چند حیرت انگیز ۔معلوماتی اور سبق آموز واقعات (حصہ اول )

حیرت انگیز معلوماتی اور سبق آموز واقعات
( پہلا حصہ)

محمد یوسف میاں برکاتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
اللہ رب العزت کا بنی نوع انسان ہر اتنا بڑا احسان عظیم ہے کہ اس نے ان کے لیئے بیشمار نعمتوں کا نزول صرف ان کی رہنمائی کے لیئے کیا جس میں سب سے بڑی نعمت اور معجزہ اس رب تعالی کی کتاب یعنی قرآن مجید فرقان حمید ہے جو بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لئے دستورِ حیات ہے، جس کے قوانین و ضوابط انسانی زندگی پر رحمتوں اور مہربانیوں کا ایسا بحرِبیکراں ہے، جس کا احاطہ کرنا اور تمام فیوض و برکات کو تحریر میں لانا انسانی قدرت و طاقت کے بس میں نہیں۔ اس کے موضوعات کی کہکشاں ہروقت، ہرلمحے چمکتی دمکتی رہتی ہے ہر موضوع انسانی زندگی سے اس قدر جڑا ہوا ہے کہ اگر کوئی ان موضوعات کو پڑھ کر سمجھنا چاہے تو یہ مشکل نہیں ہے اسی قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے ساتھ ساتھ اپنی دوسری مخلوقات کا بھی بڑے واضح انداز میں ذکر کیا ہے جن میں جانوروں اور پرندے بھی شامل ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن کی دو سو آیتیں جانوروں کے بارے میں ہیں اور قرآن میں کل چھتیس جانوروں کا ذکر نام کے ساتھ آیا ہے۔ ان میں پرندے، حشرات، جنگلی و پالتو جانور وغیرہ شامل ہیں۔ قرآن کی کچھ سورتوں کے نام بھی جانوروں پر ہیں، جیسے بقرہ (گائے)۔ شہد کی مکھی کے متعلق قرآن میں ہے کہ اس کی طرف اللہ نے وحی کی اور اس کے علاوہ بھی کئی جانوروں ، پرندوں کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کا ذکر ہمیں ملتا ہے ہماری آج کے موضوع پر لکھی گئی اس تحریر میں ہم سب سے پہلے دنیا میں پائے جانے والے سب سے خطرناک اور آسمان پر اڑنے والے پرندوں میں سب سے زیادہ اونچا اڑنے والے پرندے
" عقاب " کے بارے میں کچھ دلچسپ اور حیرت انگیز معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کیا آپ نے کسی ایسی ماں کو دیکھا ہے جو اپنے بچے کو دس ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے پھینک دے ؟ کیا ایسی تربیت کہیں اور کسی جگہ آپ نے دیکھی یا سنی یعنی تربیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے یہ کیسی تربیتی نشست ہے جس میں بچے کی جان جانے کا خدشہ ہو ؟ اگر بچہ ڈر جائے تو ؟ مر جائے تو ؟ لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے کیونکہ جس نے پھینکا ہے وہ نہ صرف اپنے بچے کی صلاحیتوں کو جانتی ہے بلکہ اسے اپنی قابلیت پر بھی مکمل اعتماد ہے یہ ہی معاملہ کچھ عقاب کی مادہ میں ہمیں نظر آتا ہے مادہ عقاب کے بچوں کا جب پرواز سیکھنے کا وقت آتا ہے تو ان کی ماں انہیں اٹھا کر دس ہزار فٹ کی بلندی پر لے کر جاتی ہے اور پھر وہاں سے نیچے پھینک دیتی ہے بچہ نیچے گرنا شروع ہوتا ہے اپنے ننھے پر پھڑپھڑا کر اپنے آپ کو بچانے اور اڑانے کی کوشش کرتا رہتا ہے مگر دس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنا بچوں کا کھیل نہیں دنیا میں صرف ایک ہی پرندہ ہے جو اس بلندی پر اڑتا ہے اور وہ ہے عقاب کسی اور پرندے کی مجال نہیں جو اس کی بلندی کو چھو سکے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ بچہ تیزی سے قریب آتی زمین کو دیکھ کر سہم جاتا ہے اپنے پروں کو اور تیزی سے حرکت دیتا ہے اپنی آخری کوشش کرتا ہے پھر فضا میں اپنی نظریں گھما کر ماں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے مگر ماں کہیں نظر نہیں آتی جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے اڑنا ہے تو بچنا ہے ورنہ مرنا ہے بچہ اپنی انتہائی کوشش جاری رکھتا ہے مگر کامیابی نہیں ہوتی
زمین انتہائی قریب پہنچ جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے زمین سے ٹکرانے اور پاش پاش ہو جانے میں بس کچھ ہی وقت باقی ہے وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے
ایسے میں اسے اپنے بالکل پاس دو بڑے بڑے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے ۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے اسے اپنے محفوظ پنجوں میں دبوچ لیا ہے اب وہ گر نہیں رہا اس کی ماں اسے گرنے سے عین پہلے دوبارہ دبوچ لیتی ہے اور واپس گھونسلے میں پہنچا دیتی ہے لیکن اس بچے کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک بچہ بے خوفی سے اڑنا سیکھ نہیں لیتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مادہ عقاب صرف اپنے بچوں کو اس آزمائش سے نہیں گزارتی بلکہ وہ جیون ساتھی کے انتخاب میں بھی اپنے ساتھی کے ساتھ ملن سے پہلے اس کی صلاحیتوں کو پہلے پرکھتی ہے کسی نر عقاب سے ملن سے پہلے مادہ عقاب ایک پتھر کو انتہائی بلندی سے زمین پر پھینکتی ہے یہ نر عقاب کے لیئے ایک چیلینج ہوتا ہے کہ پکڑ کر دکھائے آہ بخوبی جانتے ہی کہ زمین پر گرتی ہر چیز کی رفتار گریویٹی کی وجہ سے بڑھتی جاتی ہے حد رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی ہو سکتی ہے مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں عقاب کی عمودی پرواز کی رفتار اس سے کہیں زیادہ یعنی 300 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی ہو سکتی ہے نر عقاب اس پتھر کے تعاقب میں زمین کی طرف انتہائی تیز رفتار عمودی پرواز کرتا ہے اور وہ پتھر دبوچ کر لے آتا ہے مادہ یہ عمل صرف ایک بار نہیں دہراتی بلکہ اس وقت تک دہراتی ہے جب تک اس کو اطمینان نہ ہو جائے کہ یہ نر اسے کما کر کھلانے کی صلاحیت رکھتا ہے عقاب ایک انتہائی نڈر اور بہادر پرندہ ہے ڈر کیا ہوتا ہے خوف کس چڑیا کا نام ہے یہ پرندہ جانتا ہی نہیں شکار کرتے وقت اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کا شکار کون ہے کتنا وزنی ہے یا کس کس قسم کی دفاعی ہتھیاروں سے لیس ہے اور اس پرندے کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مردار ہرگز نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کر کے کھاتا ہے اس کی نگاہیں انسان کی نگاہوں سے پانچ گنا زیادہ تیز ہوتی ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کا شکار جب ایک بار اس کی نظروں میں آجاتا ہے تو اس کا بچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے اگر تو وہ زیر زمین چھپنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کے بچنے کے امکانات ہیں ورنہ بھاگنا مسئلے کا حل نہیں کیوں کہ شکار کرتے وقت عقاب کی رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے بڑے جانوروں کے شکار کے لیئے یہ عموماً بلندی سے گرانے کا طریقہ استعمال کرتا ہے اس کی اس اسٹریٹجی سے عموماً مضبوط خول رکھنے والے کچھوے بھی محفوظ نہیں رہتے ۔ یہ انہیں بلندی پر لے جا کر چٹانوں پر پٹخ دیتا ہے جس سے ان کا خول پاش پاش ہو جاتا ہے حیرت کی بات ہی ہے کہ
عموماً جب طوفان کی آمد ہو تو تمام پرندے اپنے لیئے محفوظ مقام تلاش کرتے ہیں مگر یہ طوفانوں سے محبت کرنے والا پرندہ ہے طوفانوں کی تند و تیز ہوائیں اسے مزید بلندی پر بغیر محنت کے اڑنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمہ نے اسی پرندے یعنی عقاب کی شان میں یہ شعر کہا تھا کہ

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

مگر یہ پرندہ بجائے گھبرانے کے طوفانوں سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالی کی یہ شان ہے کہ عقاب کی صلاحیتوں اور خصلتوں کو پڑھ کر سن کر اللہ کی حاکمیت اور اس کی تخلیق پر رشک آتا ہے اور یہ ایک کھلی اور واضح حقیقت ہے کہ یہ پرندہ قدرت کا وہ شاہکار ہے جس سے واقعی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب ہم اللہ رب العزت کی اس کائنات کے بارے غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کائنات کے نظام کو چلانے کے لیئے اپنے بندوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے لیئے کس طرح سے مختلف شعبوں میں مختلف بندوں کو ڈیوٹیاں لگا رکھی ہیں مطلب یہ کہ اگر ہمیں سفر کرنا ہو تو ہمارے لیئے سواری کا انتظام موجود ہے گھر کی تعمیر کروانی ہو تو اچھے سے اچھا کاریگر موجود ہے اگر گھر میں کوئی بجلی کا کام کروانا ہے تو الیکٹریشن کی سہولت موجود ہے اب آپ غور کریں کہ ہر کوئی اپنے اپنے کام میں ماہر ہے لیکن انسان ہونے کے ناطے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے سے بہتر کو دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو کمتر دیکھتے ہوئے پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں جبکہ ہر انسان اپنی جگہ رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے انتخاب پر راضی رہے اور صبر و شکر کے ساتھ اپنی زندگی گزارے تو اسے کبھی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں ایک ایسا ہی واقعہ تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں گا جس میں ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ایک بادشاہ تھا وہ دن بھر ملک کے انتظامی کاموں میں مصروف رہتا تھا کہ اسے آرام کرنے کی لیے بہت ہی کم وقت ملتا تھا بادشاہ ہونے کے باوجود میری زندگی میں خوشیاں نہیں ہے اگر میں خوش نہیں ہوں تو کوئی عام شخص کیسے اپنی زندگی سے خوش ہوگا اس نے سوچا کہ مجھے دیکھنا چاہیے کہ میرے ملک میں وہ کون خوش نصیب ہے جو اپنی زندگی سے مطمئن ہے یہ سوچ کر رات کے وقت اس نے بھیس بدلا اورخوش رہنے والے آدمی کی تلاش میں محل سے روانہ ہو گیا سب سے پہلے وہ ایک سوداگر کے پاس گیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بادشاہ نے اس سے پوچھا، "تم یقینا خوشی اور سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوگے؟" سوداگر نے جواب دیا میرے پاس بہت دولت ہے مگر یہ دولت بھی مجھے سکون نہیں دے سکتی اگر دولت سے خوشی اور سکون ملتا تو میں خریدنے میں دیر نہیں لگاتا جبکہ اس دولت نے میری زندگی اجیرن کردی ہے میرے وارثوں کی نظریں میری جائیداد پر ہیں وہ میرے مرنے کی دعائیں مانگتے ہیں ان کا بس چلے تو وہ اسی دولت کے لیے مجھے جان سے مار دیں اس کے علاوہ آئے دن چوری اور ڈاکے کا دھڑکا لگا رہتا ہے رات دن اسی سوچ میں گھل رہا ہوں میری صحت بھی متاثر ہورہی ہے کاش میں غریب آدمی ہوتا محنت مزدوری کر کے ایک جھونپڑے میں خوشی سے زندگی گزارتا تب مجھے کسی قسم کی فکر نہ ہوتی کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اپنے غریب پڑوسی کی طرح ہوتا کتنا خوش رہتا ہے وہ بادشاہ اس کا جواب سن کر وہاں سے آگے نکل جاتا ہے اور اس کے پڑوسی کے پاس پہنچ جاتا ہے جو ایک مزدور ہوتا ہے بادشاہ نے اس سے پوچھا، "تم اپنے اس حال میں خوش ہو؟"
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پڑوسی بولا، "میں تو اس سخت محنت اور مشقت سے تنگ آ گیا ہوں بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنے پڑوسی سوداگر کی طرح ہر وقت آرام کرتا رہوں اصل زندگی تو یہی ہے ان دونوں کے جواب سن کر بادشاہ پھر پریشان ہوا اور وہاں سے بھی نکل گیااس کے بعد وہ اپنی حکومت کے ایک بڑے افسر سے ملا اسے چند روز پہلے ایک بڑے عہدے پر ترقی دی گئی تھی بادشاہ نے اس سے بھی یہ ہی سوال کیا بادشاہ کے سوال پر وہ بولا میری بدقسمتی ہے کہ میں نے یہ عہدہ قبول کر لیا جو افسر میرے ساتھ پہلے کام کرتے تھے وہ میرے دوست تھے اس عہدے نے انہیں میرا ماتحت بنا دیا ہے اب وہ مجھ سے جلنے لگے ہیں اس عہدے سے جو خوشی ملی تھی، وہ بھی خاک میں مل گئی لگتا ہے خوشی میرے نصیب میں ہے ہی نہیں خوشی اگر دیکھنی ہو تو میرے پڑوس میں موجود درزی کو دیکھ لیں کہ وہ کتنا خوش حال ہے ؟
بادشاہ اس افسر کا جواب سن کر وہاں سے بھی روانہ ہوا اور اس کے پڑوس میں موجود درزی کے پاس پہنچ گیا اور اس سے بولا، "تم تو عیش کرتے ہوگے؟"
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں درزی بولا جناب میں اس کام سے ہرگز خوش نہیں بھلا یہ بھی کوئی کام ہے سارا دن ایک جگہ بیٹھے کپڑے سیتے رہو اس کام سے تو میری جان جاتی ہے مگر کیا کروں مجبوری ہے مجھے اس کام کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا حالانکہ اس کام نے میری خوشیاں چھین لی ہیں اب دیکھیں میرے پڑوسی افسر کو بادشاہ نے اسے بڑا عہدہ دیا ہے اب اسے سکون اور خوشی بھی حاصل ہو گئی اور دولت بھی کاش میں ہی وہ افسر ہوتا بادشاہ درزی کا جواب سن کر پھر دل برداشتہ ہوتا ہے اور وہاں سے چل دیتا ہے پھر وہ شہر کے باہر ایک دیہات کی طرف چل دیا ابھی وہ دیہات میں پہنچا ہی تھا کہ بارش شروع ہو گئی بادشاہ نے ایک جھونپڑے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک بزرگ باہر آئے اور دیکھا کہ کوئی مسافر ہے تو بادشاہ سے بولے اندر آ جاؤ بادشاہ جیسے ہی اندر آیا تو دیکھا کہ اس جھونپڑے کی چھت کئی جگہوں سے ٹپک رہی تھی جہاں سے بارش کا پانی ٹپک رہا تھا وہاں بزرگ نے ٹین کے خالی ڈبے نیچے رکھ دیے تھے پانی ان ڈبوں میں گر رہا تھا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بادشاہ نے اس بزرگ سے کہا کہ معلوم ہوتا ہے تمہاری مالی حالت اچھی نہیں ہے؟ بزرگ بولے ایسی کوئی بات نہیں ہے میں بہت خوش ہوں الله تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ہر چیز دی ہے دیکھ لو یہ میرا صاف ستھرا گھر ہے میرے پاس دو بیل، ایک بکری، پانچ بطخیں اور کچھ مرغیاں ہیں ان سے میں دودھ، انڈے اور گوشت حاصل کرتا ہوں ان کو میں بیچتا ہوں بیل کنواں اور ہل چلانے کے کام آتے ہیں یہ میری تنہائی کے ساتھی ہیں یہاں گھاس بہت ہے ایک تالاب بھی ہے میرے پاس کچھ زمین بھی ہے جس میں میں گندم اور کپاس اگاتا ہوں میرے گھر کے پچھواڑے میں میرا ایک خوبصورت اور چھوٹا باغ بھی ہے اس میں آم، کھجور، کیلے اور مالٹے وغیرہ کے درخت ہیں کنویں سے پانی نکال کر کھیتوں اور باغ کو دیتا ہوں باقی وقت میں جانور چراتا ہوں پھر فرصت میں الله الله کرتا ہوں میں اپنی اس زندگی سے مطمئن ہوں اور اپنے رب تعالیٰ کا شکر ادا کرکے بہت خوشی اور سکون سے زندگی گزار رہا ہوں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بادشاہ اس بزرگ کی بات سن کر بڑا حیران ہوا اس اکیلے بزرگ کی زندگی اور اس کی اتنی محنت اور اس پر اس بزرگ کا اپنی زندگی سے مطمئن ہونا یہ نظارے دیکھ کر بادشاہ حیران ہوگیا اور سوچا کہ خوشیوں کے ساتھ اگر تھوڑی تکلیف بھی ہو تو انسان کو برداشت کر لینی چاہیے بغیر تکلیف اور دکھ کے راحت نصیب نہیں ہوتی مجھے لگتا ہے کہ میں جس شخص کی تلاش میں محل سے نکلا تھا وہ مجھے مل گیا ہے اس بزرگ کی شکل میں اس نے محسوس کیا کہ بارش تھم چکی تھی بادشاہ وہاں سے اٹھا اور اس بزرگ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے نکلا اور بادشاہ اپنے محل میں واپس آگیا اور ایک بار پھر تن دہی سے کام کرنے لگا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے یعنی ہماری اس دنیا میں ہر شخص دوسرے کی زندگی سے متاثر ہوکر اپنے آپ کو بدقسمت اور بد نصیب سمجھنے لگتا ہے جبکہ اللہ تعالٰی کی اپنے بندوں کے لیئے ایک خاص تقسیم ہے کسی کو مال دے کر تو کسی کو غربت میں مبتلا کر کے اس دنیا میں اگر رکھا ہوا ہے تو اس میں اس کی بڑی حکمت پوشیدہ ہے جہاں ہیں جیسے ہیں جس حال میں ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کی منشاء ،حکمت اور مصلحت کے پیش نظر ہے ہمیں ہر حال میں اپنے رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے پھر وہ رب بڑا غفور ورحیم ہے ہمیں وہاں سے عطا کرے گا جہاں سے ہمارا گمان بھی نہ ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ابھی دو واقعات میں ہی ہمارا مضمون کچھ طویل ہوگیا ہے لہذہ مجھے اس کو دوسرے حصے کی طرف لے کر جانا ہوگا کیونکہ ابھی کچھ اور واقعات اس مضمون کا حصہ بنانے کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے جو ان شاءاللہ ہم اس مضمون کے دوسرے حصے میں پڑھیں گے اور اس مضمون کے اس حصے کو ہم یہاں پر ہی روک دیتے ہیں اور اس سلسلے کے مزید واقعات دوسرے حصے میں پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے ان شاءاللہ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اچھی ، نیک اور کچھ سیکھنے والی تحریریں پڑھتے رہنے کی ہمیشہ سعادت بخشے ان تحریروں کو پڑھ کر سمجھ کر اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم مجھے دعاؤں میں خاص خاص یاد رکھیئے ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 186 Articles with 169076 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.