ہم نے بہت سے معاملات میں دُنیا
کو سوچنے کی تحریک دی ہے، بلکہ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ اہل جہاں کو جن چند
باتوں پر بہت حیرت ہے اُن میں یہ بھی شامل ہے کہ پاکستانیوں کے پسندیدہ
مشاغل کیا کیا ہیں! ہمارے پسندیدہ مشاغل میں غلامی کے دور کا رونا روتے
رہنا بھی شامل ہے۔ ہندوستان پر برطانوی راج کی دُہائیاں دیتے دیتے اب گِلے
شِکوے ہمارے قومی مزاج کا لازمی حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔ جسے ذرا سا موقع
ملتا ہے، اِس موضوع پر خاصی روانی سے منجن بیچنے لگتا ہے! ہماری سوچ کا ایک
بڑا حصہ اِس نُکتے پر مرکوز رہتا ہے کہ انگریزوں سے انتقام کِس کِس طرح لیا
جائے۔ جو لوگ کِسی نہ کِسی طرح برطانیہ پہنچ جاتے ہیں وہ انگریز معاشرے میں
تھوڑی بہت خرابی پیدا کرکے اپنے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے
ہیں! اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ انگریزوں تک نہ پہنچ پائیں وہ کیا کریں؟ ہم
حیران ہیں کہ اِس معاملے میں اِس قدر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ انگریز
نہ سہی، انگریزی تو دسترس میں ہے۔ سیکھنے کے نام پر انگریزی سے کھیلیے اور
انگریز سے انتقام لیجیے!
ہمارا اور انگریزی کا معاملہ تو وہی ہے کہ
ہم سے تو تم کو ضِد سی پڑی ہے!
اسکولوں اور کالجوں میں بیشتر طلبا و طالبات کا انگریزی میں یہ حال ہے کہ
لاکھ سیکھیں مگر کم بخت ”سِکھنے“ میں نہیں آتی۔ انگریزی نہ ہوئی، قومی کرکٹ
ٹیم ہوگئی۔ لاکھ کوشش کیجیے، دونوں کی ککھ بھی سمجھ نہیں آتی! گویا انگریزی
کے معاملے میں ہماری لیاقت
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے!
ہم من حیث القوم کم ہی نکات پر متفق ہو پاتے ہیں مگر قوم کے بیشتر افراد
اِس بات سے یقیناً اتفاق کریں گے کہ جو کچھ ہم انگریزی کے نام پر سیکھتے
ہیں وہ اور کچھ تو ہوسکتا ہے، انگریزی ہرگز نہیں ہوسکتی! قدرت کے کھیل بھی
نرالے ہیں۔ انگریزوں نے ہمیں تقسیم کرکے حکومت کی مگر اُن کی زبان نے ہمیں
ایک نکتے پر اتفاق کی توفیق بخش دی!
انگریز بھی اِنسان ہیں اور دوسرے اِنسانوں کی طرح وہ بھی کئی طریقوں سے مَر
سکتے ہیں مگر ہمارے ہاں انگریزی کا حال اگر وہ دیکھ لیں تو (اپنے) سَر پیٹ
پیٹ کر مَریں! اور اُن کا یہ انجام کیوں نہ ہو؟ ہندوستان پر اُنہوں نے
تقریباً دو صدیوں تک حکومت کی مگر مسلمانوں کو انگریزی نہ سِکھا سکے! بس،
دیکھ لی ہم نے انگریزوں کی قابلیت! کہتے ہیں کہ انگریزوں کی سلطنت اِتنی
پھیلی ہوئی تھی کہ اُس کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ہمیں کیا پتہ؟
ہمیں تو بس یہ پتہ ہے کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ذہنوں کا اُفق انگریزی
کے آفتاب سے مُنوّر نہ کرسکے! پتہ نہیں انگریز اِتنی بڑی سلطنت کِس طرح
چلاتے تھے! ثابت ہوا کہ بہت سے بڑے کام تُکّے میں بھی ہو جایا کرتے ہیں!
یاروں کی سِتم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ کِسی کو سمجھانا ہو کہ تُکّا کیا
ہوتا ہے تو ہماری مثال دیتے نہیں تھکتے کہ اِتنے عرصے سے ہم بھی تو لکھتے
ہی آ رہے ہیں!
ویسے تو ہمارے ہاں اعلیٰ درجے کے مزاح کی تخلیق کے اور بھی کئی طریقے پائے
جاتے ہیں جو یاروں نے عشروں کی شبانہ روز محنت سے دریافت یا ایجاد کئے ہیں
مگر ایک انتہائی منفرد طریقہ یہ ہے کہ اِنسان اپنی اچھی خاصی زبان ترک کرکے
انگریزی کو اظہار کا ذریعہ بنانے پر تُل جائے! ایک صاحب پڑھاتے تو کچھ اور
تھے مگر انگریزی بولنے کا ہَوکا تھا۔ ایک دن اپنی اہلیہ کے ساتھ فلم دیکھنے
گئے۔ سنیما ہال میں اُنہیں اپنا ایک اسٹوڈنٹ بھی دِکھائی دیا۔ اگلے دن
اُنہوں نے کلاس روم میں اُس اسٹوڈنٹ سے مخاطب ہوکر کہا۔
Yesterday, I saw you in theatre with my wife!
ایک صاحب کِسی کو بتا رہے تھے۔ ”میری بیوی کو انٹ شنٹ چیزیں خریدنے کا شوق
ہے۔ جب دیکھو، نئے فیشن کے لباس خریدنے کی دُھن اُس کے سر پر سوار رہتی ہے۔
جب دیکھو، فرمائش کرتی رہتی ہے کہ حیدری مارکیٹ لے جاؤ، پاپوش مارکیٹ لے
جاؤ۔ مگر میں تو کبھی اپنی بیوی کو ’مارکیٹنگ‘ کے لیے نہیں لے جاتا!“
انگریزی کے بعض الفاظ ایسے فریبی ہیں کہ ذرا سی عدم توجہی سے کچھ کا کچھ ہو
جاتا ہے۔ آپ مانگیں کچھ اور ملتا ہے کچھ۔ مثلاً
رو کے مجھ سے کہہ رہا تھا میرا اِک بدحال دوست
میری اُردو میڈیم بیوی کو انگلش کھا گئی
مانگ بیٹھا سُوپ تو صابن مجھے پکڑا دیا
بیڈ ٹی مانگی تھی تو گندی چائے لے کر آگئی!
انگریزی نے اہل وطن کا وہ حال کیا ہے کہ اب تو ہم بھی یہ سوچنے پر مجبور
ہیں کہ اگر یہ زبان ہمارے خلاف انگریزوں کی سازش تھی تو ہم نے بھرپور جواب
دیا ہے! وہ ایسے کہ اب انگریزی کے ساتھ وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جو انگریزوں
نے ہمارے ساتھ کیا تھا!
اسکول اور کالج کے زمانے میں ہم انگریزی کے ایک انتہائی مُفید پہلو سے آشنا
ہوئے۔ یاروں نے اِس زبان کو نہ سیکھنے اور سیکھنے کی اداکاری کے دوران تمام
داؤ پیچ آزما کر اِس کی ہڈّی پسلی ایک کرنے کی قسم کھا رکھی تھی! ہم کِسی
اور پیریڈ کو اٹینڈ کریں نہ کریں، انگریزی کا پیریڈ کبھی مِس نہیں کرتے تھے
کیونکہ اِسی پیریڈ کی بدولت ہماری طبیعت ہشّاش بشّاش رہتی تھی اور ہم ایسی
بہت سی کام کی باتیں سیکھتے تھے جو آج تک کام آرہی ہیں! انگریزی کی مہربانی
ہے کہ اِس کی بدولت ہمارا کتھارسس ہو جاتا ہے یعنی ہم نو آبادیاتی دور کی
تلخ یادوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انتقامی سوچ کو عمدگی سے منزل تک
پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں!
جو طلباءانگریزی میں قابلیت بڑھانے کے لیے کِسی انسٹی ٹیوٹ سے انگلش کورس
کرتے ہیں وہ دراصل انگریزی کے خلاف ”کورس آف ایکشن“ طے کر رہے ہوتے ہیں!
اور پھر انگریزی بندہ بے دام کے مانند اُن کے آگے دست بستہ کھڑی رہتی ہے کہ
جیسا حکم ہو ویسی خدمت انجام دی جائے! اگر یہ روش برقرار رہی تو وہ وقت دور
نہیں جب انگریزوں کو انگریزی کی زیادہ فکر لاحق نہیں رہے گی کیونکہ شاید
انگریزی ہی نہیں رہے گی! |