قیام پاکستان سے قبل صحافت واقعی
صحیح معنوں میں ایک سچے مشن کا درجہ رکھتی تھی جب مولانا ظفر علی خان ،مولانا
محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی جیسے جید عالم و فاضل صحافیوں نے
صحافت کو ایک مقدس مشن کا درجہ عطا فرمایا تھا۔ان کے بعد آنے والے کچھ
صحافی بھی آسمان صحافت پر روشن ستاروں کی طرح جگمگاتے رہے جن کی صحافت
واقعی ایک مشن کا درجہ رکھتی تھی ۔ان میں جناب حمید نظامی مرحوم اور جناب
آغا شورش کاشمیری کے نام بہت اہم سمجھے جا سکتے ہیں ۔ان کے بعد جناب صلاح
الدین مدیر ،،تکبیر ،،کا انداز صحافت بھی مشن کے زمرئے میں آتا ہے ۔اگر
مبالغہ آرائی سے کام نہ لوں تو یہ کہنے میں ،میں حق بجانب ہوں آج کی صحافت
ایک با قاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور مشن کا نام و نشان بھی دور
دور تک نظر نہیں آرہا ۔آج کے دور میں کوئی ایک صحافی یا کوئی ایک بھی اخبار
یا رسالہ ایسا نظر نہیں آتا ہے جو صحافت کو مشن سمجھتا ہو۔حالانکہ جب قیام
پاکستان کی تحریک چل رہی تھی تو اس وقت ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں ایسی
خرابیاں اور برائیاں موجود نہ تھیں جو آج کل ہمیں اپنے معاشرے میں نظر آتی
ہیں ۔صحافت ایک باوقار اور مضبوط اطہار رائے کا زریعہ ہے اور اس کے زریعے
معاشرتی بگاڑ کو درست کرنے کے لیے نہایت اہم اور دور رس کام لیا جا سکتا ہے
مگر بد قسمتی صحافت کے مضبوط ہتھیار کے زریعے سے معاشرتی برائیوں اور
خرابیوں کو ٹھیک کرنے کا کام لیا جاتا ،الٹا صحافت ان برائیوں میں اضافہ کا
موجب بن رہی ہے آج ہم کسی اخبار یا رسالے پہ ایک نظر ڈالتے ہیں تو اس سے
صاف عیاں ہوتا ہے لکھاری سیاسی پارٹی کو صحافت کے زریعے اپ ڈون کر رہا ہے
ہے آپ ٹی چینل نیوز پہ دیکھیں جب تین پارٹیوں کے لوگ مدعو ہونگے تو پروگرام
کرنے والا صحافی کسی نہ کسی پارٹی کا نمایاں ساتھ دئے رہا ہو گا جب ایک
دوسرا صحافی غیر جانب دارنہ انداز میں دیکھ رہا ہو تا ہے اس پہ واضع ہو
جاتا ہے محترم یا محترمہ خود نہیں بول رہی بلکہ ڈالر بول رہے ہیں ۔اخبارات
و نیوز چینل عریانی و فحاشی پہ مبنی اشتہار و عریانی تصاویر کے زریعے
معاشرئے میں بے حیائی کو فروغ دئے رہے ہیں ۔یہاں صحافت آکر فوت ہو جاتی ہے
جب گنگا الٹی بہنا شروع ہو جاتی ہے تو اس صورت حال میں صحافت قطعا کوئی مشن
نہیں بلکہ ایک صنعت کا روپ دھار چکی ہے ۔میرا مقصود یہ نہیں صحافت کو ایک
کاروبار نہیں ہونا چاہیے ۔پیٹ تو تمام زی روح کے ساتھ ہے صحافت کو ایک
کاروبار ہونا چاہیے مگر نوٹ چھاپنے والی مشین ہر گز نہیں ہونا چاہیے ہمارا
سب سے بڑا المیہ یہ ہے ہم بلا تنخواہ روزناموں کی بڑھتی ہوئی بہتات کے ساتھ
منسلک اس انداز سے ہوتے ہیں جیسے ایک اخبار کے مالک سے بھیک مانگ رہے ہیں
اور روزناموں کی بھی اتنی ترقی جلدی ترقی ہو رہی ہے ہر آئے روز ایک نئے
روزنامے نے جنم لیا ہوتا ہے اسی طرح ہم اہل قلم بھی اس انداز سے رکھتے ہیں
جو زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپ کر دئے اور ہماری پارٹی کا مورال بھی اونچا
کرئے ۔جھوٹ ،بے ایمانی اور ریا کاری کا تیل پلا پلا کر ایسی صحافت کو
تندرست و تونہا کر دیا ہے میری بات سے کسی کو اتفاق نہیں 1998میں راقم نے
ایک اخبار کو جوائین کیا تو اس وقت کے ہاکر آج اخباروں کے مالک و ایڈیٹر بن
چکنے کے علاوہ کار بنگلوں کے مالک ہیں جب کہ سچائی پسند کے سر پہ چھت تک
میئسر نہیں اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے جس جس روزنامے کے ساتھ کام
کیا اس نے بہت قلیل وقت میں چھٹی دئے دی چونکہ ابتدا سے جو سوچ و فکر تھی
اسی انداز سے لکھا معاشرئے کے مسائل کو اجاگر کرتا رہا اورخود مسائل کی
گہری دلدل میں پھنس گیا نتیجہ جو کالم لکھا کرتا تھا میرئے کالم کو جگہ ہی
نہیں مل رہی کیا سچ بولنے والے لوگ اس دنیا میں بھوکے سوتے ہیں ۔بات اتنی
سی ہے ہمارئے اندر کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے اور ہمیں سچ بولنے اور لکھنے کی
طاقت و ہمت ہی نہیں ہو رہی ۔ضروت اس امر کی ہے ملک گیر تنظیمیں جو صافت سے
وابست افراد اور اداروں سے منسلک ہیں وہ ضابطہ اخلاق وضع کریں صحت مندانہ
عمل اپنایا جائے اور حقیقی صحافیوں کا حکومت بجٹ رکھے جس سے وہ اپنا اور
اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکیں تاکہ ہمیں اپنی قومی ملکی و سماجی زمہ
داریوں کا بھر پور ادراک کرتے ہوئے معاشرئے کے اندر اپنے بھر پور صحت
مندانہ کردار کو بروئے کار لا کر خود کو دنیا میں قابل عزت و تقویم مقام پہ
فائز ہوں ۔زرد صحافت کو بہ زور قلم رد کر دینا چاہیے ۔
ائے طاہر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔
پچھلے دنوں آن لائن ایک دوست نے غیر ضروری بحث کی حالانکہ وہ خود ایک وزیر
کا میڈیا کوآڈینٹر ہے اور اخبار کا ایڈیٹر بھی مگر اس نے میری جب ہر دلیل
کو رد کیا لیکن وہ کوئی ٹھوس دلائل سے مجھے قائل نہ کر سکا بر حال اس نے
فرار چاہی اسی دوران ان کے بڑے بھائی ہماری بحث میں آگئے اور کہنے لگے
ہماری حیثیت کا شاہد آپ کو علم نہیں ان کی حثیت اس طرح بن گئی انہوں نے
سیاسی اور پارٹی کے موٹے تگڑئے وزیر کو پکڑا اور صاحب حثیت بن گئے لیکن
میری نا لائقی ہے مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکتے میں کاہل ہوں سست ہوں بقول
دوست محنت نہیں کرتا راقم ایسے رزق پہ لعنت بھجتا ہے جو وزیروں کے آستانوں
پہ جبیں ریزی کے بعد میسر آئے۔ |