شام کی ٹمٹماتی روشنی تاریکی کا
روپ دھارنے والی تھی دو وقت مل رہے تھے کہتے ہیں ایسے وقت میں دل بناءکسی
وجہ کے اُداس ہو جایا کرتے ہیں اِسی اُداس سی شام میں سوات (مینگورہ) کے
ایک گھر کے صحن میں چار طالبات سر جوڑے بیٹھی ہیں یہ روز یہاں شام کے وقت
جمع ہوتی تھیں اور خوب باتیں کیا کرتی تھیں روشن مستقبل کے خواب بُنا کرتی
تھیں مگر آج اُن کی جگمگاتی آنکھوں میں اُمید کی کرن کے بجائے افسردگی کی
شمع روشن ہے اِن میں سے ایک تو باقاعدہ آنسو بھی بہا رہی ہے باقیوں کے دل
بھی صدمے سے چُور اور غم سے سے نڈھال ہیں اِن کے غمزدہ چہرے اُن کے اندرونی
کرب کا اظہار کررہے ہیں کہ کل تک اِسی آنگن میں اُن کے ساتھ اُن کی تین
انتہائی گہری سہیلیاں ملالہ کائنات اور شازیہ بھی یہاں سرجوڑے بیٹھی ہوا
کرتی تھیں بات بات پر معصومانہ قہقہے لگائے جاتے تھے مستقبل کے سہانے سپنے
بُنے جاتے تھے تعلیم اور حقوقِ نسواں کی بات کی جاتی تھی ہر سوچ اور خواہش
مثبت راہ پر گامزن تھی ہر آنکھ میں بے ضرر سی خواہشات ٹمٹمارہی تھیں اِن سب
کو جینے کی آرزو تھی آگے بڑھنے کی تمنا تھی اور تعلیم کے حصول کی لگن تھی
اُن کا ایک ہی مشترکہ خواب تھا اسکول جاناہے اور تعلیم حاصل کرنی ہے اور اس
مقصد کے حصول کے لئے وہ سب طالبات جدوجہد کررہی تھیں حالات کتنے ہی خراب
ہوئے رات رات بھر فائرنگ ہوتی رہی طالبان کے خوف و ہراس کے شکنجے میں جکڑے
ہونے کے باوجود وہ سب اسکول جاتی رہیں اُن کی کتابیں جلائی جاتی رہیں اور
وہ اِسی الاﺅ کی روشنی میں تعلیم حاصل کرتی رہیں اُن کے اسکول مسمار کئے
جاتے رہے اور وہ اِسی کے ملبے پر بیٹھ کر ”اقرا“ کا درس لیتی رہیں اُن کے
بستے چھین لئے گئے تو وہ دوپٹوں میں چھپا کر کتابیں لے جانے لگیں اُن کے
ہاتھ سے قلم چھینے گئے تو انہوں نے سرکنڈوں کی ٹہنیوں سے قلم بنا لئے خوف
حد سے بڑھا تو یونیفارم کی جگہ گھر کے کپڑوں میں اسکول جانے لگیں راہیں
دشوار سے دشوار ترین ہوتی چلی گئیں لیکن اِن معصوم کلیوں نے پانی کے دھارے
کی طرح اپنی راہیں خود متعین کرنا شروع کردیں وہ ہر حال اور ہر مشکل دور
میں خوف کی انتہاﺅں پر پہنچ کربھی ترکِ حصول علم کی خاطر بچھائے گئے
انگاروں پر چلتی رہیں اور شعور کی منزلوں کی طرف قدم بڑھاتی رہیں اور ان
پاک سیرت اور فرشتہ صورت بچیویں میں سے ایک اُٹھ کھڑی ہوئی اُس نے اپنے
جائز حقوق کے لئے آواز بلند کی اِس وقت تک خوف کے سائے اتنے گہرے ہوگئے تھے
کہ وہ اپنا نام تک ظاہر کردینے کی صلاحیت نہ رکھتی تھیں طالبان کے زیرِ
تسلط علاقے میں رہنے کی وجہ سے اِن تمام لڑکیوں کے خوف کا یہ عالم تھا کہ
اِن میں سے ہر ایک اپنے سائے سے بھی خوفزدہ رہتا تھا دل میں حصولِ علم کی
آرزو رکھنے والی اس بچی نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے ایک فرضی نام سے اپنے
دل کی آرزوئیں خواہشات اور خواب دنیا کے آگے لانا شروع کردیئے دراصل یہ اُس
ننھی بچی کے دن بھر کا روزنامچہ ہوا کرتا تھا اُس کی اپنی پرسنل ڈائری جو
وہ روزآنہ لکھا کرتی تھی اُس نے منظرِعام پر لانے کا ارادہ کیا اور اِس کو
بی بی سی اُردو ڈاٹ کام کے وسیلے سے طشت از بام کیا کیونکہ یہ ایک ننھے دل
کی سچی مثبت اور نیک آرزو تھی جو دل کی گہرائیوں سے نکلی تھی پَر نہیں
رکھتی تھی مگر طاقت ِ پرواز ضرور رکھتی تھی اور اِس آواز کی طاقت ِ پرواز
اس قدر شدید اور تیز رفتار تھی کہ یہ سالوں اور مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں
میں ہی تہلکہ مچاگئی یہ آواز سات سمندر پار تک پہنچی اور پھر دنیا بھر میں
پھیل گئی یہ ایک آدھ تھی جو فرش سے عرش تک پہنچی اس آدھ میں اس قدر تاثیر
تھی کہ محسوس ہوا کہ اب سب کچھ درست ہوگیا ہے اُن کا جنت نظیر علاقہ طالبان
کے تسلط سے چھٹکارا پاگیا ہے اسکول دوبارہ کھل گئے بچیاں جوق در جوق اپنی
مادرِ علمی کا رُخ کرنے لگیں اور حصولِ علم کی خاطر آنے والی تمام رکاوٹوں
کو عبور کرکے تعلیم حاصل کرتی رہیں ابھی تو اِن کو بہت آگے جانا تھا اب وہ
بہت خوش تھیں وہ روزانہ وین پر کاندھوں پر بستہ اُٹھائے بے حد خوشی سے
اسکول جاتی تھیں اب وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی کو بھرپورانجوائے بھی
کررہی تھیں کہ ان کے ساتھ وہ حادثہ پیش آگیا جس کے بعد یہ تمام معصوم روحیں
ایک بار پھر سکتے کی سی حالت میں آگئیں اُن کے پر نوچ لئے گئے اپنے حقوق کی
آواز بلند کرنے کی پاداش میں انہیں یوں سزادی گئی کہ اِن کی تین دوستیں
اپنے ہی خون میں نہلا دی گئیں اور باقی خوف اور دہشت کے ایسے ملبے تلے دب
گئیں کہ ابھی تک سکتے کی حالت میں ہیں وہ ساری جو روز اِس آنگن میں جمع ہوا
کرتی تھیںاور مستقبل کے سپنے بُنا کرتی تھیں اُن سب کو ان سہانے سپنوں سے
روشناس کرانے والی اُن سے بہت دور ایک اسپتال کے بیڈ پر لیٹی موت و حیات کی
جنگ لڑرہی ہے اُن سب کے لب اور دل اپنی سہیلی کی جلد مکمل صحتیابی اور
زندگی کے لئے دُعاگو ہیں اِن کے بسوں کے ساتھ ساتھ پوری قوم اور عالمِ
انسانیت اِن کے لئے دُعا گوہے کہ اللہ تعالیٰ اِن معصوم کلیوں کو جلد صحت
سے نوازے مگر ان سب کے ذہنوں میں ایک سوال ہے کہ اب کیا ہوگا؟؟ اب کیا ہوگا؟؟
ہم اسکول کیسے جائیں گے؟ کیسے پڑھیں گے؟ خوف و ہراس کے سائے سے یہ بچیاں
کیسے نکل پائیں گی ان کی ماﺅں کے ذہنوں میں بھی یہی سوال ہے کہ اب ہماری
بیٹی اسکول کس طرح جائے گی اب کیا ہوگا؟؟؟
یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کاروان زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
یہ مسَلی ہوئی ادھ کھلی ذرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کُھو کھلی رنگ رلیاں
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
لیشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی اُمت زلیخا کی بیٹی
بلاﺅ خدایانِ دیں کو بلاﺅ
یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دیکھاﺅ
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کو لاﺅ |