جشن ولادت مصطفیٰ
بارہ ربیع الاول ‘ مخلوق سے ”محبت ربی“ کے اظہار کا دن
وہ دن جب انسانوں کونارِ جہنم سے بچانے کے لئے رشد و ہدایت کے واسطے اللہ
تعالیٰ نے اپنے حبیب سے جدائی کا صدمہ برداشت کر کے محمد مصطفیٰ کو دنیا
میں مبعوث فرمایا
رب کی رضا و منشا کے مطابق ”صراط مستقیم “ پر چلنے کے عہد کے ذریعے ”عشق
مصطفیٰ “ سے سرشار ہونے کے ثبوت کا دن
آج کا دن ”ابلیس نامراد “ کو صدا نامراد رکھنے کے لئے سیرت طیبہ پر عمل
پیرا رہتے ہوئے اپنے اخلاق و کردار ‘ اعمال و اقوال اور گفتگو و اظہار کو
احکام ربی کے مطابق ڈھالنے کا عہد کا دن ہے
اللہ رب العزت کا یہ کتنا بڑا کرم ‘ عنایت ‘ رحمت اور مہربانی ہے کہ اس نے
انسان کی زبان کو قوت گویائی ‘ آنکھوں کو بصارت ‘ کانوں کو سماعت اور عقل
وشعور کے ساتھ دانائی بھی عطا کرکے اسے نہ صرف معبود ملائک کا شرف بخشا
بلکہ اس کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرماکر اس دارِ فانی میں اسے اپنا
نائب یا خلیفہ بھی مقرر کیا ۔ یہی نہیں بلکہ انسان کو تمام ارضی و سماوی
نعمتوں کا حقدار بنایا اور مخلوق کو اپنی رحمتوں ‘ نعمتوں اور برکتوں کے
نزول کے قابل بنانے کے لئے اس کی اصلاح و رہنمائی کے واسطے اپنے نور کو
دنیا میں مبعوث فرمایا تاکہ انسان رب کی جانب سے اس کے محبوب کے ذریعے
بھیجی جانے والی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اپنے ازلی دشمن ”ابلیس “ کے شر
سے محفوظ رہتے ہوئے اس راہ کا انتخاب کرے جس پر چلتے ہوئے وہ نارِ جہنم سے
محفوظ رہے اور بہشتی نعمتوں و خزانوں کا حقدار قرار پائے ۔
رب کا اپنی مخلوق سے محبت کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ اس نے اپنی
مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لئے عرش معلیٰ سے ارض خاک پر مصطفیٰ کو بھیج
کر محبوب سے جدائی کا صدمہ سہا اور رحمة اللعالمین محمد مصطفیٰ کو دنیا میں
مبعوث کیا کہ انسان سیرت مصطفیٰ کی پیروی کے ذریعے رب تک پہنچنے والا راستہ
تلاش کرسکے اور عشق مصطفیٰ میں ڈوب کر رب کی رضا کا حقدار قرار پائے اور
جسے رب کی رضا کا حصول ہوجائے تو پھر سمجھو کہ اس کی تخلیق کا مقصد پورا
ہوگیا اور رب کی رضا کا احمد مجتبیٰ ‘ محمد مصطفیٰ کی سیرت طیبہ پر صدق دل
سے عمل اور ان کے عشق کو اپنی نس نس اور دل کی ہر دھڑکن میں سمانے سے ہی
حاصل ہوسکتی ہے ۔
اب ذرا سوچئے کہ اگر محبوب خدا ‘ محمد مصطفیٰ دنیا میں تشریف نہ لاتے تو ہم
وہ سیرت طیبہ کہاں سے پاتے جس پر عمل کے ذریعے ہمیں رب کی رضا و خوشنودی
حاصل ہوتی اور انعام میں بہشت کے حقدار قرار پاتے۔ یوں 12ربیع الاول ہمارے
لئے وہ ”سعد “ ترین دن ہے جس دن رب نے ہمیں اپنی نعمتوں ‘ رحمتوں ‘ رضا اور
انعام کا حقدار بنانے والی ہستی کو دنیا میں مبعوث کےاجس کے ثبوت کےلئے
قرآن کریم میں رب رحٰمن و رحیم فرماتا ہے کہ ” ہم نے جملہ انسانوں کےلئے
محمد کو بہتراور نذیر بناکر بھیجا ہے ‘ ان انسانوں کی طرف جو ان کے زمانے
میں موجود تھے اور ان کی طرف بھی جو بعد میں آنے والے تھے “۔ سورة الحشر
آیت نمبر ایک
بارہ ربیع الاول بروز پیر صبح صادق کا وہ وقت جب رب ذوالجلا ل نے اپنی
مخلوق کو نارِ جہنم سے بچانے کے لئے رشد و ہدایت کے واسطے اپنے محبوب ‘
محمد مصطفیٰ کو دنیا میں مبعوث فرمایا نہ صرف محمد مصطفیٰ کے دنیا میں
تشریف لانے کا دن ہے بلکہ وہ دن بھی ہے کہ جب رحمت الٰہی اپنی مخلوق کی
محبت میں اس قدر جوش میں تھی کہ اس نے محمد جیسی اپنی سب سے عزیز و محبوب
ہستی کو خود سے جدا کرکے عرش معلیٰ سے فرش ارض پر بھیجنا گوارا کیا کہ اس
کی مخلوق ”ابلیس جہنمی “ کی صحبت سے محفوظ رہتے ہوئے نارِ جہنم کا ایندھن
بننے کی بجائے ” بہشت “ کی نعمتوں سے لطف اندزو ہو ۔
اس لئے اگر 12ربیع الاول کو ولادت کا دن کہنے کے ساتھ ساتھ رب کے مخلوق سے”
اظہار محبت“ کا دن بھی کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا تو پھر یقیناً وہ دن جب رب
نے اپنی مخلوق سے محبت کا باضابطہ اور علی اعلان اظہار کیا کس قدر تعظیم و
تکریم اور انسان کےلئے کس قدر مسرت و انسباط کا دن ہونا چاہئے کہ ازل سے
ابد تک اب ایسا اظہار دوبارہ کبھی نہیں ہوسکتا اسلئے اس اظہار محبت ربی کے
دن کو جس قدر بھی جوش و جذبے ‘ تعظیم و تکریم اور خوشی ومسرت سے منایا جائے
کم ہے ۔
لیکن صرف خوشیاں اور جشن منانے سے حق بندگی ادا ہوگا نہ عشق محمدی پر پورا
اُترا جاسکے گا بلکہ 12ربیع الاول کو آمدِ مصطفیٰ کا جشن مناتے ہوئے دل کو
تشکر کے جذبات سے لبریز کرکے عشق مصطفیٰ کے سچے شیدائی ہونے کا ثبوت دیتے
ہوئے بارگاہِ ربی میں سر بسجود ہوکر اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ اپنے اعمال
و افعال سے اقوال و الفاظ تک اور گفتگو و کردار سے اخلا ق تک اپنی زندگی کو
مکمل طور پر سیرت طیبہ کے سانچے میں ڈھالا جائے اور سیرت طیبہ پر عمل پیرا
رہتے ہوئے ”ابلیس “ کی ہر سازش کو ناکام بناکر ثابت کردیا جائے کہ ہم ”نارِ
جہنم کا ایندھن“ نہیں بلکہ ”بہشتی خزانوں “ کے وہ ”حقدار“ ہیں جن کےلئے رب
نے آسمانوں سے اپنے نور کو زمین پر مبعوث فرما کر ہدایت و رہنمائی کا سبب
بنایا تاکہ ہم ”گمراہ“ نہ ہونے پائیں اور اس راہ پر چلیں جس پر رب ہمیں
چلتا دیکھنا چاہتا ہے ‘ اس لئے آج کا دن منشائے ربی کے مطابق ”صراط مستقیم
“ پر چلنے کے عہد کا دن ہے کہ یہی ”عشق مصطفیٰ “ سے سرشار ہونے کا ثبوت بھی
ہے اور یہی 12 ربیع الاول کا بہترین عمل بھی |