے بتایا کہ وُہ اِس وقت فیکٹری
میں موجود ہے۔ اگر وہ پسند کرے تو میں شام کو خُود حاضر ہُوجاؤں گا۔ لیکن
نُعمان کا اِصرار تھا کہ وہُ اسی وقت فرقان سے مُلاقات کا خُواہشمند ہے
اسلئے اگر فرقان اپنی مصروفیت میں سے اگر چند مِنٹ نِکال سکے تو وُہ خُود
فیکٹری آرہا ہے۔ فرقان نے جواباً عاجزی سے کہا ۔۔۔۔۔نعمان میرے بھائی مجھ
سے التجا کر کے مجھے شرمندہ نہ کرو۔۔۔۔۔۔
نعمان نے کہا تھا کہ وہ آدھے گھنٹے میں فرقان کی فیکٹری پُہنچ جائے
گا۔۔۔۔۔۔۔ فرقان کو آج نعمان کے لہجے میں وُہ پہلی سی گھن گرج کہیں بھی نظر
نہیں آئی بلکہ اُسکا لہجہ ایک ہارے ہُوئے جواری کی مانند تھا۔ فرقان کو ایک
کاروباری پارٹی نے اگرچہ چند دِن قبل کہا ضرور تھا کہ نعمان مسلسل تین برس
سے خسارے کا سامنا کررہا ہے ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ فرقان جِس نعمان کو جانتا تھا۔
وہ ہر گز جھکنے والا نہیں تھا۔ لیکن آج نعمان کا بِکھرا ہُوا لہجہ اُسکی
سُوچ کی نفی کررَہا تھا۔
فرقان نعمان کا انتظار کرتے ہُوئے آرام دَہ کَاوچ پر نیم دراز ہُوگیا۔۔۔۔۔
دھیرے دھیرے اُسکے سامنے ماضی کے اوراق پلٹنے لگے اُور وہ خیالات کی وادیوں
میں چار برس قبل کی جانے والی فیکٹری کی افتتاحی تقریب میں پُہنچ گیا۔ جہاں
نعمان اُسکا اُور اُسکی ٹیم کا تمسخر اُڑا رَہا تھا۔ پھر دھیرے دھیرے
اُسےاپنے پہلے سال کی کارکردگی کے مناظر دِکھائی دیکھنے لگے۔ اُنکی فیکٹری
کا پہلا برس واقعی آزمائشوں اُور امتحانوں کا سال ثابت ہُوا تھا۔ کبھی پیپر
کی کوالٹی بِگڑ جاتی تُو کبھی بازار میں گرانی کی کیفیت پیدا ہُوجاتی۔ کبھی
خام مال کی کمی کا سامنا کرنا پڑجاتا۔ تُو کبھی سامنے والی پارٹی وقت پر
سپلائی نہ دے سکنے کی وجہ سے سودا کینسل کر ڈالتی۔ الغرض اِس اُونٹ کی کوئی
کَل سیدھی نہ تھی۔ یا یُوں کہہ لیجیئے کہ ہاتھی پالنے کا شوق بُہت ہی مہنگا
ثابت ہُورَہا تھا۔ جبکہ شہریار مجددی تو بالکل ہی کاروبار کے طریق سے نابلد
تھے۔ جبکہ کرامت صاحب اگرچہ بُہت محنت اور جانفشانی سے تمام معملات کو حل
کرنے کی سعی میں مصروف تھے۔ لیکن اُنکی بھی تمام تدابیر بروقت ہُونے کے
باوجود بے سُود ثابت ہُورہی تھیں۔ ایک حَسّان میاں تھے جو ہر نئے دِن
کیساتھ اِن سب کے حُوصلے بڑھا رہے تھے۔ اُور اُنکی زُبان پر ایک ہی جُملہ
تھا۔ کہ یہ پہلا برس صِرف سیکھنے کیلئے ہے۔ اپنی غلطیوں کو دیکھو۔ اُور
کوشش کرو کہ دُوبارہ وُہ غلطی سرزد نہ ہُو۔ اِسطرح غلطیوں کو سُدھارنے کا
موقع ملے گا، اُور تُمہارے تجربہ میں اِضافہ کے ساتھ معملات میں بہتری آتی
چلی جائے گی۔ کاروبار میں نفع نقصان سے زیادہ اپنی زُبان کی قیمت کا اِدراک
رکھو۔ اور جو بھی پیمان قلمی یا قُولی طور پر کرو اُسے ہر قیمت پر پُورا
کرنے کی کوشش میں مصروف رَہو ۔ اسطرح مارکیٹ میں تُمہاری ساکھ بنتی چلی
جائے گی۔
وقت گُزرنے کیساتھ ساتھ حَسَّان میاں کی کہی ہُوئی ایک ایک بات سچ ثابت
ہُوتی چلی گئی۔ واقعی پہلا برس بُہت ناموافق حالات و مُشاھِدات کی نظر
ہُوگیا۔ لیکن دوسرے برس کی کامیابی نے پہلے برس کی تمام کوفت اُور ناکامی
کی تھکن کو رفع کردِیا۔ اُسکے بعد آنے والے مزید دُو برس میں فیکٹری کی
کیپیٹل ڈھائی گُنا ہُوچُکی تھی۔ حَسَّان مِیاں کے حُکم پر عمل درآمد کرتے
ہُوئے فرقان نے اپنی فیکٹری کے تمام ملازمین کو سالانہ ڈبل بُونس کے انعام
سے نوازا۔ جسکی وجہ سے فیکٹری کے تمام مُلازمین کے دِلوں میں فرقان و
شہریار مجددی کی محبت گھر کر گئی تھی۔ اسکے علاوہ حَسَّان صاحب کے ایما پر
ہی ،، آغوش ،، کے نام سے ایک اسکیم متعارف کرائی گئی۔ جسکے ذریعے ہر سال
فیکٹری کے پانچ مُلازمین کو اپنا گھر بنانے کیلئے قرعہ اندازی کے ذریعے
بِلا سُود قرض دینے کا اعلان کیا گیا۔
شہریار مجددی کے بے حد اِصرار پر فرقان نے اِس برس اپنا گھر خرید لیا تھا۔
اُور دُو مہینے قبل وہ اپنے نئے مکان میں شِفٹ ہُوچُکا تھا۔ جبکہ فیکٹری کے
اعلٰی کوالٹی پیپر کی بڑھتی ہُوئی ڈیمانڈ کے پیش نظر فیکٹری میں نئی مشینری
کا اِضافہ بھی کردیا گیا تھا۔ جسکی وجہ سے اُمید کی جارہی تھی کہ اِس سال
کی پروڈکشن گُذشتہ کی نسبت ۸۰ پرسنٹ بڑھ جائے گی۔ جبکہ لُوڈ شیڈنگ کا
مقابلہ کرنے کیلئے فیکٹری میں نئے انجن لگائے گئے تھے۔ جسکی وجہ سے ڈیمانڈ
اُور سپلائی کے بحران پر قابو پا لیا گیا تھا۔ اِن انجنز کو نصب کرتے ہُوئے
شہریار مجددی نے ایک نئی تکنیک متعارف کروائی تھی ۔جسکی وجہ سے حیرت انگیز
طُور پر ڈیزل کا خرچ ساٹھ فیصد تک کم ہُوگیا تھا۔ اِس تکنیک کی وجہ سے
فیکٹری کو بجلی اُس نرخ سے بھی کم ریٹ میں دستیاب ہُورہی تھی۔ جِس نرخ پر
حکومتی اداروں سے حاصِل کی جارہی تھی۔
اگرچہ نعمان اُور فرقان کی فیکٹریاں ایک دوسرے کیساتھ مُتصِل تھیں۔ لیکن
اسکے باوجود بھی اِن چار برسوں میں ایک مرتبہ بھی فرقان کا نعمان سے سامنا
نہیں ہُوا تھا۔ نہ ہی کبھی نعمان فرقان کی فیکٹری میں آیا۔ اُور نہ ہزار
دِل کی خُواہش کے باوجود فرقان کبھی اتنی ہِمت جُٹا پایا کہ وہ نُعمان کے
پاس جاسکے۔ پھر وقت گُزرنے کیساتھ مصروفیت بھی اِسقدر بڑھتی چلی گئی۔ کہ
فرقان کو ہمیشہ یہ اندیشہ گھیرے رکھتا کہ کاروبار کی بڑھتی ہُوئی مصروفیت
کہیں اُسکی ازدواجی زندگی میں کوئی رُکاوٹ نہ کھڑی کردے۔۔۔۔ لیکن اِس
معاملے میں فرقان انتہائی خُوش قِسمت انسان ثابت ہُوا تھا۔ کیونکہ اُسکی
بیگم نے اُسے کبھی بھی اِس بات کا اِحساس نہیں ہُونے دِیا کہ۔۔۔ نئی فیکٹری
کی شروعات سے وُہ گھر پر کسقدر کم وقت دینے لگا ہے۔بلکہ وہ ہمیشہ ہی اسکی
حُوصلہ افزائی کیساتھ اُسکی ہمت بڑھارہی تھی۔
فرقان سُوچوں کے اِن بھنورُوں میں نہ جانے اُور کتنی دیر کُھویا رِہتا کہ
ایک مُلازِم نے آکر اُسے نُعمان کی آمد کی اطلاع دی۔ فرقان نُعمان کے
استقبال کیلئے اپنے آفس سے باہر نِکل آیا۔ لیکن یہ دیکھ کر اُسکا دِل کَٹ
کر رہ گیا۔ کہ وہی نُعمان جو سولہ سُو سی سی سے کم گاڑی میں بیٹھنا اپنی بے
عزتی سمجھتا تھا ایک سیکنڈ ہینڈ چائنا موٹر بائیک پر سوار ہُو کر آیا تھا۔
چہرے پہ بڑھی ہُوئی شِیو ، اُور لباس پر پڑی ہُوئی جا بجا سلوٹیں فرقان کو
یہ سمجھانے کیلئے کافی تھیں۔ کہ اُسکا دُوست کسی بُہت بڑے امتحان سے گُزر
رہا ہے۔ جسکا کرب صاف اُسکے چہرے پہ نمایاں نظر آرہا تھا۔
نعمان نے فرقان کو اپنا منتظر دیکھا تو تھکے تھکے سے قدموں سے فرقان کی
جانب بڑھنے لگا۔فرقان نے آگے بڑھ کر کر نُعمان کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
چند لمحے اِسی کیفیت میں گُزر گئے۔ پھر فرقان نُعمان کو بڑی عزت سے اپنے
آفس میں لے آیا۔ آفس میں آرام دہ کرسیوں پر بیٹھنے کے بعد فرقان اُسکا حال
دریافت کرنے لگا۔ لیکن نُعمان کی زُبان پر تُو جیسے خَاموشی کا قُفل پڑا
تھا۔ اُسکا چہرہ ناکامی اور شرمندگی کی تصویر پیش کررہا تھا۔ جب دوسری
مرتبہ فرقان نے پُوچھا کہ میرے یار تُو آخر بُولتا کیوں نہیں۔۔۔۔ ؟ اُور یہ
تُونے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔۔۔۔؟ تب نعمان کی آنکھیں جو نجانے کب سے
چھلکنے کو بیقرار تھیں۔ اپنے آبگینوں کے بند کو مزید سنبھال نہ پائیں۔۔۔۔
اُور نُعمان فقط اتنا ہی کہہ پایا کہ فرقان میرے بھائی میں ہار گیا ہُوں۔۔۔
اُور رُسوائی میرے تعاقب میں ہے۔ اِسکے بعد وپہ کُچھ نہ کہہ پایا۔۔۔ اُور
ہچکیاں باندھ کر رُونے لگا۔۔۔۔۔
(مجھے معلوم ہے کہ اس افسانے کی اس قسط کو پڑھنے کیلئے آپ سب کو بُہت
انتظار کرنا پڑا ہے جسکے لئے آپ سب سے مُعافی چاہتا ہُوں۔ لیکن سچ تو یہ ہے
کہ رمضان المبارک میں میری طبیعت اسقدر بگڑ گئی تھی۔ کہ مجھے یقین ہُوچلا
تھا۔ کہ میں شائد عیدالفطر کا چاند بھی نہ دیکھ پاؤں گا۔مگر۔۔۔۔)
۔
بقولِ شاعر
۔
میں ڈوبتا ہُوں سُمندر اُچھال دیتا ہے
نہ جانے کُون دُعاؤں میں یاد رکھتا ہے
انشاءَ اللہ کوشش کرونگا کہ ایک ہفتے میں اسکی آخری قسط (خُلاصہ) لکھ کر
آپکی نذر کردُوں ۔ |