اِک عشق

رات کی بارش سے دُھلے ہوئے سورج کی ابتدائی کرنیں پہاڑوں کی اوٹ سے سر نکالنے کی کوشش کررہی تھیں۔مئی کی آمد آمد تھی لیکن گرمی کی شدت پے در پے بارشوں کی وجہ سے کچھ کم ہوگئی تھی۔الیاس دُنیا ومافیہاسے بے خبراپنی موٹر سائیکل پر سوار شابہ کی چھوٹی سی سڑک پر اپنی منزل کی جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ شابہ ایک پیالہ نما خوبصورت گاﺅں ہے، جس کے تین اطراف میں اونچے اونچے پہاڑ اور ایک طرف پنجاب کے دوسرے علاقوں سے رابطے کا راستہ ہے۔یہاں عام لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے اور گاﺅں کی اکثریت غرباءاور متوسط طبقے کے لوگوں پر مشتمل ہے۔الیاس کے ہاتھ پاﺅں موٹر سائیکل کے کل پرزوں پر میکانی حرکت کررہے تھے لیکن اصل میں وہ ان حرکات سے بے خبر اپنے ماضی میں غوطہ زن تھا۔ اُسکا ضمیر اُسے بار بار جھڑکیاں دے رہا تھا اور اسکے چہرے سے اضطراب اور بے چینی کے ملے جُلے تاثرات جھلک رہے تھے۔ اُسکا ماضی ایک فلم کی طرح اُسکے ذہن میں محو رقص تھااور وہ ڈوبتی ہوئی ناﺅ کی طرح اپنے ماضی میںلمحہ لمحہ اُتررہا تھا۔

باپ کی غربت کے باوجود جب الیاس نے آٹھویں کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی تو وہ پھولے نہیں سمارہاتھا ۔ وہ ساری دنیا اپنے قدموں تلے محسوس کرنے لگا ، اُسے دنیا کا کیا پتہ تھاکہ شابہ سے باہر بھی ایک دنیا آباد ہے وہاں بڑی بڑی لائبریریاں اورسائنسی لیبارٹریاں ہیں۔ بڑ ے بڑے کالج اور یونیورسٹیاں ہیں جس میں ملک بھر کے ذہین طلباءآتے ہیں ۔ وہ تو کنویں کا مینڈک تھا اُسے تو اپنا آپ ہی سب سے اونچا نظر آرہا تھا۔لیکن دولت کی ریل پیل والے بڑے اور مہنگے اداروں میں اُنکی قابلیت بیک جنبشِ قلم ردی میں پھینک دی جاتی، اسی لئے والد نے پُرکھوں کی چند ٹکڑے زمین بیچ کر اُسے پڑھنے کے لئے شہر بھیجا۔اُنکے تین بھائی اور دوبہنیں بھی تھیں لیکن اُن سب سے بے فکر وہ اپنی دُھن میں مست تھا۔اُنکے گھریلواخراجات والد کی مزدوری سے پورے ہونے لگے جو وہ لوگوں کی زمینوں میں کام کرکے حاصل کرتا تھا۔الیاس کے اچھے رویے اور قابلیت کی وجہ سے اُسکے گھر والے بلکہ اُنکے خاندان والے بھی اُس پر ناز کرتے تھے۔اُنکی شرافت کے چرچے چاردیواریوںکے اندر بھی ہونے لگے، اور وقت کا پہیہ چلتا رہا۔

شابہ کے ساتھ ہی اُچھن کا علاقہ تھا جو جغرافیائی لحاظ سے تو ایک ہی تھا لیکن برادریوں کے فرق کی وجہ سے الگ۔عظمٰی کی زندگی کے انیس سال شابہ کی سادگی کی نظر ہوگئے۔انکے معمولات میں گھر کا کام کاج، جانوروں کی دیکھ بھال اور کٹائی کے موسم میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹانا شامل تھا۔۔ الیاس بی۔ اے کے امتحانات دینے کے بعد اپنے گاﺅں میں فارغ پڑا تھا ، جب باپ نے کٹا ئی میں ہاتھ بٹانے کا کہا ،تواُس سے انکار نہ ہوسکا۔ورنہ عام طور پر اُنکا والد اُن سے اس قسم کی فرمائشیں نہیں کرتاتھا۔

مئی کی شروعات تھی اور سورج اپنے جوبن پر آگیا تھا، باپ کا ہاتھ بٹانے میںالیاس اپنے جسم کا پسینہ بہا رہا تھا،کافی کٹائی کر نے کے بعد تھک کر اُس نے اپنے سر کے گرد لپٹا ہوا کپڑا کھولااور ماتھے کا پسینہ پونچھ کر بیری کی ٹھنڈی چھاﺅں کے نیچے پڑے ہوئے مشکیزے سے پانی پینے لگا۔عظمٰی بھی اپنی زمینوں کی سرحد پر پہنچ چکی تھی اور اُسکی مخروطی اُنگلیوں میں لپٹی ہوئی درانتی مشین کی سی تیزی سے گندم کے سنہرے خوشے گرارہی تھی۔الیاس نے اُٹھ کر ہلتے ہوئے خوشوں پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی ،اور اسی نظر کی تپش سے چونک کر عظمی نے بھی اُنکی طرف دیکھا۔لیکن آنکھیں پھیر کر اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔اسی اثناءمیں رمضو کی آواز گونجی۔۔عظمٰی بیٹی کھانا آگیا ہے آکے منہ ہاتھ دھولے!۔۔ آئی با با!۔ بس دو ہاتھ زمین باقی ہے!۔۔۔ الیاس وہیں کھڑا اُنھیں دیکھتا رہا ۔ عظمٰی نے اُٹھ کر اپنا دوپٹہ درست کیا جو اُس نے اپنے سر اور شانوں کے گرد لپیٹا تھا۔دل میں کچھ خلش ہوئی اور الیاس کی طرف نظر یں اُٹھیں۔۔ اور پھر جاتے ہوئے برابر اُٹھتی رہیں۔ شام کو جب سامان باندھا جارہا تھا تو ایک بار پھر نینوں سے نینوں کا ملن ہوا۔عظمٰی عام سی شکل وصورت والی سانولی سی دیہاتی لڑکی تھی اوراُس میں حسن و ادا اور عشوے و غمزے نہ تھے لیکن اُنکے چہرے کی معصومیت دل موہ لینے والی تھی اور اسی معصومیت کی وجہ سے الیاس ساری رات بے چینی سے کروٹ بدلتارہا۔الیاس کو شدت سے آنے والے کل کا انتظار تھا اوروہ انگلیاں جو قلم کے گرد محورقص رہتیںاب درانتی کے گرد گھیرا ڈالنے کے لئے بے تاب تھیں۔۔۔۔۔۔ ایک آگ سی اُسکے سینے میں لگی تھی ، جو لگ گئی تھی لگائی نہیںگئی۔ اسی آگ سے ہی تو قابل ترین ذہن مشت خاک بن جاتے ہیں۔ بڑے بڑوں کے سامنے تن کرکھڑے رہنے والے سر، یہاں جُھک جاتے ہیں۔ آداب زندگی سکھانے والے اساتذہ بھی اسی میدان میں بے ادب بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔الیاس کی اوقات ہی کیا تھی کہ وہ سنبھل جاتا۔اب جتنے دن کٹائی کا موسم رہا یہ چنگاری سلگتی رہی اور بڑھتے بڑھتے ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کر گئی۔وہ آتش فشاں جو اپنا دامن خاک کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے شہر بھی اُجاڑ دیتا ہے۔کٹائی ختم ہوئی لیکن کٹائی کرنے والے دو دیوانے اپنے رابطے برقرار رکھنے پر متفق تھے اور اُنکا کام جدید سائنس کی ترقی نے آسان بنایا تھا۔۔ موبائل فون نے عشق کے فسانوں سے بیچ کے خبری کو نکال دیا ہے اور بااعتماددوست ثابت ہوا ہے۔اس لئے اُن دونوں نے بھی اس دوست پر بھروسہ کرلیا۔

تواتر سے رابطوں اور بے ترتیب ملاقاتوں نے اُنھیں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کردیا۔وعدے ہونے لگے ایفا کی قسمیں کھائی گئیں۔ دلکش سپنے بُنے گئے۔۔ دیہات سے دور بڑے شہروں کی زندگی ، اکھٹی خریداریاں ، نازبرداریاں ، روٹھنا منانااور شاندار مستقبل جانے کتنے دھاگے سمیٹ کر ایک زندگی بُننے کی کوشش کی گئی ۔ اور پھر جب دونوں گھروں میں بات کھولی گئی۔ تو دونوں گاﺅں کی دیرینہ رقابت کا روڑااٹکایا گیا۔ وقت کا پہیہ دنوں اور مہینوں کی صورت اُڑتا گیا۔اور جب جنوری کی یخ بستہ رات میں آسمان ان دونوں کی قسمت پر ننھے مُنے آنسو بہارہا تھا، یکایک الیاس کا موبائل بجا۔ الیاس نے موبائل کان سے لگایا اور کمبل اوڑھ کر خوابیدہ لہجے میں ہیلو!۔۔۔ کہا۔ موبائل کے ناکافی سگنل کمرے کے اندر مانع ِکلام تھے اس لئے وہ چپل میں آدھے پیر داخل کرکے کمرے سے باہر نکل گیا۔

پانی کے چھوٹے چھوٹے قطرے اُسکے کمبل پر اپنے پیر جمانے کی کوشش کررہے تھے ۔ اور وہ کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔۔کب۔۔۔۔مگر۔۔۔کی آوازیںمنہ سے نکال کر ٹھنڈی آہیں بھر رہا تھا۔۔۔۔۔ ایک گھنٹے بعد وہ اُچھن کی پکڈنڈیوں پرچل رہا تھااور کیچڑ کی وجہ سے انکے جوتوں کا بُرا حال ہورہاتھا۔ راہ کا کیچڑ اُن کے پاﺅں روک رہاتھا لیکن وہ اپنے عزم میں پکااپنے راستے پر گامزن تھا۔عظمٰی اپنے گھر کے سامنے پُرانے برگد کے بڑے تنے کے پیچھے سہمی ہوئی کھڑی الیاس کا انتظار کر رہی تھی۔ اُسکے دائیں ہاتھ میں ایک چھوٹی سی تھیلی بھی تھی ۔۔۔ الیاس نے آتے ہی سوال جھڑا مگر اتنی جلدی۔۔ اور عظمٰی نے روہنی سی آواز میں جواب دیا کہ اور کیا کرتے آج ہو یا کل کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔ الیاس نے کمبل سے اپنے گرم گرم ہاتھ نکال کرعظمٰی کے گالوں سے پانی کا ایک شوخ قطرہ پرے کیا جو پہلے ہی خوف اور سردی کی وجہ سے برف کی ڈلی بنے ہوئے تھے۔۔ ۔ الیاس نے صرف اتنا کہا کہ سوچ لو راستہ کٹھن ہے اور منزل آنکھوں سے اوجھل کیاساتھ دے سکوگی۔۔۔ عظمٰی نے ہاتھ بڑھا کر اُسکے سیاہ بالوں کو جھاڑا جو پانی سے تر ہوگئے تھے اور مسکرا کر کہا آزمالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح اُچھن کی بندوقیں صاف ہورہی تھیں اور شابہ کے لوگ ڈر کے مارے الیاس کے کردار کی دھجیاں اُڑا رہے تھے۔۔۔ بخشو موچی ہوٹل پر دیر تک بیٹھا ہر ملنے والے کے کان بھر رہا تھا۔ ۔ ارے ہم نہ کہتے تھے بھیا کہ " شہراچ پڑن آلے عشق سیکھن جاندے نیں۔ ویک چھوری نو لے گیا نا مو ا !" ۔۔۔۔ بڑی بڑی پگڑیاں باندھے کچڑی داڑ ھیوںوالے معززین ادھر اُدھر پھر رہے تھے۔ کچھ سفید پگڑیوں اور کاٹن کے کرتے پہنے اپنی چوپال میں غیرت بھرے لیکچر دے رہے تھے۔۔ دونوں گاﺅں کا حال تقریباََ ایک سا تھا لیکن غیرت کے لیکچروں کی اُچھن میں کثرت تھی۔۔ عام طور پر تو گاﺅں کی بہو بیٹیوں پر میلی نظر ڈالنے کے جملہ حقوق ان معززین کے پاس ہوتے ہیں لیکن الیاس نے دخل در مامعقولات کرکے اُن کے کچھاڑوں میں آگ لگا دی تھی اور اُس اللہ کے بندے نے تو میلی نظر بھی نہیں ڈالی بلکہ ایک جیون ساتھی چُنا تھا۔۔ عظمٰی کا باپ بیٹی کا نام دوسروں کے منہ سے سُن کر پل پل مر رہا تھا۔

ایم ۔این ۔اے صاحب بھی اتفاق سے گاﺅں میں آئے تھے اور رمضو کو بُلا کر مخاطب ہوئے۔۔ سنارمضو ! اگر بیٹوں سے جوبن سنبھالا نہیں جاتا تو بیاہ کیوں نہیں دیتا ان کو!۔۔ ۔ ہماری ناک کٹوانے کے لئے رکھا ہے۔۔ ۔۔۔۔ اور رمضو اپنی پگڑی کے بل کھول کر کبھی اُسے اپنی گود میں رکھتا اور کبھی ایم ۔ این ۔ اے صاحب کے پیروں کے قریب کرتا جسے وہ ہٹ کمینے کی دھشت ناک جھڑکی دے کر دھتکارتا۔جناب میری بیٹی معصوم ہے ! وہ کمینا اُسے بزور اُٹھا کر لے گیا اور پھر سسکی بھرتا۔۔۔ اور چپ ہو جاتا۔۔ گاﺅں والے بظاہر رمضو کے غم خوار تھے، لیکن رمضو کی پگڑی اُچھلتے دیکھ کر ایک اندرونی سرور بھی محسوس کر رہے تھے ۔۔ اصل میں وہ رمضو کی بے عزتی میں اپنے گھر کے لئے عزت تلاش کر رہے تھے۔ میدا جھٹ شفیق ریڑھی بان سے ہمکلام تھا۔ شفو بھائی دیکھا کتنا بے غیرتی کا زمانہ آگیا۔ بیٹی بھاگ گئی لیکن پگڑی اب بھی باندھی ہے۔ نہ رسم و رواج کی لاج اور نہ گاﺅں کی عزت کا خیال جوان بیٹیوں کو آزاد چھوڑا ہے تو یہ دن تو دیکھنے ہوں گے۔ہاں میدے عزت تو ہم اور آپ جیسے اصل نسل والوں کی ہوتی ہے رمضو کا عزت سے کیا لینا دینا۔ہمارے گھر کی عورت تو باپ بھائی کے ساتھ کے بغیر گھر کے دروازے تک نہیں جاتی ، چہ جائیکہ باہر پھرے۔۔ میری بیوی اور بیٹیاں تو میری دہشت سے تھر تھر کانپتی ہیں ۔ میں نے تو اُنھیں کہہ دیا ہے کہ اگر کسی عورت نے گھر کے بجتے ہوئے دروازے کا بھی جواب دیا تو گولیاں ابھی بھی پڑی ہیں بندوق میں ۔۔۔ اور میدے نے بھی الفاظ کے ہیر پھیر سے یہی کچھ کہا۔۔ جس سے اُسکے گھر والوں کی پارسائی اور اُس کی غیرت عیاں ہوجائے۔لیکن اصل میں دونوں ایک دوسرے کی غیرت خوب جانتے تھے۔۔۔ رمضو پیر گھسیٹتا ہوا اپنے بوجھل بدن اور بھاری ضمیر کے ساتھ گھر پہنچا۔۔، وہ سب باتیں جو چوپال میں اُسے سننی پڑی تھیں سب کی سب لفظ بہ لفظ اپنی بیوی کے سر تھوپ دیں ۔اور خود کو آزاد کر دیا۔۔ ماں بیٹیوں کو کوسنے لگی اور غلیظ القابات استعمال کرتے ہوئے اُنکا دل جلانے لگی۔اور وہ بیچاریاں عظمٰی کو بد دعائیں دے دے کر روپڑیں جس نے ساری بہنوں کی عزت گاﺅں بھر میں نیلام کر دی تھی۔۔۔

الیاس کے گھر والوں سے گاﺅں والے کیا اپنے سگے رشتے دار بھی کھچے کھچے سے رہنے لگے، کیونکہ اُفتاد اُن پہ پڑی تھی لوگوں کو اُن سے کیا۔ وہ لوگ جو بیٹھکوں میں بیٹھ کر بھڑکیں مارتے کہ میرا بھتیجا الیاس بڑا افسر بنے گا یہ کرے گا وہ کریگا ۔ آج اُنھیں یوں کہتے سنا گیا۔ او یار کونسا سگا ہے دور کی علیک سلیک سے کوئی اپنا نہیں بنتا ہمارا اُن سے کیا لینا دینا ۔ جو کیا ہے اُنکی سزا وہ بھگتے گا۔ ہمیں تو ویسے بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ۔ جوان بہنوں کا بھی خیال نہیں کیا آج اُچھن والے آگئے اور اُن کی بہنیں اُٹھا کر لے گئے تو کون ذمہ دار ہوگا۔۔ الیاس کا سگا چچا بھی منہ اندھیرے اُنکے گھر آتا کہ کوئی دیکھ نہ لے اور ہمدرد ی جتا کر چلا جاتا۔گاﺅں والوں کے سامنے تو ویسے بھی بھائی سے ناچاقی ظاہر کرتا ۔۔ اور پھر ایک رات بیوی نے اُنھیں بھا ئی کے گھر جانے سے بھی منع کردیا کہ کون کودے پرائی آگ میں آخر ہم بھی بیٹیوں والے ہیںاور اس کمینے کی دشمنی کا پالن ہم نہیں کر سکتے۔

تھانیدار صاحب روز اُچھن کے چوہدریوں کی ایما پر الیاس کے گھر کی تلاشی لیتے۔ اور جس گھر میں الیاس کا ملنا تقریباََ ناممکن تھا روز اُسکا ہر ایک بکسا اور صندوق چھاننے جاتے۔۔ گھر کا پردہ اب پر دہ نہ رہا، ہر اُس چیزمیں پولیس نے ہاتھ مارا جسے صرف زنانہ پولیس ہی دیکھ سکتی ہے۔اور چند نوجوان سپاہی زنانہ سامان دیکھ کر آپس میں ہنستے او رالیاس کا باپ شرفو کھسیاناسا ہو کر جوان بیٹیوں کا سامان آنکھیں بند کرکے اُنکے صندوقوں میں ڈال دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔ تھانیدار روزانہ شرفو کے منہ پر الیاس کی ماں بہن ایک کرکے چلا جاتااور اُن کی بیٹیاں دیر تک سر جوڑ کر روتی اور اپنی بے عزتی کا انتظار کرتیں۔الیاس کے بھائی بھی ہر روز کسی اندھی گولی کے انتظار میں پَل پَل مرتے۔ اس طرح یہ گھر بھی قسطوں میں خودکشی کا مزا لیتارہا۔
عظمٰی اور الیاس نے راولپنڈی جاکر کورٹ میرج کرلی اور الیاس ایک سٹور پربطورِ سیلزمین کام کرنے لگا۔چند ماہ کے بعد اُنکی قابلیت کے بل پر اُسے ترقی ملی اور اُنھوں نے ایک اچھا کوارٹر لیکرایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ خواب جو کبھی اُنھوں نے جاگتی آنکھوں سے دیکھے تھے، اب روئے زمین پر جلوہ افروز تھے۔خواب عدم سے وجود میں آنے لگے اور اُنھیں زندگی پھولوں کی ایک سیج لگنے لگی۔۔ مگر قسمت سدا مہربان نہیں رہتی یہ اپنے آہنی پنجوں سے انسان کی وہ خوشیاں جو اُس نے سالوں میں کمائی ہوتی ہیں ایک پل میں چھین لیتی ہے۔۔۔ گاﺅں کے کسی بندے نے مخبری کردی اور دونوں میاں بیوی گرفتار ہوئے۔۔ وہ شرعی اور قانونی میاں بیوی تھے لیکن چوہدریوں کا زور شرح اور قانون سے بالا تر تھا۔اُنکا ہر لفظ حدیث تھا اُن کا ہر اشارہ قانوں۔۔گاﺅں کے سرکردہ لوگ پھر سے بھڑوں کی طرح بھنبھنانے لگے۔ ،، الیاس کو جیل میں کوئی تکلیف نہ تھی لیکن اُنکے مقدمے کی پیروی والا کوئی نہ تھا ۔باپ گھر کی عزت بچانے کیلئے پنچائیت کے فیصلے کیلئے پر تول رہا تھا۔۔ ساتھی قیدیوں سے پولیس والوں کی قیدی عورتوں سے بدسلوقی کے قصے سُن کر اُسے عظمٰی کی عزت جیل میں سب سے زیادہ غیر محفوظ لگی۔۔ اُدھرعظمٰی کی حالت بھی جیل میں قابلِ رحم تھی ۔ جیل کے پہرے پر موجود سپاہی اُنھیں رجھانے کیلئے کمرے کے اندر بھی دھوپ کا چشمہ لگائے رہتے۔اور ایک آدھ فقرہ بھی مار دیتے۔۔۔۔ " اوئے اسی مرگئے تھے جو اس مرن جوگے پچھے کملی ہوئی" "سانوں وی ویکھ کڑیے، اسی آپریشن نئیں کِتے" ۔۔۔ لیکن سپاہی دست درازی کی کوشش نہیں کرتے اُنکی صرف زبان گندی تھی ،لیکن یہ حق جیلرکوحاصل تھا جوعظمٰی کو بہانے بہانے سے دفتر میں بلا کر اپنے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کرتا اور کبھی کبھی غیر محسوس طریقے سے باتوں باتوں میں جسم کو بھی چھولیتا۔۔۔۔ جب الیاس کو ان باتوں کا پتا چلا تو اُس نے پولیس کے ہاتھوں اپنی عزت تباہ کرنے پر چوہدروں کے ہاتھوں مرنے کو ترجیع دی۔اور چوہدریوں کے سامنے سر جُھکا دیا۔۔۔۔ دونوں کو پنچائیت کی ضمانت پر گاﺅں لایا گیا ۔۔ الیاس کو گھر والوں کی دھتکار سننے کے لیے گھر والوں کے حوالے کیا گیا اور عظمٰی کو اپنے گھر بھیج دیا گیا لیکن اس شرط پر کہ پنجائیت جو فیصلہ سنائے وہی شرح، قانون اور انصاف ہوگا۔رات پنچائیت اکھٹی ہوئی اور ایک عجیب فیصلہ سنایا ۔۔ الیاس کی بہن کو بحالی عزت کے طور پررمضو کے حوالے کیا گیا۔ اور الیاس سے عظمٰی کو طلاق دلوا کر اُچھن کے لوگوںکی عزت بحال کی گئی۔ شرح کی رو سے طلاق ہوگئی لیکن دل نے نہ طلاق دی تھی اور نہ یہ فیصلہ قبول کیا تھا۔ مجبوریاں پاﺅں کی زنجیر بنی اور انسان نے ایک بار پھر مشیت ایزدی اور رشتوں کے سامنے اپنے آپ کو تنہا اور بے بس پایا۔۔

الیاس ان ہی خیالوں میں گم تھا کہ ریلوے کراسنگ پر لوگ گاڑی گزرنے کےلئے رُک گئے۔ ۔۔ سورج پہاڑ کے پیچھے سے اپناتہائی چہرہ نکال کر ہنسنا چاہتا تھا۔ لیکن ہلکے ہلکے بادلوں نے اُسے ایک سرمئی تھال بنا کر ایسا کرنے سے باز رکھا تھا۔۔ الیاس اُس کی طرف دیکھتا اور عظمٰی کا پلو کی اوٹ میں ادھ چھپا چہرہ اُس سے سوال کرتا ،،،،،،،،،،، دیکھا !۔۔ہم نے وعدہ وفا کیا لیکن تم جیسے لوگوں میں دم نہیں۔۔ جو چند دھمکیوں کی تاب نہ لاسکے۔ ۔ دیکھا ہم نے نباہ کیا ۔۔۔۔ ہم نے اُوجھل منز ل کی طرف بھی جرات سے قدم بڑھایا۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔عشق کے دعوے وہ کرتے ہیں جس کے گھر بار نہ ہوں ۔۔ رشتے رکھنے والے عشق سے رشتہ نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔تم عشق کے ماتھے پر بدنامی کا کلنگ ہو ۔۔۔۔۔۔۔تم کلنگ ہو۔۔۔۔۔اور پھر اُسے اُن سسکیوں کی آواز مسلسل سنائی دینے لگی جو گرفتاری کے وقت عظمٰی کے لبوں سے نکلی تھیں۔۔ اُس نے موٹر سائیکل کھڑی کر کے پٹڑیوں کیطرف پیٹھ پھیر دی اور کراسنگ پر کھڑے لوگوں کی طرف منہ پھیر کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میں عاشق ہوں ۔۔۔ لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ اور وہ ہولے ہولے پیچھے کی طرف قدم بڑھاتا ہوا زور زور سے پکار رہا تھا ہاں میں عاشق ہوں۔۔۔۔اور میں اُن تمام رشتوں سے آزاد ہونے جارہا ہوںجو عشق کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔۔۔ میں رشتوں سے آزاد ہونے جارہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔گاڑی مسلسل قریب آرہی تھی لوگ اُنھیں بچانے کے لئے قریب آئے لیکن اُس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی جو اس مادی دنیا کا تمسخر اڑا کر اسے دھتکار رہی تھی۔۔ اور پھر دھڑام سے ریل کی پٹڑی پر گر گیا ۔۔ ریل نے اُسکے جسم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔۔۔۔۔کونسا حصہ عشق کا تھا اور کونسا رشتے کا یہ کسی کو خبر نہ ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 27 Articles with 32395 views I am a realistic and open minded person. .. View More