عیدِ قُرباں کا رونق میلہ .... پہلا حِصّہ

انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ یعنی بیزاری کے لیے ”سَمے سماپتی کی گھوشنا“ اور اور آپ کی دِل بستگی و تفریح کا سَمے شروع ہوتا ہے اب! تھا جس کا انتظار پھر لگ اور سَج گیا ہے وہ بازار۔

بھائی جان، مہربان، قدر دان! حالات کے ہاتھوں بے دِل نہ ہوں۔ شہر کی رونقوں میں جو تھوڑی بہت کمی رہ گئی تھی اُسے پورے جوش و خروش سے پورا کرنے کے لیے جگہ جگہ خصوصی، ”غیر روایتی“ سَرکس کا اہتمام کیا جاچکا ہے۔ اگر آپ شہر کے حالات سے خوفزدہ ہیں اور دِل بہلانے کے لیے زیادہ دُور یعنی سُہراب گوٹھ تک نہیں جاسکتے تو کوئی بات نہیں۔ آپ کی سہولت کے لیے گھر کے قریب ہی یعنی دو تین کلو میٹر کے اندر رونق میلے کا ایسا اہتمام کیا گیا ہے کہ طبیعت خوش نہ ہو تو ہمارا ذِمّہ۔ گھر سے نکلیے، قدم بڑھائیے اور اپنی دل بستگی کا سامنا کیجیے۔

کراچی میں تفریح کے جتنے بھی مقامات تھے اُن میں اب تفریح کا عنصر تو رہا نہیں، ہاں اُن کی مضحکہ خیزی ضرور بڑھ چکی ہے! ایسے میں ناگزیر تھا کہ بُجھے ہوئے دِلوں کو تھوڑی سی روشنی اور توانائی فراہم کی جائے۔ آخر شہر پر شہریوں کا بھی کچھ حق ہے! سال بھر طرح طرح کی اوچھی حرکتوں سے برباد، پریشان اور بیزار ہوجانے والوں کے دِلوں کو کچھ دِنوں کے لیے ہشّاش بشّاش رکھنے کی خاطر ”بونس“ کی حیثیت سے شہر بھر میں مویشی منڈیوں کا قیام عمل میں لانا سالانہ معمول بن چکا ہے!

ایک زمانہ تھا جب شہر میں تفریح کے کئی مقامات تھے۔ تفریحی مقامات تو شاید ترقیاتی عمل کے ملبے میں کہیں دفن ہوگئے ہیں اور تفریح شہر کی افراتفری میں دب دبا گئی ہے! ایسے میں مقامی انتظامیہ کو داد دی جانی چاہیے کہ وہ سالانہ رونق میلے کا اہتمام کرکے لوگوں (اور قربانی کے جانوروں) کو تفریح کے مناسب اور بر وقت مواقع فراہم کرتی ہے! اگر ایسا نہ ہو تو ہماری طرح قُربانی کے جانور بھی اِس دُنیا سے بے تفریح ہی چلے جائیں!

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مقامی سطح پر یعنی تمام علاقوں میں مویشی منڈی قائم کئے جانے میں صرف آپ کا بھلا ہے تو یہ آپ کی سادگی ہے اور سادگی بھی ایسی کہ قُربان جائیے۔ مقامی مویشی منڈیاں لگائے جانے سے قُربانی کے جانوروں کے لیے خاصی سہولت ہوگئی ہے کہ شہر کو اچھی طرح دیکھیں بلکہ شہریوں کے درمیان پندرہ بیس دن گزاریں۔ ہوسکتا ہے کہ شہریوں کے درمیان دو تین ہفتے گزار کر قُربانی کے جانوروں کو بھی ذبح ہوتے وقت یہ سوچ کر سُکون ملتا ہو کہ فروخت اور ذبیحے کے لیے شہر میں لائے جانے سے قبل اُنہوں نے ٹھیک ٹھیک مہذّب ماحول میں پرورش پائی اور خاصے جانور دوست اِنسانوں کا ساتھ نصیب ہوا! یوں وہ ایک بڑے شہر کے باشندوں کو دیکھ لیتے ہیں اور گلے پر چُھری پھرنے سے پہلے یہ حسرت باقی نہیں رہتی کہ جنگل کے قانون سے مطابقت رکھنے والی زندگی گزارنے والے اِنسانوں کو نہ دیکھ سکے!

جب سے شہر بھر میں عید الاضحیٰ کے موقع پر مویشی منڈیاں ”فرنچائز“ کرنے کا سِلسِلہ شروع ہوا ہے، روایتی سرکس والوں کا دَھندا ہمیں چوپٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے! تقریباً تین ہفتوں تک لوگوں کو طرح طرح کے کھیل تماشے بلا ٹکٹ دیکھنے کو ملیں گے تو اُنہیں کیا پاگل کُتّے نے کاٹا ہے کہ خاصا مہنگا ٹکٹ خرید کر لگے بندھے کرتبوں والا سَرکس دیکھیں!

ایک سرکس کے مینیجر سے ملاقات ہوئی۔ چُھوٹتے ہی دَھندے کی مَندی کا رونا رونے لگے۔ ہم نے کہا جگہ جگہ مویشی منڈی کے نام پر لگنے والے رونق میلے سے آپ لوگوں کا دَھندا تو خاصا متاثر ہوچکا ہوگا۔ بولے ”ہاں ہوا تو ہے، مگر قدرت نے ہر خرابی میں کِسی نہ کِسی خوبی کی بنیاد بھی رکھی ہے۔“ ہم نے وضاحت چاہی تو کہا ”پہلے ہم صرف دَھندے کی مَندی کا رونا رویا کرتے تھے۔ مگر اب عید الاضحیٰ سے ڈھائی تین ہفتے قبل لگائی جانے والی سالانہ مویشی منڈیوں کے چکر لگاکر نئے نئے کرتب نوٹ کرتے ہیں اور پھر اپنے فنکاروں کو بُلاکر مشاہدہ کراتے ہیں تاکہ اُن کے فن میں کچھ تو گہرائی پیدا ہو! وہ اِس مشاہدے سے چند ایسے کرتب سیکھتے ہیں جو سال بھر اُن کی پرفارمنس کو دھانسو بنائے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں!“

سرکس مینیجر کی بات کا ایسا اثر ہوا ہے کہ اب ہم لوکل مویشی منڈی کا رُخ کرنے سے ڈرتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو لوگ یہ سمجھیں کہ ہمارا تعلق کِسی سَرکس سے ہے اور ہم چند نئے کرتب سیکھنے کے مِشن پر نکلے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524648 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More