کام میں کیا رکھا ہے!

ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ بزرگ آخر چاہتے کیا ہیں۔ جب دیکھیے، یہی نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ کوئی کام کرو، کچھ کرکے دِکھاؤ۔ اب اُنہیں کون سمجھائے کہ کچھ نہ کچھ ایسا بھی کرتے رہنا چاہیے جو دوسروں سے ہٹ کر ہو یعنی بہتر ہے کہ کچھ کرنے سے یکسر گریز کیا جائے! اگر سبھی کام کرنے لگیں تو نیا پن کیا ہوگا؟ ایسے میں اگر کوئی جدت کا مظاہرہ کرنا چاہے تو لازم ہے کہ کام نہ کرے، بلکہ کام کرنے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کرے!

کام وہ بلا ہے جس نے کئی نسلوں کو تباہ کیا ہے، زندگی کے مزوں سے محروم کیا ہے۔ یہ سلسلہ بچپن ہی سے شروع ہوتا یا شروع کردیا جاتا ہے۔ بچوں کو اسکول کے زمانے میں پڑھاکو بنانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ بے چارے پڑھاکو بچوں کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ جب اُنہیں کتابوں کے گڑھے میں دھکیلا جاتا ہے تو وہ دُنیا کی کِتنی انوکھی لذّتوں سے محروم ہو جاتے ہیں! آنکھوں پر موٹے عدسوں کی عینک لگاکر دن رات کتابوں میں گم رہنے والے پڑھاکو برخور داروں کو کیا پتہ کہ اسکول سے ٹُلّا مار کر فلم دیکھنے اور پارک پارک، سڑک سڑک گھومنے میں بھی قدرت نے مزا رکّھا ہے!

بہت سے لوگ زندگی بھر محنت کرتے رہتے ہیں مگر کبھی اِس بات پر غور نہیں کرتے کہ محنت نہ کرنے میں کِس قدر لذّت، آرام اور سُکون ہے! زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ اِسے دن رات محنت کرکے بے لذّت بنانے سے گریز کرنا ہی دانش مندی ہے! دنیا میں کام کے علاوہ بھی کرنے کو بہت کچھ ہے! بہتوں کو کام کرنے کا ہَوکا ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ خوف بھی لاحق رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دُنیا کو یہ معلوم ہو جائے کہ اُن کے کام نہ کرنے سے بھی کام چل سکتا ہے!

جو لوگ زندگی بھر کام کرتے رہتے ہیں وہ کبھی درست اندازہ نہیں لگا پاتے کہ خاندانی جھگڑوں میں بھی لطف و سُرور کی ایک دنیا آباد ہے! رُوٹھنے میں بھی ایک مزا ہے اور اِس سے زیادہ مزا اِس بات میں ہے کہ کوئی منائے۔ کچھ لوگ تو کام کو سات سلام کرکے نصف زندگی رُوٹھنے اور باقی نصف زندگی مَننے پر لگا دیتے ہیں! دیکھا، زندگی کیسی آسانی سے گزاری جاسکتی ہے۔ لوگوں نے ایویں ای ہوّا کھڑا کر رکھا ہے! جو لوگ زندگی بھر کام کرتے رہتے ہیں اُن کی زندگی میں برائے نام سُکون دیکھ کر بہتوں نے اپنی روش بدلی ہے اور خاندان پر توجہ دی ہے تاکہ مُنہ پُھلانے اور پُھولے ہوئے مُنہ کی ہوا نکال کر ماحول کو کچھ دیر کے لیے خوشگوار بنانے کا کھیل اچھی طرح کھیل سکیں! یاد رکھیے، قدرت نے ہمارے لیے خاندان کا اہتمام کیا ہی اِس لیے ہے کہ ہم معمول سے ہٹ کر کچھ وقت گزار سکیں۔ جو لوگ خاندان کے مصرف کو سمجھتے ہیں وہ کام کا دورانیہ کم کرکے رشتہ داروں سے کھیلتے ہیں اور کبھی کبھی (دوسروں کے) مُنہ کا ذائقہ بدلنے کی خاطر ذرا سی دیر کے لیے کِھلونا بھی بن جاتے ہیں! ہر وقت کام، کام اور صرف کام کا راگ الاپنے والے رشتوں اور تعلقات کے نام پر دوسروں سے کھیلنے اور کبھی کبھی دِل پشوری کے لیے کھلونا بننے کی بھرپور لذّت سے یکسر نا آشنا رہتے ہیں! افسوس تو اِس بات کا ہے کہ اُنہیں اپنی اِس محرومی کا احساس بھی نہیں ہو پاتا اور کوئی احساس دِلاتا بھی نہیں! اب ہم نے یہ بیڑا اُٹھایا ہے تو ہماری کامیابی کے لیے دُعا کیجیے!

جو لوگ گھوڑوں گدھوں کی طرح ہر وقت ”کام گاڑی“ میں جُتے رہتے ہیں اُنہیں کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ شہر بھر میں چبوترے، بھانکڑے اور چائے کے ہوٹل بھی ہیں جو اُنہی کی سیوا کے لیے ہیں۔ یہ کیا کہ دن بھر کام کیا، شام ڈھلے گھر آئے اور رات ہوتے ہی چادر تان کر سوگئے۔ رات کو ذرا گھر سے نکلیے تو دیکھیے کہ رات کی اپنی ایک دُنیا ہے۔ اِس دُنیا میں بسنے والے گھنٹوں بَتیاتے رہتے ہیں اور فجر کی اذان ہونے پر گھر واپس آکر جو سوتے ہیں تو پھر ظہر کی اذان ہی سے آنکھ کُھلتی ہے! کیا خوب رُوحانی انداز ہے، ایک اذان پر سوئے اور دوسری اذان پر اُٹھے! آپ سوچیں گے ظہر کی اذان پر آنکھ کُھلے تو کام کب کریں گے۔ پھر وہی کام؟ پوری رات چبوتروں، بھانکڑوں اور ہوٹلوں پر بیٹھ کر زمانے بھر کی جو باتیں کی تھیں کیا وہ کام نہ تھا؟ رات بھر جاگنے پر کوئی آپ کو اُلّو کہے تو ہرگز بُرا مت مانیے۔ جس مغربی تہذیب کے ہم سب دیوانے ہیں اُسی مغربی تہذیب میں اُلّو کو دانائی کی علامت سمجھا جاتا ہے!

موبائل فون پر فُل نائٹ پیکج کے تحت گھنٹوں دھیمی دھیمی گفتگو کرنے والے نوجوانوں کو آپ نے دیکھا ہے؟ اُن کے مُنہ پر کِس قدر .... سُکون ہوتا ہے! چہرے پر یہ سُکون اور رونق اُسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب ذہن پر کام کاج کا بوجھ نہ ہو! کام کی زیادتی سے جن کے ذہن انتہائی بوجھل ہوچکے ہیں اُنہیں کیا معلوم کہ رات کی تنہائی میں نئی نسل موبائل پر کائنات کے کِتنے موضوعات کو کِتنی شرح و بسط سے نمٹاتی ہے! اگر کِسی موضوع میں ہمت ہے تو ذرا پتلی گلی سے نکل کر، بچ کر تو دِکھائے!

کام کی دُنیا میں غرق رہنے والے ”مُلّا کی دوڑ مسجد تک“ کے مِصداق گھر سے نکلتے ہیں، دفتر یا فیکٹری پہنچ کر کام کرتے ہیں اور واپس آنے کے بعد کھا، پی کر سو رہتے ہیں۔ نہ سیر سپاٹا، نہ شہر کا رونق میلہ نِہارنے کا اہتمام۔ ایسی زندگی میں رنگینی ہوتی ہے نہ خوشبو۔ یہ کیا کہ لوگ دُور دُور سے بتّیاں دیکھنے شہر آئیں اور آپ شہر کے اندر رہتے ہوئے بھی اِس کی رونقوں پر التفات کی نظر نہ ڈالیں!

اگر معاشرے پر اُچٹتی سی بھی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ کام کاج سے گریز کرنے والے بہت سے لوگوں کو کام کرنے والوں کے باعث شرمندگی اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا اِس لیے ہوتا ہے کہ طعنہ زنی کرتے وقت کام کرنے والوں کو مثال بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ آپ کے کام کرتے رہنے کو مثال کی حیثیت سے پیش کرکے کِسی کی تذلیل کی جائے؟ یقیناً نہیں۔ بس تو پھر مسلسل کام کرتے رہنے کی پالیسی پر نظر ثانی کیجیے تاکہ کِسی کو آپ کے باعث شرمندہ نہ ہونا پڑے!

جو لوگ کام ہی کو زندگی سمجھتے ہیں وہ ذرا اِس نکتے پر غور فرمائیں کہ اگر ہماری ہر حکومت اپنے تمام وعدوں پر عمل کر گزرے تو کیا ہو؟ بعد میں آنے والوں کے لیے کرنے کو کچھ باقی ہی نہ رہے! یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ ہم آنے والی نسلوں کے لیے صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع بھی نہ چھوڑیں! کام کے معاملے میں آپ بھی تھوڑا (اور اگر دِل چاہے تو دِل کھول کر) سرکاری انداز اپنائیے اور پھر دیکھیے کہ آپ دوسروں کو صلاحیتوں کے موثر اظہار کے کِس قدر مواقع فراہم کرتے ہیں! کبھی کبھی کِسی معاملے میں اپنے مسلک و مشرب کے ساتھ ساتھ حکومت کا مُقلّد ہو رہنے میں بھی کوئی قباحت نہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524475 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More