ملالہ اور لمحہ فکریہ

انسان جب دنیامیں آتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے مذہب اختیارنہیں کرتا یعنی یہ ایک فطری عمل ہے جس کے تحت وہ کبھی عیسائی کے گھر پیداہوتا ہے تو کبھی مسلمان کے تو کبھی ہندو کے لیکن اگر ایک حقیر سی نظر ڈالی جائے تو پوری دنیامیں اسلام ایک واحد دین ہے جس میں امن ہی امن ہے اور سلامتی ہی سلامتی ہے لیکن اگر کوئی صحیح معنوں میں دین اسلام پرعمل پیراہو۔حالیہ9اکتوبر کو ملالہ یوسف زئی جو کہ ایک مسلمان بچی ہے اور اس نے ایک ایسے شہر میں آنکھ کھولی جہاں پر عورت کی تعلیم کو معیوب سمجھاجاتاہے اور عورت کی آزادی کو بُری نظرسے دیکھاجاتاہے لیکن لال ہمیشہ گودڑیوں میں ہی پلتے ہیں اسی طرح ملالہ بھی ایک ایسے گھرانے میں پیداہوئی کہ ایک عام پٹھان گھرانہ ہے ملالہ نے اپنے ارد گرد کے ما حول سے سٹریس ہوکر امن کیلئے ایک قدم اٹھایااوردیکھتے ہی دیکھتے وہ بی بی سی اور نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی جانی پہچانی جانے لگی کیونکہ وہ ڈائری لکھتی تھی اپنے شہرمیں ہونے والے حالات جو کہ دن بدن کشیدگی اختیار کرتے جارہے تھے وہ ان کو اپنے الفاظ میں ڈائری کی زینت بنادیتی تھی اور نام نہاد مسلمانوں کے عتاب میں آگئی اور بے رحم گولی کا نشانہ بنادی گئی صرف جرم یہ تھا کہ تعلیم کو عام کرنے کی راہ پر چل نکلی تھی اور وہ تعلیم جو کہ اس علاقے کی روایت نہیں تھی چلو یہ بات تو ایسے لوگوں کی ہوگئی جہاں عورت کو پردے میں رکھاجاتاہے لیکن ہمارے ملک پاکستان کے بہت سے ایسے پسماندہ علاقے ہیں تعلیمی اعتبارسے جو جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں لیکن لڑکیوں کو زندگی کی ہر سہولت دیتے ہیں سوئے تعلیم کے ۔ ہر طرف دعائیہ تقریبات‘محفلیں حتی کہ اقلیتی برادری بھی پیچھے نہیں رہی کیا ہم واقعی تعلیم کو فروغ دیناچاہتے ہیں ؟اپنی بچیوں بیٹیوں اور بہنوں کیلئے ؟ ہمارامعاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے یہاں عورت کی شنوائی کم ہوتی ہے عام رواج پایاجاتاہے کہ اگر لڑکی کو گھر سے نکلنے پر ذرا سامشکل کا سامنا کرناپڑتاہے تو سب سے پہلے اس کی تعلیم رکوادی جاتی ہے بجائے اپنا فرض ادا کرنے کے ہم اپنا نقصان کردیتے ہیں آج لوگ احتجاج کرنے نکل پڑتے ہیں احتجاجی ریلیاں نکالی جارہی ہیں یہ ایک ہماری قوم کا مثبت قدم دیکھنے کو ملا تعلیم کے حوالے سے تو کیا ہم اپنے گھروں کی بچیوں کو بھی اپنے تعلیمی مقاصد کیلئے عام اجازت دیں گے اور ان کی تعلیم میں رکاوٹیں حائل نہیں کریں گے صرف نام لکھ لینے سے اور اخبار پڑھ لینے سے بچیاں تعلیم یافتہ نہیں کہلوائیں گی بلکہ جب تک عورت میٹرک پاس کرتی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں تعلیم ختم ہوگئی ۔میٹرک تو تعلیم کی بنیاد ہے اس کے بعد کالج ایک ایسی جگہ ہے جہاں اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھلتے ہیں میری اپنے تمام پاکستانی بھائیوں اور ماﺅں سے اپیل ہے کہ بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں حائل نہ کریں اور ملالہ یوسف زئی جیسی بہادر اور تخلیقی صلاحیتوں کی مالک بچیوں کو آگے آنے دیں جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے کہ تعلیم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے ۔ جناب عورت تعلیم کے میدان میں آگے نہیں بڑھے گی ہم ناکام قوم ہی رہیں گے کیونکہ ۔مارکوپولونے بھی کہاتھا کہ تم مجھے پڑھی لکھی ماں دو میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا یاد رہے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اگر وہ پڑھی لکھی ماں کی گود میں پروان چڑھے گا تو وہ ایک تہذیب یافتہ اور سلجھا ہوا ہوگا۔دعا ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو اللہ جلد از جلد صحت کا ملہ عطافرمائے (آمین) کیونکہ میری قوم کی بچیوں کی رہنمائی کیلئے ملالہ کی ابھی بہت شدید ضرورت ہے تاکہ ملالہ کے توسط سے ہی ہماری قوم تعلیم کیلئے ڈٹ کر کھڑی ہوجائے عورت کو ہم جتنی زیادہ عزت واحترام دیں گے وہ ہمارا سرفخرسے بلند ہی کریں گی۔ بالکل ملالہ یوسف زئی کی طرح۔ یہ لمحہءفکریہ ہے سوچیے گا ضرور۔
Malik Sajid Awan
About the Author: Malik Sajid Awan Read More Articles by Malik Sajid Awan: 14 Articles with 10135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.