حج اور ہماری ذمہ داریاں

اسلام مکمل طور پر معاشرتی و دنیوی و سیاسی اور سماجی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔اسی وجہ سے حیاتِ انسانی کا کوئی بھی گوشہ اسلام سے باہر نہیں ہے۔ اسلام نے انسانی زندگی کو جو اصول و ضابطے دیئے ان کی تقسیم دو طرح سے کی جا سکتی ہے۔حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللہ کی ادائیگی سے اجتماعیتِ انسانی کا وہ فطری اظہار ہوتا ہے جس سے ایک مضبوط عالمی معاشرہ کے خدوخال نمایاں ہوتے ہیں۔ اس کی مثال نماز، اجتماع عیدین، میلاد نبوی کا انعقاد ہے اور اسی کا سب سے بڑا نظارہ ”حج“ہے۔جس نے دنیا کو اتحاد و اخوت کا عالمی تصور دیا، انسانی قدروں کو زندہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ذریعے ایک طرف تو اللہ کریم کی عبادت یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی کا سلیقہ بخشا دوسری طرف مسلمانوں کی اجتماعیت و اتحاد کا درسِ مقدس عطا کیا۔ عالمی مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم میرٹھی رضوی لکھتے ہیں:
” اسلام ہر صاحب استطاعت (یعنی مقدور و طاقت والے) شخص کو مکہ معظمہ کا حج بھی ضروری ٹھہراتا ہے، اس میں مسلمان اپنی عیش و عشرت اور مال و دولت دونوں کو خدا کی محبت پر قربان کرتا ہے۔ معاشرتی لحاظ سے حج کا فائدہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے گروہ میں برادرانہ تعلقات مضبوط ہو جاتے ہیں اور کئی سیاسی، مالی اور بین الاقوامی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔“(ص۱۱،اسلام کے اصول)

حج اسلام کی آفاقی تعلیمات کا مظہر ہے۔یہ صاحبِ اسطاعت پر فرض ہے۔ جو مسلمان اپنی مالی مضبوطی نہیں رکھتا وہ اس فرض سے مستثنیٰ ہے۔ ہاں! جن پر فرض ہے، جو صاحبِ مال و دولت ہیں انھیں اس کی ادائیگی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔وہ طبقہ جو مال دار ہونے کے باوجود اس فرض کی ادائیگی سے دور ہے اسے اللہ کریم کا خوف کرنا چاہیے، اولین فرصت میں اپنی زندگی کی گھڑیوں کو غنیمت جان کر حج کے لیے کوشش کرنا چاہیے۔ کیا بھروسہ ہے زندگی کا، کب موت آ جائے، اور ہمیں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونا پڑے۔جو یہ کہتے ہیں کہ جب بلاوہ آئے گا جائیں گے وہ شاید اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ اگر بندہ کوشش کرے گا تو اللہ کریم اس کے لیے اسباب بھی مہیا فرما دے گا، کوشش کے بغیر اسباب کی امید دانش مندی نہیں۔ ہم دنیا کا مال کمانے کے لیے تو خوب کوشش کرتے ہیں، لیکن جو فریضہ ذمہ ہے اس کی ادائیگی کے لیے حیلے اور بہانے تراشنا کیا یہی مومن کا شیوہ ہے؟

حج کو جانے والے افراد سے بھی کئی معروضات ہیں امید کہ دھیان دیں گے: اول تو یہ کہ اے ہمارے معزز حجاج! کیا آپ کے ذمے آپ کے عزیزوں میں سے کسی کا کوئی حق باقی ہے، اگر ہاں! توآپ پر لازم ہے کہ پہلے ان کا حق ادا کریں اس لیے بھی کہ آپ کا حج جبھی مقبول ہو گا جب کہ آپ کے ذمہ حقوق العباد باقی نہ ہو۔اسی طرح وہ افراد جنھیں ایسے غربا کی اطلاع ہے جن کے یہاں چولھا نہیں جلتا ہے، یا جو فاقوں،قرضوں، بیماریوں سے پریشان ہیں ان کی خبر گیری بھی ہمارے حاجیوں کو کرنی چاہیے، اللہ کریم نے آپ کو مال سے نوازا ہے اس لیے ذرا ان کی بھی خبر گیری کر لیجیے جو معاشرے کے دبے کچلے ہیں، جنھیں اس لیے کوئی عزت نہیں دیتا کہ وہ غریب ہیں، ان کے کپڑے پُرانے،پھٹے اور میلے ہیں۔ ایسوں کی مدد تو آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے اور انسانیت کی معراج بھی۔ جب ان فرائض کی ادائیگی کے ساتھ آپ بارگاہ الٰہی میں حج کو جاؤ گے تو اللہ کریم کی رحمت جھوم کر برسے گی، حج مقبولیت کی سند سے سرفراز ہوگا اور گناہوں کی سیاہی مٹ جائے گی، امیدوں کی سحر نمودار ہوگی، یقین کے چراغ دلوں کے طاق پر جل اٹھیں گے۔ مسرتوں کی بادِ صبا چلے گی اور دلوں کی پژمُردہ کلیاں کھلیں گی۔

ہم بڑی بڑی دعوتیں کرتے ہیں، امرا اور صاحبان مال کو بُلاتے ہیں اور انھیں کھلاتے پلاتے ہیں، بے شک اس طرح سے کھانا کھلانا پسندیدہ عمل ہے لیکن کیا ایسا نہیں کیا جا سکتا کہ ان دعوتوں میں کچھ غریبوں کو بھی بُلا لیا جائے،یا حج سے قبل منعقدہ ان دعوتوں کو کینسل کر کے اتنی رقم سے غربا کی مدد کر دی جائے؟ یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ جہاں زیادہ اخراجات کی سکت ہے تو وہاں ضرورت مندوں پر وہ اخراجات صرف کرنے میں ہمارا کیا نقصان ہے۔

یاد رکھیں! وہ مال زیادہ مقبولیت پاتا ہے جو قوم کے لیے استعمال میں آتا ہے۔ عالم اسلام کے جید بزرگان دین کی سوانح حیات کی ورق گردانی کر لیجیے۔کھانا کھلانا آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے، اسی لیے ہمیں غوث اعظم ، خواجہ غریب نواز، محبوب الٰہی، صابر پاک کی زندگی میں اہم پہلو یہ ملتا ہے کہ ان بزرگوں کے دستر خوان ہمہ وقت جاری رہتے اور فقرا و مساکین کی داد رسی ہوتی۔ ان کی ضروریات پوری کی جاتی۔ چنگیز و ہلاکو کے خونین حملوں نے بغداد کی تاراجی کی، اسلامی سلاطین شکست و ریخت سے دوچار ہوئے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بھی اللہ کے ولی غوث اعظم کے دربار کا دستر خوان غریبوں کے لیے خوانِ نعمت بنا رہا۔ یہ ہے اسلاف کی تعلیم، کیا حاجی صاحبان اس پر عمل کی کوشش کرتے ہیں۔اگر نہیں تو پھر صرف صاحبانِ مال و دولت کی خوش نودی کی خاطر ہزاروں لاکھوں خرچ کر دینا کون سا بڑا کارنامہ ہے؟دوسری بات یہ کہ حج ایک بار فرض ہے اگر بار بار اللہ سعادتِ حج عطا کرے تو اس کرم کا کیا کہنا! لیکن محض حاجی کہلوانے کے لیے یا لوگوں پر اپنے مال کا رعب جھاڑنے کے لیے بار بار حج کرنا کیا دکھاوا نہیں کہلائے گا؟ نفلی حج کی رقم اگر مساکین اور قوم کے زبوں حال افراد کی مدد کے لیے خرچ کی جائے تو اس سے قوم کا وقار بلند ہوگا۔ویسے جو مسلمان بھائی نفلی حج کے ساتھ ساتھ ان معاملات کا بھی لحاظ رکھتے ہیں وہ لایق تحسین ہیں، ان کا عمل لایق قدر ہے لیکن جو محض ریا کے لیے نفلی حج کرتے اور فرائض و واجبات میں کوتاہی کرتے ہیں انھیں بہر حال بارگاہ الٰہی میں جواب دہ ہونا ہے، ایسوں کو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور یومِ آخر کی تیاری کے لیے ساماں کرنا چاہیے۔

یہ چند معروضات محض جذبہ اصلاح کے تحت پیش کی گئیں۔ دعا ہے کہ مولیٰ کریم ہمیں نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنے دربار کے زائرین اور محبوب کی بارگاہ کے عاشقین کے حج کو مقبولیت کی منزل سے سرفراز فرمائے ،اپنا سچا ڈر و خوف عطا فرمائے تاکہ جن کے ذمہ حقوق باقی ہیں وہ اسے ادا کر کے تیری بارگاہ میں سرخ رو حاضر ہوں۔آمین
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 257071 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.