اے وطن کے سجیلے جوانوں

پیر16اپریل کے کشمیر ٹائمز ایڈیشن کے صفحہ آٹھ پر لگی ہوئی ایک تصویر ہے جس میں ننھی سی معصوم صورت بچی کنزہ کے اپنے باپ کی سلامتی کےلئے دعا کےلئے اُٹھے ننھے ہاتھوں نے مجھ سمیت بہت سی آنکھوں کو نم کردیا یقینا اٹھمقام کی ننھی کم سن کنزہ کے دعا کے لئے اُٹھے ہاتھوں کے ساتھ پوری قوم کے ہاتھ دعا کے لئے بلند ہیں جو کنزہ کے سپاہی باپ ذوالقرنین کی سلامتی کےلئے دعاگو ہیں لیکن اس بات میں بھی سچائی پوشیدہ ہے کہ ”گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہوتی ہے“ اوریہ بات پاکستانی افواج پر صد فیصد پورا اُترتی ہے۔

پاک فوج کے جوانوں کے سینوں میں قوت ایمانی کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے اور جذبہ شوق شہادت ہمہ وقت ہر لحظہ موجزن رہتا ہے اسی حوالے سے شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی فرمایا کہ
شہادت ہے مطلوب مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

پاک فوج کا ہر ہر جوان سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے مادرِ وطن کی حفاظت ان کا فرض اولین اور دین سے محبت ان کی گھٹی میں شامل ہوتا ہے۔

سات اپریل کی صبح سیاچن کوہ ہمالیہ اور قراقرم کے بلند و بالا اعصاب شکن برفانی علاقے میں انسان اور فطرت کے درمیان جاری ناقابل یقین اور ماورائے عقل و فہم مسابقت میں فطرت اور برف پوش چٹانوں کی سنگینیوں نے پاک فوج کے 139افسروں اور جوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ان جوانوں میں سے 36تعلق آزاد کشمیر سے جبکہ باقی گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔

گیاری سیکٹر کے برف پوش پہاڑوں کی اونچائی تقریباً تیرہ ہزار فٹ سے بھی زیادہ ہے جبکہ گرد و نواح میں دور دو تک کسی ذی روح کا گزر نہیں ہوتا سرد موسم برفانی صحرا اور مسلسل ہوتی برف باری کے دوران یہاں ریسکیو آپریشن کوئی آسان بات نہیں لیکن پاک فوج کے آہنی عزائم بلند ہیں وہ موسموں کی شدت اور دشمنوں کی حدت سے گھبرانےوالے نہیں ہیں ہاں یہ ضروری ہے کہ اس اندوہناک واقعے کی وجہ سے پوری قوم کو ایک بار پھر اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہورہا ہے کہ وطن کے یہ محافظ ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہماری فوج کے جوان عزم و ہمت کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں اور یہ اپنے ملک و قوم اور مادر وطن کی حفاظت کےلئے جان نثار کردینے کی ولولہ انگیز داستانیں رقم کرتے رہیں گے بیس ہزار فٹ بلند ترین برفانی چوٹیوں پر نقطہ انجماد سے بھی کئی گناکم درجہ حرارت پر جہاں سانسیں خون اور ولولے تک جم جاتے ہیں وہاں ہمارے جوان جس ہمت حوصلے اور جذبے کے ساتھ جاتے ہیں اس ایمانی جذبے اور طاقت سے دشمنوں کے ایوان لرزتے ہیں یہ قوت ایمانی کا جوش ہی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی شہادت پائے تو ان شہیدوں کے لواحقین ان کے جوان لاشے وصول کرتے وقت آنسو نہیں بہاتے بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں سر اُٹھا کر کہتے ہیں کہ وہ شہید کی ماں ہے شہید کا باپ ہے شہید کی بہن اور بھائی ہے شہید کا بیٹا ہے شہید کی بیوہ اور اس کا پیار ہے یہ وطن سے محبت اور ایمانی جذبہ کی ہی طاقت ہے جو کہ ایسے ماورائے قل و فہم کام کا خاکی بشر سے کرواتی ہے سانحہ گیاری سیاچن کے المناک واقعے میں برفانی تودے تلے دبنے والے سو سو سے زائد جوانوں میں آزاد کشمیر سے تعلق رھکنے والے چھتیس جوانوں کا تعلق مظفرآباد باغ بھمبر راولا کوٹ اور نیلم سے ہے سیاچن میں گیاری سیکٹر کے سانحہ کے بعد آزاد کشمیر سے کراچی تک پوری پاکستان کے عوام کے ہاتھ ان کے لئے دعا کررہے ہیں بے شک شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات جاودانی ہوتی ہے اور خاک وطن کا ذرہ ذرہ ہوائیں فضائیں اور گھٹایں تک ان کو سلام پیش کرتی ہیں جو مادرِ وطن اور خاک وطن کی سلامتی کےلئے صرف زبانی کلامی دعوے نہیں کرتے بلکہ علمی طور پر بھی اپنا تن من اور دھن داﺅ پر لگا دیتے ہیں یہ جذبہ شوق شہادت اور قوت ایمانی ہی ہے جو نقطہ انجماد سے بھی کم درجہ حرارت پر میلوں برفانی صحراﺅں کے درمیان بھی اپنی آنچ سے جوانوں کے دلوں کو گرماتا ہے اور جذبوں کو اُبھارتا ہے۔ یقینا ایسے ہی شوق شہادت سے معمور جوانوں کے لئے شاعر نے کہا ہے کہ
اے راہ حق کے شہیدو
وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
چلے جو ہوکے شہادت کا جام پی کر تم
رسولِ پاک نے بانہوں میں لے لیا ہوگا
علی تمہاری شجاعت پر جھومتے ہوں گے
حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا
وطن کی بیٹیاں مائیں سلام کہتی ہیں
اے راہ حق کے شہید۔۔۔۔

اللہ ہی ہے جو موسیٰ کو فرعون کے گھر پہنچاتا ہے جو آتش نمرود کو گل و گلزار بنا دیتا ہے مچھلی کے پیٹ سے حضرت یونس کو ایسے نکالتا ہے جیسے وہ کبھی اس میں گئے ہی نہ ہوں کوئی معجزہ آج بھی رونما ہوسکتا ہے گیاری سیکٹر میں برف کے ملبے تلے دبنے کے واقعے کے بعد بہت سے ذہنوں میں دو سال پہلے ہونے والا چلی کے کان کنوں کا کان میں ملبے تلے دبے رہنے کا واقعہ دہرانے لگے جہاں چار سو میٹر کی گہرائی میں دب جانے والے لوگوں کی خبر بریکنگ نیوز بن کر ساری دنیا میں گشت کرنے لگی تھی اور اسی دوران ان لوگوں تک کس طرح ڈرل کرکے آکسیجن خوراک اور زندگی کی رمق پہنچانے کے عمل میں پورے ملک کے عوام کی نیندیں حرام ہوگئیں تھیں ہر چینل چوبیس گھنٹے براہ راست امدادی کارروائیاں نشر کررہا تھا دنیا میں پہلی بار اپنی طرز کا انوکھا کیپسول لفٹ تیار کیا گیا تھا ساتھ ہی ڈرل کئے گئے سوراخوں سے انہیں ضروری ادویات اور خوراک کے ساتھ نفسیاتی کمک بھی پہنچائی جاتی رہی تھی تاکہ کان کن مایوسی کے چنگل میں نہ پھنسیں اور اُمید کا دامن تھامے رہیں نیت نیک اور ارادے اٹل ہوں تو کامیابی ضرور قدم چومتی ہے اور پھر ساری دنیا نے ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دیکھا کہ کس طرح 69دنوں کے بعد ان تمام لوگوں کو ایک ایک کرکے بذریعہ کیپسول لفٹ زندہ سلامت چار سو میٹر کی اندھیری گہرائیوں سے باہر نکال لیا گیا آفرین ہے ان لوگوں پر جنہوں نے اس مشکل حالات میں اپنے ہوش و حواس قائم رکھے اور مشکلوں کا سامنا بہادری سے کیا کیپسول لفٹ کے ذریعہ باہر نکلنے والے ان تمام افراد کا استقبال ان کے گھر والوں اور اہل خانہ سمیت چلی کے صدر نے بذات خود کیا جو خود اپنی مثال آپ اور باعث تقلید ہے اس وقت جس خوش نصیبی نے ان کے قدم چومے تھے ہوسکتا ہے وہ خوش قسمتی آج ہماری منتظر ہوگیاری سیکٹر کے سانحے کے متاثرین کے لواحقین تمام تر مایوس کن زمینی حقائق کے باوجود آس اور اُمید کا دامن ابھی بھی تھامے ہوئے ہیں محمد سچاجد حسین کی ماں ابھی بھی اُمید و پیہم میں ہے کہ اس کا بیٹا پیچھے سے آکر اس کی آنکھیں بند کرے گا اور کہے گا ماں پہچانو میں آگیا ہوں اٹھمقام کی ننھی کنزہ کے معصوم ہاتھ داﺅں کے لئے اُٹھے ہوئے ہیں وہ اپنے سپاہی باپ ذوالقرنین کی سلامتی کےلئے دعاگو ہے جو سیاچن میں برف تلے دبے ہوئے ہیں ساتھ ہی پورے پاکستان کے ہر ہر فرد کا ہاتھ ننھی کنزہ کے ہاتھوں کے ساتھ سر بلند ہیں اور دعاگو ہیں کہ شاید کوئی معجزہ اس دور میں بھی رونما ہوجائے اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ چلی کے صدر کی طرح پاکستان کے صدر بھی اپنے جوانوں اور فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ایک قدم آگے بڑھائیں اور وہاں تک جائیں جہاں ریسکیو ٹیمیں جانفشانی کے ساتھ لگی ہوئی ہیں ان جوانوں کے والدین اور عزیز اقارب کے ساتھ پوری قوم ان کے لئے دعا گو ہے۔ برف تلے دبے ایک فوجی جوان کے باپ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ میرا بیٹا دفاعِ وطن کے لئے پاک فوج میں بھرتی ہوا تھا مادرِ وطن کی حفاظت کی خاطر اگر ژمیرا بیٹا شہید بھی ہوجاتا ہے تو یہ میرے لئے اعزاز اور فخر کی بات ہے قوم کا بچہ بچہ اور ہر ہر فرد اپنے جوانوں کے لئے یہی جذبات رکھتا ہے اور امدادی کاموں اور ریسکیو کی کامیابی کےلئے دعا گو ہے۔
ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم
پاکستانی فوج کے جوان ہیں ہم
Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 45433 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.