عصر کا وقت تھا میں گھر میں
اکیلا تھا اور حسب عادت اپنے کمرے میں لکھنے پڑھنے میں مصروف تھا۔ گھر کا
کوئی بھی دروازہ مقفل نہیں تھا۔ اچانک گھر کا لوہے کا مین گیٹ زور سے کھلنے
کی آواز آئی اور کچھ شور اٹھا۔ میں فورا ً اُٹھا اور دروازے سے باہر دیکھا۔
درجنوں مسلح کمانڈوز سادہ کپڑوں میں ملبوس پانچ چھ افراد کے ہمراہ بڑی تیز
ی سے گھر میں داخل ہو رہے تھے۔ ایک گروپ تیز ی سے بھاگتا ہوا میری طرف آیا۔
گھر کی خواتین کو کہہ دیں ایک طرف ہو جائیں۔ ”میں گھر میں اکیلا ہوں“۔ یہ
سنتے ہی درجنوں کمانڈوز گھر میں گھس گئے اور تلاشی شروع کر دی۔ اس وقت اُن
سے کچھ پوچھنا ، کچھ کہنا یا انہیں روکنا حماقت تھا۔ میں خاموشی سے تماشہ
دیکھ اور جائزہ لے رہا تھا۔ گھر کے ارد گرد دیواروں پر کمانڈوز تھے۔ گھر کے
باہر گردو نواح کے خالی پلاٹوں میں اُگی جھاڑیوں کے درمیان کمانڈو تھے۔ چھت
پر کمانڈوز تھے۔ سیڑھیوں پر کمانڈوز تھے۔ کمروں میں کمانڈوز تھے۔ غسل خانوں
میں کمانڈوز تھے۔ گھر نامکمل ہے کسی کمرے میں کوئی الماری نہیں صرف سیڑھیوں
کے نیچے والی جگہ کے آگے دروازہ لگا کر اُسے الماری کی شکل دی ہوئی ہے۔
زیادہ تر کمروں کے دروازے نہیں اور آدھے کمروں میں فرنیچر نام کی کوئی چیز
نہیں۔ اس لیے اُنہیں تلاشی لیتے کچھ زیادہ وقت نہیں لگا۔ پورے گھر میں
قالین کا ایک چھوٹا سا ٹکرا ہے اُسے الٹا پلٹا کر دیکھا گیا میری بیٹی اور
بےٹے کے بیڈ روم کے صوفوں کو الٹا گیا اور تلاشی کا عمل مکمل ہونے کے بعد
گفتگو کا مرحلہ شروع ہوا۔
سپریم کورٹ اس وقت کرپشن کے میگا پراجیکٹس کے خلاف جہاد میں مصروف ہے۔
کرپشن اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور کرپٹ افراد اپنے ناجائز اور
حرام پیسے کے زور پر خود کو قانون اور انصاف کی گرفت سے بچانے میں بہت حد
تک کامیاب ہیں۔ ان کرپٹ افراد کو قانون کے شکنجے میں لانا اور انہیں اُن کی
کرپشن کی سزا دینا اس ملک کی بقاءکے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ میرا ہی نہیں ہر
محب وطن پاکستانی کا ایمان ہے اور اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو
سکتی۔
کرپشن کے ان بڑے کیسوں میں ایک کیس اور گرا کا ہے جس کا ایک مرکزی کردار
توقیر صادق اتفاق سے تنویر صادق یعنی میرا سگا چھوٹا بھائی ہے۔ پچھلے کچھ
سالوں سے جب سے مالی قدریں اخلاقی قدروں پر حاوی ہیں۔ خاندانی نظام ٹوٹ
پھوٹ کا شکار ہے۔ ہم سات بہن بھائی ہیں۔ والدین جو بچوں کو ایک لڑی میں
پروئے رکھتے ہیں فوت ہو چکے ہیں۔ اب ہم بہن بھائیوں کے آپس میں تعلقات بھی
عجیب ہیں۔ کچھ کے اچھے ہیں، کچھ کے رسمی اور کچھ کے ناخوشگوار۔ توقیر صادق
کا اپنا ہی مزاج تھا۔ میرے اور اس کے بھائی ہونے کے ناطے تعلقات تو تھے مگر
بڑی رسمی ، ہمارے گھر کا مزاج ہمیشہ ہی سے مذہبی اور اخلاقی قدروں کا حامل
رہا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ توقیر صادق سے تعلقات اچھے ہوں یا برے جب تک
عدالتیں اُسے معصوم قرار نہ دے دیں ہم بہن بھائیوں میں کوئی اُسے سپورٹ
نہیں کر سکتا۔ لوگ مجرم کو گھر سے نکالتے ہیں۔ ہم نے اُسے اُس وقت تک کے
لیے دل سے نکال دیا ہے۔ جب تک وہ خود کو بے گناہ ثابت نہ کر دے ۔گناہگار
ہونے کی وجہ سے کوئی بہن بھائی اُس کا ہمدرد نہیں ہو سکتا ۔ ویسے بھی اُس
کی پروفیشنل زندگی سے کسی کا کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہے۔
میں پچھلے دو سال سے رائے ونڈ روڈ پر چمرو پور گاﺅں کے عقب میں ایڈن پارک
میں رہتا ہوں۔ توقیر صادق مصروفیت کے باعث آج تک میرے گھر نہیں آسکا۔ میں
نے ایم ایس سی قائد اعظم یونیورسٹی سے کی ہے اور خود کو اسلام آباد کا
پرانا باسی سمجھتا ہوں مگر 62سال کی عمر ہے اور سستی ،کاہلی ، مکان کی
مسلسل اور سست تعمیراور کچھ یونیورسٹی میں چند کلاسوں کی وجہ سے اسلام آباد
جانے سے قاصر ہوں۔ استاد کی حیثیت سے میرا کام پڑھنا ، لکھنا اور پڑھانا
ہے۔ میں 38سال سے لاہور کے مختلف کالجوں اور اب پنجاب یونیورسٹی میں پڑھا
رہا ہوں۔ میرے عزیز، میرے دوست اور میرے شاگرد زندگی کے ہر پڑھے لکھے طبقے
میں موجود ہیں۔ کچھ شاگرد جج بھی ہیں۔ شاگردوں میں وکلاءکی ایک بڑی تعداد
ہے۔ اوسطاً ہر سال 500سے زیادہ طلبا کو پڑھاتا ہوں۔ یہ سبھی لوگ میرے مزاج
اور میرے انداز سے واقف ہیں۔ میں نے زندگی بھر اُس راہ کی طرف رخ بھی نہیں
کیا جو ذلت سے ہمکنار ہو اور جس سے عزت پر حرف آئے۔ بہت سے موقعوں پر خسارے
کے باوجود کوشش یہی کی ہے کہ سچ کا دامن ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے۔ میں چودہ
سال سے ایک اخبار سے بھی وابستہ ہوں جس میں میرے ہفتہ وار اوسطاً دو کالم
چھپتے ہیں اس کے علاوہ اکا دکا مضامین بہت سے رسائل میں آتے رہتے ہیں۔ میرا
کالم اور میرے یہ مضمون میری مستقل سوچ کے آئینہ دار ہیں۔
توقیر صادق مفرور ہے اور سپریم کورٹ اُس کی فوری گرفتاری کا خواہاں اور اس
معاملے میں انتہائی سنجیدہ مگر یہ سنجیدہ معاملہ اب سیاسی مسخروں کے ہاتھ
میں چلا گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ توقیر صادق لاہور میں چھپا ہوا ہے اور
پنجاب پولیس تعاون نہیں کر رہی۔ کوئی اُسے گورنر ہاﺅس میں قیام پذیر بتاتا
ہے۔ انٹر نیٹ پر لمبی لمبی کہانیاں ہیں کہ وہ وہاں سے نکلا اور وہاں پہنچا۔
وہاں سے فرار ہوا اور بذریعہ موٹرویز وہاں سے بھاگا۔ موٹر وے پولیس تعاون
نہیں کر رہی۔ مگر یہ سب کہانیاں ہیں۔ فقط جھوٹی کہانیاں۔ پڑھا لکھا سفید
کالر شخص بدمعاش نہیں ہوتا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلقہ کوئی
شخص بازو سے پکڑ کر زور سے دبوچے تو شرمندگی اور بے عزتی کے خوف سے لرزاں
وہ شخص بھاگ ہی نہیں سکتا۔ پکڑنے والے کی نیت ٹھیک ہونا ضرور ی ہے۔
میرے گھر پر چھاپے کے بعد اُس کی غیر ضروری تشہیر کی گئی کہ توقیر صادق کے
بھائی کے فارم ہاﺅس پر چھاپہ مارا گیا۔ مجھے فارم ہاﺅس کے نام سے چڑ ہے۔ اس
سے کوئی اچھا تاثر نہیں ابھرتا۔ میرا گھر ایک خوبصورت مکمل گھر ہے جس میں
میری بیوی او رمیرے بچے میرے ساتھ صاف ستھرے انداز میں رہتے ہیں۔ اُس کی
بلڈنگ بہت نامکمل ہے۔ مگر گھر انسانوں سے بنتے ہیں اور وہ ایک انتہائی اچھا
اور مکمل گھر ہے۔ چھاپے کے دوران متعلقہ افسران سے میری جو گفتگو ہوئی اُسے
سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کےا گےا۔ میں حیران ہوں۔ اپنے مفادات کے لیے
لوگ ایسے بھی کھیل کھیلتے ہیں اور سپریم کورٹ اور چیرمین نیب دونوں کو
دھوکہ دے رہے ہیں۔
میں جناب چیف جسٹس اور چیرمین نیب سے عرض کرتا ہوں کہ آپ لوگ قانون اور
انصاف کے رکھوالے ہیں۔ اس کیس کی پراگریس کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ
کچھ ٹھیک نہیں بلکہ فقط کارکردگی دکھانے کا عمل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر
میری باتوں پر تھوڑا سا غور ہو جائے تو بہت سے لوگوں کی مشکلیں آسان ہو
جائیں گی۔
میر ے خیا ل میں توقیر صادق پاکستان میں موجود ہی نہیں ۔ سپریم کورٹ کے ایک
جج کے بقول توقیر صادق تمام تاریخوں پر باقاعدگی سے حاضر ہوتا رہا ہے۔ اُسے
اس دوران کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ یہ کوتاہی کیوں کی گئی۔ میری
معلومات کے مطابق تمام شریک ملزموں کوباقاعدہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ
اپنا بندوبست کرلیں کہ سپریم کورٹ اپنے احکامات پر عملدرآمد کرانے کے لیے
بہت سخت ہے چنانچہ بااثر ملزمان ملی بھگت سے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب
ہو گئے۔ میرا اےک عزیز سال میں اےک آدھ دفعہ کینیڈا سے خیریت دریافت کرنے
کے لےے فون کرتا ہے وہ ایک ہفتہ پہلے بتا رہا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے توقیر
سے اُس کا رابطہ ہوا تھا۔ اُس نے سعودی عرب یا امارات سے فون کیا تھا۔
صحافتی حوالے سے جاننے والے کچھ لوگ یا میرے شاگرد جو ےورپ میں مقیم ہیں
انہوں نے بتایا کہ آپ کا بھائی ہمیں ملا تھا اور کچھ دن پہلے تک وہ یورپ
میں تھا۔ اُس کے وکیل نے کورٹ میں اُس کی نیو یارک موجودگی کا بتایا۔ یہ سب
باتیں سچ ہو سکتی ہیں مگر اُس کی پاکستان موجودگی بالکل غلط ہے۔ اُس کا نام
ای سی ایل میں تھا۔ تحقیق کی جانی چاہےے کہ وہ کسی طرح اور کن لوگوں کی مدد
سے ملک سے فرار ہوا۔
کارکردگی دکھانے کے لیے میرے اور میرے والد صاحب کے اکاﺅنٹ جولائی میں بلاک
کر دیے گئے۔ میرا اور توقیر صادق کا سوائے بھائی ہونے کے کوئی کاروباری
تعلق نہ ہے۔ جبکہ والد صاحب کو فوت ہوئے تقریباً4 سال ہونے کو ہیں۔اُسوقت
توقیر صادق اور اس کی بیگم کے اکاﺅنٹس کو بلا ک نہیں کیا گیا اور انہیں
موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اپنی تمام رقم نکال لیں۔ یہ بات بھی تحقیق طلب ہے
۔
میرے ایک بھانجے جواد جمیل کو جو میرے حساب میں میرے تمام بھتیجوں اور
بھانجوں میں سب سے معصوم اور سادہ ہے خوامخواہ اس کیس میں رشتہ دار ہونے کی
بنا ءپر گرفتار کیا گےا۔ وہ اوگرا میں ملازم تھا اس کی ملازمت کو چند ماہ
ہوئے تھے اور اس کے پاس کچھ اختیارات بھی نہ تھے۔ عملاً وہ ٹریننگ پر تھا۔
اس کی گرفتاری کا جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی ناراضگی سے
بچنے کے لیے کسی کو تو قابو کرنا ہے۔ کاش چیف جسٹس خود دیکھیں کہ اسے کس
جرم میں جیل میں رکھا جا رہا ہے۔ تو شاید متعلقہ افسروں کی مصنوعی کاریاں
پوری طرح عیاں ہو جائیں۔ اس لیے کہ قانون تو اندھا ہو سکتا ہے انصاف نہیں۔
بڑی عجیب بات ہے کہ چیف جسٹس صاحب کو خوش کرنے کے نام پر ایک نوجوان کا
سارا مستقبل تباہ کیا جا رہا ہے۔ یہ کہاں کا قانون ہے ۔ چیف جسٹس صاحب
توکبھی بھی ایسا نہیں چاہیں گے۔ |