لہو لہو میرا بدن

دیکھیں حقیقت بتانا ،حقیقت لکھنا،حقیقت جاننا،حقیقت کی تلاش ،حقیقت کی اشاعت یہ سب کام کیا حقیقت پر مشتمل نہیں؟ ۔یقینا یہ سب حقیقت ہیں ۔تو پھر آئیے میں بھی آپ کو کچھ ماضی کی تلخ حقیقتوں کے جہاں کی سیر کرواتاہوں ۔آج کل ایک موضوع زبانوں پر جاری ہے ۔تبصروں میں موضوع گفتگو ہے ۔عالَم میں اک محشر بپا ہے ۔میں نے تاریخ کو کریدا ،تاریخ کے ورق پلٹے تو مجھے قدم قدم پر خون کے دھبے ملے ۔ورق اُلٹتاگیا۔ہاتھوں کی تحریک منجمد ہونے لگی ۔دل چھلنی چھلنی ہوگیا۔آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوگئے ۔اعصاب پر ایک عجیب ہیجان کی کیفیت طاری ہوگئی ۔ضمیر کی عدالت سے اک پیغام موصول ہوا۔جو پڑھا سچ سچ بتادو۔جو دیکھا سچ سچ سنا دو۔تم حقیقت کی تلاش میں نکلے ہو تو حقیقت یہی ہے ۔اچھا!!!!!یہ سب مجھے سب کے سب کو بتانا ہوگا۔چلو ٹھیک ہے ۔

محترم قارئین :ہم ایسے نہیں اُٹھے ۔ہم جب جب اُٹھے ۔ہمیں یاتو بٹھانے کی سازش ہوئی یا پھر مٹانے کی کوشش ہوئی ۔ہم نے کسی کوبھی کچھ نہیں کہا۔ہمارا ماضی بے داغ ہے ۔ہم نے اگر کہیں احتجاج کیا ۔اگر تلوار اُٹھائی ۔ترکش سے تیر نکال تو وہ حملے میں نہیں اپنے دفاع میں نکالے ۔آؤ میں آپ کو اپنی دکھی داستان سناتاہوں ۔
تمہیں یادہویا نہ یاد ہو
ہمیں یاد ہے وہ ذرہ ذرہ

آنکھ کے پردہ اور دماغ کی تختی پر ثبت وہ حکایتیں وہ واقعات ان مٹ نقوش چھوڑ گئے ۔خون ہی خون ،بکھری لاشیں ۔ہم نے لٹتے بغداد کی کہانیاں بھی پڑھیں۔اندلس کے مسلمانوں کے لٹتے قصے بھی سنے ۔غرناطہ کو ڈوبتے ہوئے بھی دیکھا۔ لیکن آج ایسا ماحول ہے کہ روحوں کو چیرتاماحول ۔۔ہمارے سروں سے بال نوچے گئے ۔۔دھوپ میں رکھاگیا۔۔شہ رگوں کو چیراگیا۔ان میں پٹرول بھر دیاگیا۔۔شبرگان کی جانب جانے والے کنٹینر کہ جس میں امریکی غنڈوں نے انسان پہ انسان بھر دیے اور حبس بہ جا میں ان کوبند کردیا کہ سب کے سب تاج شہادت سر پہ سجائے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے ۔امریکی درندے قہقے لگاتے رہے ۔میرے بھائیوں کو کنٹینر کی حبس میں جب پیاس نے ستایا تو ان امن کے ٹھیکداروں نے خبر نہ لی پیاس سے بلکتے یہ انسان ایک دوسرے کا پسینہ چاٹتے رہے ۔آپ کی روح تڑپ گئی ہوگی ۔جسموں کو آگ دی گئی ۔موصل کی گلیوں میں ابلیس کا رقص تھا۔کوئی دفن کرنے والا بھی نہیںتھا۔اتنی لاشیں کہ اپنے گھروں کے صحن میں لاشیں دفنانی پڑیں ۔یہ ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ فلسطین میں ایک سو بچوں کو ٹینکوں تلے روندھ دیاگیا۔ ۔ہم پر بہت کچوکے لگائے گئے ۔ہم زخموں سے چور تھے ۔گونتاموبے کے چھ بائے چار کے پنجرے میں سردیوں کے موسم میں ہمیں برہنارکھ گیا۔۔ہمارے کلیجے چیرے گئے ۔ہماری ساتھ جبر کی داستانیں رقم کی گئیں ۔بد ر کا میدان ۔شعب ابی طالب کی گھاٹیاں ۔طائف کے بازار ۔یہ قافلہ سخت جاں کربلاکے تپتے صحرا جاپہنچا۔ہم ہنس کر جان دینا جانتے ہیں ۔ہمارا تو یہ طریق رہاہے کہ جو چل کے آسکتے تھے ۔وہ چل کر آئے ۔جو چل نہیں سکتے تھے انھیں ہم اُٹھالائے ۔ہماری تاریخ بڑی روشن ہے۔۔1857کی جنگ عظیم میں کفایت اللہ کافی کو پھندے پہ چڑھایا جانے لگا۔انگریز نے کہامیں یہ کتنا جذباتی مولوی ہے ۔اس کے چہرے پہ بھانکپن دیکھاہے ۔بڑی سرخی دیکھی ہے ۔خلافت عثمانیہ کوتوڑنے کے لیے دشمنوں نے جاسوسی کے جال بچھادیے ۔انگریز ا س صدی میں تو یہ سمجھا کہ مسلمان سیاسی طور پر غیر مستحکم ہیں ۔ان کے سینوں سے روح محمد نکال دی جائے ۔ہم سے پہچان ،عزت چھیننا چاہتاہے ۔اس نے ہمارے بے حس حکمرانوں کے آئینے میں عوام کا چہرہ دیکھا لیکن ۔مغرب سن لو یہ بہت لٹے ۔جب یہ خود لٹنے پہ آئیں تو پھر یہ اپنا سوداکوچہ ا محمد میں کرتے ہیں ۔ناموس رسول پر سب کچھ قربان کرگزرتے ہیں ۔
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نابس ایک جاں دوجہاں فدا

مغرب شب خون ماررہاہے۔طرح طرح کے حیلے بہانے سے اذیت دے رہاہے ۔نہ تنگ کر ہمیں تو کیوں بغاوت پہ اتر آیا ہے تیرے مذہب پر کبھی ہم نے طعن کیا نہیں !تو پھر ۔ہماری حدوں کو پار نہ کرنا۔ تو پیمانہ تمہیں بتائے دیتے ہیں ۔ہم اشارے و کنائے سے بھی اپنے نبی ؐکی شان میں کی جانے والی گستاخی کو برداشت نہیں کرتے ۔ارے تمہیں کیا معلوم ہم اپنے سوہنے ،پیارے نبی ؐ سے کتنی محبت کرتے ہیں ۔ہم تو نعلین نبی کی نوک کو اس دنیا کی بادشاہت سے بڑھ کر جانتے ہیں ۔ہم دیوانے ،شمع رسالت کے پروانے کہکشان کو آپ ؐ کے قدموں کی دھول جانتے ہیں ۔کوچہ نبی کے غلاموں کو بھی اپنا امام جانتے ہیں ہم تو کلیوں کا چٹخنا تبسم رسول کا صدقہ جانتے ہیں ۔ہم تو آفتاب کی آب و تا ب کو بھی صدقہ رسول جانتے ہیں ۔ہمیں جو ملا ۔ہم جیسا ملا۔ہمارے اعزاز واکرام کی سندیں ،ہم اہتمام و انصرام کی محفلیں ،ہمارا سکوں و ہماری راحتیں ہماری نبی کی محبت ؐ ہی میں پنہاں ہیں ۔

محترم قارئین :
مغرب کی یہ بھول ہے کہ ہمارے دلوں سے یہ تپش حب رسول ختم کرسکے ۔ہماری محبتوں کے گلشن کو مٹاسکے ،ہماری عقیدتوں کی کلیوں کو گزند پہنچاسکے ۔لیکن دشمن تو پھر دشمن ہے ۔بھلا وہ ہماری باتیں تھوڑی سنے گا۔وہ تو اپنی حماقیتں کرتاچلاجائے گا۔دل میں لگی آگ کا اظہار کہیں نہ کہیں تو کرے گا۔سینے میں نفرت و بغض کے ڈائینامائٹ کو کہیں تو بلاسٹ کرے گا۔پہلے بھی کرتارہا ۔لیکن اب اس نے طرز بدل لیے جیسا کہ ٣٠ستمبر 1905کو ڈنمارک کے ایک اخبار نے جس کی پیشانی پر اسٹار پر ڈیوڈکا لیبل بناہواہے۔جو کہ یہودیوں کی علامت ہے ۔ اس نے ١٢خاکے جاری کیے۔ ہالینڈ اور دنیا کے دیگر٧٥اخبار اور ٢سو ٹی وی نے ان خاکوں کی تشہیر کی ۔۔پھر جنوری 2006میں ٢٢ممالک کے ٧٥ اخبار نے جاری کیا ۔ہمارے زحم پر نمک پاشی کا کام اٹلی کے وزیر نے خاکوں والی شرٹ پہنی اور قوم کو کہاکہ وہ یہ پہنیں اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح ہوں نے کردیا۔یہ ویسٹ اف گارڈ نے بنائے ۔۔نہتے مسلمانوں نے تعلیمات اسلام کی رو سے امن کی فضاء کو آلودہ ہونے سے بچاتے ہوئے ۔١١سفیر مسلمانوں نے اس وزیر سے ملنے کا کہالیکن اس نے ملنے سے معذرت کی ۔چودہ فروری ڈیلی ٹائمزکو انٹرویودیتے ہوئے اسی وزیر نے اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا: کہ٢٧مسلمانوں کے تنظمیوں کے ١٧ہزار دستخط کے ساتھ ایک یاداشت ڈنمارک کے وزیراعظم کو پیش کرنا چاہا لیکن اس بدبخت نے منع کردیا۔۔پھر ظلم در ظلم یہ کہ یورپ کے اند ر شراب خانے کو کعبہ کی طرز پر تعمیر کیاگیا۔جنرل وُڈ نے گونتاموبے کے جیل کے ٹوائلٹ میں قران کے اور اق تاکہ غیرت مند قیدی مسلمانوں کو اعصابی اذیت دی جائے ۔ان کی روح تڑپ جائے ۔ پھر دنیا بھر میں احتجاج ہوا۔ انھیں دھمک محسوس ہوئی کہ کہیں صلاح الدین ایوبی کے جانشین پھر کہیں یک جاں ہوکر ہمیں دیوار سے نہ لگادیں چنانچہ وقتی طور پر اپنے بعض و عناد کے تیروں کو ترکش میں ڈال دیا،کاروایں قدرے روک دیں۔دوسال کے بعد ٢٠٠٨؁میں پھر ان کمینوں نے یہ خاکے جاری کئیے ۔بلیاں اور کتوں پر تنظیم اور قانوں بنانے والے یہ منافق اور عیاش۔کہاں گئی ان کی انسانیت ،کہاں گئے ان کے حقوق انسانیت کے فلسفے ،کہاں گئے وہ ضابطے و قانوں جن میں بتاتے پھرتے ہیں کہ انسان کی عزت مجروح نہ ہو۔ایک ارب چالیس کروڑ لوگوں کو تنگ کرکے کیا ملتاہے ۔ایک طرف دشمن کی عیاریاں اور دوسری طرف ہماری حالت قابل تشویش کہ دشمن جتنا ہم پر دھاوے بول رہاہے ہم اتنے ہی کاہل سست ،غافل و نادان ہوتے چلے جارہے ہیں۔ہماری تو صبح ہی نہیں ہوتی ۔جب تک دشمن برانڈ چاہے نہ پی لیں ۔عجیب بات ہے ہمارا منہ ہی نہیں دھلتاجب یہیو دی کی فرم میں بنے سوپ کو نہ استعمال نہ کریں ۔پتانہیں کیا چکر ہے ۔چہرے پر ظاہری حسن و مصنوعی نشاط لانے کے لیے اغیار کی بنی کریمیں نہ استعمال نہ کریں نکھار ہی نہیں آتا۔جو قدم آج لڑکھڑا رہے ہیں ۔منزل سے بھٹک رہے ہیں ۔ان بے ترتیب قدموں میں باہر کی کمپنی کی چپل یا شوز نہ پہن لیں قدم ہیں نہیں اُٹھتا۔مسواک کے بجائے نت نئے ٹوتھ برش نہ استعمال کرلیں بتیسی چمکتی ہی نہیں ۔ جب تک ویک اینڈ پہ میکڈونلڈجاکر جیب خالی نہ کرلیں سکون ہی نہیں ملتا۔جب تک کے۔ ایف۔ سی کا چکر نہ لگے کمی سی محسوس ہوتی ہے ۔کچھ معلوم بھی ہے ۔یہ یہودو نصارٰ ی کی مصنوعات فراہم کرنے والی کمپنیاں مشنری کا کام کرتی ہیں ۔درپردہ ان کے اور بہت سے مفادات ہوتے ہیں ۔آہ !ہم نہ سمجھ سکے دشمن عیار کی چال۔تابناک ماضی رکھنے والے اب پڑے ہیں بے حال۔یہ اپنے ہی کرتوتوں کا ہے کمال ۔ایک چھوٹی سی مثال دیتاہوں ۔ہمارے مسلمان فلپس مورس نامی سگریٹ کے کش لگائے نہیں تھکتے ۔لیکن کچھ معلوم ہے یہ کمپنی ٩٦لاکھ ڈالر یہودیوں کودیتی ہے۔

محترم قارئین :
آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ ڈاکٹر جی عجیب باتیں کررہے ہیں یہ عجیب باتیں حقیقت ہیں ۔میں تنقید برائے تنقید نہیں کی ۔بلکہ تصویر کا ایک رخ بتارہاہوں ۔ایسا نہیں کہ سنی سنائی پر کان دھر لیے بلکہ سر کی آنکھوں سے کلیجہ سوز مناظر تکنے کو ملے ۔دوستو!بزرگو!بھائیو!!!!!ایک بات او ربتاتا چلوں کہ دشمن عیار کی چالیں ہمیں پتاچل گئیں ۔میں سمجھتاہوں کہ یہ بھی عقل مندی نہیں کہ انھوں نے یہ کردیا ،انھوں نہ وہ کردیا،انھوں نے فلاں کردیا۔تو اگر کوئی اُٹھ کے پوچھ ہی لے ۔میاں !!!وہ تو کرگئے ۔مسلمانو!!١ تم نے کیا کیا؟؟؟؟۔تمہارے بڑوں نے سائنس کے میدان میں عظیم کارنامے پیش کیے ۔تم اپنی وراثت کا پاس نہ رکھ سکے ،دوسروں نے تمہارا اثاثہ ہتھیا لیا۔تمہاری سستی و کاہلی ،غفلت و بے توجہی ،عیاشی ،غیرذمہ داری نے تمہیں آج اس چوراہے پر لاکھڑا کردیا کہ تمہارے پانی کے گھونٹ سے لیکر بڑی بڑی ایجادات و ضروریاتو سہولیات انہی کی ہیں ۔جنھیں میں اور آپ برا کہتے کہتے نہیں تھکتے ۔ہمیں حل نکالنا ہوگا۔ہمیں خود کفیل ہونا ہوگا۔بیساکھیاں توڑنی ہونگی ۔ہمیں تحقیق کے میدان میں بڑی سرعت کے ساتھ دوڑناہوگا۔ہمیں مسلم امۃ کو یکجاہوکر اقتصادی میدان میں ،تعلیم میدان میں ،سائنسی میدان میں انتھک محنت کرناہوگی۔عالم دنیا سے اعلیٰ پیمانے پر اپنا تشخص منوانا ہوگا۔اپنی طاقت باور کروانا ہوگی ۔اے عشق نبی کا دھم بھرنے والو۔آج ہم کتنے نہتے ہیں کہ ہم ریلیاں نکال کر اپنے ملک میں بھی ٹھیک سے احتجاج ریکارڈ کروانے کی سکت نہیں رکھتے ۔دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لیے تو فی الحال وہ طاقت و قوت جمع کرنا ہوگی۔بات ناموس رسالت کی چلی تھی ۔دیکھو !اپنے دل کی دنیا کو خوفِ خدا و عشق مصطفی کے سبزہ سے شاد رکھنا ۔جس دن یہ قندیل بجھنے لگی ۔جان لینا کہ تمہیں دنیامیں بھی زلت اور آخرت میں کڑا امتحان دینا ہوگا۔انہی پر اکتفاء ۔دشمن کو مات دینی ہے تو ۔۔امید بنو۔۔تعمیر کرو۔۔۔کردار میں ۔۔گفتار میں ۔۔۔اقرار میں ۔۔۔مثال بنو۔۔
بڑھے چلو بڑھے چلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قافلہ یہ کارواں ۔۔۔کامیابیوں و کامرانیوں کا بانکپن۔۔۔۔۔۔حب نبی کا علم لیے بڑھے چلو بڑھے چلو
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544555 views i am scholar.serve the humainbeing... View More