چالیس مسلح افراد کا گروپ ریگی
للمہ کے علاقے میں سرشام ہی سرکاری گاڑیوں میں گھوم رہا ہے اور کوئی اس کا
نوٹس نہیں لے رہا یہ وہ ایس ایم ایس پیغام ہے جو میرے صحافی دوست نے گذشتہ
دنوں مجھے فارورڈ کیا تھا چونکہ ریگی للمہ کا علاقہ قبائلی علاقے خیبر
ایجنسی سے متصل ہے اسی وجہ سے میں نے بھی اتنی دلچسپی نہیں لی لیکن گذشتہ
دنوں میرے ایک اور صحافی دوست جو کہ مقامی چینل سے وابستہ ہے نے ہائیکورٹ
میں ملاقات کے دوران بتایا کہ اس کی خالہ جو کہ پشتہ خرہ کے علاقے میں
رہائش پذیر ہے نے بتایا ہے کہ ان کے علاقے میں مسلح افراد گھروں میں داخل
ہوکر نہ صرف گھروں کو لوٹتے ہیں بلکہ خواتین کی بے حرمتی بھی کرتے ہیں اسی
دن عدالت عالیہ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے جمعرات کو پولیس افسروں کو
عدالت طلب کیا۔ اور ان سے اس حوالے سے پوچھا لیکن عدالت میں موجود زیادہ تر
ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز نے لاعلمی کا اظہار کیا چیف جسٹس کا کہنا تھا
کہ اس حوالے سے ہیومن رائٹس سیل پشاور ہائیکورٹ کو متعدد شکایات بھی ملی
ہیں عدالت عالیہ میں وکیل نے بھی سیکورٹی کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا
اور کہا کہ وہ اس گروہ کی وجہ سے راتوں کو پہرہ دینے پر مجبور ہیں جس پر
چیف جسٹس نے پولیس اہلکاروں کو خبردار کیا گیا کہ ایسا واقعہ پھر پیش آیا
تو ایس ایچ اوذمہ دار ہوگا۔
پشاور میں چالیس مسلح افراد کی لوٹ مار اور خواتین کی بیحرمتی کے واقعات نے
خوف وہراس طاری کر دیا ہے ۔ بم دھماکوں کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ
خواتین کی بے حرمتی کرنے والے ڈاکوئوں کے گروہ نے نیندیں اڑا دی ہیں جس کی
وجہ سے شہری اپنی حفاظت کرنے پر مجبور ہیں -سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ
پولیس نے عدالت عالیہ میں اس طرح کے کسی بھی قسم کے گروہ کی موجودگی سے
انکار کیا لیکن اس کی خبر پورے پشاور کو ہے لیکن پولیس کو نہیں جو اسی عوام
کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور انہی کے ٹیکسوں سے پل رہی ہیں -میٹرک میں ہمارے
ایک اسلامیات کے استاد تھے ایک دفعہ انہوں نے ہمیں اس کی مثال ایسی دی تھی
کہ اگر آپ کسی گھر کے سربراہ ہیں اور آپ کو اپنے گھر میں ہونیوالے واقعات
کا پتہ نہیں تو یہ یا نااہلی ہے یا پھر تم نے اس سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں
جس کی وجوہات بھی انہوں نے دی کہ آنکھیں اس لئے بند کی جاتی ہے کہ انسان یا
تو کسی کے ڈر کی وجہ سے خاموش رہتا ہے یا پھر اسے کسی قسم کا لالچ دیا جاتا
ہے جس کی وجہ سے انسان آنکھیں بند کرلیتا ہے-کیا عوام پولیس کے ان "
بہادروں" کو اپنے خون پسینے کی کمائی صرف اس لئے دے رہی ہیں کہ گروہ کی
موجودگی کے اطلاع کے باوجود یہ کچھ نہیں کررہی -جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا
تو سارے نااہل ہیں یا پھر "منتھلیوں"کی وجہ سے خاموش ہیں یا پھر ڈرے ہوئے
ہیں-یہ وہ تین وجوہات ہیں جس کا جواب ہماری پولیس ڈیپارٹمنٹ ہی دے سکتی ہیں-
پولیس عدالت عالیہ کے احکامات کا مذاق کس طرح اڑا رہی ہیں اس کا اندازہ اس
بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جمعرات کی دوپہر بارہ بجے چیف جسٹس نے یہ احکامات
جاری کئے جس پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا لیکن اسی رات تین بجے کے قریب
پانچ گاڑیوں میںچالیس چوروں کا یہ ٹولہ جنہوں نے بلٹ پروف پہن رکھے تھے اور
پشتو اور فارسی زبان میں آپس میں بات کررہے تھے حیات آباد کے علاقے فیز
تھری میں دیکھے گئے ہیں ان مسلح افراد کے پاس آٹومیٹک گن بھی ہوتی ہیں اور
گھروں میں گھسنے کیلئے یہ لوگ بندروں کو استعمال کرواتے ہیں بقول ایک عینی
شاہد پانچ گاڑیوں میں آنیوالے افراد کے پاس دو بندر تھے جو انتہائی تربیت
یافتہ لگ رہے تھے اور اس سے لگ رہا تھا کہ یہ لوگ بندروں کو گھروں کے
دروازے کھولنے کیلئے استعمال کرتے ہیں -گاڑیوںمیں مسلح پھرنے والے ان افراد
کے جسامت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ غیر ملکی ہیں کالے کپڑے پہنے ہوئے یہ لوگ
غیر ضروری طور پر کسی سے بات نہیں کرتے -عینی شاہد کے مطابق پانچ گاڑیوں
میں تقریبا چالیس افراد شامل ہیں جن میں سے تین گاڑیوں میں چوکیداری کرتے
ہیں جبکہ دو اپنی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہوتے ہیں-حیرت انگیز طور پر ان
لوگوں نے دو ڈبل کیبن گاڑیوں پر سرخ رنگ کی لائٹ لگائی ہوئی ہیں جس کی وجہ
سے عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی سیکورٹی ایجنسی یا پولیس کے اہلکار ہیں
-حیات آباد میں جمعرات کی رات ایک بجے دکھائی جانیوالی اس گروہ کی آمد سے
قبل مقامی پولیس بھی اس علاقے میں تھی اور انہوں نے شہریوں کو یہ کہہ کر
گھروں کے اندر بھیج دیا تھا کہ اپنی سیکورٹی کا خیال کرو کیونکہ چوریوں کا
خطرہ ہے اور ایک دن پہلے بھی گھروں میں گھسنے کے واقعات ہو چکے ہیں مقامی
پولیس کے ان ہدایات کے بعد عام لوگ تو گھروں میں گھس گئے اور پھر مسلح گروہ
جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ریگی للمہ پشتہ خرہ نوے کلے اور وارسک
روڈ سمیت پشاور کے مختلف علاقوں میں دیکھا گیا تھا اسی رات حیات آباد کے
فیز تھری کے علاقے میں دیکھا گیا لیکن کسی نے اس کا نوٹس تک نہیں
لیا-حالانکہ جس جگہ پر یہ لوگ دیکھے گئے اس سے تقریبا ایک کلومیٹر کے اندر
پولیس کا چیک پوسٹ ہے-یہ مسلح گروہ اپنی گاڑیوں میں موبائل جیمرز لگا کر
پھرتے ہیں جس کے باعث لوگ اگر موبائل استعمال کرکے کسی کو اطلاع بھی دینا
چاہے تو اطلاع نہیں دے پاتے - پہلے اس گروہ نے شہر کے ارد گرد کے علاقوں
میں خوف و ہرا س پھیلا دیا لیکن اب پوش علاقوں میں بھی دیکھا جارہا ہے جبکہ
ان علاقوں میں بھی دیکھا گیا ہے جہاں پر افغان مہاجرین رہائش پذیر ہوں -
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے اس کیس میںصوبائی حکومت سے بھی
رپورٹ طلب کی ہے اور لوگوں کو اپنی شکایات پشاور ہائیکورٹ کے ہیومن رائٹس
سیل کیساتھ جمع کروانے کی بھی ہدایت کی ہے انہوں نے کیس کی سماعت کے دوران
یہ ریمارکس دئیے کہ عدالت عالیہ شہریوں کا تحفظ کریگی اور شہریوں کو اس طرح
نہیں چھوڑا جاسکتاجو عدالت عالیہ کا قابل تحسین اقدام ہے اور شائد " بیلٹ
والی سرکار"کو کچھ " شرم "اور "غیرت" آجائے کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے
ہیں اس میں تو لوگ مالی نقصان تو برداشت کرلیتے ہیں لیکن خواتین کی بے عزتی
اور بے حرمتی کے واقعات کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں اور اگر اس کی روک
تھام نہ کی گئی تو یقینا صورتحال انتہائی ابتر ہوسکتی ہیں کیونکہ اگر
شہریوں کو تحفظ نہیں تو پھر وہ ٹیکس کس چیز کا دیتے ہیں یہ ٹیکس تو انہیں
تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہے اور اگرتحفظ نہیں تو یہ ٹیکس نہیں حکومت کی "بھتہ
خوری"ہے اور بھتہ خوری کی اجازت کوئی بھی شخص نہیں سکتا-کیا ہمارے "حکمران"
طبقے کو اس کا اندازہ ہے- |