روشنی کی کرن۔
جب کہ ساری دنیا میں گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ لوگ خدائے واحد کو چھوڑ کر بتوں
کو اپنا خدا مانے ہوئے تھے۔ جب تاریخ ایک انقلابی قوت کی تلاش میں تھی۔ اس
اندھیرے میں روشنی کی ضرورت تھی۔ ایک ایسے ہادئی برحق کی ضرورت جو بھٹکی
ہوئی مخلوق کو راہ راست پر لگائے۔ ایسی حالت میں خدائے برتر و بزرگ نے اپنے
بندوں کو اس تاریکی سے نکالنے کے لئے روشنی کی کرن سے اجالا کیا۔ جس کی
روشنی نے تمام روئے زمین کو منور کر دیا اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے
پیارے نبی کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے، رشد و ہدایت کا
یہ آفتاب ملک عرک کے شہر مکہ میں طلوع ہوا۔ یہ سعادت دنیا کے تمام حصوں میں
سے عرب کے شہر مکہ کے حصہ میں آئی کہ اس پرنور ہستی نے یہاں آنکھ کھولی جس
کے نور سے ساری دنیا روشن ہوئی عرب کے ایک معزز ترین خاندان قریش کی شاخ
بنو ہاشم میں سے حضرت عبداللہ کے گھر بارہ ربیع الاول ٥٧١ (پانچھ سو اکہتر
عیسوی) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ کا نام حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہم اور
والد ماجد کا نام عبداللہ تھا۔ آپکے دادا جنکا نام عبدالمطلب تھا نے اپنے
پوتے کا نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا جس کے معنی تعریف کے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضائی ماں کا نام حلیمہ تھا جنہوں نے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے چند ماہ پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے والد ماجد کا سفر شام سے واپسی میں مدینہ میں انتقال ہو گیا
تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ بھی آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی پیدائش کے چھٹے سال ہی اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کر کے واپسی
پر انتقال فرما گئی تھیں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عمر عزیز
کے چھٹے سال ہی اپنے والدین سے جدا ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا بچپن ایسے ماحول میں گزرا جہاں ہر طرف جہالت کا دور دورہ تھا لیکن آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس دور کی کوئی برائی اثر انداز نہ ہو سکی۔ لوگ
شراب پیتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے پرہیز فرماتے۔ لوگ جھوٹ
بولتے بددیانتی کرتے مگر آپ کو ان چیزوں سے نفرت تھی اس لیے آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم “صادق“ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ غرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا دامن عرب کے ان تمام مفاسد سے پاک رہا اور جب آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے بچپن سے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو عمر عزیز کے اس
حصے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن آلودگیوں سے پاک رہا اور
لوگ آپکو صادق و امین کے نام سے پکارتے رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر عزیز جب چالیس سال کے قریب ہوئی تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گوشہ تنہائی کی طرف مائل ہونے لگے چنانچہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے باہر کوہ حرا کے ایک غار میں پانی اور ستو لے
کر جاتے اسی حالت میں دنیا والوں کے کردار پر غوروفکر کرتے دل میں ایک تلاش
اور جستجو کا جزبہ رہتا۔ بعثت سے سات برس پہلے ایک روشنی اور چمک سی نظر
آنے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں اسی چمک اور روشنی کے
متعلق سوچتے رہتے عبادت کرتے اور جب تک پانی اور ستو ختم نہ جو جاتے شہر
میں نا جایا کرتے۔ جیسے جیسے بعثت کا زمانہ قریب آتا گیا آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی طبعیت میں خلوت گزینی کی عادت بھی بڑھتی گئی اور ایسی ہی ایک
دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نبوت کے درجے پر باقائدہ فائز فرما دیا
گیا چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام غار حرا میں آئے اور حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ “ پڑھ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے تین مرتبہ یہ
فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تینوں بار یہ جواب دیا جسکے بعد
حضرت جبرائیل علہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سینے سے
لگایا اور قرآن پاک کی یہ آیت بڑھی “اقرا باسم ربک الزی خلق“ یعنی “اپنے
پروردگار کا نام لے کر پڑھ جس نے تمہیں پیدا کیا۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل و زبان کے قفل کھول دیے گئے اور
یہ وہ وحی تھی جس کے زریعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ملی۔ اس
کے بعد متواتر وحی آنا شروع ہوئی جس میں توحید اور صفات کمال باری تعالیٰ
کی تعلی تھی، شرک سے اجتناب اور بت پرستی کی خرابیاں بیان کی گئی اور بتایا
گیا کہ خداوند کریم نے اپنے برگزیدہ بندوں کو اسی امر کی تعلیم کے لیے
بھیجا اور ان کے زریعہ سے بندوں کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل فرمائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع میں خفیہ تبلیغ شروع فرمائی اور پھر
اللہ کے حکم سے اعلانیہ تبلیغ کا آغاز فرمایا گیا قریش والوں کی مخالفت
اپنے عروج پر پہنج گئی اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے
ارادوں سے باز رکھنے کے لیے لالچ، ڈراوے غرض ہر طرح سے کوشش کی مگر آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادوں میں کوئی تزلزل نہیں آیا تو اب اب قریش نے
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور اسلام کے جاں نثاروں کو مشق ستم بنانا
شروع کیا کہ شاید جسمانی تکلیف سے گھبرا کر اسلام کی تبلیغ نہ کریں آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، عبادات کرتے وقت گندگی
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر ڈالی گئی اور اپنی ناپاک زبانوں سے
ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئیں۔
مسلمانوں کو تپتی ریت پر گھسیٹا گیا غرض دنیا جہاں کی تکلیفیں دی گئیں کہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچ گوئی اور حق پرستی چھوڑ دیں اور شرک پرستی
اور کفر پرستی کی طرف چلے جائیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دی جانے
والی تکالیف کے باوجود اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے اور بد دعا کی جگہ
دعائیں ہی دیتے رہے۔ چنانچہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی
اور مشرکین کی طرف سے تکالیف میں اضافہ ہوتا گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا اور مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر
گئے جہاں پہنچ کر مسلمانوں کو واقعی سکون ملا مشرکین وہاں بھی پہنچ گئے اور
نجاشی کے دربار میں مسلمانوں کو نکلوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اور واپس
مکہ لوٹ گئے مشرکین۔
ادھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدانان
کو ایک گھاٹی میں تین سال تک محصور رہنا پڑا جو کہ شعب ابی طالب کے نام سے
مشہور ہوئی۔
قریش کی ستم ظریفیوں کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طائف کا سفر کیا
یہاں بھی مشرکین نے اپنے نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم پر مصائب کے دہانے کھول دیے اور بے انتہا تکالیف کے سامان آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا کیے گئے اور بالاخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم مکہ مکرمہ واپس آگئے اور وہیں رہ کر اسلام کو پھیلانے کی جدوجہد میں
مصروف ہو گئے
اللہ کے حکم سے اسلام مکہ سے نکل کر مدینہ میں بھی بھیلا اور آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے تیرھویں سال ہجرت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے۔
ہجرت مدینہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلہ خطبہ جمعہ دیا اور
انصار و مہاجرین کے درمیان ایک ایسا رشتہ اخوت قائم کیا جس کی مثال ملنی
مشکل ہے۔
مشرکین مکہ کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشن ناقابل برداشت
ہو گیا تو انہوں نے مسلمانوں سے کئی جنگیں لڑیں جن میں غزوہ بدر، غزوہ احد
اور غزوہ خندق بڑی اہمیت کی حامل تھیں۔ اور صلح حدیبیہ جو کہ سن ٦ ہجری میں
مسلمانوں اور قریش کے درمیاں ایک تحریری دس سالہ معاہدہ ہوا جسکے بعد
مسلمان نسبتاً اطمینان کے ساتھ اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے مشن میں مصروف
ہوئے چنانچہ قیصر رو کو ، نجاشی کو ، شہنشاہ ایران کو، مصر کے بادشاہ مقوقس
کو اور روسائے عرب کو خطوط روانہ کیے گئے جس میں ان کو اسلام کی دعوت قبول
کرنے کے لیے کہا گہا۔
صلح حدیبیہ جو بظاہر دب کر معلوم ہوتی تھی درحقیقت فتح مکہ کا پیش خیمہ
ثابت ہوئی اور جب بیچ میں آنے والے کئی واقعات و اقدامات کے بعد بالاخر فتح
مکہ سن ٨ ہجری میں مسلمانوں کو نصیب ہوئی یہ دنیا کی واحد فتح ہے جس میں
کوئی باقاعدہ جنگ نہیں کرنی پڑی اور دشمن نے ہتھیار ڈال دیے اور بغیر خون
خرابہ ہوئے مسلمانوں کو اللہ کی رضا سے فتح مکہ نصیب ہوئی
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا میں ہدایت و رشد کے لیے اتنی کوششیں کی
کہ کئی مرتبہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب
کرتے ہوئے (مفہوم) کہا کہ کیا آپ اس سبب سے کہ تمام لوگ مسلمان نہیں ہورہے
کیا اپنی جان دے دیں گے۔
مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت سے اتنی محبت تھی کہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ظاہر ہے بخشے ہوئے تھے اللہ کے پاکیزہ ترین بندے
تھے مگر اپنی امت کے خاطر رات رات بھر اللہ کے حضور کھڑے رہتے اور اپنی امت
کے لیے دعائیں کرتے رہتے اور اللہ عزوجل سے اپنی امت کو معاف کروانے کے لیے
وعدے لیتے رہتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زکر اور درود تو ہم بھی پڑھنے ہیں جیسا کہ
اللہ اپنی آیات قرآنی میں حکم دیتا ہے کہ (ترجمہ) بے شک اللہ اور اس کے
فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے رہتے ہیں اے ایمان
والوں تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے رہو۔
دیکھا آپ نے اللہ اور اس کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود
بھیجتے رہتے ہیں تو کیا ہم جو کہ امتی ہونے کے دعوے دار ہیں ہم سے یہ نہیں
ہو سکتا جب کہ اس کے فوائد بھی ہمیں رٹے ہوئے ہیں کیا خدا نا کرے حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے بھیجے گئے درود و سلام کے محتاج ہیں اور کیا
کم درود و سلام بھیجنے سے (معاز اللہ ) اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
شان میں کوئی کمی لائے گے نہیں میرے پیارے پیارے ایمان والے بھائیوں اور
بہنوں اصل میں درود و سلام بھیجنے میں ہمیں ہی کچھ ملنے کا آسرا ہو گا جب
قیامت میں ہم خالی ہاتھ کھڑے ہونگے اور اللہ کے نام بلند کرنے اور اللہ کے
رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھیجے گئے درود و سلام کے نتیجے میں
ہمارے نامہ اعمال میں اچانک اور حیرت انگیز اضافہ ہو گا جب ہمیں پتہ چلے گا
کہ کاش ہم ساری زندگی ہی یہ کام کرتے رہتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے ایک مثال ہے اور ہمیں اپنے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سی زندگی گزارنے والا بن کر رہنے کی
ضرورت ہے پھر دیکھنا یہ مفلسی، یہ بے چارگی، یہ زلت و رسوائی جو آج
مسلمانوں پر چھا رہی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت و
رشد سے مسلمانوں کی دوری کی بنا پر ہے آج ہم صرف درود و سلام نہ پڑھیں بلکہ
اپنی زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے زریں اصولوں پر
ڈھالنے کی کوشش کریں تاکہ کل قیامت کے دن جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی شفاعت کے طلب گار ہوں تو وہ بھی ہمیں یا امتی کہ کر اپنے سینے
سے لگا سکیں نا کہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم لوگوں سے نظر پھیر
لیں کہ یہ کیا مشرکین جیسے کام کرنے کی ہدایات میں تم کو دے کر گیا تھا۔
اے میرے پیارے پیارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں آج سچے دل سے اللہ کے حضور
توبہ کر لو اور اللہ کے سچے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی
ہوئی ہدایات کے مطابق اپنے اعمال سر انجام دیے لو اسی میں ہماری دنیا اور
آخرت کی بھلائی ہے سمجھ جائو بھائیوں۔
اللہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اور انکی دعاؤں کے
مطابق ہمیں سچا پک مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ایمان کی
حفاظت فرمائے اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور ہمیں حق بات کہنے حق بات
سمجھنے اور حق بات کو پھیلانے والا بنادے آمین آمین
درود شریف پڑھ کر اس کا ثواب سرور دو عالم نور مجسم حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو پہنجانے کی اللہ تعالی سے عاجزانہ دروخواست کرتا یہ گناہ
گار اپنے گناہوں سے شرمندہ ہے اور اللہ سے معافی کا طلبگار ہے۔ |