معجزات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

معجزہ کا لفظ عجز یا عاجزی سے نکلا ہے یعنی ایسی کوئی چیز جس سے عقل عاجز آ جائے۔ یعنی انسانی ذہن اس کی کوئی توجیہہ نہ پیش کر سکے۔معجزہ اللہ کی قدرت کاملہ کا کرشمہ ہوتا ہے اور اللہ اپنے نبیوں کو معجزات عطا کرتا ہے تاکہ منکرین توحید اس سے سبق لیتے ہوئے اللہ پر ایمان لی آئیں لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ انبیاء سے معجزات کا مطالبہ کرنے والے عموماً ہدایت سے محروم ہی رہے ہیں۔قریش مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بارہا معجزات کا مطالبہ کیا۔اللہ نے سب سے پہلے قرآن کریم کو ہی ایک معجزہ قرار دیا کہ اگر یہ قرآن انسانی کتاب ہے اس جیسی ایک آیت ہی بنا کر لاؤ اور آج ساڑھے چودہ سو سال کے بعد بھی کوئی انسان نہ تو ایسی کوئی آیت بنا سکا ہے اور نہ ہی بنا سکے گا۔اس کے علاوہ اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے شمار معجزات عطا فرمائے جن کا احاطہ کرنا اس مضمون میں ممکن نہیں ہوگا اس لیے ہم چند ایک کا ہی ذکر کریں کریں گے اور اس میں ہم شق القمر اور معراج کا ذکر نہیں کریں گے کہ یہ تو ایسے عظیم معجزات ہیں کہ جن سے تمام مسلمان واقف ہیں بلکہ ہم یہاں چند دوسرے معجزات کا ذکر کریں گے۔

درخت کا اپنی جگہ سے چل کر آنا
رکانہ بن عبد یزید قریش کا ایک طاقتور پہلوان تھا اور قریش میں اس سے بڑا کوئی پہلوان نہ تھا ایک دفعہ مکہ کی ایک ویران گھاٹی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس سے سامنا ہوگیا آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی اس نے مطالبہ کیا کہ اگر آپ مجھے کشتی میں ہرا دیں تو میں اسلام قبول کر لونگا۔آپ نے اسے ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ کشتی میں پچھاڑ دیا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ آپ نے مجھے پچھاڑ دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے سامنے اس سے بھی عجیب و غریب چیز پیش کرونگا مگر شرط یہ ہے کہ تم اللہ سے ڈرو،اپنی روش بدلو اور میری پیروی اختیار کرو۔اس نے پوچھا کہ آپ کیا دکھانا چاہتے ہیں ؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس درخت کو اپنے پاس بلاؤنگا اس نے کہا کہ بلاؤ۔آپ نے درخت کو حکم دیا اور وہ درخت اپنی جگہ سے چل کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اس کے بعد آپ نے اسے حکم دیا کہ واپس جائو تو وہ واپس اپنی جگہ چلا گیا۔

کٹے ہوئے بازو کا جڑنا
خبیب بن اساف رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے ایک اور ساتھی کےساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کسی جنگ پر جارہے تھے۔ہم نے عرض کیا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جنگ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا آپ لوگ مسلمان ہوگئے ہیںِ؟ہم نے نفی میں جواب دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہم مشرکین کے مقابلے میں مشرکین کی مدد نہیں چاہتے ہیں پھر ہم نے اسلام قبول کیا اور جنگ میں شریک ہوگئے،دوران جنگ دشمن کے ایک جنگجو نے میرے کندھے پر وار کیا میرا بازو کٹ کر لٹکنے لگا۔میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے میرے بریدہ بازو میں لعاب لگایا اور اسے سی دیا میرا بازو جڑ گیا اور میں بالکل ٹھیک ہوگیا پھر میں نے اس دشمن کو قتل کیا جس نے میرے اوپر وار کرکے مجھے زخمی کیا تھا

گھی کا بھرا ہوا برتن
حضرت انس بن مالک نے اپنی والدہ کا ایک واقعہ بیان کیا کہ ان کی والدہ نے کہا کہ ان کے پاس ایک دودھ دینے والی بکری تھی اس کے دودھ کو بلو کر وہ ایک ڈبے میں گھی جمع کرتی تھیں یہاں تک کہ وہ ڈبہ بھر گیا ان کے پاس ایک لڑکی تھی اس کو حکم دیا کہ یہ گھی کا کپہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے آئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے روٹی کھالیا کریں،وہ لڑکی کپہ لیکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یہ امِ سلیم نے بھیجا ہے،چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو کہا کہ کپہ خالی کرکے لڑکی کو دیدیں ،انہوںنے وہ کپہ خالی کرکے دے دیا اور لڑکی نے کپہ لاکر کھونٹی پر لٹکا دیا۔ام سلیم جو کسی کام سے باہر گئیں تھیں جب واپس آئیں تو لڑکی سے پوچھا کیا میں تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ گھی کا کپہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں دے آئو؟اس نے جواب دیا کہ “ہاں میں گھی دے آئی ہوں “ ام سلیم نے کہا کہ کپے میں سے تو گھی کے قطرے ٹپک رہے ہیں لڑکی نے عرض کیا آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں جاکر تصدیق کرلیں

ام سلیم لڑکی کو ساتھ لیکر نبی پاک کے ہاں گئیں اور ان سے پوچھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی بات کی تصدیق کی۔اس پر ام سلیم نے عرض کیا کہ “اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچائی اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے وہ کپہ تو بھرا پڑا ہے اور اس میں سے لبریز ہونے کے بعد گھی کے قطرے گر رہے ہیں“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “ام سلیم تجھے اس پر کوئی تعجب ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو رزق دیا اس طرح تجھے بھی اپنی رحمت سے بھی رزق عطا فرمادے؟ کھاؤ پیو اور شکر ادا کرو
ام سلیم کہا کرتی تھیں کہ “ اس کپے میں سے ہم نے لوگوں کے گھر پیالے بھر بھر گھی بھیجا اور ہم خود باقی ماندہ گھی سے دو ماہ تک روٹی کھاتے رہے“

لکڑی کا تلوار بننا
عکا شہ بن محصن بدر میں معرکے میں بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے ان کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ گئی وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایک کجھور کی چھڑی عطا فرمائی اور فرمایا “ عکاشہ جا دشمنوں سے لڑ“ حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ نے وہ لکڑی پکڑ کر جھٹکا دیا تو وہ ایک لمبی تلوار بن گئی جس کی دہار تیز اور چمک دار تھی اور اس میں مضبوطی تھی ۔حضرت عکاشہ نے یہ تلوار بدر کے میدان میں خوب استعمال کی۔اس تلوار کا نام العون تھا ۔حضرت عکاشہ کے پاس یہ تلوار ایک مدت تک رہی اور وہ اس کے جوہر جہاد میں دکھاتے رہے۔

زخمی آنکھ کا ٹھیک ہونا
حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ میدان احد میں بڑی بے جگری سے لڑے اور اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے،میدان احد میں حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ زخمی ہوگئی اور اس کی پتلی نکل کر ان کے گال پر لٹکنے لگی حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے وہ پتلی واپس آنکھ میں رکھ دی تو وہ آنکھ بالکل ٹھیک ہوگئی۔یہ آنکھ دوسری آنکھ سے بھی ذیادہ تیز نگاہ اور بہتر تھی۔

بکری کے خشک تھنوں سے دودھ کا جاری ہونا
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں عقبہ بن ابی معیطر کی بکریاں چرایا کرتا تھا ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا آپ نے مجھ سے پوچھا کہ “ اے لڑکے کیا تیرے پاس دودھ ہے؟“ میں نے عرض کیا کہ ہاں دودھ ہے مگر وہ کسی کی امانت ہے میں دینے کا مجاز نہیں ہوں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اچھا تمہارے پاس کوئی ایسی بکری ہے جو کبھی حاملہ نہ ہوئی ہو اور نہ شِیر دار۔، میں نے عرض کیا کہ ہاں ایسی بکری تو ہے پھر میں نے وہ بکری پیش خدمت کردی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تھوڑی دیر سہلاتے رہے اس کے تھنوں میں دودھ اتر آیا ۔آپ نے ایک برتن میں دودھ بھر کر وہ خود بھی پیا اور اپنے ساتھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی پلایا۔پھر آپ نے تھنوں کو حکم دیا خشک ہوجاؤ،چنانچہ وہ خشک ہوگئے۔

گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انجام
ابو لہب کے بیٹے عتیبہ نے ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے حق میں بد دعا کی کہ “ اے اللہ اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو اسپر مسلط کردے “نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بد دعا ایسے پوری ہوئی کہ کچھ عرصے کے بعد عتیبہ اپنے باپ ابو لہب کے ساتھ شام کے تجارتی سفرپر روانہ ہوا ایک جگہ پڑاؤ کیا وہاں ایک گرجا تھا وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ یہاں تو شیر ایسے گھومتے ہیں جیسے اور عام علاقوں میں بکریاں گھومتی ہیں،ابو لہب کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بد دعا یاد تھی اس نے دیگر قافلے والوں سے کہا کہ اس نے ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ) میرے بیٹے کو بد دعا دی ہے جس سے میں سخت فکر مند ہوں پس تم سارا سامان سا گرجا کے صحن میں جمع کردو اور اسکے اوپر میرے بیٹے کا بستر لگا دو پھر اس سامان کے گرد تم سب سوجاؤ“ قافلے والوں نے ایسا ہی کیا رات جب سب سوگئے تو جنگل سےشیر آیا تمام قافلے کے لوگوں کو سونگھا مگر کسی کو کچھ نہیں کہا وہ تو گستاخ رسول کی تلاش میں تھا۔شیر نے پیچھے ہٹ کر ایک اونچی چھلانگ لگائی سامان کے بلند ڈھیر پر چڑھ کر اس نے عتیبہ کے چہرے کو سونگھا اور اسے چیر پھاڑ دیا اور اس کا سر کھول دیا۔ اس واقعے پر ابو لہب کا بڑا برا حال تھا اور وہ کہے جارہا تھا میں جانتا تھا کہ میرا بیٹا محمد کی بد دعا سے کبھی نہیں بچ سکے گا “

ایک یہودیہ کی ناپاک جسارت
فتح خیبر کے بعد جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ اطمنان سے بیٹھے تو ایک یہودیہ زینب بن الحارث نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازش کی اور ایک بکری کا گوشت زہر آلود کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کیا۔اس عورت نے گوشت بھیجنے سے پہلے معلوم کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کون سے حصے کا گوشت زیادہ مرغوب ہے،بتایا گیا کہ دستی کا گوشت زیادہ مرغوب ہے تو اس نے دستی کو بہت زیادہ مسموم کیا اور اس کے بعد وہ گوشت اچھی طرح بھون کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کردیا آپ نے دستی کا گوشت اٹھایا،آپ نے ایک نوالہ منہ میں تو لیا مگر اسے نگلا نہیں بلکہ اسے واپس اگل دیا اور فرمایا کہ اس بکری کی ہڈی مجھے خبر دے رہی ہے کہ اسے زہر آلود کیا گیا ہے۔اس عورت کو بلایا گیا اس نے اقرار کیا کہ اس نے ایسا ہی کیا تھا جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس نے جواب دیا کہ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری قوم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ آپ کے سامنے ہے میرا ارادہ تھا کہ آپ کو اگر آپ عام بادشاہوں کی طرح ہونگے تو اس زہر سے نعوذ باللہ ہلاک ہوجائیں گے اور میںراحت پاؤنگی اور اگر آپ واقعی نبی ہیں تو اللہ آپ کو اس کی خبر دے گا “ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس وقت تو معاف کردیا مگر بعد میں اس زہر کے اثر سے حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قصاص میں اس عورت کو قتل کردیا۔

یہودیوں کی ناپاک سازش
ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک خون بہا کا معاملہ طے کرنے کے لیے قبیلہ بنو نضیر تشریف لے گئے۔یہودیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے آپ تشریف لے آئیے۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے آپ کو ایک بلند دیوار کے سائے میں بٹھایا اور آپس میں ایک سازش تیار کی کہ اس سے اچھا موقع کوئی نہ ہوگا کوئی شخص مکان کی چھت پر چڑھ جائے اور ایک بھاری پتھر پھینک دے تاکہ ہم اس سے نجات پا جائیں نعوذ باللہ۔ سب نے اس رائے کو پسند کیا اور عمرو بن جحاش بن کعب نے کہا کہ میں یہ کام کرونگا اور وہ مکان کی چھت پر چڑھ گیا اور ایک بھاری پتھر گرانے کے لیے تیار ہوگیا اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ دیوار کے سائے میں بیٹھے تھے۔آپ کی مجلس میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ،اور حضرت علی رضی اللہ عنہ،بھی موجود تھے،

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمان سے خبر ملی کہ یہودیوں نے آپ کےخلاف سازش تیار کی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔صحابہ کرام رضی اللہ اجمعین کچھ دیر وہیں بیٹھے رہے مگر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافی دیر تک واپس نہ آئے تو تلاش میں نکلے۔مدینے کی طرف سے آتا ہوا ایک شخص ملا تو صحابہ نے اس سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچ گئے ہیں۔صحابہ بھی مدینہ پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں یہودیوں کی سازش کی اطلاع دی اور اس کے بعد ہی صحابہ کو بنو نضیر سے جنگ کا حکم دیا۔

یہ ہم نے یہاں سینکڑوں معجزات میں سے صرف چند ایک نقل کیے ہیں۔ان کے انتخاب کی ایک خاص وجہ ہے۔اگر آپ شروع کے چھ معجزات کا مطالعہ کریں گے تو وہ معجزات خیر و برکت اور صحت و سلامتی سے متعلق ہیں۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ خیر و برکت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق اور اتباع کے باعث صحابہ کرام کو نصیب ہوتی تھی ۔اگر چہ نبی آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور اللہ کے احکامات پر عمل کریں گے تو ان شاﺀ اللہ ہم بھی ان فیوض اور برکات سے فیض یاب ہونگے۔اور ہمارا معاشرہ بھی پر سکون ہوجائے گا۔

اس کے بعد گستاخ رسول کے حوالے سے معجزہ بیان کرنےکا مقصد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا دراصل اللہ کے محبوب ترین نبی کی کی شان گستاخی کرنا ہے اور یہ اللہ سے دشمنی کے مترادف ہے اور اللہ اپنے محبوب کے گستاخ کو اس کی گستاخی کی سزا اسی دنیا میں دیں گے اور وہ کوئی ڈھکی چھپی سزا نہیں ہوگی بلکہ ان شاﺀ اللہ پوری دنیا اس کو دیکھے گی۔

آخری دو معجزات یہودیوں سے متعلق ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہودی تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی جان کے دشمن تھے اور وہ آپ کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ جس نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے دشمن ہوں اس کی امت کے دوست بن جائیں۔ یاد رکھیں یہود اور نصاریٰ کبھی بھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے ہیں یہ اللہ کا فرمان ہے۔اب ہمارے مسلمان بھائیوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم اس حوالے سے محتاط رہیں۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520050 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More