رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ والہ
وسلم سے عشق و محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ بلکہ عین ایمان ہے۔ حضرت انس
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے خود نبی ¿ مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
نے فرمایا ہے کہ ” کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی اولاد
اور والدین اور باقی تمام لوگوں کے مقابلے میں مجھ سے زیادہ محبت نہ کرتا
ہو۔“(بخاری و مسلم)وہ محبت جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت
اور پیروی کرنا نہ سکھائے محض جھوٹ اور نفاق ہے۔ وہ محبت جو رسولِ اکرم صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کی غلامی کے آداب نہ سکھائے وہ محض دکھاوا اور ریا ہے۔
دنیا میں فتنے تو روزِ اوّل سے ہی اٹھتے رہے ہیں لیکن وہ کیسا فتنہ تھا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نجد کیلئے بددعا سے باز رکھا۔ ہمارے
پیارے رسول اللہ ﷺ جو طائف کے بازار میں اسلام مخالف لہروں سے پتھر کھا کر
لہولہان ہوئے مگر ان کےلئے بد دعا نہیں کی بلکہ دعا ہی کرتے رہے کہ اللہ
انہیں ہدایت دے، ان کی نگاہِ نبوت یہ دیکھ رہی تھی کہ آج جو لوگ مجھ پر
پتھر برسا رہے ہیں عنقریب وہ وقت آئے گا کہ یہ سب کے سب حلقہ بگوشِ اسلام
ہوکر مجھ پر اپنی جانیں نچھاور کریں گے آج پتھر برسا رہے ہیں کل پھول
برسائیں گے ۔
طے شدہ بات یہ ہے کہ جو شخص جس سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کو اور اس شخص
(ذات)کی موافقت اور ان کے اتباع کو اپنی ذات پر لازم کر لیتا ہے ۔ اور بغیر
اتباع و اطاعت محبوب وہ اپنے دعویٰ سے محبت میں سچا نہیں۔نبی مکرم صلی اللہ
علیہ والہ وسلم سے محبت کے تقاضے ایسے ہوتے ہیں:
حضور علیہ السلام کی پیروی کی جائے۔ فرنبرداری اور آپ کی سنت پر عمل کیا
جائے۔ تمام اقوال و افعال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کیا جائے۔جن
باتوں سے منع کیا گیا ہے ان سے احتراز (پرہیز) کیا جائے اور ممنوع افعال سے
اعراض کیا جائے۔خوشی و شادمانی، عیش و مسرت اور مصائب و پریشانی ہی نہیں
بلکہ ہر حال میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے نصیحت و موعظت
حاصل کرے۔اور آگے چل کر دیکھئے : اپنی خواہشاتِ نفسی کے مقابلے میں نبی
کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی پیروی کی جائے احکام
شریعت پر عمل کیا جائے اور ہر حال میں ان کو ترجیح بلا مرجیع دی جائے۔کثرت
سے ذکرِ محبوب کیا جائے کیونکہ محب ہر حال میں محبوب کا تذکرہ حرزِ جاں
رکھتا ہے۔جب کثرت سے محبوب کا ذکر ہو تو غایت تعظیم و توقیر بجا لائے، اور
انکساری اختیار کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں صاحبزادیاں جناب حسن و
حسین رضوان اللہ علیھم اجمعین سے اور ان کی اولاد سے انتہائی تعظیم و توقیر
سے پیش آئے۔صحابہ کرام علیھم الرضوان خصوصاً چاروں خلفاءراشدین سے محبت کا
اظہار کرے۔تمام ازواجِ نبوی ﷺسے غایت درجہ محبت رکھے ان کی تعظیم بجا لائے۔
قرآنِ پاک سے محبت کرے اس کی تلاوت بمعہ ترجمہ اپنی سمجھ کے لیے پڑھے اس کے
احکام کو جاننے کی کوشش کرے۔امتِ مسلمہ کے ساتھ شفقت سے پیش آئے
غربآئ،مساکین، یتیموں،اور کمزوروں سے محبت رکھے ان کی خیر خواہی کرے اور
انہیں کلماتِ خیر سے یاد رکھے۔ کیونکہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
بھی امت سے بے حد محبت فرماتے اور مہربان ہیں۔
محبت کا دعوے دار تارک الدنیا ، زاہد صفت ہو اور فقر و فاقہ کا خوگر ہو اور
یادِ محبوب پاک میں ہر لمحہ آنکھیں پُرنم ہوں۔ ورنہ وہ اپنے دعویٰ محبت میں
سچا نہیں۔سورة النور ، آیت نمبر ۲۵ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں اور
اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اس کی نا فرمانی سے بچتے رہتے ہیں تو وہی لوگ
کامیاب ہونے والے ہیں۔ یہاں پر میں حضرتِ علامہ محمد اقبال ؒ کا یہ شعر درج
کرنا چاہوں گا جو واقعتا محبتِ رسول ﷺ کی ترجمانی کرتا ہے۔
اللہ رے خاکِ پاک مدینہ کی آبرو
خورشید بھی گیا تو ادھر سَر کے بَل گیا
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں موجود تھے کہ ملک روم کا ایک
دہقان ان کے پاس آیا۔، آکر کلمہ پڑھنے لگا آپ نے اس سے کلمہ پڑھنے کا سبب
دریافت فرمایا تو اس نے کہا کہ میں اللہ کے لئے اسلام لایا ہوں۔ میں نے کتب
سابقہ (انجیل و تورات وغیرہ) پڑھے ہیں۔ میں نے ایک قیدی سے قرآن کی ایک آیت
سنی، جو تمام کتب سابقہ کی تعلیمات کی جامعہ ہے تب مجھے یقین ہو گیا کہ یہ
اللہ کا کلام ہے ۔مفسرین فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت
کا مفہوم یوں کیا جائے۔ہر سنت پر عمل کو لازم قرار دیا جائے۔اوراحکام کے
آگے سر جھکا دیا جائے۔اس کے علاوہ فرائض کی بجا آوری کی جائے اور سنت پر
عمل کیا جائے۔بعض اہلِ علم نے جن احکام پر عمل کا حکم دیا اس کی تعمیل کی
جائے۔
جبکہ شریعت نے فرمایا علی الاعلان نماز ضائع کرنے والا فاسق و فاجر ہے اس
کی اتباع و اطاعت کرنا منع ہے۔ اس کی کوئی بات قابلِ قبول نہیں اس کی گواہی
(شہادت) قابلِ قبول نہیں۔بھلا ان سے توقع رکھی جائے کہ وہ ناموسِ رسالت کا
تحفظ کریں گے؟ وہ ناموسِ رسالت کے قانون کا نفاذ کریں گے؟ وہ عصمت و عظمتِ
رسول کی پاسداری کریں گے؟حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
سرورِ عالم ﷺنے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے
میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے نائب (خلیفہ
امام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے
میری نافرمانی کی۔ (الشفاءبتعریف حقوق المصطفیٰ، ج: اول ، ص ۸۳)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحبان کو کس قدر عزت و شرف عطا
فرمادیا ہے کہ ان کی اطاعت و نافرمانی کو اپنی اطاعت اور نافرمانی قرار
دیا۔ جبکہ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہوں کے احوال قوم کے
سامنے کھلی کتاب کی طرح ہیں کہ کس دیدہ دلیری سے احکام شریعت کو پامال کیا
جاتا ہے۔ الیکڑونک میڈیا، پرنٹ میڈیا میں سب محفوظ ہو رہا ہے اسی طرح اللہ
کے فرشتے بھی ہیں جو اپنے ریکارڈ میں سب کچھ محفوظ کر رہے ہیں۔
کل روزِ حشر وہاں کیا منہ لے کر جاﺅ گے بارگاہِ الہٰی میں اور بارگاہِ
مصطفیٰ میں ، قانون توہین رسالت پر تبدیلی کی بات کرنا بھی ہمارے نزدیک ایک
ناقابلِ معافی جرم ہے۔ جس کی شریعتِ اسلامیہ میں سزا موجود ہے مگرہمارے
یہاں اس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں جس کا جو جی میں ہو کہتا پھر تا نظر آتا ہے۔
گویا مادر پدر آزادی ہے۔
راقم الحروف علامہ محمد اقبال ؒ کے اس قطعہ کی چند اشعار تحریر کرنے کے بعد
مضمون کو طوالت سے روکنے کی سعی کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ موضوع تو ایسا ہے
کہ اس پر ہزاروں صفحات تحریر کر دیئے جائیں تب بھی یہ موضوع ادھورا ہی لگے
گا کیونکہ حضور اکرم ﷺ کی شان میں لکھتے رہنا اور تحریر کا کبھی ختم نہ
ہونا بھی محبتِ رسول ﷺ کو ظاہر کرتی ہے۔لہٰذا کالم کے لحاظ سے یہ تحریر
مکمل سہی مگرمیرے حساب سے اس پر ہزاروں صفحات بھی جلی حروف میں تحریر ہو
جائے تب بھی موضوع کا خلاصہ ملنا مشکل ہوگا ۔
در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است
آبروئے مازِ نام مصطفیٰ است
بوریا ممنون خواب راحتش
تاج کسریٰ زیرِ پائے اُمتش
در شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید |