خود اپنی آگ میں جلتے تو کیمیا ہوتے

دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ نے جو نقصان پاکستان کو پہنچایا ہے اتنا دنیا کے کسی ملک کو نہیں پہنچایا اور یہ نقصان کسی ایک پہلو سے نہیں بلکہ کثیر الجہتی ہے یعنی جانی،مالی، معاشی اور حتٰی کہ معاشرتی بھی ۔ معاشرہ جس ذہنی خلفشار سے گزر رہا ہے اس کے اثرات عدم برداشت سے ہی محسوس ہوجاتے ہیں لیکن یہ جنگ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی اور نقصانات اندازے سے باہر ہوتے جارہے ہیں ۔ایک غریب ملک کی معیشت اس بوجھ کو اُٹھانے سے قاصر ہونے کے باوجود اس کے نیچے دبی ہوئی ہے ۔ ایسے میں بجائے اس کے کہ بین الاقوامی برادری اور دہشت گردی کی جنگ کا سب سے بڑا مجرم یعنی امریکہ اس کی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کرتا اس کو مزید دبایا جا رہا ہے اور اس جنگ کو پھیلانے کے یے مجبور کیا جا رہا ہے۔ ہمارے قبائلی علاقے اور اس کے عوام جس کرب سے گزر رہے ہیں اس کا حال ان سے ہی پوچھا جا سکتا ہے کہ چند لوگوں کے کئے کی سزا انہیں کس بیدردی سے دے دی جاتی ہے اور کس طرح گیہوں سے زیادہ گھن پیس دیا جاتا ہے اور اگر بفرضِ محال ڈرون حملوں کو جائز بھی قرار دیا جائے تو کیسے دو دہشت گردوں کے ساتھ نو بے گناہ مار دیے جاتے ہیں اور اعلان کر دیا جاتا ہے کہ ڈرون حملے میں گیارہ دہشت گرد مارے گئے اکثر اِن میں دوچار ماہ یا دو چار سال کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں اور وہ پردہ دار خواتین بھی جنہیں علاج کے لیے بھی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ سب کچھ وزیرستان میں اس باقاعدگی سے ہو رہا ہے کہ اب تو ہم بحیثیت قوم بھی اس کے عادی ہو چکے ہیں اور پاک فوج کو بھی اِن علاقوں میں اس طرح الجھا دیا گیا ہے کہ معاملات طول ہی پکڑتے جا رہے ہیں اور اب معاملات قابو میں ہونے کے باوجود یہ فکر ضرور دامن گیر ہے کہ فوج کے بعد حالات کیا ہونگے اور امریکہ کی فرمائش پر اگر یہی آپریشن شمالی وزیرستان میں شروع کر دیا جائے تو پھر حالات کیا ہونگے ۔ اگر چہ اب تک حکومت اور فوج اس دبائو کو برداشت کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی یہ جملہ کہ ’’پاکستان اس آپریشن کے لیے ضرورت اور وقت کا تعین خود کرے گا‘‘ پریشان کن ضرور ہے اور لوگ سوچتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ حکومت دبائو برداشت نہ کر سکے اور کل ہی وقت آنے کا اعلان کر دیا جائے اور ملک ایک بار پھر دہشت گردی اور دھماکوںسے گونج اٹھے ۔ اور یہ بھی کہ کیا امریکہ اس کے بعد کوئی دوسری فرمائش نہیں کر لے گا ، ایک کے بعد دوسرے علاقے کو ٹارگٹ نہیں کرے گااور کیا حقانی گروپ کے بعد وہ کوئی دوسرا بہانہ نہیںتراشے گا۔ جبکہ اس ساری جنگ کا واحد اور آسان حل صرف اورصرف ایک ہے کہ چونکہ امریکہ حملہ آور ہے اور ادھر آیا ہے لہٰذا وہ واپس چلا جائے کیونکہ ان گروہوں کی جنگ صاف طور سے امریکہ کے خلاف ہے۔ پاکستان بھی ان کی زد میں اس لیے ہے کہ وہ اس جنگ میں امریکہ کا معاون ہے دوسری طرف امریکہ اس پر ہر طرف سے دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ اس کا یہ مطالبہ پورا کردے۔ ابھی حال ہی میں یہ حربہ بھی آزمایا گیا ہے کہ بھارتی میڈیا نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان یہ دبائو برداشت نہ کر سکے گا اور شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کر دے گا یعنی بھارت امریکہ کا نفسیاتی آلہئ کار بن کار دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف وہ اقدامات نہیں کر رہا جو اُسے کرنا چاہیے اور اگر وہ ایسا کرے گا بھی تو یہ عالمی دبائو کے تحت ہوگا جبکہ خود بھارت کم از کم پاکستان کے اندر اِن دہشت گرد انہ کاروائیوں میں ثابت شدہ طور پر ملوث ہے اور افغانستان کے راستے اِن لوگوں تک امداد پہنچانے میں مصروف عمل بھی ہے وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاک فوج کو زیادہ سے زیادہ ملک کے اندر مصروف رکھا جائے ۔لہٰذا یہ اس کے بھی عین مفاد میں ہے کہ پاکستان یہ آپریشن شروع کر دے یوں ایک طرف مشرقی سرحد سے فوج ہٹ کر مغربی علاقوں میں مصروف ہو جائے گی دوسری طرف اسے افغانستان کے راستے مزید مداخلت کا موقع مل جائے گا اورجنگی حالات میں اس کے کارندے کسی مشکل سے دوچار نہ ہونگے ۔ یوں امریکہ اور بھارت باہمی تعاون سے پاکستان میں حالات کو مزید خراب کر سکیں گے۔ یوں وہ قبائل جو پاکستان کی حفاظت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں انہیں پاک فوج کے خلاف لڑا دیا جائے اور جبکہ ابھی پاکستانی حکومت یا فوج نے کسی ایسے آپریشن کا اعلان بھی نہیں کیا عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ڈالے جائیں۔ ایسا کسی حد تک ہوتا نظر بھی آرہا ہے کہ اطلاعات کے مطابق کچھ لوگ اپنا علاقہ چھوڑرہے ہیں یا چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ حکومت پاکستان نے اگر ابھی تک ثابت قدمی دکھائی ہے تو مستقبل میں بھی انہیں ملکی مفاد میں ہی فیصلے کرنے چاہیں۔ اگر چہ اس جنگ کو کچھ لوگ اپنا کہہ رہے ہیں کہ اب تو یہ آگ ہمارے گھر میں لگ چکی ہے لیکن ہم اس گھر آئی یا لائی بلاکو جتنا جلدی ٹال سکیں اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ دس سال سے مسلسل اس پرائی جنگ کو لڑتے لڑتے اب تو قوم کے اعصاب شل ہو چکے ہیں ، دھماکے، قتل و غارت اور دہشت گردی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ترقی کا عمل عملاََ رُکا ہوا ہے اگر کوئی نئی سڑک تک بنتی ہے تو نیٹو کے وزنی کنٹینرز اور ٹریلر اس کو وقت سے بہت پہلے نا قابل استعمال بنا دیتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان ، سوات ، باجوڑ اب اتنے آپریشنز کے بعد ہم کسی اور ایسی کاروائی کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ہمیں نہ صرف دہشت گردی کو اپنے ملک سے ختم کرنا ہے بلکہ اس کے ساتھ بین الاقوامی پروپیگنڈے کا بھی جو اب دینا ہوگا اور اپنے ملک سے اس پرائی جنگ کا خاتمہ بھی کرنا ہوگا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 553646 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.