قرآن کریم ایک عظیم اور مقدس
آسمانی کتاب صرف مسلمانوں کی رہنمائی یا حق حقوق کے لیے نہیں بلکہ یہ تو
پوری انسانیت کی فلاح ، بھلائی اور راہنمائی کے لیے نبی مکرم حضرت محمد ﷺ
پر نازل فرمائی گئی ۔اہلحدیث ،سُنی ، شیعہ ، بریلوی، دیو بندی اور دیگر سب
فرقے جو کہ اپنے اپنے موقف کو درُست تو مانتے ہیںمگر ان سب سے قرآن صرف
اُسے ہی درُست مانتا ہے جو قرآن پاک کی پیروی کرنے والا ہے قرآن پاک میں
انصاف کے معاملے میں دوست ،دشمن ،مسلم ،غیر مسلم کی کوئی تمیز نہیں اخلاقی
یا غیر قانونی حدود میں معیار ایک اور یکساں ہے اور اس میں کسی قسم کی کمی
یا زیادتی قابل برداشت نہیں سمجھی گئی ۔ہر قسم کا جارحانہ اقدام ممنوع قرار
دیا گیا قرآن میں بے شمار آیات ہیں ،جن میں یہ چیز دہرائی گئی ہے کہ خدا
حدوداللہ سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اسلام کا بنیادی نظریہ
حیات تمام دیگر مذاہب کو صرف آزادی دینا ہی نہیں بلکہ سیاسی نظام اور
معاشرتی ماحول میں ان کی مکمل حفاظت کا انتظام بھی ہے یہ چیز قابل غور ہے
کہ ایسی کتاب جو اسلام کی بنیاد رکھ رہی ہے اس میں دوسرے مذاہب کے معبودوں
کی حفاظت کا ذکر ہماری مسجدوں کی حفاظت سے مقدم ہے اپنے معبودوں کی حفاظت
ایک فطری بات ہے اور یہ اجتماعی نفسیات کی ایک بنیادی حقیقت ہے۔ ایسے حالات
میں جب مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں
کے معبودوں کی حفاظت کو اپنی مسجدوں سے بھی مقدم سمجھیں تو انسانیت کی
تاریخ میں گویا ایک عظیم الشان انقلاب کی بنیاد رکھنا ہے۔دوسرے مذاہب اور
ان کی آزادی کو برقرار رکھنے کا یہی شدید جذبہ تھا جس کے باعث ابتدائی
جنگوں میں مسلمانوں نے نہتے شہریوں ،بوڑھوں ،عورتوں اور بچوں کی ہمیشہ
حفاظت کی کسی مذہب کے پجاریوں ،پروہتوں اور راہبوں پر تلوار نہ اُٹھائی اور
نہ کسی عبادت گاہ کو مسمار ہونے دیا ۔ان جنگوں کا مقصد تمام انسانوں کی
آزادی کو بحال کرانا تھانہ کہ کمزوروں اور مفتوحہ علاقوں کے باشندوں کا
استیصال۔فلسطین کی فتح کے بعد حضرت عُمرؓ بذاتِ خودوہاں پہنچے ان کے ساتھ
کوئی حفاظتی فوجی دستہ نہ تھاایک اُونٹ پر وہ اور ان کا ملازم باری باری
سفر کرتے رہے اور جب حضرت عُمرؓ وہاں پہنچے توآپ ؓ اونٹ کے آگے نکیل پکڑے
پیدل چل رہے تھے اور آپؓکا غلام اپنی باری کے مطابق اونٹ پر سوار تھا غیر
مسلم امیر المومنین کے اس انصاف کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے ۔آپؓ عیسائی
بشپ کے ساتھ محو گفتگوتھے کہ نماز کا وقت آگیا اور آپ نے بشپ سے باہر جا کر
نماز پڑھنے کی اجازت چاہی لیکن بشپ نے گرجا ہی میں نماز پڑھنے کی پیش کش کی
حضرت عُمرؓنے جواب دیا ٹھیک ہے ہم خدا کی زمین پر ہر جگہ نماز ادا کر سکتے
ہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ میرے اس عمل سے آئندہ زمانے میں مسلمان اس گرجے کو
مسجد میں تبدیل کرنے کا جواز نہ پیدا کر لیں آپؓ کی اس بات کا مقصد واضح ہے
کہ آنے والے وقت میں کوئی مسلم کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچا
کر مسجد میں تبدیل نہ کردیں۔ آپ کے اس عمل سے اسلام کی صیح حالت سامنے
آجاتی ہے کہ اسلام کا مقصد تمام مذاہب و عقائد کی آزادی کو بحال کرنا ہے نہ
کہ دوسروں کی آزادی پر ڈاکہ ڈالنا اور ان پر غاصبانہ حملہ اور قبضہ کرنا ۔
اسی طرح ہی آنحضرت محمدﷺنے اپنی زندگی میں آپﷺ کے پاس آئے ہوئے ایک عیسائی
وفد کے اراکین کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی اس پر انھوں نے کہا
کہ ہماری عبادت میں موسیقی کی طرز کا غنون استعمال ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ
آپ کے خیال میں مسجد میں یہ چیز مناسب نہ ہو لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے ان
کو مسجد میں اپنے طور پر عبادت کرنے کی اجازت دی۔آپ ﷺ کی اس بات سے اندازہ
لگایا جا سکتا ہے کہ کیا ایسا حُسن اخلاق والا اور فراح دل پیغمبر ﷺ دوسرے
مذاہب کے خلاف کسی قسم کی سختی یا تنگ نظری روا رکھ سکتا تھا۔قرآن کریم میں
اسلام کی تبلیغ کے لیے قوت ِبازو یا دباﺅ کا استعمال قطعاً ممنوع قرار دیا
گیا ہے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اپنے عملی کردار سے دوسروں کو متاثر کریںجس
کی مثال نبی مکرمﷺ خود ہیں۔یہ تو ہے وہ دین ِ محمدیِﷺجو کہ غیرمسلموں کے
جان و مال اور ان کے مذاہب کے بارے میں اچھے برتاﺅ کا حُکم دیتا ہے ۔اور ان
چنداسلامی واقعات کو میں نے اپنے کم علم ذہن کے مطابق آپ کے سامنے بیان
کیاورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ سچی امن کی آشاءوالاہمارا دین اسلام ماضی کے
ایسے لاکھوں واقعات سے بھرا پڑا ہے جن سے تمام مذاہب کو اسلام کی صیح پہچان
ملتی ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس سب کے باوجود صرف اسلام کوماننے کی
وجہ سے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں جس کی واضح مثالیںچودہ سو
سال پہلے سے بھی ملتی ہیں کہ دیگر مذاہب نے ہمیشہ ہی اسلام سے اور ان کے
ماننے والوں کے خلاف کھلی دُشمنی کا ثبوت دیا ہے اس کے علاوہ جب پاکستان
وجود میں آیا تو اسلام مخالف مذہبوں ہندﺅں سکھوں وغیرہ نے مسلمانوں پر ظلم
کی انتہاءکر دی فیروزپور، امرتسر،لدھیانہ، اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کی
مساجدﺅں دینی درسگاہوں اور ولی اللہ کے مزارﺅں کو شہید کر دیا گیا مسلمان
مردﺅں عورتوں اور بچوں کو زندہ جلا دیا گیاہماری حاملہ ماﺅں بہنوں کے پیٹ
چاک کرکے ان کے بچوں کودنیا میں آنے سے پہلے نیزﺅں پر لٹکا دیا گیا اور
یہاں تک کہ مسلمانوں کے قبرستانوں پر ہل چلا کر یہاں پر فصلیں کاشت کر دی
گئیں جن کے عینی شاہد آج بھی زندہ ہیں اور ان باتوں کو سناتے ہوئے ان پر
سکتہ طاری ہوجاتا ہے جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو ظلم کاپہاڑ توڑا
یہودی مسلمانوں کے علاقے نگلتے رہے مسجدیں ڈھاتے رہے قرآن جلاتے رہے اور رب
تعالی اور اس کے دین کا مذاق اڑاتے رہے جھوٹی امن کی آشاءوالے بھارت میں
بابری مسجد کو کھلی غنڈا گردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا، حیدرآباد دکن میں
مکہ مسجد کو شہید کر دیا گیا،گجرات فسادات میں درجنوں مساجد کو شہید اور
ہزارﺅں بے گناہ مسلمانوں کو اسلام کا پیرﺅں کار ہونے کی وجہ سے زندہ جلا
دیا گیا ،اسی طرح کشمیر کے اندر مسلمانوں پر ظلم کی آندھیاں چلا دی
گئیںاورمسلمانوںکی عبادت گاہوں کو شہید کیا گیا امن کے انعام بانٹنے والا
امریکا خود مذہب اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے جس کی جیلوں میں مسلمان قیدیوں
کے سامنے قرآن پاک کی بے حُرمتی کی گئی اس بدمعاش نے مسلمانوں کو دہشت
گردکا نام دے کر حملہ کیااورناجانے کتنی مساجد کو ڈرون حملوں سے تباہ کر کے
رکھ دیا اور لاکھوں بےگناہ مسلمانوں کو اس نے شہید کر دیا اور کرتا جا رہا
ہے پھر کئی غیر مسلم ممالک کے اندر مساجد میں اذان کہنے پر پابندی عائد
کردی گئی مسلمان عورتوں کو پردہ کرنے سے منع کردیا گیااسی طرح ملک برما میں
غیر مسلم نے اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے ہزاروں بےگناہ مسلمانوں اور
مسجدوں کو شہید کر دیا۔جبکہ سچی امن کی آشاءوالے مذہب اسلام نے جنگ کی حالت
میں بھی غیرمسلم بچوں،عورتوں ،بوڑھوں کو اوران کی عبادت گاہوں کو نقصان
پہنچانے سے منع فرمایا ہے۔تو پھر مذہب اسلام کو ماننے والا بھلا دہشت گرد
کیسے ہوسکتا ہے ؟۔میں تمام مذاہب کے لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اسلام کے
درخشندہ ماضی و حال کومدنظر رکھتے ہوئے اپنے گریبان میںبھی ضرور جھانکیں کہ
آخر کو نسا دین حق پر ہے اور وہ کس دین کے لیے اپنی زندگیاں برباد کر رہے
ہیں ذرا سوچیے ! |